تحریک منہاج القرآن کی فکری بنیادیں

ڈاکٹر غزالہ حسن قادری

مرتبہ: حافظہ عائشہ رشید

وَ كَیْفَ تَكْفُرُوْنَ وَ اَنْتُمْ تُتْلٰی عَلَیْكُمْ اٰیٰتُ اللّٰهِ وَ فِیْكُمْ رَسُوْلُهٗ ؕ وَ مَنْ یَّعْتَصِمْ بِاللّٰهِ فَقَدْ هُدِیَ اِلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ۠.

(آل عمران، 3: 101)

’’اور تم (اب) کس طرح کفر کرو گے حالانکہ تم وہ (خوش نصیب) ہو کہ تم پر اللہ کی آیتیں تلاوت کی جاتی ہیں اور تم میں (خود) اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) موجود ہیں، اور جو شخص اللہ (کے دامن) کو مضبوط پکڑ لیتا ہے تو اسے ضرور سیدھی راہ کی طرف ہدایت کی جاتی ہے‘‘۔

پہلا سوال ذہن میں یہ اٹھتا ہے کہ تحر یک منہاج القرآن کی فکری بنیادیں کیا ہیں؟ منہاج القرآن کی خصوصیات کیا ہیں؟۔

بہت ساری بہنیں ایسی ہیں جو اس مشن کے ساتھ وابستہ ہیں اور کچھ بہنیں ایسی ہیں کہ جنہوں نے آنکھ ہی مشن میں کھولی۔ مگر بعض اوقات انسان کو مشن کی واضحیت اور پختگی ہوتی ہے لیکن مشن کے پیغام کو آگے پہنچانے کے لیے صلاحیتیں اور آلات نہیں ہوتے۔

اب سوال یہ آتا ہے اور سب سے پہلا چیلنج یہ ہوتا ہے کہ ہم نے نئے لوگوں کو اس تحریک کے ساتھ وابستہ کیسے کرنا ہے؟ اور ممبرز کو کارکن کے ساتھ ساتھ ایکٹیویٹ کیسے کرنا ہے؟

ہمیں لوگوں کو اس مشن کی طرف بلانے کے لیے گفتگو کا آغاز بنیاد سے کرنا چاہیے۔ اللہ تعالی نے انسانوں کی ہدایت کے لیے ہمیشہ پیغمبروں کو مبعوث فرمایا۔ سیدنا آدم علیہ السلام سے لے کر سیدنا عیسی علیہ السلام تک انبیاء کرام اپنے اپنے زمانوں میں اپنی قوموں، علاقوں، مختلف قبیلوں اور روئے زمین کے مختلف خطوں کی طرف بھیجے گئے۔ اللہ تعالی فرماتا ہے:

وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِیْ کُلِّ اُمَّۃٍ رَّسُوْلًا اَنِ اعْبُدُوا اللهَ وَاجْتَنِبُوا الطَّاغُوْتَ.

(سورہ النحل، 16: 36)

’’اور بیشک ہم نے ہر امت میں ایک رسول بھیجا کہ (لوگو) تم اللہ کی عبادت کرو اور طاغوت (یعنی شیطان اور بتوں کی اطاعت و پرستش) سے اجتناب کرو‘‘۔

اللہ تعالی کا پیغام اور رہنمائی امتوں تک پہنچتی رہی جس کو قرآن کریم نے بارہا مقامات پر تفصیل سے ذکر کیا ہے۔ پھر آقا علیہ الصلوۃ والسلام کے مبعوث ہونے تک معاشرے میں جو مسائل، معاشرتی اور اخلاقی زوال پہلے زمانوں میں رہا وہی آقا علیہ الصلوۃ والسلام کے زمانے تک بھی تھا۔ صرف نوعیت اور شکل مختلف تھی لیکن بنیادیں ایک ہی تھیں۔ آقا علیہ الصلوۃ والسلام نے ان حالات کا سامنا کیا۔ جب آقا علیہ الصلوۃ والسلام کا دور مکمل ہوا تو آپ پر نبوت اور رسالت کا دروازہ بند کر دیا گیا۔ اب قیامت تک عالم انسانیت کے پاس نہ کوئی نبی آئے گا اور نہ ہی کوئی رسول آئے گا اللہ تعالی فرماتا ہے:

وَلٰـکِنْ رَّسُوْلَ اللهِ وَخَاتَمَ النَّبِیّٖنَ.

(الاحزاب، 33: 40)

’’لیکن وہ اللہ کے رسول ہیں اور سب انبیاء کے آخر میں (سلسلۂ نبوت ختم کرنے والے) ہیں‘‘۔

اب ہم فتنے کے دور میں داخل ہو چکے ہیں اور اس فتنے کا بنیادی مقصد دینی ماحول کو سیاسی ہتھکنڈوں، انتہا پسندی، فرقہ واریت اور نفرتوں کی شکل میں ختم کرنا ہے جس سے بد عقید گی پھیل رہی ہے۔ ان میں سے سب سے بڑا فتنہ سوشل میڈیا ہے جو گھروں میں تباہی و بربادی کا باعث بن رہا ہے۔ سوشل میڈیا سے یقینا خیر کے راستے بھی کھلتے ہیں لیکن بدقسمتی سے گمراہی کے راستے گھروں میں آسانی سے پہنچ رہے ہیں۔ پہلے ایک ایک کر کے خرابی پیدا ہوتی تھی اب ہم اپنے ہاتھ کے ذریعے پورے گھر، خاندان اور معاشرے کو صرف ایک Click کے ذریعے خراب کر رہے ہیں۔ پوری سوسائٹی بری طرح زوال کا شکار ہو چکی ہے، دین پر حملے ہو رہے ہیں اور ایمان کمزور ہو رہا ہے، شر بھی پھیل رہا ہے لیکن اس کے ساتھ خیر کے پہلو بھی ہیں۔ اللہ تعالی نے ہر شر کو مٹانے کے لیے خیر کے دروازے بھی کھول دیے ہیں۔ یہی نظام قدرت ہے اور یہی دعا ہم روزانہ سورہ فاتحہ میں بھی مانگتے ہیں۔

اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَۙ ’’ہمیں سیدھا راستہ دکھا‘‘ (الفاتحہ، 1 :5)

وہ سیدھا راستہ کیا ہے؟ صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْهِمْ ۙ ’’ان لوگوں کا راستہ جن پر تو نے انعام فرمایا‘‘۔ (الفاتحہ، 1: 6)

ہم جب اللہ سے سیدھے راستے کی دعا مانگتے ہیں۔ تو اس کا مناسب جواب یہ بنتا تھا کہ وہ راستہ قرآن اور سنت ہے۔ لیکن چونکہ نبوت اور رسالت کا سلسلہ ختم ہو چکا ہے تو اللہ تعالی ہمیں اس طرف متوجہ کرنا چاہتا ہے کہ ہدایت کا راستہ قرآن و سنت ہے لیکن قرآن و سنت کو سمجھنے اورہدایت کو پانے کے لیے اللہ تعالی نے مختص کر دیا کہ یہ اکیلے شخص کے بس کا کام نہیں ہے۔ جب آپ دعوت دیں تو آپ قرآن کے اصول کو یاد رکھیں کہ ہدایت کے لیے قرآن مجید نے جو بات بتائی ہے وہ یہ کہ اس حکمت اور ہدایت کو پانے کے لیے انعام یافتہ بندوں کی ضرورت ہے اب یہ سوال آتا ہے کہ انعام یافتہ لوگ کون ہیں؟۔

وَ مَنْ یُّطِعِ اللّٰهَ وَ الرَّسُوْلَ فَاُولٰٓىِٕكَ مَعَ الَّذِیْنَ اَنْعَمَ اللّٰهُ عَلَیْهِمْ مِّنَ النَّبِیّٖنَ وَ الصِّدِّیْقِیْنَ وَ الشُّهَدَآءِ وَ الصّٰلِحِیْنَ.

(النساء، 4: 69)

اور جو کوئی اللہ اور رسول( ﷺ ) کی اطاعت کرے تو یہی لوگ (روزِ قیامت) ان (ہستیوں) کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ نے (خاص) انعام فرمایا ہے جو کہ انبیاء، صدیقین، شہداء اور صالحین ہیں۔

چار طبقات ہیں جن پر اللہ تعالی نے انعام فرمایا: انبیاء، صدیقین، شھداء اور صالحین۔ انہیں کی سنگت، صحبت ہی سیدھا راستہ ہے۔ پھر فرمایا:

وَحَسُنَ اُولٰٓئِکَ رَفِیْقًا اور یہ بہت اچھے ساتھی ہیں۔ (النساء، 4: 69)

رفیق کا مطلب سنگت اور صحبت ہے اسی آیت مبارکہ سے حضور سیدی شیخ الاسلام نے رفیق اور رفاقت کا تصور (concept) لیا۔ جب آپ نے منہاج القرآن کے ممبر ہونے کی دعوت دینی ہے اس کی ضرروت و اہمیت کے ساتھ قرآن مجید کی اس آیت مبارکہ کو تلاوت کر کے بھی سنانا ہے کہ نیک رفاقت اختیار کرنا اللہ تعالی کا حکم ہے اور قرآنی اصول ہے۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ رفاقت کیوں ضروری ہے؟

فطرت کا تقاضا ہے کہ ہم سماجی حیوان ہیں ہم تنہا نہیں رہ سکتے۔ سیدنا آدم علیہ السلام کے لیے اللہ تعالی نے حضرت حوا علیھا السلام کو پیدا فرمایا پھر بستیاں، شہر اور قصبے آباد ہوئے اس لیے سنگتیں اپنانا ہماری فطرت میں ہے۔ دنیا میں آ گئے ہیں تو سنگت اچھی بھی ہو سکتی ہے اور بری بھی ہو سکتی ہے مگر اللہ تعالی خالق ہے اسے معلوم ہے کہ کونسی سنگت ہمیں اختیار کرنی چاہیے اور کونسی سنگت قیامت کے دن ہمارے کام آئے گی۔ سنگت وصحبت کے حوالے سے قرٓن پاک نے بار ہا مقامات پر انسانیت کی رہنمائی فرمائی۔ سورۃ الکہف میں سارا واقعہ صحبت کے مضمون پر ہے۔ اصحاب الکہف کا واقعہ بیان کرنے کے بعد اللہ تعالی نے جس مضمون پر اختتام کیا ہے وہ یہ ہے ارشاد باری تعالی ہے:

وَ اصْبِرْ نَفْسَكَ مَعَ الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ رَبَّهُمْ بِالْغَدٰوةِ وَ الْعَشِیِّ یُرِیْدُوْنَ وَجْهَهٗ وَ لَا تَعْدُ عَیْنٰكَ عَنْهُمْ.

(الکہف، 18: 28)

’’(اے میرے بندے!) تو اپنے آپ کو ان لوگوں کی سنگت میں جمائے رکھا کر جو صبح و شام اپنے رب کو یاد کرتے ہیں اس کی رضا کے طلب گار رہتے ہیں (اس کی دید کے متمنی اور اس کا مکھڑا تکنے کے آرزو مند ہیں) تیری (محبت اور توجہ کی) نگاہیں ان سے نہ ہٹیں‘‘۔

اللہ تعالی حکم فرما رہا ہے کہ ان لوگوں کے پاس جاؤجو اللہ تعالی کو صبح و شام یاد کرتے ہیں۔ صرف یہ نہیں فرمایا کہ ان لوگوں کے پاس جاؤ بلکہ فرمایا کہ جم کر رہو پھر فرمایا کہ ان کے اوپر توجہ کریں پھر فرمایا کہ اپنی نگاہیں ان سے نہ ہٹائیں۔ یہاں اللہ تعالی حکم فرما رہا ہے کہ نیک لوگوں کی زیارت کریں، ان کو دیکھیں کیونکہ نیک لوگوں کو دیکھنا بھی عبادت ہے۔ منہاج القرآن کی رفاقت اس کی سنگت کی دلیل ہے۔ یہ آپ کی وفاداری کا ثبوت ہے کہ اے مولا !میں انعام یافتہ لوگوں کے ساتھ وابستہ ہونا چاہتی ہوں، میں اس سنگت کو قبول کرتی ہوں۔ یہ منہاج القرآن کی بنیادیں ہیں پھر ایک اور جگہ اللہ تعالی فرماتا ہے:

یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَ كُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِیْنَ.

(التوبۃ، 9: 119)

’’اے ایمان والو! اللہ سے ڈرتے رہو اور اہلِ صدق (کی معیت) میں شامل رہو‘‘۔

یہاں پر بھی اللہ تعالی اچھی سنگت اور اچھی صحبت کی طرف متوجہ کروا رہا ہے کہ نیک صحبت اختیار کریں یہی اچھی رفاقت کی بنیاد ہے۔ یہ قرآ نی اصول ہے۔ اسی طرح سورہ الحدید میں اللہ تعالی فرماتا ہے:

یَوْمَ یَقُوْلُ الْمُنٰفِقُوْنَ وَ الْمُنٰفِقٰتُ لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوا انْظُرُوْنَا نَقْتَبِسْ مِنْ نُّوْرِكُمْ ۚ قِیْلَ ارْجِعُوْا وَرَآءَكُمْ فَالْتَمِسُوْا نُوْرًا ؕ فَضُرِبَ بَیْنَهُمْ بِسُوْرٍ لَّهٗ بَابٌ ؕ بَاطِنُهٗ فِیْهِ الرَّحْمَةُ وَ ظَاهِرُهٗ مِنْ قِبَلِهِ الْعَذَابُؕ.

(الحدید، 57: 13)

ترجمہ: ’’جس دن منافق مرد اور منافق عورتیں ایمان والوں سے کہیں گے: ذرا ہم پر (بھی) نظرِ (التفات) کر دو ہم تمہارے نور سے کچھ روشنی حاصل کرلیں۔ ان سے کہا جائے گا: تم اپنے پیچھے پلٹ جاؤ اور (وہاں جاکر) نور تلاش کرو (جہاں تم نور کا انکار کرتے تھے)، تو (اسی وقت) ان کے درمیان ایک دیوار کھڑی کر دی جائے گی جس میں ایک دروازہ ہوگا، اس کے اندر کی جانب رحمت ہوگی اور اس کے باہر کی جانب اُس طرف سے عذاب ہوگا‘‘۔

منافقین بھی قیامت کے دن اچھی صحبت کی تلاش میں ہوں گے کہ ہمارے اوپر کچھ توجہ کر دیں تاکہ ہم بھی آپ سے کچھ نور حاصل کر لیں لیکن اللہ تعالی جواب میں کیا فرماتا ہے؟ کہ نور یہاں نہیں ملے گا بہت دیر ہو چکی ہے۔ نور وہاں ملے گا جہاں سے تم آئے ہو، ان سے نور مانگیں جن کی آپ پیروی کرتے تھے آخرت میں اب آپ کا کوئی حصہ نہیں ہے۔ اب وہ کس کی صحبت میں جائیں گے؟ کس کے پاس بیٹھیں گے؟ کیونکہ دنیا میں تو انکار کرتے تھے۔ قیامت کے دن جنت اور دوزخ کے فیصلے بھی انہی صحبتوں اور سنگتوں کی وجہ سے ہوں گے کہ کیا صحبت اور سنگت ایسی ہے کہ جو آپ کو جہنم میں لے کر جا سکتی ہے؟ یا صحبت اور سنگت ایسی ہے جو آپ کو جنت میں لے کر جا سکتی ہے؟ اور اسی سنگت اور صحبت کو ہم منہاج القران کی ممبرشپ (Membership) کہتے ہیں اور جب ہم اس دنیا سے رخصت ہو جائیں گے تو ہماری سنگتوں کو ہی دیکھا جائے گا اللہ تعالی سورہ الاسراء میں فرماتا ہے:

اِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤَادَ کُلُّ اُولٰٓئِکَ کَانَ عَنْہُ مَسْئُوْلًا.

(الاسراء 36:17)

ترجمہ:’’بیشک کان اور آنکھ اور دل ان میں سے ہر ایک سے باز پرس ہوگی‘‘۔

موت کے بعد گواہیاں لی جائیں گی، ثبوت لے جائیں گے کہ اس کی سنگت کیا تھی؟ اس کی رفاقت کیا تھی؟ اس کی صحبت کیا تھی؟ اس لیے سب سے پہلے ہمارے اعضاء بولیں گے۔ کان گواہی دے گا کہ کن کو آپ سنتے تھے۔ زبان گواہی دے گی کہ باتیں کس کے ساتھ کرتے تھے۔ آنکھیں بولیں گی کہ کس کو آپ دیکھتے تھے؟ کیا دیکھتے تھے؟ دل کس کو پسند کرتا تھا؟ دل کس کا اصل دوست تھا؟ اسے وجہ سے سنگت بہت اہم ہے۔

اب سوال یہ آتا ہے کہ منہاج القران کی رفاقت لینے کی کیا ضرورت ہے؟ کیا یہ کافی نہیں ہے کہ ہم منہاج القران کے ساتھ وابستہ ہیں؟

یہ انسانی فطرت ہے کہ جب آپ کسی کام کے لیے کوئی فارم فل کرتے ہیں اور اس پر Signature کرتے ہیں تو یہ اس چیز کا ثبوت ہے کہ میں حقیقی طور پر اس آرگنائزیشن کے ساتھ وابستہ ہورہی ہوں، اور اگر آپ غور کریں تو ہماری اور کتنی Membershipsہوتی ہیں، یونیورسٹیز کے اندر سوسائٹیز کے ممبرز ہوتے ہیں، سکولز کے اندر کلبز کے ممبرشپس ہوتی ہیں، ہمارے بچے ممبرز ہوتے ہیں، بینکس کے ہم ممبرز ہوتے ہیں، جب آپ کریڈٹ کارڈ لیتے ہیں اس کی بھی ممبرشپ ہوتی ہے، اس کے علاوہ اور بھی معاشرتی کلبز کی ممبرشپ ہوتی ہیں، ہر چیز کی ممبرشپ ہوتی ہے اور اکثر ان کی ہم فیس بھی ادا کرتے ہیں، ٹی وی کو دیکھ لیں بہت سے لوگوں کے پاس Netflixکی ممبرشپ ہے, Apple TVکی ممبرشپ ہے, Amazon prime video کی ممبرشپ ہے۔ جب ہم دنیاوی ممبرشپ کے لیے رقم ادا کرتے ہیں تو اس پر ہمارا کوئی اعتراض نہیں ہوتا۔ مگر جب دین کی بات ہوتی ہے تو اچانک ہم تھوڑا سا پریشان ہو جاتی ہیں۔ مگر یاد رکھیں کہ جب آپ منہاج القرآن انٹرنیشنل کی ممبرشپ لیتی ہیں تو ممبرشپ کی رقم اللہ تعالی کی راہ میں خرچ ہوتی ہے کیونکہ یہ ایک دینی جماعت ہے اور دین کے لیے کام کر رہی ہے۔ ممبرشپ ایک الگ چیز ہے لیکن اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کے بہت سارے فضائل ہیں کہ ایک تو رفاقت ملی اور اللہ کی راہ میں خرچ بھی کیا اوراللہ کی راہ میں خرچ کرنا بہت اہم ہے اللہ تعالی فرماتا ہے:

اَلَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَهُمْ بِالَّیْلِ وَ النَّهَارِ سِرًّا وَّ عَلَانِیَةً فَلَهُمْ اَجْرُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ ۚ وَ لَا خَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَ لَا هُمْ یَحْزَنُوْنَؔ.

(البقرۃ، 2: 274)

’’جو لوگ (اللہ کی راہ میں) شب و روز اپنے مال پوشیدہ اور ظاہر خرچ کرتے ہیں تو ان کے لئے ان کے رب کے پاس ان کا اجر ہے اور (روزِ قیامت) ان پر نہ کوئی خوف ہوگا اور نہ وہ رنجیدہ ہوں گے‘‘۔

آپ کا خرچ کرنا آخرت کے لیے مددگار ہوگا انشاءاللہ۔ اسی طرح اللہ تعالی سورہ البقرہ میں فرماتا ہے:

مَنْ ذَا الَّذِیْ یُقْرِضُ اللهَ قَرْضًا حَسَنًا فَیُضٰعِفَہٗ لَہٗٓ اَضْعَافًا کَثِیْرَۃً وَاللهُ یَقْبِضُ وَیَبْسُطُ وَاِلَیْہِ تُرْجَعُوْنَ.

(البقرۃ، 2: 245)

’’کون ہے جو اللہ کو قرضِ حسنہ دے پھر وہ اس کے لئے اسے کئی گنا بڑھا دے گا، اور اللہ ہی (تمہارے رزق میں) تنگی اور کشادگی کرتا ہے، اور تم اسی کی طرف لوٹائے جاؤگے‘‘۔

یہاں اللہ تعالی فرمارہا ہے کہ میرے لیے خرچ کرنا قرض حسنہ ہے مگر اللہ تعالی ہمارے مال، کام، عباد ت اور علم نیز کسی بھی چیز کا محتاج نہیں ہے۔ لیکن فرماتا ہے کہ اگر آپ میری راہ کے لیے خرچ کریں گے تو اللہ تعالی کثیر تعداد میں واپس لوٹا دے گا۔ جو بھی مال آپ اللہ کی راہ میں خرچ کریں گے اس سے انسان کے مال میں اضافہ ہوگا اور پھر اللہ تعالی فرماتا ہے کہ مزید اس کے بدلے میں عطا کر دیتا ہےاور پھر اس سے بھی بڑھ کر اللہ تعالی کی رحمتیں، برکتیں، فیوضات اور تجلیات آخرت کا ساماں پیدا کر رہی ہوں گی۔ پھر ایک اور مثال ہے کہ اللہ تعالی فرماتا ہے:

مَثَلُ الَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَهُمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ كَمَثَلِ حَبَّةٍ اَنْۢبَتَتْ سَبْعَ سَنَابِلَ فِیْ كُلِّ سُنْۢبُلَةٍ مِّائَةُ حَبَّةٍ ؕ وَ اللّٰهُ یُضٰعِفُ لِمَنْ یَّشَآءُ ؕ وَ اللّٰهُ وَاسِعٌ عَلِیْمٌ.

(البقرۃ، 2: 261)

’’جو لوگ اللہ کی راہ میں اپنے مال خرچ کرتے ہیں ان کی مثال (اس) دانے کی سی ہے جس سے سات بالیاں اگیں (اور پھر) ہر بالی میں سو دانے ہوں (یعنی سات سو گنا اجر پاتے ہیں)، اور اللہ جس کے لئے چاہتا ہے (اس سے بھی) اضافہ فرما دیتا ہے، اور اللہ بڑی وسعت والا خوب جاننے والا ہے‘‘۔

یعنی اگر اپ ایک pound بھی خرچ کریں گے تو اللہ تعالی 700 پاؤنڈ عطا کرے گا اور پھر نیکی اختیار کرنے کے لیے اللہ تعالی کی راہ میں خرچ کرنا بہت ضروری ہے اللہ تعالی فرماتا ہے:

لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتّٰی تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْنَ.

(آل عمران، 3: 92)

’’تم ہرگز نیکی کو نہیں پہنچ سکو گے جب تک تم (اللہ کی راہ میں) اپنی محبوب چیزوں میں سے خرچ نہ کرو‘‘۔

منہاج القرآن کی ممبرشپ کی اہمیت، فوائد اور اس کی برکتیں کیا ہیں؟

آپ خود غور کریں کہ ہم کس چیز سے زیادہ پیار کرتے ہیں؟ سب سے بڑی چیز پیسہ، مال، دولت ہے اور ہمارا وقت بھی ان چیزوں پر ہی وقف ہوتا ہے۔ لیکن آپ نیکی اور تقوی نہیں اختیار کر سکتے جب تک آپ دین کے اوپر خرچ نہ کریں اور یہ بھی یاد رکھیں کہ جب کوئی منہاج القرآن کی ممبرشپ لیتا ہے ان کو ضرور بتائیں کہ اس میں حضور سیدی شیخ الاسلام کی فیملی کو کچھ نہیں ملتا، یہ اصلاح کے کام کے لیے استعمال ہوتے ہیں، کیونکہ منہاج القران کے مختلف پروجیکٹس ہیں فرید ملت ریسرچ انسٹیٹیوٹ، منہاج ویلفیئر فاؤنڈیشن منہاج ایجوکیشن سوسائٹی وغیرہ۔ منہاج القرآن کی ممبرشپ کسی نہ کسی طریقے سے ان پروجیکٹس کو تقویت دیتی ہے۔

اور ایک اور چیز ذہن میں رکھ لیں کہ اور بھی آرگنائزیشنز بہت اچھا کام کر رہی ہیں۔ کچھ آرگنائزیشن صرف ویلفیئر کا کام کرتی ہیں، کچھ صرف ایجوکیشن کا کام کرتی ہیں، کچھ آرگنائزیشن صرف اصلاح اور دعوت کا کام کرتی ہیں، منہاج القرآن کی خصوصیت یہ ہے کہ یہ تمام جہتوں پر کام کر رہی ہے جس طرح ہمارا دین ایک comprehensive ideology ہے جوکلی طور پر ہر نظام اور ڈسپلن کو محیط ہے، جو ایک زندگی گزارنے کا راستہ ہے۔ منہاج القرآن نے پریکٹیکلی ہر شعبے کو cover کیا ہے۔

آقا علیہ الصلوۃ والسلام نے دعوت کا فریضہ بھی سر انجام دیا، ہجرت بھی فرمائی پھر سیاسی جدوجہد بھی فرمائی۔ منہاج القرآن انٹرنیشنل بھی اسی طریق پر ہے جو آقا علیہ الصلوۃ والسلام کی سنت کو زندہ کر رہی ہے اور ہر جہت پر کام کر رہی ہے۔ مدرسے بنانا، صرف مسجد بنانا اور ایجوکیشنل ادارے قائم کرنے سے دین نہیں بچتا۔ منہاج القرآن ایک تجدیدی دین کی تحریک ہے، ایک آرگنائزیشن ہے جو آج کے چیلنجز کے مطابق دین کو لے کر چل رہی ہے اور یہ بڑا سستا سودا ہے قبر کی پہلی رات میں ہی اس رفاقت کی اہمیت کا پتہ چلے گا کیونکہ یہ وہ پلیٹ فارم ہے جو آقا علیہ الصلوۃ والسلام کی محبت کو اجاگر کر رہا ہے۔ اس تحریک نے ہمیں آقا علیہ الصلوۃ والسلام سے محبت کرنا اور آپ ﷺ سے عشق کرنا سکھایا ہے، آقا علیہ الصلوۃ والسلام کی تعظیم و تکریم کرنا سکھایا ہے، آپ ﷺ کا ادب، آپ ﷺ کا منصب اور آقا علیہ الصلوۃ والسلام کی سنت کی پیروی کی اہمیت سکھائی ہے۔ پہلے یہ عقیدہ پھیلایا جا رہا تھا کہ اللہ تعالی کے پاس ڈائریکٹ جاؤ، اللہ کے ساتھ ڈائریکٹ رابطہ کرو۔ آقا علیہ الصلوۃ والسلام کے وسیلے کی بات نہیں ہوتی تھی، آپ کی شفاعت کی بات نہیں ہوتی تھی مگر الحمدللہ حضور سیدی شیخ الاسلام نے ہمیں سکھایا ہے کہ جب مولا ہم سے ڈائریکٹ رابطہ نہیں کرتا اپنے محبوب کے وسیلے سے رابطہ کرتا ہے۔

منہاج القرآن کے نظریات (Ideology) اور مقاصد(Objectives) کیا ہیں؟

جب مشن کی آئیڈیولوجی اور مقاصد پر واضحیت ہوجاتی ہے تو پھر Implementation میں بھی بہت آسانی ہوتی ہے کیونکہ ہر چیز ایک دوسرے کے ساتھ مربوط ہے۔ اللہ تعالی نے ہمیں پیدا تو کیا لیکن ہماری زندگی کا مقصد کیا ہے؟ معاشرے کے لیے ہماری اجتماعی ذمہ داریاں کیا ہیں؟ کہ جب آقا علیہ الصلوۃ والسلام کا دور مکمل ہوا تو آپ پر نبوت اور رسالت کا دروازہ ختم کر دیا گیا۔ اللہ تعالی نے یہ پیغمبرانہ ذمہ داری امت محمدی ﷺ کو دی ہے۔ جس نظام میں نبی اور پیغمبر علیھم السلام آتے تھے اس نظام کو اس امت میں سلسلہ اصلاح تجدید کے ساتھ بدل دیا۔ سنن ابی داؤد میں ہے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

إن الله يبعث لهذه الامة على راس كل مائة سنة من يجدد لها دينها

’’اللہ اس امت کے لیے ہر صدی کی ابتداء میں ایک ایسے شخص کو مبعوث فرمائے گا جو اس کے لیے اس کے دین کی تجدید کرے گا‘‘۔

(سنن ابو داؤد: 4291)

منہاج القرآن کے دو بنیادی مقاصد ہیں:

1۔ اصلاح احوال 2۔ تجدید دین

تجدید دین کی ذمہ داری ہی منہاج القران کی انفرادیت ہے۔ کئی لوگ اور مختلف جماعتیں اصلاح کا کام کر رہی ہیں، لیکن دین کی تجدید کا کام خاص آرگنائزیشن یا خاص شخص کا کام ہے۔ اصلاح اور تجدید دین کو اکٹھے جوڑیں تو تحریک منہاج القرآن بنتی ہے۔

• اصلاح اور تجدید دین کیا ہے؟ اصلاح کا مطلب دین میں بہتری لانا، اپنے اور دوسروں کے علم میں اضافہ کرنا، نیکی کی تلقین کرنا، برائی سے منع کرنا، اپنی اصلاح کرنا، زندگی دین اسلام کے احکامات کے مطابق ہو اور پھر دوسروں کی اصلاح کرنا اور پھر کوشش کرتے رہنا کہ پوری سوسائٹی دین کے احکامات کو نافذ کر رہی ہو۔

• تجدید دین کیا ہے؟ تجدید دین یہ ہے کہ جو دین کی قدریں(Values) مٹ گئی ہیں ان کو زندہ کرنا۔ دور جدید کے چیلنجز کا اسلامک اصولوں اور پرنسپلز کے مطابق سامنا کرنا اور اس کا حل پیش کرنا، اس کی قدروں کو زندہ کرنا، اس کوطریقہ کار modality کے ساتھ انٹرپریٹ (Interpret)اور نافذ (Implement) کرنا اور یہ ایک اجتماعی ذمہ داری ہے کہ ہمیں پیدا ہی اس لیے کیا گیا ہے کہ ہم خود اللہ تعالی کی عبادت کریں, سیدھا راستہ اپنائیں اور پھر دوسروں کو بھی سیدھا راستہ اور نیکی کی طرف دعوت دیں، لوگوں کی اصلاح کرنا اور پھر بڑے پیمانے پر سوسائٹی کو بہتر بنانا، اخلاقی (Ethical) اور ثقافتی (Cultural) قدروں کو انشور کرنا کہ جو اسلامی اصولوں کے تحت ہوں۔

اصلاح کا بنیادی مقصد شعور بیدار کرنا اور تجدید دین کا بنیادی مقصد ریوائیول(rewival) ہے۔ ہمیں یاد کروانا کہ ہم ایک جزیرہ میں رہنے والے لوگ نہیں ہیں جن کا تعلق کسی اور کے ساتھ نہیں بلکہ ہم امت مسلمہ کا حصہ ہیں، ان کا درد ہمارا درد ہے، ان کی خوشی ہماری خوشی ہے، ان کا غم ہمارا غم ہے، اگر ہم منہاج القرآن کے معنی کی بات کریں تو منہاج القران کا معنی ’’قرآن کا راستہ‘‘ ہے سورہ المائدہ کی آیت نمبر 48 میں اللہ تعالی قرآن پاک کا تعارف دیتا ہے کہ قرآن مجید حق ہے، اپنے تمام معاملات کو قرآن مجید کے احکامات کے مطابق بسر کریں یہ فرما کر پھر اللہ فرماتا ہے:

لِکُلٍّ جَعَلْنَا مِنْکُمْ شِرْعَۃً وَّمِنْھَاجاً.

(المائدہ، 5: 48)

’’ہم نے تم میں سے ہر ایک کے لیے ایک الگ شریعت اور پوشیدہ راہ عمل بنایا ہے‘‘۔

آیت مبارکہ کے اس حصے سے حضور سیدی شیخ الاسلام نے منہاج القرآن کا معنی لیا ہے کہ منہاج القرآن کا مطلب یہ ہے کہ اپنی زندگی قرآن مجید کے تحت گزاریں، منہاج کا مطلب ایک WAY OF LIFE ہے۔ یہی آیت مبارکہ منہاج القرآن کے lOGO میں ہے۔ منہاج القرآن کے پانچ بنیادی مقاصد ہیں:

1۔ تعلق باللہ 2۔ تعلق بالرسول ﷺ

3۔ تعلق بالقرآن 4۔ اتحاد امت 5۔ دین کو نافذ کرنا

دین کو اپنی زندگی میں بھی نافذ کرنا اور ہر ایک کو دین کا شعور دینا، اپنی زندگی میں ایک دینی انقلاب لانا اور یہ بھی کوشش کرنا کہ سوسائٹی بھی دین کے راستہ پر چلے۔ حضور سیدی شیخ اسلام نے منہاج القرآن کی فکر، مقاصد اور دین کو نافذ کرنے کا طریقہ کار سورہ آل عمران کی آیت نمبر 101 سے لے کر 105 سے لیا ہے۔ پہلے تین مقاصد سورہ آل عمران کی آیت نمبر 101 سے لیے ہیں۔ ارشاد باری تعالی ہے:

وَ كَیْفَ تَكْفُرُوْنَ وَ اَنْتُمْ تُتْلٰی عَلَیْكُمْ اٰیٰتُ اللّٰهِ وَ فِیْكُمْ رَسُوْلُهٗ ؕ وَ مَنْ یَّعْتَصِمْ بِاللّٰهِ فَقَدْ هُدِیَ اِلٰی صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ۠.

(آل عمران، 3: 101)

ترجمہ: ’’اور تم (اب) کس طرح کفر کرو گے حالانکہ تم وہ (خوش نصیب) ہو کہ تم پر اللہ کی آیتیں تلاوت کی جاتی ہیں اور تم میں (خود) اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) موجود ہیں، اور جو شخص اللہ (کے دامن) کو مضبوط پکڑ لیتا ہے تو اسے ضرور سیدھی راہ کی طرف ہدایت کی جاتی ہے‘‘۔

اس آیت مبارکہ میں اللہ تعالی ہمیں چیلنج کر رہا ہے کہ آپ گمراہ کیسے ہو سکتے ہیں کہ جب اللہ تعالی کی آیات مبارکہ آپ پر تلاوت ہوتی ہیں اور رسول ﷺ آپ کے اندر موجود ہیں اور اللہ کا دامن پکڑنے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کے ساتھ رشتہ ایمان کو مضبوط کرنا۔ اس آیت مبارکہ سے حضور سیدی شیخ الاسلام نے منہاج القران کے پہلے تین مقاصد لیے ہیں لیکن ترتیب نیچے سے اوپر لی ہے کہ:

1. اللہ تعالی کے ساتھ اپنا رشتہ مضبوط کرنا (وَ مَنۡ یَّعۡتَصِمۡ بِاللّٰہِ)

2. آقا ﷺ کے ساتھ اپنی نسبت مضبوط کرنا اور آپ ﷺ کی اتباع کرنا (وَ فِیۡکُمۡ رَسُوۡلُہٗ)

3. قران مجید کو پڑھنا، سننا اور سمجھنا (اَنۡتُمۡ تُتۡلٰی عَلَیۡکُمۡ اٰیٰتُ اللّٰہِ)

پھر چوتھا اور پانچواں مقاصد اتحاد امت اور دین کو معاشرہ میں نافذ کرنا، ہم نے دین کو نافذ کیسے کرنا ہے؟ مصطفوی مشن کے ساتھ جڑنا کیسے ہے؟ اور فکری طور پر جڑنا کیسے ہے؟ دوسرے لوگوں تک پیغام کو پہنچانے کے لیے کونسی سکلز (Tools) اورٹولز (Skills) کی ضرورت ہوتی ہے؟ یہ بھی اللہ تعالی ہمیں عطا فرماتا ہے۔ ا ٓیت نمبر 102 میں اللہ تعالی فرماتا ہے:

یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ حَقَّ تُقٰتِهٖ وَ لَا تَمُوْتُنَّ اِلَّا وَ اَنْتُمْ مُّسْلِمُوْنَ.

(آل عمران، 3: 102)

’’اے ایمان والو! اللہ سے ڈرا کرو جیسے اس سے ڈرنے کا حق ہے اور تمہاری موت صرف اسی حال پر آئے کہ تم مسلمان ہو‘‘۔

یہاں پر اللہ تعالی ہمیں ایک طریقہ کار عطا فرما رہا ہے کہ اللہ سےایسے ڈریں جیسے ڈرنے کا حق ہے اور ایمان پر ہی تمہیں موت آئے۔ یہاں پر اللہ تعالی ہمیں جھنجھوڑ رہا ہے کہ اللہ سے ڈرو کیونکہ ہم آسان کاموں میں خوش رہتے ہیں نماز پڑھ لی، روزہ رکھ لیا، حجاب پہن لیا، پہلے اللہ تعالی ہمیں ہماری منزل کی یاد دہانی کروا رہا ہے۔ ہماری منزل میں آخرت کیوں نہیں ہے؟ یہ ہمیشہ ہماری سوچ میں ہونا چاہیے کہ ہماری اصل منزل کیا ہے؟ آپ دعوت و تبلیغ میں ہمیشہ اپنی آخرت کو سامنے رکھیں۔

آیت نمبر 102میں ہمیں اس چیز کی طرف متوجہ کروایا جا رہا ہے کہ ہماری منزل کیا ہے؟ اور ہماری نیت کیا ہونی چاہیے؟ ۔ پہلے ہمیں مقاصد بتائے پھر منزل اور اب نیت کے بارے میں بتایا جا رہا ہے۔ پھر اس سے آگے اللہ تعالی ہمیں عملی نفاذ کے بارے بتاتا ہے وہ آیات مبارکہ 103، 104 اور 105 ہیں اللہ تعالی فرماتا ہے:

وَاعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللهِ جَمِیْعًا وَّلَا تَفَرَّقُوْا.

(آل عمران، 3: 103)

’’اور تم سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور تفرقہ مت ڈالو‘‘َ۔

یہاں بھی ہمیں عملی نفاذ کے بارے بتایا جارہا ہے کہ اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامنا ہے۔ رسی کیا ہوتی ہے؟ رسی کا مقصد کیا ہوتا ہے؟ ۔

رسی کا مقصد کسی چیز کو جوڑنا ہے۔ اگر کوئی چیز گری ہوئی ہے تو رسی کے ذریعے آپ اس کو سمیٹ سکتے ہیں اور پھر مضبوطی سے باندھ سکتے ہیں پھر اللہ تعالی نے مزید تفصیل سے فرماتا ہے کہ تفرقہ مت ڈالو یہاں پر اجتماعیت کا تصور دیا ہے اور اس کی اہمیت بیان کی ہے کہ آپ الگ الگ نہ رہو، اکٹھے رہو، یہ اجتماعیت اتحاد امت ہے اور یہ ہمارا چوتھا مقصد ہے۔ اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لینے کے بعد ہمیں طریقہ بتایا ہے کہ ان مقاصد کو ہم نے نافذ کیسے کرنا ہے؟ اللہ تعالی فرماتا ہے:

وَلْتَکُنْ مِّنْکُمْ اُمَّۃٌ یَّدْعُوْنَ اِلَی الْخَیْرِ وَیَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَیَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَاُولٰٓئِکَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَ.

(آل عمران، 3: 104)

’’اور تم میں سے ایسے لوگوں کی ایک جماعت ضرور ہونی چاہئے جو لوگوں کو نیکی کی طرف بلائیں اور بھلائی کا حکم دیں اور برائی سے روکیں، اور وہی لوگ بامراد ہیں‘‘۔

اس آیت مبارکہ میں واضح ہے کہ ایک جماعت ہونی چاہیے جو لوگوں کو نیکی کی طرف بلائے اور برائی سے منع کرے یعنی لوگوں کو دین بتائے، علم کو آگے پہنچائے، اصلاح کا کام کرے، دین کے احکامات کو اپنی عملی زندگی اور دوسروں میں بھی نافذ کرے دعوۃ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا کام فرض ہےاور قرآنی حکم ہے اور اس دعوت کو ایک جماعت کے ذریعے کرنا ہے۔ معلوم ہوا کہ جماعت سے وابستہ ہونا بھی ہمارے فرائض میں سے ہے کہ نہ صرف ہم نے دعوت دینی ہے، دعوت کے کام میں مصروف عمل ہونا ہے بلکہ دعوت کا یہ کام جماعت کے ذریعے کرنا ہے۔ جو بھی جماعت آپ کو پسند آئے اس جماعت کا حصہ ضرور بننا ہے، پھر اگلی آیت مبارکہ میں اللہ تعالی پھر سے ہمیں متوجہ کرتا ہے اور وعید دیتا ہے کہ:

وَ لَا تَكُوْنُوْا كَالَّذِیْنَ تَفَرَّقُوْا وَ اخْتَلَفُوْا مِنْۢ بَعْدِ مَا جَآءَهُمُ الْبَیِّنٰتُ ؕ وَ اُولٰٓىِٕكَ لَهُمْ عَذَابٌ عَظِیْمٌۙ.

(آل عمران، 3: 105)

’’اور ان لوگوں کی طرح نہ ہو جانا جو فرقوں میں بٹ گئے تھے اور جب ان کے پاس واضح نشانیاں آچکیں اس کے بعد بھی اختلاف کرنے لگے، اور انہی لوگوں کے لئے سخت عذاب ہے‘‘۔

ہمیں دعوت اور جماعت کا حصہ کیوں بننا چاہیے؟ اللہ تعالی سورہ آل عمران 110 میں فرماتا ہے:

كُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّةٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ تَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ.

(آل عمران، 3: 110)

’’تم بہترین اُمّت ہو جو سب لوگوں (کی رہنمائی) کے لئے ظاہر کی گئی ہے، تم بھلائی کا حکم دیتے ہو اور برائی سے منع کرتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو‘‘۔

اس آیت مبارکہ میں ہمیں امتی کا تصور دیا جارہا ہے ہم ایک بہترین امت کیوں ہیں؟ یا ہم بہترین امت کیسے بن سکتے ہیں؟ فرمایا تم بھلائی کا حکم دیتے ہو اور برائی سے منع کرتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔ یہاں پر دعوت کی ذمہ داری دی جا رہی ہے کہ اگر آپ نے امتی ہونے کا حق ادا کرنا ہے تو پھر دعوت دین کا فریضہ سر انجام دینا ہوگادعوت کا کام فرض ہے۔ اسی طرح بہت اہم آیت مبارکہ جس میں اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے:

یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قُوْۤا اَنْفُسَكُمْ وَ اَهْلِیْكُمْ نَارًا وَّ قُوْدُهَا النَّاسُ وَ الْحِجَارَةُ.

(التحریم، 66: 6)

’’اے ایمان والو! اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو اس آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہیں‘‘۔

اس آیت مبارکہ میں دعوت دین کا واضح حکم ہے کہ اپنے آپ کواور اپنی فیملی کو دوزخ سے بچائیں۔ دعوت دین کا کام کرنا ہم سب پر فرض ہے۔ مگر آپ یاد رکھ لیں کہ جو لفظ اہل ہے وہ اھلکم سے ہے اس کا مطلب صرف خونی رشتہ دار (شوہر، بیوی، بچے، خاندان) نہیں ہیں کہ ان کو آگ سے بچائیں بلکہ جن لوگوں کے ساتھ آپ کا میل ملاپ ہے ان سب کو آگ سے بچانا اور اپنے خاندان میں شامل کرنا ہے۔ اسی کی تفسیر میں حضور سیدی شیخ الاسلام فرماتے ہیں کہ:

لفظ اہل قران مجید میں مختلف مواقع پر استعمال ہوا ہے یہ صرف فیملی کو ہی محیط نہیں ہے اس میں سے ایک معنی فیملی بھی ہے یعنی اہل البیت قرآن پاک میں اہل الکتاب بھی استعمال ہوا ہے۔ اہل کا مطلب ایک کمیونٹی، Group of People ہے۔ یہاں پر اللہ تعالی فرماتا ہے کہ اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو اس آگ سے بچائیں جن کے ساتھ آپ کا انٹریکشن ہےاولاد، فیملی، رشتہ داران، برادری، دوست، ہمسائے، جتنے بھی جاننے والے ہیں، جن لوگوں کے ساتھ آپ کا میل ملاپ ہے، جن کے ساتھ آنا جانا ہے ان سب کو اس آگ سے بچائیں جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہیں۔ اگر آپ سب کو اللہ سبحانہ و تعالی اور آقا علیہ الصلوۃ والسلام کی غلامی میں ڈال سکتی ہیں، سیدھے راستے کی طرف لے کر آ سکتی ہیں، ان کی سمت درست کر سکتی ہیں یہ ہی اصل کامیابی ہے۔