سیدہ خدیجۃ الکبرٰی رضی اللہ عنہا روئے زمین پر سب سے پہلے نبوت محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تصدیق کرنے والی ہستی تھیں جنہوں نے فہم و فراست، تد بر و حکمت، ایثار و قربانی، خدمت اور دلسوزی کے ایسے روشن مینار قائم کئے جنکی نورانی شعاعوں سے رہتی دنیا تک پوری دنیا جگمگاتی رہے گی۔ آپ رضی اللہ عنہا مختلف تاریخی روایات کے مطابق عام الفیل سے پندرہ برس قبل یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اعلانِ نبوت سے پچپن سال پہلے یا سن ہجری سے تر یسٹھ سال قبل پیدا ہوئیں۔ آپ رضی اللہ عنہا قبیلہ قریش کی ایک نہایت معزز شاخ بنی اسد سے تعلق رکھتی تھیں۔ یہ خاندان اپنی شرافت اور کاروبا ری معاملات میں ایمان داری کے حوالے سے مشہور تھا۔ آپ رضی اللہ عنہا کے والد کا نام خویلد بن اسد جبکہ والدہ کا نام فاطمہ بنت زائدہ تھا۔ آپ رضی اللہ عنہا کا سلسلئہ نسب اس طرح بیان کیا جاتا ہے: خدیجہ رضی اللہ عنہا بنت خویلد بن اسد بن عبد العزٰی بن قصی، قصی سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جد امجد تھے۔
حضرت قتادہ رضی اللہ عنہا کے قول کے مطابق حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی پہلی شادی عتیق بن عائد مخزومی سے ہوئی جس سے کوئی اولاد نہ ہو ئی۔ اس کے انتقال کے بعد آپ رضی اللہ عنہا کی دوسری شادی ابو ھالہ ہند بن نباش تمیمی سے ہوئی جس سے تین لڑکے ہند، ھالہ اور طاہر پیدا ہو ئے۔ کچھ عرصے بعد ابو ھالہ بھی دنیا سے رخصت ہو گئے۔ آپ رضی اللہ عنہا کا تیسرا نکاح آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ہوا۔
ابو ھالہ کی وفات کے بعد آپ رضی اللہ عنہا کی پوری توجہ کاروبار کی طرف تھی۔ وہ کسی مرد کو سامان تجارت مقررہ اجرت پر یا مضاربت کے اصول کے تحت حصے پر دے دیتیں۔ اس مقصد کے لئے انھیں ہر وقت ایسے شخص کی تلاش رہتی جو شریف النفس ہو، صادق ہو اور جس کی امانت و دیانت پر بھروسہ کیا جا سکے۔ جب آپ رضی اللہ عنہا نے آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شہرت سنی تو ایک آدمی کے ذریعے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس پیغام بھیجا کہ اگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میرا سامان تجارت لے کر شام جائیں تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دو گناہ معاوضہ دوں گی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس پیشکش کو قبول فرما لیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سامان تجارت فروخت فرمایا تو خلاف توقع بہت زیادہ منافع ہوا۔ شام کے سفر سے جب یہ قافلہ مکہ سے واپس پہنچا تو دوپہر کا وقت تھا۔ سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا اس وقت اپنے گھر کی بالائی منزل پر تھیں۔ انھوں نے دیکھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے اونٹ پر سوار چلے آ رہے ہیں اور دو فرشتے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر سایہ کئے ہوئے ہیں۔ علاوہ ازیں آپ کے غلام میسرہ نے بھی جو حضور علیہ السلام کی خدمت پر مامور تھا راستے میں پیش آنے والے معجزات سے اپنی مالکہ حضرت سیدہ خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا کو آگاہ کیا۔
قریش کا ہر وہ شخص جو نکاح کے قابل تھا، آپ رضی اللہ عنہا سے نکاح کا خواہشمند تھا اور مکہ کے اکثر نامور اور بااثر سرداروں نے اپنی اس خواہش کو باضابطہ طور پر آپ رضی اللہ عنہا تک پہنچایا بھی تھا مگر آپ رضی اللہ عنہا نے قبول کرنے سے انکار کر دیا لیکن جب آپ رضی اللہ عنہا نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مبارک، مقدس اور ہر دلعزیز شخصیت کو دیکھا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نکاح کا فیصلہ کر لیا۔ آپ رضی اللہ عنہا نے اپنی قابل اعتماد سہیلی نفیسہ کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رائے معلوم کرنے کے لئے بھیجا اور پیغام نکاح دیا۔ جسے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قبول فرما لیا چنانچہ آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جانب سے ان کے چچاؤں اور بزرگ رشتہ داروں جن میں حضرت ابو طالب رضی اللہ عنہ اور حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ بھی شامل تھے نے شرکت کی جبکہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی طرف سے ورقہ بن نوفل، آپ رضی اللہ عنہا کے چچا عمرو بن اسد وغیرہ نے شرکت کی۔ اکثر روایات کے مطابق بیس اونٹ اور بعض روایات کے مطابق چار سو طلائی دینار بطور حق مہر اسی وقت ادا کئے گئے جبکہ نکاح کے بعد ولیمے کا اہتمام کیا گیا جس کے لئے دو اونٹ ذبح کئے گئے۔
آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے متعلقین کے ساتھ آپ رضی اللہ عنہا کی اتنی محبت اور شفقت تھی کہ جس کی مثال ملنا مشکل ہے۔ حضرت حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنہا جنہوں نے بچپن میں آنحضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دودھ پلایا تھا، ایک مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آئیں اور شکایت کی کہ قحط سالی نے انھیں بری طرح متاثر کیا ہے اور تمام مویشی ہلاک ہو چکے ہیں۔ آپ رضی اللہ عنہا نے ان کو چالیس بکریاں اور سامان سے لدا ہوا ایک اونٹ مرحمت فرمایا۔
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی قوم کی جہالت اور کفر دیکھ کر کڑھتے رہتے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے بے جان اور بے وقعت بتوں کی پرستش ہوتی، لڑکیوں کو زندہ دفن کر دیا جا تا، کسی کی جان، مال اور آبرو محفوظ نہ تھی، معاشرے میں ظلم و ستم اور فساد عام تھا اور یہ تمام رویے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طبیعت پر بڑا بوجھ تھے لہذا ان مسائل کے متعلق گہری سوچ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خلوت نشینی کی طرف مائل کر دیا لہذا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مکہ سے تین میل دور غار حرا میں تشریف لے جا تے اور مسلسل کئی کئی دن عبادت و ریاضت اور مراقبے میں گزار دیتے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کھانے کا سامان ساتھ غار حرا لے کر جاتے اور جب سامان ختم ہو جاتا تو گھر واپس تشریف لے آتے۔ سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا پھر چند روز کا سامان مہیا کر دیتیں اور یہ سلسلہ کئی سال تک جا ری رہا۔ آخر کار ماہ رمضان المبارک عام الفیل کی ایک رات جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم غار حرا میں مصروف عبادت تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر پہلی وحی نازل ہو ئی۔ اس واقعے سے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایک عجیب کیفیت طاری ہو گئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کانپتے اور لرزتے گھر تشریف لائے اور حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا کہ مجھے کمبل اڑھاؤ۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کمبل اوڑھا دیا گیا۔ جب خوف اور حیرت کی کیفیت ذرا کم ہوئی تو سارا واقعہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کو سنا دیا اور فرمایا کہ مجھے اپنی جان کا ڈر ہے۔ اللہ رب العزت نے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کو وہ ذہانت و فطانت اور معاملہ فہمی عطا فرمائی کہ سارا وا قعہ سنتے ہی حقیقت سمجھ گئیں اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تسلی دیتے ہوئے فرمایا کہ’’ہرگز نہیں! آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خوش ہو جائیے۔ خدا کی قسم! اللہ تعالیٰ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کبھی رسوا نہ کرے گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رشتہ داروں سے نیک سلوک کرتے ہیں، سچ بولتے ہیں، امانتیں ادا کرتے ہیں، بے سہارا لوگوں کا بوجھ برداشت کرتے ہیں اور نادار لوگوں کو کما کر دیتے ہیں۔‘‘ آپ رضی اللہ عنہا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنے چچا زاد بھائی ورقہ بن نوفل کے پاس لے گئیں جو بت پرستی چھوڑ کر عیسائیت قبول کر چکے تھے جو ایک جید عالم تھے اور انجیل کی کتابت کرتے تھے۔ انہوں نے سارا ماجرا سن کر کہا : ’’یہ وہی عالم بالا سے وحی لانے والا فرشتہ ہے جو حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پاس وحی لے کر آیا تھا۔۔۔۔۔ کاش میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ نبوت میں موجود ہوتا۔ کاش ! میں اس وقت تک زندہ رہوں جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قوم آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو شہر سے نکال دے گی۔‘‘
سیدہ خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفا شعار رفیقہ حیات تھیں جو ہر موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ڈھارس بندھاتیں اور سکون و اطمینان کا باعث بنتیں۔ جس خوش بخت ہستی کو سب سے پہلے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نبوت کی تصدیق کرنے کی سعادت حاصل ہوئی وہ تمام مسلمانوں کی باعظمت ماں حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا ہیں۔ سیدہ رضی اللہ عنہا کے اس جرات مندانہ اقدام نے خوا تین کے عز و شرف میں وہ چار چاند لگا دیے جن کی نورانی کرنیں خواتین کی حرمت و وقار کو تا ابد درخشندہ بنائے رکھیں گی۔ سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا نے اپنے گھر میں لطف و کرم، انسانی ہمدردی، خیر خواہی، حق پسندی و حق دوستی، بے لوثی و بے غرضی کی مثالیں قائم کیں کہ جہاں ہر لمحہ انوار و تجلیات الہی کی سہانی سہانی شعاعیں ضیاء پاش رہتی تھیں۔
آپ رضی اللہ عنہا کی زندگی صرف اپنے گھر تک محدود نہ تھی بلکہ آپ رضی اللہ عنہا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے انقلابی سفر میں شانہ بشانہ تھیں۔ آپ رضی اللہ عنہا نے اپنا گھر، اپنا مال حتیٰ کہ ہر چیز آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حوالے کر دی کہ دین کی تبلیغ کے لئے اسے استعمال کر سکیں۔ اہل قریش نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھیوں کو ختم کرنے کے لئے بائیکاٹ کا فیصلہ کیا اور ایک دستاویز تیار کی کہ جب تک بنی ھاشم اور بنی مطلب محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو قتل کے لئے ان کے حوالے نہیں کرتے اس وقت تک ان سے میل جول، بیاہ شادی، لین دین اور بول چال کا کوئی تعلق نہیں رکھا جائے گا۔ شعب ابی طالب میں تنگی و عسرت، قید و بند اور فاقہ کشی کا یہ ہولناک دور تین سال تک جا ری رہا۔ اور ام المومنین حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا نے ابتلاء و آزمائش کا یہ سخت ترین دور بڑے صبر اور حوصلے سے گزارا، حق کی راہ میں آنے والی تمام مشکلات، تکلیفیں اور پریشانیاں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خاطر خندہ پیشانی سے برداشت کیں۔ مکہ کی خوشحال ترین خاتون اپنے رفیق حیات کے ساتھ پیکر تسلیم و رضا بنی ہوئی تھیں اور ایسے لمحات میں بھی مصیبت میں مبتلا افراد کو دلاسا دینے اور ان کا حوصلہ بلند کرنے کی کوشش میں مصروف تھیں۔
تین سال بعد مقاطعے کا خاتمہ ہو گیا لیکن اس دوران آپ رضی اللہ عنہا کی صحت بہت بگڑ گئی اور آپ رضی اللہ عنہا سخت بیمار ہوگئیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کے علاج معالجے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی مگر اللہ کو کچھ اور ہی منظور تھا لہذا امت مسلمہ کی یہ شفیق و رحیم اور عظیم ماں 10 رمضان المبارک بعد از بعثت نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وصال فرما گئیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے دست مبا رک سے لحد میں اتارا۔ نماز جنازہ ادا نہیں کی گئی کیونکہ اس وقت تک نماز جنازہ کے احکام نازل نہیں ہوئے تھے۔
سیدہ خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا کی فنائیت و فدائیت اور اخلاص کا اللہ رب العزت کے ہاں یہ عالم تھا کہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب ’صحیح بخاری‘ میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت نقل کی ہے کہ جبرائیل علیہ السلام نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہنے لگے کہ خدیجہ رضی اللہ عنہا ابھی ابھی ایک برتن میں کھانے پینے کی کچھ چیزیں لے کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آئیں گی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان سے رب العالمین کا سلام کہہ دیجیئے اور میرا سلام بھی ان کی خدمت میں پہنچا دیجئیے۔ انھیں جنت کے ایک ایسے محل کی بشارت بھی دیجیے جو خالص مروارید سے تیار کیا ہوا ہو گا اور اس میں کسی قسم کا رنج و الم نہ ہو گا۔
حضرت خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا فطری طور پر شرافت اور پاکیزگی و طہارت کا مجسمہ تھیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ شادی کے وقت سیدہ رضی اللہ عنہا چالیس برس کی تھیں اور بیوہ بھی لیکن ان کی پسندیدہ شخصیت، ان کے وفادارانہ طرز عمل اور انکی دلنشیں عادات و اطوار نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دل میں محبت و انسیت کا گہرا نقش ثبت کر دیا تھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کی موجودگی میں پوری ربع صدی تک کسی اور خاتون سے نکاح کا خیال تک نہ کیا اور آپ رضی اللہ عنہا کے وصال کے بعد بھی ان کی یاد اور ان سے محبت کا یہ لافانی سلسلہ بدستور قائم رہا۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی 25 سالہ رفاقت نے ان کی خوبیوں کو اتنا نکھار دیا کہ ان کی روشن اور درخشندہ سیرت قیامت تک پوری انسانیت کے لئے مینارہ نور بنی رہے گی۔
تا حشر!خوشا!سرور کونین کے ہمراہ
زندہ ہے ہر آن تیرا نا م خدیجہ
اسلام کو طا قت تیرے ایثار نے بخشی
خوب تیری خدمتِ اسلام خدیجہ