توانائی کے بدترین بحران نے بلاشبہ ہماری انفرادی اور اجتماعی زندگی کے معمولات کو جھنجھوڑ دیا ہے مگر مسئلہ صرف یہ نہیں ہے۔ لوڈشیڈنگ عوام کو درپیش مسائل میں سرفہرست اس لئے ہے کہ اس نے زندگی کے ہر شعبے کو تہہ و بالا کیا ہوا ہے ورنہ ہوشربا مہنگائی غریب سے جینے کا حق کب کا چھین چکی۔ بے روزگاری کے الاؤ میں جلنے والے نوجوان ڈگریوں کو حسرت و یاس سے گھورے جا رہے ہیں (نشہ، اخلاقی بے راہ روی اور خودکشیوں کا رحجان اسی لئے بڑھ رہا ہے۔ ) خونی رشتوں کی بے قدری عام ہے، ناپ تول میں ہیرا پھیری ترقی کر کے ذبح کئے گئے جانوروں میں پریشر کے ساتھ پانی بھرنے تک پہنچ گئی ہے۔ اعلیٰ اخلاقی رویے چراغ لے کر ڈھونڈنے سے بمشکل ملتے ہیں۔ بیرونی دنیا میں ہمارا تشخص انتہا پسندی، دہشت گردی، ٹارگٹ کلنگ، بم دھماکے، خود کش حملے اور کشکول لے کر پھرنے والے حکمرانوں کی حامل قوم کے طور پر راسخ ہو چکا ہے۔ مقتدر طبقے کا احساس ذمہ داری ہے کہ ’’مٹی پاؤ‘‘ کے دو حرفی جملے میں دفن۔
ہمارا خواندگی کا تناسب کبھی بھی قابل عزت نہیں رہا مگر ڈگری زدہ مقتدران ہی تو ہیں جو اس ملک کی معیشت کو چاٹ رہے ہیں۔ ان کو تعلیم ہی اس نیت سے دلائی گئی ہے کہ انہیں دیمک جیسے مہلک کیڑے کا ہم منصب بنانا مقصود تھا۔ (شرح خواندگی 100 فیصد ضرور ہونا چاہئے مگر ساتھ نظام تعلیم میں انقلابی اصلاحات اور تربیت کا جاندار اور موثر نظام ناگزیر ہے۔ ) ہماری سیاست میں چند خاندانوں کو ملک کا راجا بننے کا موروثی حق حاصل ہے اور اس سارے عمل کا نام جمہوریت رکھ دیا گیا ہے۔ ملک کے دانشور، چوٹی کے سیاست دان اور میڈیا کے بڑے انتخابی نظام میں موجود عوام کش جرثوموں کی نشاندہی کرنے کی بجائے اس کے تحت ہی الیکشن کرانے کے مسلسل عمل کو جمہوریت سمجھ بیٹھے ہیں۔ وہ انتخاب کو ہی احتساب سمجھتے ہیں اور پانچ سال میں کھربوں کی لوٹ مار کو ارتقائی عمل کا خوبصورت نام دے دیتے ہیں کہ اسی کا تسلسل ہمیں جمہوریت کی اس اعلیٰ سطح پر لے جائے گا جہاں ہمارا نام ایشیاء کی بڑی معیشتوں کی فہرست میں آ جائے گا۔ موجودہ نظام انتخاب نے اب تک ایسے سیاسی طبقے کو ہی جنم دیا ہے جو حب الوطنی، بصیرت، دیانتداری اور اہلیت جیسے اوصاف سے محرومی کے ساتھ ساتھ کمال درجے کی بے ضمیری اور بے حسی سے بھی آلودہ ہے۔ اسمبلیوں میں بیٹھنے والے اراکین اور وزراء کی غالب ترین اکثریت کرپشن کے گند میں لتھڑی ہے اور وہ خود سے اٹھنے والے تعفن کو برداشت کرنے میں ’’کمال‘‘ حاصل کر چکے ہیں۔ قوم کے کھربوں روپے ہڑپ کرنے والوں کی ہوس، استقامت کے اس معیار پر ہے کہ اگر پچیس تیس سال پہلے اس جہان سے رخصت ہونے والے کسی محب وطن کو دوبارہ زندگی کی ’’نعمت‘‘ مل جائے تو وہ اس ’’ظلم‘‘ پر احتجاجاً خود کشی کر لے گا۔
چند خاندانوں کی آماجگاہ (غیر حقیقی پارلیمنٹ) کو بالادست قرار دلوانے کی ضد چٹان کا روپ دھار چکی ہے مگر اس ادارے کے مکین اپنے کردار کا آئینہ دیکھنے سے خوف زدہ ہیں۔ ملک و قوم کی بجائے اب پارٹیوں اور شخصیات سے ’’وفاداری‘‘ کا کلچر سیاست کا طرہ امتیاز ہے اور اس کا اظہار کرنے میں سیاستدان کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ منشور کی سیاست بوریا بستر لپیٹ کر کب کی جا چکی ہے، اب ’’وفاداریاں‘‘ اور ’’یاریاں‘‘ ہیں، جن کے طفیل عہدوں کی خیرات بٹتی ہے۔ یہ سارے دجالی رویے روزانہ عوام کے شعور کے بند کواڑوں پر دستک دیتے ہیں مگر کیا کیجئے ہمارے کان بے شعوری کی روئی اور آنکھیں خوفزدہ کبوتر کی طرح بند ہیں۔
ہم عوام کس مشکل میں پھنس گئے کہ نجات کی راہ دیکھنے سے بھی معذور ہیں۔ قوم کے درد مند طبقے کی آہیں بے نتیجہ ہیں، کردار اور تقویٰ کی اعلیٰ مسندوں پر بیٹھنے والوں کی دعائیں بھی معلق ہیں، باکردار، باصلاحیت، دیانتدار اور پیشہ وارانہ مہارت میں کمال کے حاملین ملک کے لئے کچھ کر گزرنے کے جذبے کے باوجود بے بسی کے مجسمے ہیں۔ ملک کا بہترین دماغ بے قدری اور حالات سے مجبور ہو کر بیرونی دنیا کا رخ کر رہا ہے اور ملک ہے کہ آئینی تحفظ زدہ ڈاکوؤں کے رحم و کرم پر جو اسے نوچ رہے ہیں بھنبھوڑ رہے ہیں۔ عوام کے خون پسینے کی کمائی ڈالرز اور پاؤنڈز میں تبدیل ہو کر لٹیروں کی تجوریوں اور ان کے بیرونی اکائونٹس میں جا رہی ہے اور پہلے سے اربوں ڈالر ہزاروں روپے کے قرض میں جکڑے 18 کروڑ عوام کا بوجھ فی کس روزانہ کی بنیاد پر بڑھتا ہی جا رہا ہے۔
ہم میں سے اکثریت کی حالت یہ ہے کہ محلے میں کسی کی موت یا ملک میں ہونے والا بڑے سے بڑا سانحہ بھی آنکھوں میں آنسو اور دل میں ملال کی کیفیت پیدا نہیں کرتا اور ہم اپنے معمولات میں مگن و بے خود رہتے ہیں۔ پوری قوم بلاشبہ اللہ کی شدید ناراضگی کی گرفت میں ہے اسی لئے تو زندگی کی بنیادی ضروریات چھن رہی ہیں، محدود ہو رہی ہیں۔ اشیائے ضروریہ کا قحط ہے۔ بے روزگاری عام ہو چکی، لقمہ حلال کمانا مشکل ترین امر ہے۔ غربت و تنگدستی ہے کہ شکنجہ کس رہی ہے، دو وقت کی روٹی کے لئے انسان مشین بن کر صرف اپنے گھر تک محدود ہے اور دیگر خونی رشتوں سے تقریباً کٹتا جا رہا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اعمالِ بدحکمرانوں کی صورت مسلط ہیں اور ہم ہیں کہ بے بس اور مجبور!
ہمیں سنبھلنا ہو گا، رجوع الی اللہ اور رجوع الی القرآن کی پناہ لینا ہو گی کیونکہ ہم کمزور اور بے حیثیت اس کی قہاریت کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ ہمیں اپنی بے حیثیتی کا اقرار کر کے ندامت و شرمندگی کی وادیوں کی سیر کرنا ہو گی اور مولا کو منانے کے لئے ہر جتن کرنا ہو گا۔
اللہ تعالیٰ کی شان کریمی ہے کہ انسانوں کی تمام تر بداعمالیوں، کوتاہیوں کے باوجود بھی رحم اور معاف کرنے سے گریزاں نہیں ہوتا۔ ہر دور میں ایک اجتماعیت ایسی ہوتی ہے جو فسق و فجور اور تمام تر منفی رویوں کے خلاف شدید ترین مزاحمت کے باوجود اپنا سفر جاری رکھے ہوئے ہوتی ہے اور وہ ارتقائی عمل سے گزر کر فرعونی، شدادی اور یزیدی رحجانات والی قوتوں کو مکافات عمل کے گڑھے میں پھینک کر بالآخر مردہ ترین معاشروں میں بھی نہ صرف زندگی کی رمق پیدا کر دیتی ہے بلکہ ان کو اصلاح احوال کا شعور دے کر کھویا ہوا عروج بھی دوبارہ عطا کر دیتی ہے۔
پاکستان بلاشبہ تاریخ کے بدترین دور سے گزر رہا ہے مگر عوام کو حوصلہ نہیں ہارنا۔ انفرادی اور اجتماعی احتساب کے عمل سے گزر کر پھر سے قوم بننا ہے۔ اجتماعی توبہ ہماری اولین ترجیح بن جائے، ہر فرد برے اعمال سے تائب ہو کر اپنی ذات کی اندھیر نگری کو نور سے بھرنے کی سعی شروع کر دے، سربراہ گھر کے افراد اور خاندان کی اصلاح کا بیڑہ اٹھا لے۔ روزانہ رات کی تاریکی میں مصلے پر کچھ وقت گزار کر رب کو منانے کی محنت کی جائے، اخلاقی اقدار کی بحالی میں ہر شخص کردار ادا کرے۔ تحمل، برداشت، مواخات اور صلہ رحمی کے کلچر کو عام کیا جائے اور ملک کی تقدیر پر قابض لٹیروں سے نجات کے لئے موجودہ دور کی ایسی اجتماعیت کا حصہ بنا جائے جو صراط مستقیم کی طرف بلا رہی ہے، قرآن کے راستے پر چلنے کی صدا دے رہی ہے اور وہ اجتماعیت اللہ کے اس نظام کے نفاذ کے لئے موجودہ ظالمانہ استحصالی اور عوام کے حقیقی دشمن نظام کی تبدیلی کے لئے اپنا کردار ادا کر رہی ہے۔ اس وقت ظالمانہ نظام کی تبدیلی کے لئے ایک ہی آواز ہے جو عوام کو پکار رہی ہے۔ اخلاص نیت سے معمور یہ صدا احساس زیاں کو بیدار کر رہی ہے کیونکہ لٹ جانے کا شعور عوام کو قوم بناتا ہے اور تنزلی کی پاتال سے عروج کی سیڑھیاں چڑھاتا ہے۔ ہم خو ش نصیب ہیں کہ اسلاف کے عظیم واسطوں سے جڑی اس آواز کے ہمنوا ہیں۔ یہ ندا اس دور کے انعام یافتہ بندے عالم اسلام کے بطل جلیل شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی ہے جو مسائل کا باریک بینی سے ادراک بھی رکھتے ہیں اور ان کے دائمی حل کی مکمل پلاننگ اور س کے نفاذ کی صلاحیت بھی۔ بس ہمیں جدوجہد کو تیز تر کرنا ہے۔ اللہ کی مدد ضرور پہنچے گی ضرور پہنچے گی۔ (ان شاء اللہ)