اللہ تبارک وتعالیٰ کی طرف سے انسان کو نیکی اور بدی کے دونوں راستوں کا شعور عطا کیا گیا ہے۔ انسان کو نیکی کے راستے سے روکنے اور برائی کے راستے کو اختیار کرانے والی چیز خواہش نفس ہے جس پر انسان کا ازلی و ابدی دشمن شیطان بآسانی حملہ آور ہوتا ہے اور صراط مستقیم سے بھٹکانے کی ہرممکن کوشش کرتا ہے لیکن اگر انسان کی نفسانی خواہشات اللہ تعالیٰ کے احکام کے تابع رہیں تو وہ شیطان کے اندرونی حملے سے محفوظ رہتا ہے اور اگر یہ ہدایت ربانی کے تابع نہ رہیں تو پھر یہ انسان کو حیوانی سطح سے بھی نیچے گرا دیتی ہیں۔ خواہش نفس کے مقابلے میں ضبط نفس کی قوت حاصل کرنے کے لئے اور نفسانی خواہشات پر قابو پانے کے لئے اللہ تعالیٰ نے سال میں ایک ماہ صبح سے شام تک کھانے پینے اور وظیفہ زوجیت سے اجتناب کو لازمی اور فرض قرار دیا ہے جسے ماہ صیام سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ صیام صوم کی جمع ہے جس کا مطلب روزہ ہے۔ روزہ انسان کی انفرادی اور اجتماعی خوبیوں کے فروغ کا سبب بنتا ہے۔ روزے کا اصل مقصد انسان کی خواہشات کو احکام الہٰی کے تابع کر کے اسے متقی اور پرہیزگار بنانا ہے اور جو شخص ہر سال ایک ماہ تک صرف اللہ تعالیٰ کی رضا و خوشنودی کی خاطر اپنی بنیادی خواہشات کو قربان کر دے تو اسے وہ روحانی قوت و توانائی حاصل ہو جاتی ہے جس سے وہ اپنے ازلی و ابدی دشمن شیطان کی ہر ترغیب اور حملے کا بآسانی مقابلہ کر سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ روزہ دین اسلام کا وہ بنیادی رکن ہے جسے قرآن حکیم کی سورہ بقرہ کی درج ذیل آیت کریمہ کے مطابق سابقہ امتوں پر بھی فرض قرار دیا گیا تھا۔
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِينَ مِن قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ.
(البقره، 2 : 183)
’’اے ایمان والو! تم پر اسی طرح روزے فرض کیے گئے ہیں جیسے تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیے گئے تھے تاکہ تم پرہیزگار بن جاؤ‘‘۔
اس آیت کریمہ میں بطور خاص روزے کا مقصد بھی صراحت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے اور وہ تقویٰ کا حصول ہے۔ ایک روایت کے مطابق روزے کی فرضیت کا حکم دوسری صدی ہجری میں تحویل قبلہ کے واقعہ سے دس روز بعد ماہ شعبان میں نازل ہوا جس میں رمضان المبارک کو ماہ صیام قرار دیتے ہوئے ارشاد باری تعالیٰ ہے :
فَمَنْ شَهِدَ مِنْکُمُ الشَّهْرَ فَلْيَصُمْهُ.
(البقره، 2 : 185)
’’پس تم میں سے جو کوئی اس مہینہ کو پا لے تو وہ اس کے روزے ضرور رکھے‘‘۔
اس آیت مبارکہ کی روشنی میں روزہ ہر اس مسلمان اور مومن پر فرض قرار دیا گیا ہے جو اپنی زندگی میں اس ماہ عظیم کو پائے جبکہ اس سے پہلے یہود و نصاریٰ دس محرم الحرام یعنی یوم عاشورہ کا روزہ بڑے اہتمام سے رکھتے تھے۔ اسی طرح سابقہ امتیں ایام بیض (ہر قمری ماہ کی تیرہ، چودہ اور پندرہ تاریخ) کے تین روزے بھی رکھا کرتی تھیں۔ جلیل القدر انبیاء کرام کی نسبت کی وجہ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بھی ان روزوں کو رکھنے کا اہتمام فرمایا جو ہمارے لئے سنت قرار پایا۔ لہذا رمضان المبارک کے فرض روزوں کے علاوہ نفلی روزوں کی ادائیگی بھی تقویٰ کے حصول کا باعث ہے اور تقویٰ دل کی اس کیفیت کا نام ہے جو انسان کو برائیوں سے روکتی اور نیکیوں کی طرف راغب کرتی ہے۔
جب ایک مسلمان رمضان کے پورے مہینے میں کھانے پینے سے اجتناب کرتا ہے اور نفسانی خواہشات پر قابو رکھتا ہے اور دیگر اخلاقی برائیوں سے پرہیز کرتے ہوئے اپنا اکثر وقت عبادات اور نیک کاموں میں گزارتا ہے تو اس کی طبیعت میں نیکی کا ذوق پیدا ہوتا ہے اور اسے بدی سے نفرت پیدا ہوتی ہے، پھر اس روزے سے خواہشات پر قابو پانے کی مشق کے ساتھ ساتھ تکبر و غرور اور خود پسندی و انانیت کے خاتمے کا بھی موثر علاج ہو جاتا ہے۔ جب ایک مسلمان بھوک اور پیاس کی شدت میں کھانے پینے کی اشیاء سامنے ہوتے ہوئے بھی رضائے الہٰی کی خاطر اپنا ہاتھ کھینچ لیتا ہے تو یہی صبر و رضا اسے دنیا و آخرت میں کامیابی و کامرانی کی منزل پر فائز کر دیتا ہے۔
اسی حقیقت کو حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حدیث مبارکہ میں یوں ارشاد فرمایا :
من صام رمضان ايمانا واحتسابا غفرله ما تقدم من ذنبه.
(صحیح بخاری)
’’جس شخص نے ایمان اور احتساب (طلب ثواب اور اخلاص) کے ساتھ رمضان کا روزہ رکھا اس کے پچھلے گناہ معاف کر دیئے جاتے ہیں‘‘۔
ایک روایت کے الفاظ یوں ہیں :
من قام رمضان ايمانا واحتسابا خرج من ذنوبه کيوم ولدته امه.
(سنن نسائی)
’’جس نے ایمان اور احتساب سے رمضان کے روزے رکھے وہ گناہوں سے اس طرح پاک ہو جاتا ہے جس طرح ابھی ماں کے پیٹ سے پیدا ہوا ہے‘‘۔
جو روزے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرمان کے مطابق اللہ تعالیٰ سے طلب ثواب اور اخلاص سے رکھے جاتے ہیں اس کے ثواب کا اندازہ درج ذیل حدیث مبارکہ سے لگایا جا سکتا ہے۔
کل عمل ابن ادم يضاعف الحسنة لعشرا امثالها الی سبع مائة ضعف قال الله تعالیٰ الا الصوم فانه لی وانا اجزی به.
(صحيح مسلم)
’’آدمی کے ہر عمل کا ثواب (اللہ تعالیٰ کے ہاں) دس گناہ سے لے کر سات سو گناہ تک ہو جاتا ہے (لیکن روزے کی تو بات ہی کچھ اور ہے) اللہ تعالیٰ فرماتا ہے مگر روزہ تو خاص میرے لئے ہے اس لئے اس کا ثواب میں اپنی مرضی سے جتنا چاہوں گا دوں گا‘‘۔
اسی طرح ایک اور حدیث مبارکہ میں ایمان اور احتساب سے رکھے گئے روزوں کا اجر ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے :
من فطر فيه صائما کان مغفرة لذنوبه وعتق رقبته من النار وکان له مثل اجره من غير ان ينتقص من اجره شيئا.
(سنن ابن ماجه)
’’جو شخص اس (رمضان) میں کسی روزہ دار کو افطار کرائے گا اس کے گناہوں کے لئے معافی ہے اور وہ خود کو نار جہنم سے بچالے گا اور اسے روزہ دار جتنا ہی ثواب ملے گا جبکہ اس روزہ دار کے اپنے ثواب میں کوئی کمی واقع نہیں ہوگی‘‘۔
ایک روایت میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ بھی ارشاد فرمایا :
لصائم فرحتان يفرحهما اذا افطر فرح، واذا لقی ربه فرح بصومه.
(صحيح البخاری)
’’روزہ دار کے لئے دو خوشیاں ہیں ایک افطار کے وقت اور دوسری اپنے رب سے ملاقات کے وقت‘‘۔
لمحہ فکریہ ہے آج ہمیں اپنے گریبانوں میں جھانک کر جائزہ لینا ہوگا کہ ہمارے روزوں کے وہ فیوض و برکات ظاہر نہیں ہوتے جن کا ہم اوپر تذکرہ کر چکے ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہم روزے کے اصل مقصد، حصول تقویٰ اور ضبط نفس سے بے خبر ہیں اور اس کے اہم ترین ارکان ایمان اور احتساب دونوں سے غافل ہیں۔ یہ اسی طرح ہے جیسے آج ہماری پنجگانہ نمازوں میں ریاکاری اور دکھلاوا ہے۔ اسی طرح آج ہمارے روزے بھی نمائشی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج ہمیں اپنے روزوں سے سوائے بھوک اور پیاس کی اذیت کے کچھ بھی حاصل نہیں ہوتا۔ اسی بات کو حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی ایک حدیث میں یوں ارشاد فرمایا تھا :
من لم يدع قول الذور والعمل به فليس لله حاجة فی ان يدع طعامه وشرابه.
(صحيح البخاری)
’’اگر کوئی شخص روزہ رکھ کر بھی جھوٹ اور غلط کاریوں سے نہیں بچتا تو اس کا کھانا پینا چھڑانے سے اللہ کو کوئی سرو کار نہیں‘‘۔
جس طرح میدان جنگ میں غازی کے ہاتھ میں ڈھال ہوتی ہے۔ روزہ بھی جہنم کی آگ سے بچانے کے لئے ڈھال کا کام دیتا ہے۔ جس کے بارے میں حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
الصوم جنة من النار کجنة احدکم من القتال.
(سنن نسائی)
’’روزہ جہنم کی آگ سے ڈھال ہے جیسے تم میں سے کسی شخص کے پاس لڑائی کی ڈھال ہو‘‘۔
روزہ دار اگر اپنے روزے کو اس کے تمام تر تقاضوں کے ساتھ پورا کرے تو روحانی طاقت کے ساتھ ساتھ اسے وہ جسمانی طاقت بھی نصیب ہو جاتی ہے جس کا ذکر اس ایمان افروز حدیث مبارکہ میں کیا گیا ہے۔
جس میں آقا علیہ الصلوۃ والسلام نے ارشاد فرمایا :
والذی نفس محمد بيده لخلوف فم الصائم اطيب عندالله يوم القيمة من ريح المسک.
(صحيح مسلم)
’’قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں محمد(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی جان ہے روزہ دار کے منہ کی ہوا اللہ کے نزدیک قیامت کے دن مشک کی خوشبو سے بھی زیادہ بہتر ہے‘‘۔
روزہ دار کو باری تعالیٰ کی طرف سے منفرد انعامات عطا کئے گئے جو صرف روزہ دار کا خاصہ ہیں اور جن میں دوسرے عبادت گزار شریک نہیں ہوں گے۔ اس انفرادیت پر روزہ دار قابل رشک بن گئے۔ آقا علیہ السلام نے فرمایا :
اذا دخل شهر رمضان فتحت ابواب الجنة وغلقت ابواب جهنم وسلسلت الشيطين.
(صحيح البخاری)
’’جب رمضان کا مہینہ داخل ہو جاتا ہے تو آسمان کے دروازے کھل جاتے ہیں اور جہنم کے دروازے بند کر دیئے جاتے ہیں اور شیاطین کو پابہ زنجیر کر دیا جاتا ہے‘‘۔
شیطانوں کو زنجیروں سے جکڑنے کا مفہوم یہ ہے کہ شیاطین روزہ داروں کو بہکانے، پھسلانے اور وسوسہ اندازی کرنے سے باز رہتے ہیں۔
بخاری شریف کی ایک اور حدیث میں باری تعالیٰ کی طرف سے روزہ داروں کو ایک خاص تحفہ اور ایک خاص جود و کرم اور ایک خاص انعام عطا کیا گیا ہے جو صرف انہی کا خاصہ ہے۔ جس پر امت مصطفوی باری تعالیٰ کا جتنا بھی شکر بجا لائے اتنا ہی کم ہے۔ حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے ارشاد فرمایا :
ان فی الجنة بابا يقال له الريان يدخل من الصائمون يوم القيمة لا يدخل منه احد غيرهم.
(صحيح البخاری)
’’جنت میں ایک دروازہ ہے جس کا نام ریان ہے۔ قیامت کے روز اس میں صرف روزہ دار داخل ہونگے اس کے علاوہ اس میں کوئی دوسرا (عبادت گزار) داخل نہیں ہو سکے گا‘‘۔
روزہ کے اجتماعی فوائد
روزہ ایک انفرادی عبادت ہے مگر ایک ہی وقت میں جب جملہ مومنین و مومنات اور مسلمین و مسلمات روزہ دار ہوتے ہیں تو اس کے کئی اجتماعی فوائد نظر آتے ہیں جن میں سے چند ایک درج ذیل ہیں :
1۔ جذبہ ہمدردی (Sympathetic Feelings)
پورا مہینہ بھوکا پیاسا رہنے والے انسان کے اندر جہاں دوسروں کی بھوک و پیاس کا احساس پیدا ہوتا ہے وہاں اس کے دل میں غریبوں، مسکینوں، یتیموں، بیواؤں، ناداروں اور نان شبینہ سے محروم دیگر افراد کے لئے ہمدردی، خیر خواہی اور مدد کرنے کا جذبہ بھی پیدا ہوتا ہے۔
2۔ قناعت و ایثار کی عادت (Habit of Contenment)
جب ایک مسلمان ماہ رمضان میں کم غذا استعمال کرنے کا عادی بن جاتا ہے تو اس کے اندر باقی گیارہ مہینوں میں بھی ایثار و قربانی اور قناعت کی خصوصیات پیدا ہوجاتی ہیں اور وہ ہمیشہ اپنی ذات پر دوسروں کی حاجات اور ضروریات کی تکمیل کو ترجیح دیتا ہے۔ اس کے اندر یہ تبدیلی روزے کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے۔
3۔ روحانی اتحاد و یگانگت (Spiritual Unity)
ایک ہی وقت میں مسلمانان عالم کا ایک عبادت میں مصروف رہنے سے ان کے درمیان باہمی محبت، الفت، اخوت و بھائی چارہ اور روحانی اتحاد و یگانگت پیدا ہوتی ہے۔ یہ چیز اتفاق و اتحاد، امن و سکون اور رواداری کے فروغ کا باعث بنتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نبی آخرالزماں آقائے دو جہاں صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ماہ رمضان کو غمگساری اور مواخات کا مہینہ قرار دیا ہے جس کا حقیقی طور پر عملی مظاہرہ ہمیں رمضان المبارک میں نظر آتا ہے۔
4۔ جسمانی صحت (Health Welfare)
ہر کام کی زیادتی بری ہوتی ہے لہذا جسم انسانی کو بھی اعتدال و میانہ روی کی عادت ڈالنے کے لئے ایک ماہ کے لئے کم غذا پر اکتفا کرنا پڑتا ہے۔ میڈیکل نکتہ نظر سے ایک ماہ تک دن کے بڑے حصے میں معدے کا خالی رہنا صحت جسمانی کے لئے نہایت مفید قرار دیا گیا ہے۔ لہذا روزہ جسمانی صحت کو برقرار رکھنے کا ذریعہ بنتا ہے اور عمر میں اضافے کا بھی باعث ہے۔
5۔ بخشش و مغفرت (Forgiveness and salvation)
روزے کا سب سے بڑا فائدہ اخروی فائدہ ہے جو اس کی بخشش و مغفرت اور نجات کا باعث ہے۔ رحمۃ للعلمین سرور کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے رضائے الہٰی کی خاطر رکھے گئے روزوں کو سابقہ گناہوں کے خاتمے اور جنت الفردوس میں داخلے کا ذریعہ قرار دیا ہے۔
رمضان المبارک میں روزے جیسی عظیم عبادت کا اگر دیگر فرض عبادتوں سے فوائد کے حوالے سے تقابل کیا جائے تو درج ذیل اہم پہلو روز روشن کی طرح عیاں نظر آتے ہیں۔
- روزوں کی جزا دینے کا وعدہ خود باری تعالیٰ نے فرمایا ہے۔
- روزے سے انسان کے اندر اللہ رب العزت کی بعض صفات پیدا ہوتی ہیں کیونکہ وہ خود کھانے اور پینے اور دیگر علائق بشری سے کلیۃً پاک و صاف ہے۔
- روزے سے انسان اپنے اندر ملائکہ اور ارواح کی صفات محسوس کرتا ہے جیسے فرشتے اور روح نظر نہیں آتے روزہ بھی نظر نہیں آتا بلکہ اس کا معاملہ اللہ تعالیٰ اور بندے کے درمیان ہوتا ہے۔
- دیگر عبادتوں کے ثواب اور انعام کو باری تعالیٰ نے ہم پر ظاہر کر دیا ہے مگر روزے کے اجر اور انعام کو ظاہر نہیں فرمایا جسے وہ قیامت کے دن ظاہر فرمائے گا۔
- روزہ وہ خالص عبادت ہے جس میں تصنع، بناوٹ اور ریاکاری کا شائبہ نہیں جبکہ دیگر عبادات اس سے خالی نہیں۔
- باقی عبادات کسی نہ کسی شکل میں دیگر مذاہب میں اس طرح بھی پائی جاتی تھیں جس سے غیر اللہ کی عبادت کی جاتی تھی مگر خالص روزہ ایسی عبادت الہٰی ہے جس کے ساتھ کبھی غیر اللہ کی عبادت نہیں ہوئی۔ اس لئے روزہ اللہ تعالیٰ کو زیادہ مرغوب اور پسندیدہ ہے۔
- نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نفس انسانی کے خلاف جہاد کو جہاد اکبر قرار دیا ہے۔ روزے کا مقصد نفس پر کنٹرول اور غلبہ حاصل کرنا ہے جبکہ دیگر عبادتوں میں اس قدر مشقت اور اور نفس کشی نہیں ہوتی۔
- صرف روزہ ایسی باطنی عبادت ہے جو لوگوں سے پوشیدہ ہے۔ اس کا معاملہ صرف اللہ تعالیٰ کے ساتھ ہے جبکہ دیگر عبادتوں کا زیادہ تر تعلق ظاہر کے ساتھ ہے اور باطن کو ظاہر کے مقابلے میں فوقیت حاصل ہے کیونکہ جب تک اقرار باللسان کے ساتھ تصدیق بالقلب نہ ہو انسان کا ایمان مکمل نہیں ہوتا۔ لہذا روزہ سے انسان کمال کی طرف بڑھتا ہے جو اس عبادت کا خاصہ ہے۔