17جون 2014ء تاریخ کا ایک سیاہ دن جس دن چشم فلک نے ریاست کے محافظوں کے ہاتھوں معصوم نہتے لوگوں کو گولیوں سے چھلنی ہوتے دیکھا، ٹی وی سکرینز پر نظر آنے والے مناظر کو دیکھ کر یوں لگتا تھا گویا کشمیر اور فلسطین پر قابض فوج کے ہاتھوں ہونے والے ظلم کو دکھایا جارہا ہو۔ اس دن صرف 14 معصوم لوگوں نے جام شہادت نوش نہیں کیا بلکہ اس ملک کے نام نہاد ٹھیکیداروں کے سفاکانہ چہرے بھی بے نقاب ہوگئے۔ بےگناہ شازیہ مرتضیٰ اور تنزیلہ امجد کے منہ پر گولیاں برسائی گئیں۔ 14 خاندان ملک کے محافظوں نے اجاڑ دیئے ہر طرف چیخ و پکار تھی جس میں ایک معصوم آواز ابھرتی جسے سن کر ہر آنکھ اشکبار ہوتی وہ پکار تھی ’’میری ماما کا قصور کیا تھا‘‘ یہ آوازشہیدہ تنزیلہ امجد کی بیٹی بسمہ امجد کی تھی جو آج چار سال گزر جانے کے باوجود بھی اس سوال کا جواب ڈھونڈ رہی ہے۔ بلاشبہ قابل تحسین ہیں شہداء کے لواحقین کے جذبات جو ظلم کے خلاف سیسہ پلائی ہوئی دیوار ثابت ہوئے ان کے عظم و حوصلہ کی مثال نہیں ملتی۔ اس ماہ ماہنامہ دختران اسلام میں 17 جون کے شہداء کے لواحقین کے جذبات قارئین تک پہنچانے کے لیے ان کا انٹرویو شائع کیا جارہا ہے۔
1۔ بسمہ امجد (شہیدہ تنزیلہ امجدکی بیٹی)
سوال: آپ کی فیملی کی تحریک سے وابستگی کب ہوئی؟
جواب: ہمارے خاندان کی تحریک منہاج القرآن سے دیرینہ وابستگی ہے۔ میرے چچا اور ماموں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی فکر اور علم سے بہت متاثر ہیں یہی وجہ ہے کہ ہمارا زیادہ خاندان تحریک منہاج القرآن سے منسلک ہے۔
سوال: منہاج القرآن سیکرٹریٹ پر حملے کی خبر سن کر گھر والوں کے تاثرات کیا تھے؟
جواب: میرے والد، چچا اور ماموں نے جیسے ہی یہ خبر سنی کہ ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کے گھر اور منہاج القرآن سیکرٹریٹ پر پولیس نے حملہ کیا ہے تو وہ فجر کے وقت ہی گھر سے روانہ ہوگئے تھے اس دن میں نے اپنی ماما کے چہرے پر پریشانی اور گہرے دکھ کے اثرات دیکھے اسی کیفیت انہوں نے ناشتہ بھی نہیں بنایا تھا۔
سوال: ماڈل ٹاؤن کے لیے نکلنے سے پہلے آپ کی اپنی والدہ سے کیا گفتگو ہوئی؟
جواب: اس دن ماما اس قدر غم سے نڈھال تھیں کہ اپنے کپڑے بھی خود استری نہیں کرسکیں اس روز میں نے انہیں کپڑے پریس کرکے دیئے اور آنٹی نے انہیں شوز اور بیگ لاکر دیا پھر میں اور ماما تیار ہوکر نانو کے گھر آگئے۔ ماما نے جاتے ہوئے میرے بھائی علی، حسن اور بہن عائشہ کو تاکید کی کہ اکیڈمی ضرور جانا چھٹی نہ کرنا۔ ماما دروازے سے نکلتے ہوئے دوبارہ واپس آگئیںچھوٹے بہن بھائیوں کو ایک بار پھر پیار کیا ار گھر سے ہمیشہ کے لیے نکل گئیں۔ وہاں سے ہم نانو کے گھر گئے وہاں پھوپھو اور نانو تیار تھیں۔ ماما نے پانی پیا پھوپھو نے ناشتہ کے لیے کہا تو ماما نے جواباً منع کردیا۔ اس کے بعد ہم سب ماڈل ٹاؤن پہنچے۔ اس دن میری پھوپھو اور ماما بہت خوبصورت لگ رہی تھیں۔ میں نے ماما سے کہا کہ آپ ہر جگہ پرانا بیگ لے کر جاتی ہیں آج آپ نے نیا بیگ لیا ہے تو آنٹی نے کہا کہ کوئی بات نہیں پتہ نہیں آج ہمیں کتنی دیر ہوجائے۔
سوال: آپ کی ماما اور پھوپھو شہادت کے عظیم درجہ پر فائز ہوئی ہیں آپ اس حوالے سے کیا کہنا چاہیں گی؟
جواب: ماما بے شک شہادت کے ایک عظیم درجے پر فائز ہیں انہوں نے ہمت اور جواں مردی سے شہادت نوش کیا۔ مجھے یقین ہے کہ میری ماما اورپھوپھو ہمیں دیکھ رہی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے بھی فرمایا ہے کہ شہید زندہ ہیں اور انہیں مردہ نہیں کہنا چاہئے اور مجھے اس بات پر فخر ہوتا ہے کہ میری والدہ شہیدہ انقلاب ہیں اور انہوں نے اس مصطفوی مشن کی خاطر جان قربان کی اور میرا یہ فخر ہمیشہ قائم رہے گا کہ میں تنزیلہ شہید کی بیٹی ہوں اور شازیہ شہید کی بھتیجی ہوں۔
2۔ شہر بانو (شہید عمر صدیق کی بہن)
1۔ آپ کی فیملی کی تحریک منہاج القرآن سے وابستگی کب ہوئی؟
تحریک منہاج القرآن سے وابستگی بہت پرانی سے ہے۔ یہ تو علم نہیں کہ کب سے ہم اس تحریک کے ساتھ منسلک ہیں کیونکہ جب سے نے ہوش سنبھالا ہے ہم تحریک منہاج القرآن کے ساتھ منسلک ہیں۔ ہمارے والدین اور ہم بہن بھائی اس تحریک کے ساتھ بہت محبت کرتے ہیں۔ ہمارے والد محترم منہاج القرآن کے ایک کارکن بھی ہیں اور کارکن ہونے کے ساتھ ساتھ اپنی ذمہ داریوں کو بھی احسن طریقے سے سرانجام دے رہے ہیں۔
2۔ شہادت سے قبل کا دن اپنے بھائی کے ساتھ کیسے گزارا؟
بھائی کی شہادت سے پہلے کا دن بہت اچھا گزرا اس دن ہم سب بہن بھائی ایک دوسرے کے ساتھ ہنسی مذاق کررہے تھے۔ ہم لوگوں نے کبھی اتنی باتیں نہیں کی تھی جتنی اس دن کی تھی۔ سب بہت خوش تھے لیکن دوسری طرف دل میں عجیب سی اداسی بھی تھی۔ ہمارے وہم و گمان میں نہیں تھا کہ کل ہمارے بھائی ہمارے ساتھ نہیں ہوں گے۔ جس دن بھائی کی شہادت ہوئی تھی اسی رات ہمارے والد محترم مرکز میں تھے۔ والد محترم کے ساتھ بھائی بھی گئے تھے۔ صبح چھ بجے بھائی اور ابو جان آئے اور ناشتہ کیا پھر ابوجان کو کال آئی تو فوراً تیار ہونا شروع ہوگئے۔ بھائی نے ابو جی سے کہا: میں آپ کو اکیلے نہیں جانے دوں گا۔ میں بھی آپ کے ساتھ جائوں گا، امی جان نے روکنے کی بہت کوشش کی لیکن وہ نہیں رکے۔ جب ابو جان جانے لگے تو بھائی امی جان کے پاس آگئے اور ہم سب سے مل کر امی کے سامنے رک گئے اور بولے امی جان مجھے اجازت دیں۔ امی جان نے بھائی کے سر پر پیار کیا اور بھائی، ابو جی کے ساتھ چلے گئے۔ بعد میں ہمارے بڑے بھائی اور ماموں بھی چلے گئے۔ ابھی دو یا تین گھنٹے گزرے ہی تھے کہ فون آگیا کہ عمر بھائی کی شہادت ہوگئی ہے۔
3۔ بحیثیت بھائی عمر صدیق شہید کی شخصیت کیسی تھی؟
عمر بھائی کی شخصیت بہت اچھی تھی ہر وقت وہ دوسروں کے کاموں میں مصروف رہتے تھے کبھی ابو جان کے ساتھ کبھی امی جان کے ساتھ کاموں میں ہاتھ بٹھاتے تھے اور ہمارے بھی سارے کام کرتے تھے۔ وہ اپنی تعلیم کے ساتھ ساتھ منہاج القرآن کی دیگر سرگرمیوں میں بھی ابوجان کے ساتھ جایا کرتے تھے ہر ایک سے پیار اور محبت کرتے تھے۔ ہر کوئی ان سے بہت خوش تھا وہ کسی سے بھی بدتمیزی نہیں کرتے تھے۔ کبھی بھی کسی کام کا انکار نہیں کرتے تھے۔ ان کو صرف ایک ہی فکر ہوتی تھی کہ انقلاب کیسے آئے گا جب بھائی کی شہادت ہوئی تو ابو جان نے کہا ’’عمر بیٹا تم مجھ سے سوال کیا کرتے تھے کہ انقلاب کیسے آئے گا تو آپ نے اپنی جان کا نذرانہ پیش کرکے ثابت کردیا اس طرح انقلاب آتا ہے۔ ہم سب کو فخر ہے کہ ہمارے بھائی نے اس عظیم مشنِ مصطفوی کے لیے شہادت دی۔