ن لیگ کی حکومت اپنی آئینی مدت کے 5سال مکمل کر چکی، ن لیگ نے 5 سال قبل جب اقتدار سنبھالا تو قوم سے یہ وعدہ کیاگیا تھا کہ سوسائٹی کے پسماندہ طبقات کی بہبود کیلئے زیادہ سے زیادہ قومی وسائل استعمال کیے جائینگے، غربت اور مہنگائی کو کنٹرول کیا جائیگا، بالخصوص خواتین کی فلاح و بہبود کیلئے خصوصی منصوبے دئیے جائینگے، اس کے علاوہ تعلیم، صحت اور روزگار کی فراہمی کو اہمیت دینے کا اعلان کیا گیا تھا مگر افسوس 5سال گزر جانے کے بعد ن لیگ کے ذمہ داران اپنے جلسے، جلوسوں میں بڑی بڑی سڑکیں، پلیں اور موٹرویز کی تعمیر کا ذکر کرتے ہیں اور ان پر اتراتے ہیں لیکن وہ عام آدمی کی فلاح و بہبود کیلئے بروئے کار لائی گئی پالیسیاں اور ان کے ثمرات و نتائج کے بارے میں کوئی بات نہیں کرتے، اس امر میں کوئی شبہ نہیں کہ شاندار انفراسٹرکچر ملکوں اور قوموں کی ترقی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں لیکن جس ملک کے عوام تعلیم، صحت،انصاف، تحفظ اور روزگار جیسی بنیادی ضروریات اور سہولیات سے محروم ہوں وہاں موٹرویز، میٹروبسیںاور اورنج ٹرینوں جیسے فینسی منصوبے قابل ستائش قرار نہیں پا سکتے، ن لیگ نے پانچ کی بجائے 6 بجٹ پیش کیے، ہزاروں ارب روپے کے قومی وسائل عوام کو بنیادی سہولیات کی فراہمی کیلئے صرف کیے لیکن اگر ہم تعلیم کے شعبے کو دیکھتے ہیں تو 2013ء میں پاکستان کی قومی سطح پر شرح خواندگی 58 فیصد نظر آتی ہے توآج 5 سال کے بعد بھی سرکاری اعداد و شمار اور اقتصادی میزانیے بتارہے ہیں کہ شرح خواندگی 58 فیصد ہی ہے، اسی طرح مہنگائی کی شرح بھی کم ہونے کی بجائے بڑھی، 70 سال میں لیے گئے غیر ملکی قرضے ایک طرف اور ن لیگ کے دور حکومت میں لیے گئے قرضے ایک طرف ہیں۔ رخصت ہونے والے حکمرانوں نے انتخابی مہم کے دوران اعلان کیا تھا کہ وہ اشیائے خور و نوش کی قیمتیں اپنے پہلے دور یعنی 1997ء کی سطح پر لائیں گے لیکن ن لیگ کے دور حکومت میں اشیائے خور و نوش کی قیمتوں میں 100 فیصد اضافہ ہوا، مہنگائی کا سب سے زیادہ شکار گھریلو خواتین ہوتی ہیں، جنہوں نے گھر کا بجٹ تشکیل دینا ہوتا ہے، جب مہنگائی ہوتی ہے تو اس کے منفی اثرات ملکی امن و امان کے ساتھ ساتھ گھر کے امن و امان پر بھی پڑتے ہیں، گھریلو ناچاقیوں کی سب سے بڑی وجہ کم آمدنی اور غربت ہے، جب چند ہزار روپے کمانے والے ایک خاندان کو یکایک آٹا، چینی، دالیں، بجلی، گیس 10 یا 20 فیصد مہنگی ملیں تو اس گھر کا نظم و ضبط اور امن و سکون برباد ہو کر رہ جاتا ہے۔ ن لیگ نے اپنے پانچ سالہ دور حکومت میں جہاں بہت سارے ظلم کیے وہاں ایک ظلم مہنگائی کو کنٹرول نہ کرنا بھی تھا، 2013ء میں روزمرہ کی اشیاء جن میں دودھ، چاول، دالیں، سبزیاں، گھی، چکن، گوشت شامل ہے میں 50 سے 60 فیصد اضافہ ہوا، 2013ء میں خالص دودھ 65 روپے سے 70 روپے کلو دستیاب تھا جو آج 100 روپے سے 110 روپے کلو میں دستیاب ہے، 2013ء میں چکن 160 روپے سے نیچے تھا جو آج پونے تین سو روپے کلو بک رہا ہے، اسی طرح دالوں، سبزیوں کی قیمتوں میں بھی ہوشربا اضافہ ہو چکا ہے، ن لیگ نے گندم کے گھر پنجاب میں روٹی 2 روپے میں بیچنے کا اعلان کیا تھا اور مسلسل دس سال حکومت کرنے کے بعد آج روٹی 6 سے 8 روپے اور نان 10 سے 15 روپے میں بک رہا ہے۔ بہرحال گزرے ہوئے پانچ سال پاکستان کی تاریخ کے سیاہ ترین سال ہیں، ان سالوں میں خواتین کی بہبود کے نام پر دھوکہ دہی کی گئی، آج مردوں کی نسبت خواتین زیادہ ناخواندہ ہیں، پڑھی لکھی ہونے کے باوجود زیادہ بیروزگار ہیں، زیادہ غیر محفوظ ہیں۔ سٹریٹ کرائم کا سب سے زیادہ شکار ہیں، ن لیگ کے دور حکومت میں خواتین اراکین اسمبلی کا بھی استحصال کیا گیا، انہیں مردوں کی نسبت کم تر ممبر آف اسمبلی کا سٹیٹس دیا گیا۔ خواتین کو بنیادی تعلیم فراہم کرنے کا کوئی ایک بھی قابل عمل تعلیمی منصوبہ پیش کرنے میں حکمران ناکام رہے بالخصوص پسماندہ اضلاع میں جن میں جنوبی پنجاب سرفہرست ہے۔ یہاں خواتین کو بری طرح نظر انداز کیا گیا، چار کروڑ کے لگ بھگ آبادی والے اس خطہ میں آج بھی بچیوں کیلئے سرکاری سکولوں کی تعداد 8 ہزار سے کم ہے اور ان سرکاری سکولوں میں صرف اڑھائی لاکھ بچیاں پڑھتی ہیں اگر نجی شعبہ کے سکولوں کے کردار کو مائنس کر دیاجائے تو سرکاری شعبہ تعلیم کا وجود آٹے میں نمک کے برابر بھی نظر نہیں آئے گا۔ ن لیگ کے 2013ء سے مئی 2018ء تک قائم رہنے والے عرصہ اقتدار کو بہت سارے افسوسناک واقعات کے تناظر میں یاد کیا جائیگا ان میں ایک سانحہ ماڈل ٹاؤن ہے۔ سانحہ ماڈل ٹاؤن ن لیگ کے دور حکومت میں وقوع پذیر ہونے والا ایک ایسا سانحہ ہے جو رہتی دنیا تک شریف برادران کے ماتھے پر کلنگ کی طرح چپکا رہے گا، ن لیگ کے دور حکومت میں ماڈل ٹاؤن میں قوم کی دو بیٹیوں تنزیلہ امجد اور شازیہ مرتضیٰ کو شہید کیا گیا، ہمارا ایمان ہے کہ قوم کی ان بیٹیوں کے قاتل اس دنیا میں بھی عبرتناک انجام سے دو چار ہونگے اور آخرت میں بھی رسوا ہونگے۔