(11 جولائی عالمی یوم آزادی کے موقع پر خصوصی تحریر)
عالم انسانیت کے ہاں سب سے پہلے آبادی کے ’’مسئلے‘‘ کا ادراک اس وقت ہوا جب معروف ماہر معاشیات ’’مالتھس‘‘ نے یہ نظریہ پیش کیا کہ آبادی ایک دو چار آٹھ سولہ بتیس اور چونسٹھ کے حساب سے بڑھتی ہے جبکہ وسائل میں اضافہ ایک دو تین چار پانچ چھ اور سات کے حساب سے ہوتا ہے۔ اس نظریہ کے مطابق آبادی میں اضافہ وسائل پر بوجھ کا باعث بنتا ہے اور نئے آنے والے بچوں کو انکا حق نہیں مل پاتا۔ اس طرح آبادی کے اضافے کے ساتھ ساتھ شہروں میں جگہ کم پڑنے لگتی ہے، پہلے لوگ کھلے کھلے مکانوں میں رہتے ہیں، پھر کمروں میں اضافے سے مکان تنگ پڑنے لگتے ہیں اور آبادی میں اضافہ برقرار رہے تو دوسری اور تیسری منزلوں کی تعمیر سے گنجانیت میں اضافہ ہوتا ہے جو انسانی صحت اور انسانی نفسیات پر مضر اثرات کا باعث بنتا ہے۔
آبادی میں اضافے سے جو وسائل چند لوگوں میں تقسیم ہونے تھے اب زیادہ میں تقسیم ہونے سے انکی فی کس شرح میں کمی واقع ہو جاتی ہے جس سے لوگوں کی غذائی ضروریات پوری نہیں ہوتیں، قابل کاشت رقبہ اتنا ہی رہتا ہے اور بعض اوقات قدرتی آفات کے باعث فصلیں اتنا اناج فراہم نہیں کر پاتیں جو آبادی کو فی کس کے حساب سے سارا سال چاہیے ہوتا ہے چنانچہ بھوک اور غربت کے قبیح عناصر یہیں سے جنم لیتے ہیں۔ بھوک اور غربت سے مہنگائی جنم لیتی ہے اور جب تک آبادی کم ہوتی ہے لوگ ایک دوسرے کو جانتے بوجھتے ہیں، واقف کار ہوتے ہیں اور باہمی شناسائی موجود ہوتی ہے تو جرائم کا امکان کم سے کم تر ہوتا ہے۔ لیکن آبادی بڑھ جانے سے نئے نئے لوگ بھرجاتے ہیں اور جہاں غربت، بھوک اور مہنگائی بھی ہو وہاں تب آبادی کے اضافے سے جرائم جنم لیتے ہیں اور انسانوں کی زندگیاں خطرے میں پڑ جاتی ہیں۔
بچوں کے بڑے ہونے سے انکی تعلیم و تربیت ایک اہم مرحلہ ہوتا ہے۔ آبادی بڑھنے کا اولین اثر بچوں کی تعداد میں اضافے کی صورت میں جنم لیتا ہے۔ زیادہ بچوں کے لیے زیادہ تعلیمی ادارے اور زیادہ ماہر عملہ، زیادہ کتب، زیادہ لائبریریاں اور زیادہ تجربہ گاہیں اور انکا زیادہ سامان درکار ہوتا ہے جو ظاہر ہے کہ ہر جگہ میسر نہیں ہوتا جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ کچھ بچے تو بہترین تعلیم و تربیت کے حصول کے بعد اچھے انسان بن جاتے ہیں جبکہ بہت سے بچے تعلیمی وسائل کی عدم فراہمی کے باعث تعلیم تربیت کے اعلی معیار سے محروم رہتے ہیں اور نتیجہ کے طور پر بعد میں معاشرے پر بوجھ بنتے ہیں اور جرائم بھی انہیں طرح کے بچوں کو اپنی طرف کشش کرتے ہیں جس سے معاشرے میں بدامنی، بدمعاشی اور غنڈہ گردی کا دور دورہ ہوتا ہے۔
ان سب باتوں سے آج کے جدید ماہرین معاشیات یہ نتیجہ نکالتے ہیں کہ آبادی میں زیادتی سے معیار زندگی میں پستی واقع ہو جاتی ہے اور سب انسانوں کو بہترین زندگی گزارنے کے اعلی مواقع میسر نہیں آتے۔ ایک زمانے تک تو ماہرین معاشیات یہ بھی کہتے رہے کہ ماں کا اپنے بچے کو دودھ پلانا بیکار ہے کیونکہ اسے اس طرح اسکے عوض میں رقم نہیں ملتی جبکہ کسی دوسرے کے بچے کو دودھ پلانا بہتر معاشی سرگرمی ہے کیونکہ اس طرح وہ چند سکے کما سکتی ہے اور باپ کا اپنے بچوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنا بیکار ہے کیونکہ اسے اسکا عوض نہیں ملتا جبکہ دوسروں کے بچوں کو ٹیوشن پڑھانا بہتر ہے کیونکہ اس طرح وہ فیس کما سکتا ہے۔ ’’مالتھس‘‘ کے اس نظریہ کو سب سے زیادہ پزیرائی یورپ میں میسر آئی اور حکومتوں نے، معاشروں نے اور افراد کے ہاں بھی اس نظریہ کو قبول عام عطا ہوا اور اس پر اجتمائی عملدرآمد شروع کر دیا گیا۔ یہ تاریخ کا تقریباََ وہی دور ہے جب سقوط غرناطہ کے بعد اسلامی تہذیب کے سائے لمبے ہوتے چلے جا رہے تھے اور یورپی تہذیب کا سورج اپنی پوری حدت اور شدت سے مغرب سے طلوع ہوا چاہتا تھا۔
حیرانی ہے کہ یورپ کی سیکولر تہذیب نے انسان پر انسان ہی کی نسل کو بوجھ بنا دیا؟ جنگل کے جانور بھی اپنی وحشت، بربریت، درندگی اور تہذیب و تمدن و مدنیت سے بُعد کے باوجود کم از کم اپنی نسل کے بارے میں اتنے خود غرض نہیں ہوتے۔ اپنی حیوانیت کی قبا میں مامتا کا پیمانہ تو جانور کے ہاں بھی بھرا ہوا ہوتا ہے۔ حیف ہے اس انسان پر جس نے خود تو جنم لے لیا لیکن اپنے آنے والی نسلوں کو حق زندگی دینے سے صرف اس لیے انکار کر دیا کہ نئی نسل کی آمد سے اسکے وسائل میں کمی واقع ہو جائے گی، اسکا معیار زندگی پست ہو جائے گا اور تعلیم و تربیت اور غذائی اجناس کا فقدان اسکا دامن گیر ہو جائے گا۔ جبکہ حقیقت اسکے باکل برعکس ہے۔ ’’مالتھس‘‘ کا یہ نظر یہ آبادی انسانی تاریخی حقیقتوں اور قدرت کے ری پروڈکشن نظام سے کھلا تضاد رکھتا ہے۔
آج اکیسویں صدی کی دہلیز پر جبکہ انسانی آبادیوں سے شہر کے شہر بھرے پڑے ہیں، زمین نے اپنا سینہ چاک کر کے تو اپنے بے پناہ قیمتی وسائل سے انسانوں کی جھولیاں بھر دی ہیں۔ یہاں تک کہ ماہرین ارضیات کہہ رہے ہیں کہ بے پناہ وسائل کے حصول کے بعد بھی اب تک زمین کی تہوں میں ایک فیصد وسائل کی کمی بھی نہیں ہوئی۔ تیل، گیس، کوئلہ اور معدنیات سے بھرے ہوئے نہ معلوم کیسے کیسے خزینے اس زمین میں دفن ہیں جو آنے والی نسلوں کی امانت کے طور پر قدرت نے پہلے سے مہیا کر رکھے ہیں۔ کیا یہ خدائی انتظام نہیں کہ آبادی کے بڑھنے کے ساتھ ساتھ زمینوں کی پیداواری صلاحیت میں بھی کتنا اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔ ماضی کے بیل، کنواں اور انسان ایک قطعہ زمین سے جتنی فصل حاصل کرتے تھے آج مشینوں کی مدد سے پہلے سے کئی گنا زیادہ فصلوں کا حصول ممکن ہے۔
آبادی میں اضافے کے ساتھ ہی خالق کائنات اور رازق کائنات نے ایسے اسباب پیدا کر دیے ہیں کہ کوئی انسان اور ذی روح بھوکا پیاسا نہ رہے۔ اب یہ انسانی معاشروں کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان وسائل کو توازن کے ساتھ اور انصاف کے ساتھ آبادی میں تقسیم کریں۔ ماضی میں مرغی صرف امیر لوگ ہی تناول کیا کرتے تھے، دودھ کی بہتات سے شہر خالی تھے، تیل اور گھی ڈھونڈے نہیں ملتے تھے، مشروبات صرف اشرافیہ کے ہاں دستیاب تھے، چائے محض مریض کو ہی میسر ہوا کرتی تھی، چینی تو ایک خواب تھی اور لوگ شکر یا گڑ پر ہی اکتفا کرتے تھے۔ ’’مالتھس‘‘ کے نظریہ آبادی کے مطابق ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ آبادی میں اضافے کے ساتھ ساتھ یہ چیزیں مزید قلت وتعطل میں چلی جاتیں اور ناپید ہو جاتیں لیکن اسکے برعکس آج یہ تمام اشیاء پہلے سے کہیں زیادہ بہتات، کثرت اور وافر مقدار میں شہروں اور دوردراز علاقوں کی چھوٹی چھوٹی دکانوں تک میں فراہم ہیں۔
فن معاشیات جیسے جیسے ارتقائی منازل طے کرتا چلا جا رہا ہے، ڈارون اور فرائڈ کے نظریات کی طرح’’مالتھس‘‘ کے افکار بھی ناپختگی، ظن و تخمین (اندازوں اور گمان) اور ناقص خیالات کی گرد تلے دفن ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ انسانی نفسانی خواہشات کو بھاری بھرکم الفاظ میں فلسفوں کی چادر اوڑھا کر تو زیادہ دیر زندہ نہیں رکھا جا سکتا۔ اس نظریے کے بعد ایک عرصہ تک اسکی پیروی کی جاتی رہی لیکن پھر جب کار پرداران یورپ نے موجودہ حقائق پر نگاہ دوڑائی تو سوائے نقصان کے کچھ نہ پایا اور یہ حقیقت منہ پھاڑے اُن کے سامنے کھڑی تھی کہ اس غیر فطری و غیر طبعی عمل کی وجہ سے پوری کی پوری ایک جنریشن کا گیپ پیدا ہو گیا تھا۔ اس نام نہاد فلسفہ پر عمل کرنے والے آج سخت پریشان تھے کہ بوڑھوں کو یا سینئر جنریشن کو Replace کرنے کے لئے نوجوان نسل موجود نہیں تھی! تب فرانس جیسا ملک اس بات پر مجبور ہوا اور حکومت فرانس نے اعلان کیا کہ جو خاتون سب سے زیادہ بچے پیدا کرے گی اسے سب سے بڑا سول قومی ایوارڈ دیا جائے گا۔ روس کی حکومت نے اس طرح عوام سے کہا کہ شادی کے بعد ہسپتال میں آئیں اور صرف بچہ پیدا کر کے چلے جائیں اسکی پرورش، خوراک، علاج، تعلیم اور دیگر تمام ضروریات حکومت کی طرف سے پوری کی جائیں گی۔
برطانیہ آج بھی خواتین کو زچگی سے بہت پہلے چھٹی دے دیتا ہے تاکہ وہ اپنا خیال رکھ سکیں اور اس دوران انہیں پوری تنخواہ اور دیگر مراعات بھی مکمل طور پر ملتی رہتی ہیں، اور اگر کوئی خاتون نجی محکمے میں ملازم ہو اور اسکا محکمہ اسکو پوری تنخواہ اور دیگر مراعات ادا نہ کرے تو حکومت برطانیہ اس خاتون کو اپنی طرف سے مکمل ادائیگی کرتی ہے اور جس خاتون کی گود میں پانچ سال تک کا بچہ ہو اسے تمام سرکاری تفریح گاہوں میں ماں اور بچے کو مفت داخلہ کا موقع دیا جاتا ہے حتی کہ سرکاری بسوں اور ریل گاڑیوں تک میں اس خاتون کے لیے جس کی گود میں پانچ سال تک کا بچہ ہو خصوصی رعایت حاصل ہوتی ہے۔ آج صورتحال یہ ہے کہ اکثر یورپی ممالک دیکھ رہے ہیں کہ اوسط عمر بڑھ جانے سے اور آبادی میں ہوشربا کمی ہو جانے سے آئندہ چند سالوں میں بزرگوں کی کثرت ہو جائے گی اور کاروبار ریاست سنبھالنے کے لیے نئی نسل انتہائی ناکافی ہوگی تب یہ ممالک مجبور ہیں کہ خوشنما جنت کے جھانسے میں آئے ہوئے پڑھے لکھے باصلاحیت اور ماہرفن نوجوانوں کو پوری دنیا سے درآمد کیا جائے اس سلسلہ میں اب گزشتہ کچھ برسوں سے سرعت کے ساتھ کام جاری ہے۔
اس سنگین اور جان لیوارازکو پاجانے کے بعدیورپ نے خیرخواہ کے روپ میں اس اجتماعی خودکشی کا راستہ ایشیائی ممالک کو سمجھا دیا ہے، جس کا مقصد ان دوکے سوا کچھ نہیں کہ ان ممالک کو دفاعی طور پر کمزورکردیاجائے کیونکہ میدان وہی قوم مارسکتی ہے جس کے پاس مرنے کے لیے نوجوان موجود ہوںاورجس رفتار سے یورپ کی آبادی تیزی سے کمی کی جانب گامزن ہے کچھ بعید نہیں دنیا کی قومیں بہت آسانی سے یورپی زمینوں پر پیدل چل کر ہی قبضہ کرلیںاور دوسرا مقصدعریانی و فحاشی ہے، کیونکہ مذہب، معاشرت اور عزت و ناموس کا خوف جاتے رہنے کے بعدصرف پیٹ کے بوجھ کا خوف ہی وہ واحدخوف ہے جو زنا کے راستے میں رکاوٹ ہے، آبادی پر کنٹرول کے پروگرام کے تحت ضبط تولید کی ادویات و طرق، انسانی معاشرے کو اس خوف سے بھی نجات دے دیں گے تو پھر تباہی و بربادی اور اخلاقی گراوٹ کے راستے میں کونسی رکاوٹ باقی رہے گی؟
حقیقت یہ ہے کہ ہر آنے والا کھانے کے لیے ایک منہ اور محنت کرنے کے لیے دو ہاتھ ساتھ لاتا ہے، اور اسکے ذہن میں قدرت نے جو خزانے رکھ چھوڑے ہیں انکا تو کوئی مول ہی نہیں۔ ہر پیدا ہونے والا مختلف صلاحیتوں کا مالک ہوتا ہے اور پھر یہ صلاحیتیں زمینی و انسانی وسائل کو کارآمد بنانے کے لیے خام مال کا کام دیتی ہیں۔ قدرت کا اپنا نظام ہے اور قانون قدرت ہے کہ جتنی کسی جگہ پہ آبادی ہوتی ہے اس کی ضرورت سے دگنا رزق اللہ اس سر زمین میں پنہاں رکھتا ہے۔ اور تاریخ اس پر گواہ ہے کہ جب کبھی آبادی بڑھ بھی جاتی ہے تو زلزلے، طوفان، وبائیں اور قدرتی آفات سے قدرت خود اسے اپنے حساب سے متوازن کر دیتی ہے اور قدرت والے کو اپنے کاموں میں کسی کی شراکت قطعاََ بھی برداشت نہیں۔ پھر انسانوں کے پاس اسکا بہترین حل نئے شہروں کی آبادکاری ہے۔ یورپ نے خود غرضی، نفسانیت اور جنسی لذتوں کو خوبصورت ناموں سے انسانیت میں متعارف کرایا ہے لیکن یہ محض دھوکے ہیں۔ جانوروں، پرندوں، حشرات الارض، جنگلات اور درختوں تک کی افزائش نسل پر بے پناہ سرمایہ صرف کرنے والی سیکولر یورپی تہذیب دوسری قوموں کو انسانوں کی نسل کشی پر مجبور کرتی ہے خواہ اس کے لیے اخلاق باختہ طریقے ہی کیوں نہ آزمائے جائیں کیونکہ مصر میں ہونے والی خواتین کانفرنس میں یہ قرار داد منظور کرائی گئی کہ آبادی کو بڑھنے سے روکنے کے لیے ہم جنسیت کو عام کیا جائے، الامان والحفیظ!۔
تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خود کشی کرے گی
جو شاخ نازک پہ آشیانہ بنے گا ناپائدار ہو گا