ہمہ جہتی بیداری شعور کی ضرورت : قسط دوم

خطاب از شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری

ترتیب و تدوین : جلیل اَحمد ہاشمی

دورِ فتن میں رائے عامہ کی عدم پیروی

ہم اِس وقت اُس زمانے میں داخل ہو چکے ہیں جس کی خبر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بڑے واضح طور پر فرما دی ہے جسے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے روایت کیا ہے۔ آقا علیہ الصلاۃ والسلام نے فرمایا :

تَکُونُ بَيْنَ يَدَیِ السَّاعَةِ فِتَنٌ... يَبِيعُ أَقْوَامٌ دِينَهُمْ بِعَرَضٍ مِنَ الدُّنْيَا.

(ترمذی، السنن، کتاب الفتن، باب ما جاء ستکون فتن، 4 : 423، رقم : 2197)

’’قیامت سے پہلے فتنوں کا دور آ جائے گا۔ ۔ ۔ لوگ اپنے دین کو دنیا کی خاطر بیچیں گے‘‘۔

یعنی لوگ اپنے دین کو دُنیوی اَغراض و مقاصد اور مال و دولت کے عوض بیچ ڈالیں گے اور کرپشن کا کلچر عام ہوگا۔ ہر شخص اِلّا ما شاء اللہ اسے بطور کلچر اپنائے گا۔ ہم اُسی دور میں داخل ہو چکے ہیں۔

پھر اِسی موضوع پر ایک اور حدیث مبارکہ ہے جسے حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں۔ آقا علیہ الصلاۃ والسلام نے فرمایا :

إِنَّ مِنْ وَرَائِکُمْ أَيَامًا يَنْزِلُ فِيهَا الْجَهْلُ، وَيُرْفَعُ فِيهَا الْعِلْمُ، وَيَکْثُرُ فِيهَا الْهَرْجُ.

’’تمہارے بعد ایسا زمانہ آئے گا کہ جہالت اترے گی، علم اٹھ جائے گا اور ہرج زیادہ ہو گا‘‘۔

صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا : یا رسول اﷲ! ہرج کیا ہے؟

حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

الْقَتْلُ.

(ابن ماجه، السنن، کتاب الفتن، باب ذهاب القرآن والعلم، 4 : 427، رقم : 4051)

(ہرج سے مراد) قتل ہے۔

اس حدیث مبارکہ میں ہمارے اِس زمانے کی طرف واضح اشارہ ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین کے زمانوں کے بعد آگے ایک زمانہ ایسے آئے گا جس میں جہالت چھا جائے گی اور علم اٹھا لیا جائے گا یعنی علم کے سچے حامل اور وارث اٹھ جائیں گے اور قتل و غارت گری عام ہو جائے گی۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مخصوص علامات بیان کر دی ہیں۔ کیا ہم اس دور میں داخل نہیں ہو گئے؟ آقا علیہ الصلاۃ والسلام نے اس زمانے کو دو اور علامتوں کے ساتھ جوڑ دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جہالت یعنی بے شعوری کا غلبہ ہو جائے گا اور علم و شعور اٹھا لیا جائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ قوم کی غالب اکثریت اِس وقت شعور سے عاری ہے اور اُنہیں حق کی پہچان نہیں رہی۔ علم و شعور سے آگہی ناپید ہے اور جاہل لوگ مسندوں پر براجمان ہیں۔ جب حالات ایسے ہو جائیں کہ عوام کی اکثریت کے پاس حق کا شعور نہ رہے، اچھے برے کی تمیز نہ رہے اور اپنی زندگی، اپنے مقدر، اپنی سوسائٹی اور اپنے ملک اور قوم کے مستقبل کے لئے اچھے فیصلے کرنے کی صلاحیت سلب ہو جائے مفاد پرست طبقہ ان کو اندھا کر دے اور انہیں اپنے ذاتی مسائل میں الجھا کے بالکل بے بس اور بے کس کر دے تو یاد رکھ لیں کہ ایسے وقت میں عوام کی رائے کے پیچھے نہیں چلا جاتا۔ یہ بات شاید بہت سے لوگوں کو آج بڑی عجیب اور اجنبی لگے مگر حقیقت یہ ہے کہ ہم آج اِس حال میں ہیں کہ عوام کی رائے کی پیروی کرنا جہالت اور گمراہی کے پیچھے چلنے کے مترادف ہے۔ یہ کیسے عوام ہیں جو سمگلروں، قاتلوں، ڈاکوؤں، جابر وڈیروں، نا انصاف اور ظالم لیڈروں کو جنہوں نے انہیں غلام اور بے وقوف بنا رکھا ہے۔ اپنی پسند سے اپنے حاکم منتخب کرتے ہیں؟ قوم کو انہوں نے غلام بنا دیا ہے۔ غلاموں کی کیا رائے ہوگی؟ اور ان کا کیا چناؤ ہوگا؟ جب صلاحیتیں مفقود ہو جائیں اور عوام بحیثیت مجموعی بے شعوری کا شکار ہو جائے اور یہ احساس بھی نہ رہے کہ ان منتخب نمائندوں نے انہیں کس حال میں رکھا ہوا ہے تو کیسی رائے عامہ اور کیسی ان کی پیروی؟

بے حسی، بد دیانتی، کذب بیانی، خیانت اور وعدہ خلافی جیسے تمام رذائل اخلاق سے مسلم امت مجموعی طور پر کس طرح سماجی اور معاشرتی طور پر تباہ و برباد ہو جائے گی اس کا پورا نقشہ آقا علیہ الصلاۃ والسلام کی ایک طویل حدیث پاک میں ملتا ہے جسے حضرت عبد اللہ بن عمر و بن العاص رضی اللہ عنہ نے روایت کیا ہے :

بَيْنَمَا نَحْنُ حَوْلَ رَسُولِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم إِذْ ذَکَرَ الْفِتْنَةَ، فَقَالَ : إِذَا رَأَيْتُمُ النَّاسَ قَدْ مَرِجَتْ عُهُودُهُمْ وَخَفَّتْ أَمَانَاتُهُمْ وَکَانُوا هَکَذَا. وَشَبَّکَ بَيْنَ أَصَابِعِهِ. قَالَ : فَقُمْتُ إِلَيْهِ. فَقُلْتُ : کَيْفَ أَفْعَلُ عِنْدَ ذَلِکَ جَعَلَنِي اﷲُ فِدَاکَ؟ قَالَ : الْزَمْ بَيْتَکَ وَامْلِکْ، عَلَيْکَ لِسَانَکَ، وَخُذْ بِمَا تَعْرِفُ وَدَعْ مَا تُنْکِرُ، وَعَلَيْکَ بِأَمْرِ خَاصَّةِ نَفْسِکَ، وَدَعْ عَنْکَ أَمْرَ الْعَامَّةِ.

(ابو داؤد، السنن، کتاب الملاحم، باب الأمر والنهي، 4 : 109، رقم : 4343)

ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اِرد گرد حلقہ بنائے بیٹھے تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فتنے کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا : جب تم لوگوں کو دیکھو کہ انہوں نے وعدوں کا پاس کرنا چھوڑ دیا اور امانتوں کی پرواہ نہ رہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انگشت ہائے مبارک کو آپس میں پیوست کر کے فرمایا کہ یوں گتھم گتھا ہو جائیں۔ میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف کھڑا ہوا اور عرض کیا : یا رسول اللہ! اللہ تعالیٰ مجھے آپ پر قربان کرے۔ اس وقت میں کیا کروں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اُس وقت اپنے گھر میں ہی رہنا، اپنی زبان کو قابو میں رکھنا، اچھی چیز کو اختیار کرنا اور بری بات کو چھوڑ دینا۔ اور تم پر لازم ہے کہ (اپنے دینی و مذہبی اور معاشرتی و اَخلاقی فرائض کی کامل ادائیگی کے ذریعے) اپنی جان (کو نارِ جہنم سے بچانے) کی خصوصی فکر کرو اور عام لوگوں کی رائے کی پیروی چھوڑ دو۔

حدیث کا مضمون بڑا واضح ہے کہ جب دیکھو کہ وعدے توڑے جانے لگیں، امانتوں میں خیانت کی جانے لگے بلکہ اسے کوئی اہم چیز ہی نہ سمجھا جائے، کرپشن اور وعدہ خلافی رواج پا جائے، ہر شخص جھوٹ بولے اور حق چھپائے۔ (یہی وعدہ خلافی، جھوٹ، کرپشن، خیانت ہمارا کلچر بن چکا ہے اور ٹی وی چینلز چوبیس گھنٹے یہی سارا منظر دکھاتے ہیں۔ )

امام ابو عمرو دانی کی بیان کردہ روایت کے آخر میں یہ الفاظ ہیں :

وَإِيَاکَ وَعَوَامَّهُمْ.

( دانی، السنن الواردة فی الفتن، 2 : 363، رقم : 117)

( دانی، السنن الواردة فی الفتن، 3 : 576، رقم : 256)

’’عامۃ الناس کی رائے کی تقلید سے بچو‘‘۔

دوسری روایت کے الفاظ ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ سے فرمایا :

وَإِيَاکَ وَالْعَامَّة.

(دانی، السنن الواردة فی الفتن، 2 : 365، رقم : 118)

(دانی، السنن الواردة فی الفتن، 3 : 574، رقم : 254)

’’عامۃ الناس کی رائے کی پیروی اِختیار نہ کرنا‘‘۔

عامۃ الناس جب بد دیانت، غاصب اور لٹیروں کو ووٹ دے کر اپنے حکمران منتخب کرنا شروع کردیں تو ان کی رائے قابل اِعتماد اور قابل اِعتبار نہیں۔ ان کی رائے میں کوئی وزن نہیں ہے کیونکہ وہ غلاموں کی طرح زندگی بسر کر رہے ہیں۔ ان کی شعور کی آنکھ میں بینائی نہیں رہی۔ پیٹ کے دھندے، بے روزگاری کے خوف، جان کے خطرے، عزت و آبرو کے چلے جانے اور تعلیم کے فقدان نے ان کی شعور کی آنکھ ان سے چھین لی ہے اور وہ نابینا ہوگئے ہیں۔

ایسی صورت حال پر اس شعر کا دوسرا مصرع کس قدر صادق آتا ہے :

دنیا نے تیری یاد سے بیگانہ کر دیا
تجھ سے بھی دِل فریب ہیں غم روزگار کے

یعنی دنیا اور روزگار کے غموں اور پریشانیوں نے اتنا الجھا دیا ہے کہ اب کسی کو یاد کرنے کی بھی فرصت نہیں رہی۔ جب مہنگائی کے باعث پیٹوں میں بھوک کی آگ جلتی ہو۔ چولہا جلانے کو گیس نہ ملے، پینے کو صاف پانی نہ ملے، دو وقت کی روٹی کھانے کو روزگار نہ ملے، علاج معالجے کی عدم دستیابی کے باعث مہلک اور جان لیوا بیماریاں درپے ہوں اور جان و مال، عزت و آبرو محفوظ نہ ہوں، ظلم و نا انصافی نے چوبیس گھنٹے زندگی اجیرن کر دی ہو تو قیامت کے سماں میں رہنے والے لوگوں کی کیا رائے ہوگی؟ سوچیے کیسا الیکشن اور کیسی آزادیِ رائے! جب اس حالت تک قوم پہنچ جاتی ہے تو آقا علیہ الصلاۃ والسلام نے فرمایا : ’عامۃ الناس کی رائے کی پیروی کرنے سے بچو‘۔ یعنی ایسے ناگفتہ بہ حالات میں لوگوں کے پیچھے مت چلنا، ان سے کبھی رائے نہ لینا بلکہ ان کی رہنمائی کرنا، انہیں lead کرنا اور ان کی بہتر رائے سازی کے لئے efforts کرنا۔

علامہ محمد اقبال رحمۃ اللہ علیہ نے ایسی جمہوریت کے بارے میں ہی کہا تھا :

اِس راز کو اِک مردِ فرنگی نے کیا فاش
ہر چند کے دانا اِسے کھولا نہیں کرتے

جمہوریت اِک طرزِ حکومت ہے کہ جس میں
بندوں کو گنا کرتے ہیں، تولا نہیں کرتے

زیرِ بحث حدیث مبارکہ اِن الفاظ کے ساتھ بھی آئی ہے۔ آقا علیہ الصلاۃ والسلام نے فرمایا :

وذروا أمر العوام.

( دانی، السنن الواردة فی الفتن، 3 : 573، رقم : 253)

( نعيم بن حماد، الفتن، 1 : 244، رقم : 693)

’’اور عوام کے اَمر کو (اُس کے حال پر) چھوڑ دو‘‘۔

یعنی عوام کا جو اَمر ہے، جو اُن کی خواہش ہے، اُن کا جو چناؤ ہے اس سے بچنا کیونکہ ان کی رائے مبنی بر حق نہیں ہوگی۔ اُن کے کہنے کے پیچھے مجبوریاں اور جبر ہوگا، نااہلیت اور بے شعوری ہوگی، ان کی رائے کبھی بھی درست اور صحیح رائے نہیں ہوگی۔ سو اُن کے معاملات سے بچو اور ان کی رہنمائی کرو۔ عوام کی رائے صرف اس وقت قابل توجہ اور قبول ہوتی ہے جب ان کی رہنمائی صحیح ہو رہی ہو، ان کے شعور کی آنکھ کھلی ہو اور ان میں حق و باطل، نیکی و بدی، سچ اور جھوٹ کے امتیاز کرنے کی صلاحیت موجود ہو جو کہ اب نہیں۔

اُمت سے علم و آگہی کا اٹھا لیا جانا

ہم اِس وقت ایسے دور میں ہیں جس کی حقیقی تصویر آج سے چودہ سو سال قبل درج ذیل حدیث مبارکہ سے عیاں ہے۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اس دور میں بیداریِ شعور کی کس قدر ضرورت ہے۔ یہ حدیث مبارکہ حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے جس میں آقا علیہ الصلاۃ والسلام نے فرمایا :

إِنَّ اﷲَ لَا يَنْزِعُ الْعِلْمَ بَعْدَ أَنْ أَعْطَاکُمُوهُ انْتِزَاعًا، وَلَکِنْ يَنْتَزِعُهُ مِنْهُمْ مَعَ قَبْضِ الْعُلَمَائِ بِعِلْمِهِمْ.

(بخاری، الصحيح، کتاب الاعتصام بالکتاب والسنة، باب ما يذکر من ذم الرَّأی وتکلف القياس، 6 : 2665، رقم : 6877)

’’اللہ تعالیٰ تمہیں عطا فرما دینے کے بعد علم کو نہیں اٹھائے گا بلکہ یوں اٹھائے گا کہ علماء حق کو ان کے علم کے ساتھ اٹھا لے گا‘‘۔

آقا علیہ الصلاۃ والسلام نے فرمایا ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ علم چھین لیا جائے گا یعنی صحیح حاملانِ علم اور صحیح علم و شعور اور حکمت و دانائی رکھنے والے لوگ اٹھا لیے جائیں گے۔ پھر ان میں جب کوئی صحیح علم و شعور اور حکمت و معرفت رکھنے ولا نہیں بچے گا تو لوگ جاہلوں کو علماء بنا کے مسند پہ بٹھا دیں گے۔ مذہبی زندگی میں یہی تماشا ہو رہا ہے۔ جن لوگوں نے علم کے عمامے سر پہ رکھے ہوئے ہیں وہ۔ الا ماشاء اللہ۔ جاہل، بے حکمت، بے علم، بے شعور اور بے عمل ہیں۔ وہ تقویٰ اور خوفِ الٰہی سے بے بہرہ ہیں، انہیں چوبیس گھنٹے فتنہ پروری کے سوا کوئی کام نہیں۔ ان حالات میں اکثریت خاموش رہنے والوں کی ہوتی ہے اور ان کی خاموشی بھی نقصان دیتی ہے کیونکہ وہ نہ حق کے ساتھ ہیں نہ باطل کے ساتھ۔ خیر و شر کے معرکہ میں ان کی خاموشی اور غیر جانبداری ultimately شر کو تقویت دیتی ہے۔ اس سے شر غالب آ جاتا ہے۔ چنانچہ یہی خاموشی ان کی ہلاکتوں کا باعث بن جاتی ہے کیونکہ جب صحیح عالم و عارف اور صاحبانِ دانش و حکمت نہیں بچتے تو لوگ جاہل و بے عمل اور بے حکمت لوگوں کو عالم اور سربراہ بنا کے مسند پر بٹھا دیتے ہیں۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

إِنَّ اﷲَ لَا يَقْبِضُ الْعِلْمَ انْتِزَاعًا يَنْتَزِعُهُ مِنْ الْعِبَادِ وَلٰکِنْ يَقْبِضُ الْعِلْمَ بِقَبْضِ الْعُلَمَاءِ حَتَّی إِذَا لَمْ يُبْقِ عَالِمًا اتَّخَذَ النَّاسُ رُءُوسًا جُهَالًا فَسُئِلُوا فَأَفْتَوْا بِغَيْرِ عِلْمٍ فَضَلُّوا وَأَضَلُّوا.

(بخاری، الصحيح، کتاب العلم، باب کيف يقبض العلم، 1 : 50، رقم : 100)

اللہ تعالیٰ علم کو اس طرح نہیں اٹھائے گا کہ اسے بندوں (کے سینوں) سے کھینچ لے بلکہ علماء کو وفات دے کر علم کو اٹھا لے گا۔ یہاں تک کہ جب کوئی عالم باقی نہیں رہے گا تو لوگ جہلاء کو اپنا پیشوا بنا لیں گے۔ ان سے مسائل پوچھے جائیں گے تو وہ بغیر علم کے فتوے دیں گے۔ وہ خود بھی گمراہ ہوں گے اور لوگوں کو بھی گمراہ کریں گے‘‘۔

ایک اور روایت میں ہے کہ ’ان جاہلوں کو عالم، لیڈر اور سربراہ بنا دیتے ہیں‘۔ ان حالات میں جب لوگ ان سے سوال کرتے ہیں، شریعت کا کوئی مسئلہ پوچھتے ہیں کہ اس بارے میں کیا حکم ہے، اس پر کیا فتویٰ ہے؟ وہ نام نہاد عالم اپنی جہالت اور فتنہ پروری اور گمراہی کے باعث جو کچھ بتاتے ہیں عوام انہیں قبول بھی کر لیتے ہیں۔ سیاسی میدان میں پاکستانی عوام نے مفاد پرست، خائن اور غاصب لٹیروں کو اپنے MNAs اور MPAs اور وزراء کے طور پر قبول کر رکھا ہے۔ کیا یہ لیڈر کہلانے کے قابل ہیں؟ کیا ان کا علم، ان کی دانش، ان کی حکمت، ان کی امانت، ان کی دیانت، ان کا تقویٰ اور کردار اس قابل ہے کہ انہیں اپنے لیڈر اور سربراہ بنایا جائے۔ یہ تو قوم کے دشمن ہیں۔ یہ ڈاکو، چور اور لٹیرے ہیں۔ یہ کہاں کے لیڈر ہیں؟ Exactly یہی کردار جو سیاست میں سیاست دانوں کا ہے وہ مذہب میں کچھ مذہبی رہنماؤں اور مولویوں کا ہے۔ یہ بالکل انہی کا عکس ہیں۔ ان کو بھی لوگوں نے علماء سمجھ رکھا ہے مفتی بنا رکھا ہے حالانکہ ان کا دین میں سوائے فتنہ گری، فتویٰ بازی، تفرقہ و انتشار اور لوگوں کو بہکانے اور گمراہ کرنے کے علاوہ اور کوئی کام نہیں ہے۔ ان نام نہاد مذہبی مفکرین کی پہچان کے لئے کوئی لمبے چوڑے پیمانے نہیں چاہیے، صرف ان کی زبان دیکھ لیا کریں۔ اگر ان کی زبان بااَخلاق ہے، نرم بولتے ہیں، قرآن و سنت سے باہر بات نہیں کرتے، کسی پر طعن و تشنیع نہیں کرتے، گالی گلوچ نہیں دیتے تو اچھے لوگ ہیں۔ بس یہی پہچان کافی ہے۔ اور جن کے منہ سے چوبیس گھنٹے آگ نکلتی ہے، غیظ و غضب نکلتا ہے غیبت، چغلی، گالی، تہمت، الزام تراشی نکلتی ہے، ان کا یہ عمل اور کردار بتاتا ہے کہ یہ لوگ دین سے دور ہیں، نہ ان میں دین ہے نہ اَخلاق، نہ علم ہے، نہ عمل ہے، نہ تقویٰ ہے، نہ خدا کا خوف ہے، نہ انسانیت کی قدریں ہیں۔ ان کا روز مرہ کا عمل بتاتا ہے کہ وہ کس قدر دین میں مخلص ہیں۔

اب پاکستان میں یہی حال ہے کہ علم سے بے بہرہ شخص اپنے نام کے ساتھ علامہ اور مفتی لگائے پھرتا ہے۔ ہر بندہ مفتی ہے۔ امام ابن عابدین شامی نے ڈیڑھ سو سال قبل فرمایا تھا کہ ’ہمارے دور میں اب مفتی کوئی نہیں رہے، بلکہ اب صرف ناقلین رہ گئے ہیں۔ ‘ وہ ڈیڑھ سو سال قبل فرما رہے تھے کہ اِس وقت کے علماء اب اِفتاء کے تقاضے اور شرائط پر پورا نہیں اترتے۔ تو اب جب مفتیان کا دور ہی نہیں رہا، صرف ناقلین رہ گئے ہیں تو اللہ کی شان ہے کہ دو سو سال گزرنے کے بعد یک لخت ہر گلی میں مفتی پیدا ہوگئے ہیں۔ جو شخص پاکستان سے انگلینڈ میں یا یورپ میں، امامت کے لیے جاتا ہے وہ پہلے دن ہی اپنے نام کے ساتھ مفتی لگا لیتا ہے۔ اس سے اس کی تنخواہ بڑھ جاتی ہے۔ لوگ ان پر اعتبار بھی کرنے لگتے ہیں اور انہیں ٹی وی چینلز پہ بات کر کے اپنی مارکیٹ ویلیو بڑھانے کا موقع مل جاتا ہے۔ چنانچہ سیاست اور مذہب کا حال ایک جیسا ہی ہے۔ ان حالات میں ہر کوئی بخوبی اندازہ لگا سکتا ہے کہ اس دور میں اب بیداریِ شعور کی مہم کتنی ضروری ہو چکی ہے۔

اِطاعت و اِتباع کے پانچ اُصول

دینی شعور کے حوالے سے بڑی اہم بات یہ ہے کہ عقیدے میں اگرچہ کہنے کی بہت سی چیزیں ہیں مگر محبت و مؤدت، تعظیم و تکریم اور اطاعت و اتباع کے باب میں پانچ اصول کبھی نہ بھولیے۔ جس کے پاس یہ پانچ اصول ہوں گے وہ حق پر ہوگا :

  1. حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دامن اَقدس ایک لمحے کے لیے بھی چھوٹنے نہ پائے۔ دامنِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہمیشہ پختہ وابستگی رہے۔
  2. اَہلِ بیتِ اَطہار علیہم السلام کے مقدس دامن سے ہمیشہ جڑے رہیں۔
  3. صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے دامن کی خیرات کے ہمیشہ طلب گار رہیں۔
  4. اَولیاء و صالحین کا دامن مضبوطی سے تھامے رکھیں۔
  5. اَئمہ و محدثین اور فقہاء و مجتہدین سے پختہ نسبت کا دامن بھی ہاتھ میں رہے۔

لفظ ’دامن‘ میں سب کچھ آگیا۔ اوّلاً تمسک حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتِ پاک سے ہو، پھر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی ذوات مقدسہ سے، پھر اَہلِ بیتِ اَطہار علیہم السلام کی ذواتِ مقدسہ سے، پھر اَولیاء و صالحین کی ذواتِ مبارکہ سے، پھر ائمہ، سلف صالحین، محدثین، علماء، فقہاء، مجتہدین سے۔ یہ پانچ ستون ہیں جن کے ذریعے آپ کا دین قائم رہے گا اور عقیدہ بھی صحیح رہے گا جو ان میں سے کسی ایک کو چھوڑ دے گا، گمراہ ہو جائے گا جس طرح بعض لوگوں نے اپنے عقیدے سے صحابہ کرام کی تعظیم و تکریم، محبت اور ان کی ابتاع کو خارج کر دیا اور وہ حق سے دور ہوگئے اور بعض نے اپنے عقیدے سے اہل بیت کی تعظیم و تکریم، محبت و اتباع کو خارج کر دیا اور حق سے دور ہوگئے۔ چنانچہ صرف سیاسی فیلڈ میں ہی بیداریِ شعور کی ضرورت نہیں، مذہبی اور اعتقادی پہلوؤں میں بھی اسی طرح بیداری شعور کی ضرورت ہے۔ چنانچہ اولیاء و صالحین اور ائمہ سلف مجتہدین سے تمسک کرنا اپنی زندگی کے لیے لازم کریں۔ خلفائے راشدین کے پاک دامن کو ہمیشہ تھامیں رکھیں۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

عَلَيْکُمْ بِسُنَّتِي وَسُنَّةِ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِيْنَ الْمَهْدِيِّيْنَ.

(ترمذی، السنن، کتاب العلم، باب ما جاء فی الأخذ بالسنة واجتناب البدع، 5 : 44، رقم : 2676)

(أبوداود، السنن، کتاب السنة، باب فی لزوم السنة، 4 : 200، رقم : 4607)

(ابن ماجه، السنن، المقدمة، باب اتباع سنة الخلفاء الراشدين المهديين، 1 : 15، رقم : 42)

’’تم پر میری اور میرے ہدایت یافتہ خلفاء راشدین کی سنت کو پکڑنا لازم ہے‘‘۔

ان کو آقا علیہ الصلاۃ والسلام نے مہدیین کہا۔ اہل سنت وہ ہے جو بیک وقت صحابہ کرام رضی اللہ عنہم، اَہلِ بیتِ اَطہار علیہم السلام دونوں کا دامن تھامے رکھیں۔ کُل اولیاء صالحین کے دامن سے تمسک کرے۔ اس شعور کو بیدار کرنے کی ضرورت ہے۔ جو کسی ایک معاملے میں بھی کمی یا بیشی کرے سمجھ لیں کہ وہ راہ راست سے بھٹکا ہوا ہے۔ چنانچہ مذہبی، سیاسی اور قومی شعور کی بیک وقت بیداری ہونی چاہیے۔ آقا علیہ الصلاۃ والسلام نے ایک بڑی خاص بات فرمائی۔ آقا علیہ الصلاۃ والسلام نے ان لوگوں کو مبارک باد دی ہے جو اِس فساد والے زمانے میں بیداریِ شعور کی مہم جاری رکھیں گے۔

حضرت عبد اللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ راوی ہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

إِنَّ الإِسْلَامَ بَدَأَ غَرِيْبًا، وَسَيَعُوْدُ غَرِيْبًا کَمَا بَدَأَ، فَطُوْبٰی لِلْغُرَبَاءِ.

(قضاعی، مسند الشهاب، 2 : 138، رقم : 1052 . 1053)

(بيهقی، کتاب الزهد الکبير، 2 : 117، رقم : 205)

بے شک اسلام کی اِبتداء اَجنبیت سے ہوئی (یعنی دین کی اِتباع کرنے والے معاشرے میں اَجنبی لگتے تھے یا اس کا دوسرا مفہوم یہ ہے کہ دین کے پھیلنے کی اِبتداء سفر اور ہجرت سے ہوئی) اور (ایک زمانہ پھر ایسا آئے گا کہ) یہ دین (معاشرے میں) دوبارہ اجنبی لگے گا جس طرح کہ شروع میں لگتا تھا۔ اور (دین پھیلانے کی خاطر) الگ تھلگ ہونے ہونے والے (غرباء یعنی اجنبی لوگوں) کے لیے خوش خبری ہے۔

آقا علیہ الصلاۃ والسلام نے فرمایا اسلام کی ابتداء بھی اس طرح ہوئی تھی کہ معاشرہ میں تنہا تنہا اور اجنبی تھا۔ کوئی کوئی اس کی طرف آ رہا تھا یعنی اس کی ابتداء شانِ اَجنبیت کے ساتھ ہوئی، اس لئے اس کو غریب کہا۔ اور فرمایا کہ آخری زمانوں میں پلٹ کے پھر یہ ایسے ہوگا کہ معاشرہ میں اسلام پر عمل کرنے والے کم کم اور اجنبی لگیں گے۔ جب یہ زمانہ آئے گا (جو کہ اب آچکا ہے) تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ غرباء کو مبارک باد۔

کتنے خوش نصیب ہیں وہ اجنبی جو آج بے شعوری، فسق و فجور، گمراہی، کرپشن اور بے دینی بھرے ماحول میں اِسلام، ایمان، تقویٰ، اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اَحکام کے ساتھ کھڑے اَجنبی لگ رہے ہیں۔ اِس میں اِن علماء، اَئمہ اور خطباء کو بھی صد مبارک باد جن کی شبانہ روز جد و جہد سے مساجد آباد ہیں اور قال اﷲ وقال الرسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا پیغام لوگوں تک پہنچ رہا ہے۔ جن کے ذریعے قرآن اور سنت کی تعلیم نسلوں تک جاری ہے۔ جو کم وسائل میں بھی اِقامتِ صلوٰۃ کے شعائر برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ جن کے دم سے اﷲ کے دین کا ذکر اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی محبت اور صحابہ رضی اللہ عنہم، اَہلِ بیتِ اَطہار رضی اللہ عنہم اور اولیاء و صالحین علیہم السلام کے ساتھ عقیدتوں کا سفر جاری ہے۔ مبارک باد کے مستحق ہیں وہ غرباء، جو خدمت دین پہ صدق اور اخلاص کے ساتھ مامور ہیں، جو سوسائٹی میں اجنبی لگتے ہیں مگر دین کا دامن نہیں چھوڑ رہے اور بیداریِ شعور کی تحریک کو لے کے چل رہے ہیں۔ یعنی جب لوگ فساد کا شکار ہو کر بہک گئے ہوں، گمراہ ہو گئے ہوں، فسادِ علم، فسادِ عمل، فسادِ اَخلاق، فسادِ سیرت انکا شعار بن چکا ہوگا تو اس زمانہ میں یہ صالحیت پر قائم رہیں گے اور اِصلاح کا دامن تھامے رکھیں گے، فساد سے بچیں گے اور لوگوں کو بھی اُس فساد سے بچانے اور ان کے شعور کو بیدار کرنے کے لئے جد و جہد جاری رکھیں گے۔

حضرت عبداﷲ بن عمرو بن العاصg سے منقول حدیث مبارکہ میں دوسرے الفاظ یوں آئے ہیں :

طُوبٰی لِلْغُرَبَاءِ ... الَّذِينَ يُصْلِحُونَ عِنْدَ فَسَادِ النَّاسِ.

( طبرانی، المعجم الکبير، 6 : 164، رقم : 5867)

(طبرانی، المعجم الأوسط، 9 : 13، رقم : 8977)

( دانی، السنن الوارده في الفتن، 3 : 636، رقم : 291)

’’مبارک ہو اُن اَجنبیوں کے لئے جو لوگوں کے فساد کے وقت اِصلاح کا بیڑہ اٹھائیں گے‘‘۔

جب فساد کا زمانہ آ جائے گا، لوگ عملی اور فکری برائی کی زد میں ہوں گے، بد عقیدگی اور بد اخلاقی میں گرفتار ہو جائیں گے، امانت چلی جائے گی خیانت آ جائے گی اور جھوٹ غالب ہوگا جب فساد انگیزی عام ہو جائے گی تو مبارک باد اور خوش خبری ان غرباء پر جو لوگوں کے شعور کو بیدار کریں گے اور فساد کا شکار ہو جانے والوں کی اِصلاح کی تگ و دو کریں گے۔ ان کے سوئے ہوئے شعور کو بیدار کرنے کی کوشش کریں گے، آوازِ حق اُن کے کانوں تک پہنچائیں گے اور اُن کو سیدھی راہ کی طرف بلائیں گے۔

قوم اور معاشرے کے شعور کو بیدار کرنے کی جد و جہد کرنے والے رفقاء! تم ہی وہ غرباء ہو جنہیں آقا علیہ الصلاۃ والسلام نے مبارک باد دی ہے۔ یہ خوش خبری اُن سارے لوگوں کے لئے بھی ہے جو اُمتِ مسلمہ میں اس فساد کے زمانے میں اصلاح کا کام کر رہے ہیں اور خیانت کے غلبے میں دیانت کا پیغام پہنچا رہے ہیں اور بے شعوری کے دور میں شعور کا چراغ جلا رہے ہیں وہ سب غرباء ہیں۔ اُنہیں آقا علیہ الصلاۃ والسلام نے مبارک باد دی ہے۔ گویا لوگوں کی اصلاح کرنے والے، اصلاح کا چراغ جلانے والے، دوسروں کو صحیح فہم اور شعور مہیا کرنے کی جد و جہد کرنے والے سب لوگوں کو آقا علیہ الصلاۃ والسلام نے غرباء کہا۔