دنیا کے کسی بھی معاشرے، مذہب یا قوم کو دیکھ لیں ہمیں ان میں مختلف تہوار اپنے اپنے مخصوص انداز میں منانے کے طور طریقے نظر آئیں گے، عیسائی کرسمس اور ایسٹر اپنے انداز سے مناتے ہیں۔ اسی طرح ہندو، ہولی، دیوالی اور دوسرے تہوار مناکر اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہیں۔
اسلام چونکہ دین فطرت ہے اس لیے اس میں تہوار منانے اور انسان کی بنیادی خواہش پر کوئی پابندی نہیں لگائی گئی۔ آپس میں میل ملاقات اور تفریح اتنی ہی ضروری ہے جتنی کہ خوراک اس لیے تفریح ہمیشہ سے ہی انسان کو مرغوب رہی ہے۔ لہذا وہ تفریح کے لیے ایسے ایسے مواقع اور طریقے تلاش کرتا رہتا ہے جس میں وہ دوسروں کو شامل کرسکے۔ انسان کی اسی سوچ اور جذبات نے اسے اپنے معاشرے کے دوسرے لوگوں کے ساتھ مل کر کسی خاص دن یا کسی خاص موقع کو منانے اور اس سے لطف اندوز ہونے کا احساس دلایا۔ اسی احساس نے مختلف تہواروں کو جنم دیا۔ تہوار کا مطلب ہے خوشی کا وہ دن جو بار بار لوٹ آئے اور ہر سال منایا جائے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر قوم اور ہر مذہب کے اپنے اپنے مخصوص تہوار ہیں۔ ہر سال اکٹھے ہوکر تہوار منانے سے آپس میں اجتماعی رنگ پیدا ہوتا ہے ایک دوسرے میں اتحاد و اتفاق، رواداری اور بھائی چارہ پروان چڑھتا ہے۔ یہ خوبیاں ان تہواروں کے بار بار منانے سے بیدار اور تازہ ہوتی رہتی ہیں۔
اسلام چونکہ توحید کا علمبردار اور عالمگیر اصلاح کا منبع ہے۔ اس لیے اس میں صرف وہی تہوار راہ پاسکتے ہیں جو اس کے مزاج اور عقائد سے ہم آہنگ ہوں۔ اسلام نے زندگی کے دوسرے شعبوں کی طرح تہواروں کو بھی ایک نئے قالب اور نئے انداز میں ڈھال دیا ہے اور ان میں عمدہ اخلاقی روح پھونک دی ہے۔
اسلام نے مذہبی تہوار منانے کے بنیادی طریقوں کو درج ذیل نمایاں تبدیلیاں کی ہیں:
- کوئی ایسا تہوار برقرار نہیں رکھا گیا جو صرف مخصوص یا محدود جغرافیائی خطے یا قوم کے ساتھ مخصوص ہو اور دنیا کے دوسرے مسلمان اس میں کوئی وجہ اشتراک یا دلچسپی کا پہلو نہ پاتے ہوں۔
- اسلام میں کوئی ایسا تہوار قابل قبول نہیں جس میں شرک، مخلوق پرستی اور مشرکانہ توہمات کا ادنیٰ سا احتمال بھی ہو۔
- اسلامی تہوار ایسا ہو جو فسق و فجور اور ناشائشتگی سے پاک ہو اور اس میں لطف و تفریح ہو لیکن تہذیب کے ساتھ۔ اس میں اظہار مسرت ہو لیکن سنجیدگی کے ساتھ، اس کے علاوہ اس کی حیثیت محض کھیل کود کی نہ ہو بلکہ اس سے اجتماعی زندگی میں ایک خوشگوار حرکت و توانائی ہو اور جوش و ولولہ پیدا ہو تاکہ ملت اسلامیہ بلند تر اخلاقی مقاصد کے لیے سرگرم عمل ہوسکے۔
قبل از اسلام مکہ و مدینہ میں بہت عجیب و غریب تہوار مروج تھے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آکر ارشاد فرمایا: اللہ نے تمہارے ان دنوں کو بہتر دنوں سے تبدیل کردیا ہے اور وہ دن ہیں عیدالفطر اور عیدالاضحی چنانچہ اس سے قبل نہ صرف عرب بلکہ جہاں جہاں اور جس جس ملک میں بھی اسلام پھیلا وہاں کے لوگوں کے تمام پرانے مشرکانہ اور قومی و علاقائی تہوار چھڑواکر ان کے لیے صرف دو تہوار عیدالفطر اور عیدالاضحی مقرر کئے جو اسلام کے خاص فکرو عمل اور مخصوص مزاج کے آئینہ دار ہیں۔
مسلمانوں کا ایسا ہی ایک تہوار عیدالفطر ہے۔ عیدالفطر دراصل فرزندان توحید کو رمضان المبارک کے روزے ختم ہونے کی خوشی میں انعام کے طور پر دی گئی۔ گویا عیدالفطر روزوں کی بخیر و خوبی تکمیل کی تقریب مسرت ہے۔ اس مہینے کی ساری عظمتیں اور برکتیں اللہ تعالیٰ کی اس کتاب ہدایت یعنی قرآن پاک کے طفیل ہیں جو ہماری نجات اور سلامتی کا ذریعہ ہے۔ یہ مبارک کتاب اسی مبارک مہینے میں نازل ہوئی تھی۔ گویا رمضان کا مہینہ اس مبارک کتاب کے نزول کی سالگرہ کی حیثیت رکھتا ہے اور امت مسلمہ سارا مہینہ اس کتاب کے نزول کے شکرانے کے طور پر اس کی تلاوت کرتی ہے اور راتوں کو جاگ کر نماز تراویح میں پڑھا اور سنا جاتا ہے اور دنوں کو اس کے احکام کے مطابق خود کو بھوک پیاس میں مبتلا کرکے روحانی ارتقاء کی منزلیں طے کی جاتی ہیں۔ اس طرح امت مسلمہ رمضان المبارک کے سارے مہینے میں ایک سخت ریاضت اور آزمائش کے کامیابی کے راستے گذرنے کے بعد عیدالفطر کے روز اپنی کامیابی پر اللہ تعالیٰ کے حضور نذرانہ تشکر پیش کرتی ہے۔ صدقہ فطر کے ذریعے غریبوں کے ساتھ جذبہ ہمدردی کرتے ہوئے انہیں بھی خوشیوں میں شامل ہونے کا موقع فراہم کیا جاتا ہے۔ رمضان المبارک میں عام طور پر زکوٰۃ بھی ادا کی جاتی ہے۔ یہ بھی غریبوں کو خوشی تقسیم کرنے کا اہم ذریعہ ہے۔
عید عربی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی خوشی، جشن، فرحت اور چہل پہل کے ہیں اور فطر کا معنی روزہ کھولنے کے ہیں یعنی روزہ ختم کرنا۔ چونکہ عیدالفطر کے دن روزوں کا سلسلہ ختم ہوجاتا ہے۔ اس لیے اسے عیدالفطر کہا جاتا ہے۔ عیدالفطر پورے ایک دن پر محیط ہے اسے چھوٹی عید بھی کہا جاتا ہے۔
شوال کی پہلی تاریخ کو یہ مذہبی تہوار عیدالفطر کے نام سے منایا جاتا ہے۔ رمضان کے روزے رکھنے کے بعد یہ مسرت کا دن ہے۔ عیدالفطر کے دن دو رکعت نماز بطور شکرانہ پڑھنا واجب ہے۔ عید کی نماز کے بعد میں خطبہ سنت ہے جبکہ اس کا سننا واجب ہے۔ جس وقت عید کا خطبہ پڑھا جارہا ہو اس وقت بولنا اور نماز پڑھنا حرام ہے۔ عیدالفطر کے دن بارہ چیزیں مسنون ہیں:
- شرح کے موافق اپنی آرائش کرنا
- غسل کرنا
- مسواک کرنا
- عمدہ کپڑے جو میسر ہوں پہننا
- خوشبو لگانا
- صبح سویرے اٹھنا
- عیدگاہ میں جلدی جانا
- عیدگاہ جانے سے قبل کوئی میٹھی چیز کھانا
- عیدگاہ جانے سے قبل صدقہ فطر ادا کرنا
- عید کی نماز عیدگاہ میں ادا کرنا
- عیدگاہ ایک راستے سے جانا اور دوسرے راستے سے واپس آنا
- عیدگاہ پیدل جانا اور آہستہ آواز میں تکبیر پڑھتے ہوئے جانا۔ اللہ اکبر، اللہ اکبر، لا الہ الا اللہ واللہ اکبر اللہ اکبر وللہ الحمد۔
عیدالفطر کی نماز واجب ہے۔ اس کی نیت حسب ذیل ہے۔ نویت ان اصلی الواجب صلوۃ عیدالفطر معہ سنت تکبیرات واجبتہ۔ (یہ نیت آپ اپنی مادری زبان میں بھی کرسکتے ہیں) یعنی میں نے نیت کی دو رکعت نماز واجب عید کی مع چھ تکبیروں کے یہ نیت کرکے ہاتھ باندھ لیں اور سبحانک اللہم آخر تک پڑھ کر تین مرتبہ اللہ اکبر کہے اور ہر مرتبہ مثل تکبیر تحریمہ کے دونوں کانوں تک ہاتھ اٹھائیں اور بعد تکبیر کے ہاتھ لٹکادیں اور ہر تکبیر کے بعد اتنی دیر توقف کریں کہ تین بار سبحان اللہ پڑھ سکیں۔ تیسری تکبیر کے بعد ہاتھ باندھ لیں اور اعوذ باللہ پڑھ کر سورۃ فاتحہ اور کوئی دوسری سورۃ پڑھ لیں اور اس کے بعد تین تکبیریں اسی طرح کہیں لیکن تیسری تکبیر کے بعد ہاتھ باندھے نہیں بلکہ لٹکائے رکھیں اور پھر تکبیر کہہ کر رکوع میں جائیں۔ بعد نماز دو خطبے ممبر پر کھڑے ہوکر پڑھیں اور دونوں خطبوں کے درمیان میں اتنی ہی دیر بیٹھیں جتنی دیر جمعے کے خطبے میں بیٹھا جاتا ہے۔
عید کی نماز کے لیے جانے سے قبل صدقہ فطر ادا کرنا فرض ہے۔ اگر صدقہ و فطر نماز سے قبل ادا نہ کیا جائے تو یہ عام صدقہ شمار ہوگا۔ صدقہ و فطر ہر مسلمان مرد، عورت، آزاد، غلام چھوٹے بڑے سب پر فرض ہے۔ صدقہ و فطر کی مقدار ایک صاع ہے جو پونے تین سیر یا ڈھائی کلوگرام کے برابر ہے۔ گہیوں، چاول، جو، کھجور، منقہ یا پنیر میں سے جو چیز زیر استعمال ہو وہی دینی چاہئے۔ صدقہ فطر ادا کرنے کا وقت آخری روزہ افطار کرنے کے بعد شروع ہوتا ہے لیکن نماز عید سے پہلے تک ادا کیا جاسکتا ہے۔ مندرجہ بالا اجناس کے علاوہ یا اس سے بہتر جنس یا اس کے برابر قیمت کیش کی شکل میں بھی صدقہ فطر ادا کیا جاسکتا ہے۔
صدقہ فطر ادا کرنے کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نماز عید کے لیے جانے سے قبل چند کھجوریں تناول فرمالیتے تھے۔ یہ کھجوریں آپ طاق عدد میں کھاتے جیسے تین، پانچ سات یا نو۔
عیدالفطر کا تہوار پورے عالم اسلام میں نہایت تزک و احتشام سے منایا جاتا ہے۔ تمام فرزندان توحید مل جل کر خوشیاں مناتے ہیں۔ سب لوگ نئے اور صاف ستھرے لباس زیب تن کرکے گھروں سے نکلتے ہیں۔ بچے جوان بوڑھے سب عیدگاہ کا رخ کرتے ہیں۔ ہر طرف اللہ اکبر، اللہ اکبر کی صدائیں بلند ہوتی ہیں۔ لوگ جوق در جوق عیدگاہ پہنچ کر اپنے خدا کے حضور سجدہ ریز ہوتے ہیں۔ا للہ تعالیٰ کی حمدو ثنا کے ترانے گاتے ہیں۔ نماز سے فارغ ہونے کے بعد مسرت و شادمانی کی فضا میں سب لوگ ایک دوسرے کے گلے ملتے ہیں۔ اس سے مسلمانوں میں اخوت، محبت اور یگانگت بڑھتی ہے۔ گویا عید ہمیں عالمگیر اخوت اور بھائی چارے کا درس دیتی ہے۔ کسی معاشرے کو اس سے بڑھ کر اور نعمت کیا میسر آسکتی ہے کہ شاہ و گدا، امیر و غریب، محتاج و غنی سب ایک ہی برادری کے رکن نظر آتے ہیں۔ کوئی اونچ نیچ کوئی ذات برادری نہیں ہوتی اور نہ ہی رنگ اور نسل کی کوئی تمیز ہوتی ہے۔ سب لوگ ایک جسم کے مختلف اعضاء دکھائی دیتے ہیں۔ دلوں کی نفرتیں اور کدورتیں محبت و الفت میں تبدیل ہوجاتی ہیں۔ عید ملن پارٹیوں کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ دوست احباب اور عزیز و اقارب ایک دوسرے کے گھروں میں ملاقات کے لیے جاتے ہیں۔ ایک دوسروں کو تحائف اور عیدیاں دی جاتی ہیں۔ اچھے اچھے پکوان رشتہ داروں اور دوستوں کو بھیجے جاتے ہیں۔ ہر آبادی اور محلے میں میلے کا سا سماں ہوتا ہے۔ بازاروں میں خوب رونق، چہل پہل اور گہما گہمی ہوتی ہے اور ہر گھر خوشی اور مسرت کو گہوارہ معلوم ہوتا ہے۔
عیدالفطر کے تہوار میں اللہ تعالیٰ نے افراد معاشرہ کی خیر خواہی اور بھلائی کا پہلو بھی رکھا ہے اور وہ یوں کہ شریعت اسلامی کی رو حکم ہے کہ عیدالفطر کی نماز کے لیے جانے سے قبل گھر کے سارے افرادجن میں بالغ و نابالغ اور شیر خوار سبھی شامل ہیں کی طرف سے غرباء اور مساکین کو صدقہ فطر جسے فطرانہ بھی کہا جاتا ہے ادا کیا جائے تاکہ وہ بھی عید کی خوشیوں میں سب کے ساتھ برابر شریک ہوسکیں۔ ان احکامات میں یہ حکمت رکھی گئی ہے کہ امیر اور صاحب حیثیت لوگ اپنے غریب اور کم حیثیت بھائیوں کا خیال رکھیں۔
افسوس کا مقام ہے کہ آج کے دور میں مسلمانوں نے عیدالفطر کی صحیح روح کو نظر انداز کرتے ہوئے اسے محض ہنسی کھیل اور عیش و نشاط کی محفلیں برپا کرنے کا ایک ذریعہ بنا کر رکھ دیا ہے۔ چاند رات دراصل پورے رمضان المبارک کا اجرو ثواب سمیٹنے کی رات ہے جس طرح نماز کے بعد دعا لازمی ہے اسی طرح رمضان کے بعد چاند رات خصوصی دعائیں مانگنے کی رات ہے۔ اس رات کی دعائیں قبولیت کے درجے پر فائز ہوتی ہیں۔ عام طور پر لوگ اس کی پرواہ نہیں کرتے اور چاند رات کو خریدوفروخت کے نام پر بازاروں میں نوجوانوں کی ٹولیاں، لڑکیوں پر آوازیں کسنے آوارگی اور بیہودگی کا مظاہرہ کرنے کو عید کا شغل سمجھا جاتا ہے۔ یہ خدا تعالیٰ کے انعام کا شکرانہ نہیں بلکہ اس کی ناشکری اور ناراضگی کو دعوت دینا ہے۔ رمضان المبارک جو تقویٰ، پرہیزگاری اور ضبط نفس کا مہینہ تھا اس کے گذرتے ہی یہ طور طریقے اللہ تعالیٰ کے غیظ و غضب کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔ چنانچہ ضروری ہے کہ اس کو اس کی اصل روح کے مطابق خدا تعالیٰ کی شکر گزاری اور اطاعت گزاری کے جذبے سے منایا جائے۔
یہ خوشی ہے روزہ داروں کے لیے
روزے جوگئے، ان کی رسید آئی ہے