اللہ کے لیے ضبط نفس، گوشہ تنہا ئی میں سب سے کنارہ کشی اور علائق دنیا سے بے رغبتی کے عملی اظہار کا نام اعتکاف ہے۔ چونکہ سبھی انسان اس مزاج وفطرت کے مالک نہیں ہوتے کہ سب سے ناطہ توڑ کہ کسی کونے میں مالک حقیقی سے لو لگا لیں بلکہ مخصوص افراد کو ہی یہ سعادت نصیب ہوتی ہے اسی لیے اعتکاف فرض نہیں کیا گیا۔ اب کسی شخص کی مرضی پر منحصر ہے کہ آخری دس دنوں میں اعتکاف کر لے تاکہ حق تبارک وتعالی کے ساتھ محبت کرنے کی عملی تربیت حاصل کر سکے۔ ذیل میں ہم اعتکاف کی شرعی حیثیت، اجتماعی اعتکاف کی شرعی حیثیت اور اعتکاف کے چند ضروری مسائل زیر بحث لائیں گے۔
لغوی تحقیق
اس کا مادہ عکف ع ک ف ہے۔ اقبل علیه مواظبا لا یصرف عنه وجهه کسی چیز کی طرف متوجہ ہونا، اس سے رخ نہ موڑنا، اس پر کھڑے ہونا۔ ۔ ۔ ۔ الاقامة فی المسجد مسجد میں مقیم ہونا۔ ۔ ۔ عاکفون، مقیمون فی المساجد لا یخرجون منها الّا الحاجة الانسان یصلّی فیه ویقرؤ االقرآن اعتکاف کرنے والے، مسجدوں میں ٹھہرنے والے انسانی ضروریات کے علاوہ باہر نہ نکلنے والے، نماز پڑ ھتا رہے اور قرآن کی تلاوت کرتا رہے۔ ۔ ۔ یقال لمن لازم المسجد واقام علی العبادة فیه، عاکف و معتکف جو کوئی مسجد میں ڈیرہ لگا لے اور عبادت میں مصروف رہے اسے عاکف اور معتکف کہتے ہیں یعنی اعتکاف کرنے والا۔
(لسان العرب، ابن منظور، ص: 9)
هو الاقامة بنیّته فی مسجد تقام فیه الجماعة بالفعل للصّلوات الخمس.
اعتکاف کی نیت سے ایسی مسجد میں ٹھہرنا جہاں پانچ نمازوں کے لئے عملاً جماعت ہوتی ہے۔
(نور الایضاح، عمار شرنبلالی، ص: 271)
الاقبال علی الشئی وملازمة علی سبیل التعظیم له، والاعتکاف فی الشرع هو الاحتباس فی المسجد علی سبیل القربه۔ ۔ ۔ ۔
کسی چیز پر متوجہ ہونا اور اس کی تعظیم کی خاطر اس سے لگ جانا۔ شریعت میں اعتکاف کا مطلب ہے اپنے آپ کو خدا کا قرب حاصل کرنے کی نیت سے مسجد میں مقید کر دینا۔
(مفردات راغب، ص: 342، رد المختار لشامی، ص: 440، النهایه لابن الاثیر، ج: 3، ص: 284)
صاحب قدوری لکھتے ہیں کہ:
الاعتکاف مستحب وهو اللّبث فی المسجد مع الصّوم ونیة الاعتکاف۔ ۔ ۔
اعتکاف مستحب ہے اور وہ رکنا ہے مسجد میں روزے اور نیت کے ساتھ اعتکاف کی۔
(مختصر القدوری)
صاحب قدوری نے اعتکاف کو مستحب فرما یا ہے لیکن صاحب ہدایہ فرماتے ہیں:
والصحیح انّہ سنّة مؤکد لانّ النّبیّ واظب علیه فی العشر الّا واخر والمواظبة دلیل السنّة.
کہ اعتکاف سنت مؤکدہ ہے کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آخری عشرہ کی مواظبت فرمائی اور پابندی سنت کی دلیل ہے اور اسی پر فتوی بھی ہے مگر سنت مؤکدہ کفایہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ میں بھی تمام لوگ اعتکاف نہ بیٹھتے تھے۔
اعتکاف از روئے قرآن
اللہ ربّ العزت نے ارشاد فرما یا:
وَإِذْ جَعَلْنَا الْبَیْتَ مَثَابَةً لِلنَّاسِ وَأَمْنًا وَاتَّخِذُوا مِنْ مَقَامِ إِبْرَاهِیمَ مُصَلًّی وَعَهِدْنَا إِلَی إِبْرَاهِیمَ وَإِسْمَاعِیلَ أَنْ طَهِرَا بَیْتِیَ لِلطَّائِفِینَ وَالْعَاکِفِینَ وَالرُّکَّعِ السُّجُودِ.
اور (یاد کرو)جب ہم نے اس گھر (خانہ کعبہ) کو لوگوں کے لیے رجوع (اور اجتماع) کا مرکز اور جائے امان بنا دیا، اور(حکم دیا کہ) ابراہیم (علیہ السلام)کے کھڑے ہونے کی جگہ کو مقام نماز بنا لو، اورہم نے ابراہیم اور اسماعیل (علیہ السلام) کو تاکید فرمائی کہ میرے گھر والوں اور اعتکاف کرنے والوں اور رکوع و سجود کرنے والوں کے لیے پاک صاف کر دو۔
(البقرة: 125)
اعتکاف از روئے حدیث
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلمکا ہر سال معمول تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اعتکاف فرماتے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مختلف مواقع پر اس کی فضیلت کو بھی بیان فرما یا:
عن ابن عمر رضی الله عنهما: أن النبی صلی الله علیه وسلم کان یعتکف فی العشر الأواخر من رمضان.
ابن عمر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ: بیشک نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رمضان کے آخری عشرے میں اعتکاف کیا کرتے تھے۔
اخرجه مسلم فی الصحیح، کتاب الاعتکاف، ج: 2، ص: 830، الرقم: 1171
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ فِی الْمُعْتَکِفِ هُوَ یَعْکِفُ الذُّنُوبَ، وَیُجْرَی لَهُ مِنَ الْحَسَنَاتِ کَعَامِلِ الْحَسَنَاتِ کُلِّهَا.
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اعتکاف کے بارے میں فرمایا: وہ گناہ سے روک دیتا ہے۔ اس کے لیے ایسی نیکیا ں لکھی جاتی ہیں جو تمام نیکیوں پر عمل کرنے والوں کے لئے لکھی جاتی ہیں۔
ابن ماجه فی السنن، کتاب: الصیام، باب: فی ثواب الاعتکاف، ج: 8، ص: 567، الرقم: 1781
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: مَنْ مَشَی فِی حَاجَةِ أَخِیهِ کَانَ خَیْرًا لَهُ مِنَ اعْتِکَافِ عَشْرِ سِنِینَ، وَمَنِ اعْتَکَفَ یَوْمًا ابْتِغَاءَ وَجْهِ اللَّهِ جَعَلَ اللَّهُ بَیْنَهُ وَبَیْنَ النَّارِ ثَلَاثَ خَنَادِقَ، کُلُّ خَنْدَقٍ أَبَعْدُ مِمَّا بَیْنَ الْخافِقَیْنِ.
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرما یا:جو شخص اللہ تعالی کی رضا کے لئے ایک دن اعتکاف کرتا ہے اللہ تعالی اس کے اور دوزخ کے درمیان تین خندقوں کا فاصلہ کر دیتا ہے، ہر خندق مشرق اور مغرب کے درمیانی فاصلہ سے زیادہ لمبی ہے۔
عَنْ عَلِیِّ بْنِ الْحُسَیْنِ، عَنْ أَبِیهِ أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّی اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: اعْتِکَافُ عَشْرٍ فِی رَمَضَانَ کَحَجَّتَیْنِ وَعُمْرَتَیْنِ.
حضرت علی بن حسین رضی اللہ عنہ اپنے والد (حضرت امام حسین علیہ السلام) سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جو شخص رمضان المبارک میں دس دن اعتکاف کرتا ہے اس کا ثواب دو حج و عمرہ کے برابر ہے۔
اعتکاف میں بندہ اپنے آپ کو کلی طور پر اللہ کی رضا و قرب میں مصروف کر لیتا ہے اور اللہ سے دور کرنے والے امور سے اپنے آپ کو دور کر لیتا ہے۔ معتکف اپنا پورا وقت اللہ کی بندگی میں لگا دیتا ہے۔
اجتماعی اعتکاف کی شرعی حیثیت
نام ور فقیہ علامہ ابن رشد لکھتے ہیں کہ اعتکاف میں اجتماعی نوعیت کے معاملات کے جواز اور عدم جواز میں اختلاف کی بنیادی وجہ اعتکاف کے معنی کی تعیین میں اختلاف ہے۔ آپ فرماتے ہیں:
فمن فهم من الاعتکاف حبس النفس علی الافعال المختصة باالمساجد، قال: لا یجوز للمعتکف الا الصلاة والقراءة، ومن فهم منه حبس النفس علی القرب الاخرویة کلها اجاز له غیر ذلک.
جس نے اعتکاف کا معنی مسجد میں مخصوص افعال پر اپنے نفس کو روک لینا سمجھا، اس نے معتکف کے لئے صرف نماز اور قرات قرآن کو مشروع قرار دیا، اور جس نے اعتکاف سے مراد نفس کو دوسروں کے قرب سے بچائے رکھنا لیا اس نے لوگوں سے میل جول کو علاوہ ان تمام امور کو مشروع قرار دیا۔
ابن رشد، بدایة المجتهد: 312
انفرادی اور اجتماعی نوعیت کے امور میں فرق
معتکف کے لئے نماز، تلاوت قرآن اور ذکرو اذکار جیسی انفرادی عبادات تو متفقہ طور پر جائز ہیں اور ان میں کسی نوع کا اختلاف نہیں ہے۔ لیکن جمہور علماء کرام نے دوسروں سے میل ملاپ والی اجتماعی نوعیت کی عبادات کو بھی انفرادی عبادات کی طرح مشروع اور بعض صورتوں میں لازم قرار دیا ہے۔ ان اجتماعی عبادات میں امر بالمعروف ونہی عن المنکر، سلام کا جواب دینا، افتاء وارشاد اور دیگر امور مثلا قضاء (فیصلہ کرنا یا گواہی دینا)، درس و تدریس، حسب ضرورت خرید و فروخت وغیرہ شامل ہیں۔
اجتماعی اعتکاف کا مقصد اور تحریک منہاج القرآن
تحریک منہاج القرآن نے اجتماعی اعتکاف کی اس سنت کو زندہ کر کہ عالم اسلام میں ایمانی زندگی کی تحریک پیداکر دی ہے۔ اجتماعی اعتکاف کا مقصد معاشرے میں تعلق بااللہ، ربط رسالت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، رجوع الی القرآن اور اتحاد و بھائی چارے کا نظام برپا کرنے کی جدو جہد کا جذبہ پیدا کرتا ہے۔ یہ مقاصد تنہا اعتکاف کرنے سے حاصل نہیں ہوسکتے۔ کیونکہ تنہائی اور گوشہ نشینی (الّا ماشاءاللہ) عام شخص کو منتشر خیالی اور غفلت کا شکار کر دیتی ہے۔ جیسے بہت سے روزہ داروں کو سوائے بھوک اور پیاس کے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ ایسے ہی خلوت اور گوشہ نشینی کے بھی کچھ تقاضے ہوتے ہیں جن کے بغیر خلوت فائدہ مند نہیں رہتی۔ تحریک منہاج القرآن کے زیر اہتمام دس دن اجتماعی اعتکاف ایک شیڈول کے مطابق تلاوت، ذکر و اذکار، نعت خوانی، درس و تدریس کے حلقہ جات، نوافل اور وظائف کے ذریعے عبادت کے کئی روحانی مناظر دیکھنے میں آتے ہیں۔ اس دوران ان کی فکری و نظریاتی، اخلاقی وروحانی اور تنظیمی و انتظامی تربیت کا بھر پور اہتمام کیا جا تا ہے تا کہ وہ مزید بہتر انداز میں دین اسلام کی خدمت کے لئے اپنے آپ کو تیار کر سکیں۔ گویا یہ اجتماعی اعتکاف فرزندان اسلام کو رب تعالی کے حضور اجتماعی توبہ، گریہ و زاری اور خدمت دین کا جذبہ پیدا کرنے کا موقع فراہم کرتا ہے۔