دنیا میں کسی بھی قوم، معاشرے یا تہذیب کی بنیاد تربیت یافتہ نسلوں پر رکھی جاتی ہے۔ بچوں کی پہلی درسگاہ ماں کی گود ہوتی ہے اور اسی گود میں انسانی شخصیت کے خدوخال بنتے ہیں۔ اگر ماں باشعور، بااخلاق اور ذمہ دار ہو، تو آنے والی نسلیں بھی ایسی ہی ہوں گی۔
اسلام میں ماں کو غیر معمولی مقام حاصل ہے، اور اس کی تربیت کو نسلوں کی اصلاح کا ذریعہ قرار دیا گیا ہے۔ قرآن مجید کی تعلیمات اور نبی کریم ﷺ کی سیرت ہمیں بتاتی ہے کہ اولاد کی تربیت والدین، بالخصوص ماں کی اہم ذمہ داری ہے۔ جیسے اللہ ربّ العزت اپنی مخلوق کی نشوونما، رہنمائی اور اصلاح فرماتا ہے، ویسے ہی ایک باکردار، تربیت یافتہ ماں اپنے بچوں کے دلوں میں ایمان کی روشنی، اخلاق کی خوشبو، حلم و بردباری کی نرمی اور بصیرت کی گہرائی پیدا کرتی ہے۔ اس کی آغوش میں پروان چڑھنے والا بچہ صرف جسمانی طور پر نہیں بلکہ فکری و روحانی طور پر بھی مضبوط ہوتا ہے۔ ایسی ماں گھر کو عبادت گاہ، تربیت گاہ اور امن کی نرسری بنا دیتی ہے — جہاں سے صالح نسل پروان چڑھتی ہے اور پورا معاشرہ سنورتا ہے۔ سورۃ التحریم (66: 6) میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قُوْۤا اَنْفُسَكُمْ وَ اَهْلِیْكُمْ نَارًا.
’’اے ایمان والو! اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو دوزخ کی آگ سے بچاؤ۔ ‘‘
اس آیت سے واضح ہوتا ہے کہ تربیت کی ذمہ داری سب سے پہلے گھر کے افراد پر، یعنی ماں باپ پر عائد ہوتی ہے۔ حضرت فاطمۃ الزہراء رضی اللہ عنہا، حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا، اور دیگر صحابیات کی زندگیاں اس بات کی روشن مثال ہیں کہ ماں کی تربیت کیسے ایک صالح، باکردار اور باصلاحیت، بے مثال نسل تیار کرتی ہے۔
وَ اللّٰهُ اَخْرَجَكُمْ مِّنْۢ بُطُوْنِ اُمَّهٰتِكُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ شَیْـًٔا ۙ وَّ جَعَلَ لَكُمُ السَّمْعَ وَ الْاَبْصَارَ وَ الْاَفْـِٕدَةَ ۙ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُوْنَ.
(النحل، 16: 78)
اور اللہ ہی ہے جس نے تمہیں تمہاری ماؤں کے پیٹوں سے نکالا جبکہ تم کچھ نہیں جانتے تھے۔ یہ آیت ماں کے وجود کی اہمیت اور ربانی منصوبے میں اس کے کردار کی گہرائی کو واضح کرتی ہے۔
اچھی تربیت یافتہ ماں کی گود — بچے کی شخصیت کا پہلا مکتب
ماں کی گود دراصل بچے کی پہلی درسگاہ ہے۔ علم، اخلاق اور ایمان کی روشنی سے منور ماں اپنے بچے کی زندگی کے ہر پہلو میں بھی روشنی بھر دیتی ہے۔ ایسی تربیت یافتہ ماں کے زیرِ سایہ پرورش پانے والے بچے درج ذیل سانسی پہلوؤں سے ممتاز ہوتے ہیں:
1۔ عقیدے اور ایمان کا پہلو
ماں سب سے پہلے بچے کے دل میں توحید، محبتِ رسول ﷺ ، اور آخرت کے یقین کی بنیاد رکھتی ہے۔ وہ عرفانِ دین سکھاتی ہے اور عقیدے میں پختگی پیدا کرتی ہے۔ نتیجتاً بچہ باطنی طور پر مستحکم اور فکری طور پر غلط نظریات سے محفوظ رہتا ہے۔
2۔ اخلاقی و کردار سازی کا پہلو
نیک سیرت ماں، تربیت یافتہ ماں بچے کے اندر سچائی، دیانت، عدل، صبر، احترامِ والدین اور خیرخواہی کے اصول بٹھاتی ہے۔ ماں کا اپنا عمل وکردار بچے کے لیے عملی نمونہ بنتا ہے۔ ایسے بچے بڑے ہو کر کردار کے لحاظ سے مضبوط اور معاشرے کے لیے قابلِ اعتماد افرد بنتے ہیں۔
3۔ علمی و فکری پہلو
باشعور ماں بچے میں علم سے محبت، مطالعے کا شوق اور سوچنے کی عادت پیدا کرتی ہے۔ وہ سوال کرنے، سمجھنے اور غور و فکر کی تربیت دیتی ہے۔ اس کے اندر مثبت سوچ پیدا ہوتی ہے وہ معاشرے کو سچے مسلمان اور اچھے شہری تیار کرکے دیتی ہےیہی پہلو آگے چل کر بچے کو دانش مند، باشعور اور تخلیقی سوچ رکھنے والا فرد بناتا ہے۔
4۔ روحانی و قلبی پہلو
تربیت یافتہ ماں بچے کے دل میں اللہ سے تعلق بندگی میں پختگی، ذکر، دعا، اور عبادت کا ذوق پیدا کرتی ہے۔ وہ نماز، قرآن سے محبت اور رسولِ اکرم ﷺ عشق، ادب، وفا، آپ ﷺ کی سنتوں پر عمل کو بچے کی روزمرہ زندگی کا حصہ بناتی ہے۔ تیجتاً بچہ روحانی طور پر زندہ دل اور مطمئن رہتا ہے۔
5۔ سماجی و معاشرتی پہلو
ایسی ماں بچے کو خدمتِ خلق، تعاون، احساسِ ذمہ داری، اور اجتماعیت کا سبق دیتی ہے۔ بچہ معاشرے کا مثبت، مخلص اور باعمل فرد بن کر اُبھرتا ہے۔
6۔ نفسیاتی پہلو
تربیت یافتہ ماں بچے کو محبت، اعتماد اور حوصلہ دیتی ہے۔ اس کی گود بچے کے لیے امن و اطمینان کا گہوارہ بن جاتی ہے۔ اس ماحول میں پلنے والے بچے خود اعتمادی، سکونِ قلب اور متوازن شخصیت کے حامل ہوتے ہیں۔
سائنسی و نفسیاتی نقطہ نظر
جدید نفسیات اس بات کی تصدیق کرتی ہے کہ بچے کی شخصیت کی بنیاد ابتدائی پانچ سالوں میں رکھ دی جاتی ہے، اور ان سالوں میں ماں کا سب سے قریبی تعلق بچے سے ہوتا ہے۔
ڈاکٹر ماریا مونٹیسوری (مشہور ماہرِ تعلیم) کہتی ہیں "بچوں کی فطرت میں سیکھنے کی جو قوت ہوتی ہے، ماں سب سے پہلے اسے بھانپتی ہے۔ "
1۔ دماغی نشوونما (Brain Development)
جدید سائنس کے مطابق بچے کی ابتدائی پانچ سال کی تربیت اس کے دماغ کے 80% نیورل کنکشنز بناتی ہے۔ ماں کی گفتگو، توجہ، محبت اور مثبت رویہ بچے کے دماغ میں سیلولر سطح پر کنکشنز مضبوط کرتا ہے۔ نتیجتاً بچہ زیادہ ذہین، یادداشت میں تیز اور بہتر سیکھنے کی صلاحیت والا بنتا ہے۔
2۔ جذباتی استحکام (Emotional Stability)
تحقیق کے مطابق ماں کی محبت، اطمینان، دلکش آواز اور نرم رویہ بچے کے دماغ میں Cortisol (تناؤ کا ہارمون) کی سطح کو کم کرتا ہے۔ اس سے بچہ پرسکون، پُراعتماد اور خوف یا غصے پر قابو رکھنے والا بنتا ہے۔ جذباتی توازن رکھنے والے بچے بڑے ہو کر بہتر سماجی تعلقات اور فیصلہ سازی کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
3۔ مدافعتی نظام کی مضبوطی (Stronger Immunity)
ماں کی محبت اور مثبت ماحول بچے کے مدافعتی نظام پر براہِ راست اثر ڈالتا ہے۔ محبت، توجہ اور جسمانی لمس (Touch) سے Oxytocin hormone بڑھتا ہے جو جسم میں خلیاتی مزاحمت کو بہتر بناتا ہے۔ ایسے بچے بیماریوں سے جلد صحت یاب ہوتے ہیں۔
4۔ زبان و اظہار کی صلاحیت (Language & Communication Skills)
وہ مائیں جو روزانہ بچوں سے بات کرتی ہیں، کہانیاں سناتی ہیں یا قرآن کی آیات دہراتی ہیں، ان کے بچوں میں زبان سیکھنے، الفاظ یاد رکھنے اور جملے بنانے کی صلاحیت دو گنا زیادہ تیز ہوتی ہے۔
5۔ شخصیت میں توازن (Balanced Personality)
تربیت یافتہ ماں بچے میں خود اعتمادی، ضبطِ نفس، ہمدردی اور تعاون جیسے جذبات پیدا کرتی ہے۔ سائنس کے مطابق یہ صفات Prefrontal Cortex کے درست استعمال سے وابستہ ہیں، جو ماں کی مسلسل رہنمائی سے مضبوط ہوتا ہے۔ جینیاتی فعلیت (Epigenetic Influence) ماں کا طرزِ عمل، غذا، عبادات اور طرزِ گفتگو بچے کے Gene Expression پر اثرانداز ہوتا ہے۔ اچھی تربیت اور مثبت ماحول سے ایسے جینز فعال ہوتے ہیں جو پرسکون ماحول، سیکھنے، اور مثبت سوچ سے متعلق ہوتے ہیں۔
6۔ نیند اور ذہنی سکون (Better Sleep & Relaxation)
ماں کی گود، آواز اور لوری بچے کے دماغ میں Serotonin اور Melatonin کی مقدار بڑھاتی ہے، جو نیند، سکون اور ذہنی توازن کے لیے ضروری ہیں۔ ایسے بچے زیادہ پُرسکون نیند لیتے ہیں اور دماغی کارکردگی بہتر ہوتی ہے۔
پھیلائے ہوئے گوشہء دامن تجسس
سائنس بھی محمد ﷺ کا پتہ پوچھ رہی ہے
اچھی تربیت یافتہ ماں کے زیرِ سایہ پرورش پانے والا بچہ صرف ایک علمی وتعلیمی طور پر کامیاب فرد نہیں بنتا بلکہ وہ ایک صالح، باعمل، بااخلاق، باشعور، اور روحانی طور پر روشن خیال انسان کے روپ میں سامنے آتا ہے۔ ماں دراصل امت کا مستقبل تراشتی ہے، اور ہر نیک ماں مصطفوی معاشرے کی بنیاد رکھتی ہے۔
7۔ دینی و اسلامی معاشرتی نقطہ نظر
ماں کے کردار کی عظمت قرآن و حدیث کی روشنی میں:
حضور نبی کریم ﷺ نے فرمایا: الجَنَّةُ تَحْتَ أَقْدَامِ الأُمَّهَات ِ"ماں کے قدموں کے نیچے جنت ہے۔ " (سنن نسائی)
نبیوں کی تربیت میں ماؤں کا کردار
حضرت موسیٰ علیہ السلام کی والدہ نے اللہ کی وحی سے اپنے بیٹے کو دریا میں ڈالا، یقین اور ایمان کی وہ مثال قائم کی جو تاریخ کا حصہ بنی۔ حضرت مریم علیہا السلام کی والدہ نے نذر کی کہ وہ اپنی اولاد کو اللہ کے دین کے لیے وقف کریں گی، اور اللہ نے ان کی نسل میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام جیسے نبی کو بھیجا۔
2۔ آج کے چیلنجز اور ماں کی ذمہ داری
موجودہ دور میں میڈیا، سوشل نیٹ ورکس، موبائل گیمز اور بیرونی اثرات بچوں کی توجہ اور اقدار کو بگاڑنے والے بڑے اسباب بن چکے ہیں۔ ان حالات میں ایک باشعور ماں کا فرض ہے کہ: بچوں کے وقت کو منظم کرے۔ خود دینی علوم حاصل کرے اور بچوں کو قرآن و سنت سے جوڑے۔ ماحولیاتی تربیت پر خاص توجہ دے۔ ماں کا کردار ایک محض نگہداشت کرنے والی شخصیت کا نہیں، بلکہ ایک معلم، رہنما، نفسیاتی معالج، اخلاقی نمونہ اور معاشرتی معمار کا ہے۔ اگر ماں اپنی ذمہ داری پہچانے تو وہ نسلوں کو سنوار سکتی ہے، اور ایک مثالی معاشرہ قائم کر سکتی ہے ماں اگر خود اللہ سے جڑی ہو، علم سے بہرہ مند ہو، اخلاص و محبت سے بچوں کی تربیت کرے، تو وہ دنیا و آخرت دونوں کی کامیاب نسل پیدا کر سکتی ہے۔ ایک نیک ماں کی گود صرف بچے نہیں، نسلیں پروان چڑھاتی ہے۔