ملک پاکستان کی حالت نہایت تباہ کن ہوتی جارہی ہے۔ ہر طرف لوٹ مار، کرپشن، ڈاکہ زنی، بھتہ خوری، رشوت ستانی اور دہشت گردی کا دور دورہ ہے۔ دولت کی ہوس نے اسلامی معاشرتی اقدار کو تباہ کردیا ہے تاجر و دکاندار حضرات مصنوعی قلت کے باعث دن بدن قیمتوں میں اضافہ کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔ جس کے باعث غریب و کم آمدنی والے مزدور طبقے سے زندہ رہنے کا بھی حق چھینا جارہا ہے جبکہ اللہ رب العزت غریبوں، مظلوموں اور مزدوروں کو ان کے حقوق کی ادائیگی کا حکم دیتا ہے۔ جس طرح وہ اپنے غریب رشتہ داروں سے صلہ رحمی کا حکم دیتا ہے۔ لہذا مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہم پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ ہم جہاں اپنے غریب رشتہ داروں سے قطع رحمی کی بجائے ان سے صلہ رحمی کریں، وہاں معاشرے کے مظلوم و مجبور افراد بالخصوص مزدور پیشہ خواتین و حضرات کے حقوق ادا کریں اور ان کا پسینہ خشک ہونے سے پہلے ان کی مزدوری موقع پر ادا کریں تاکہ اس ملک کو حقیقی امن و سکون کا گہوارہ بنایا جاسکے۔ آقا علیہ الصلوۃ والسلام اور خلفائے راشدین کے ادوار کا جائزہ لینے سے پتہ چلتا ہے کہ وہ کس قدر اپنی رعایا کا خیال رکھتے تھے۔ خود راتوں کو گشت کیا کرتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ وہ وقت بھی آیا کہ جب عہد خلافت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ میں کوئی شخص نہ رات کو بھوکا سوتا تھا اور نہ کوئی زکوٰۃ لینے والا تھا۔ اس کی بنیادی وجہ یہ نہیں تھی کہ ہر شخص مالی طور پر مستحکم ہوگیا تھا بلکہ وجہ یہ تھی کہ امراء طبقہ بھی عیش پرستی کو چھوڑ کر سادہ زندگی گزارنا پسند کرتا تھا اور خود اپنے عہد کا خلیفہ بھی نہایت سادہ زندگی بسر کرتا دکھائی دیتا تھا اور اپنی رعایا کی تکالیف دور کرنے میں مصروف رہتا تھا جس کے باعث عوام الناس میں سے بھی عیش پرستی، تن آسانی، حسد و نفرت اور بغض و عداوت دور ہوکر صبرو تحمل، عفو و درگزر، سخاوت اور کسب حلال کا جذبہ بیدار ہوگیا تھا۔
یہاں سے یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہوتی ہے کہ کسی بھی دور کی کامیابی کا انحصار اس کے حکمرانوں پر ہوتا ہے۔ اگر حکمران میں تحمل و برداشت، اخلاص و محنت، صبرو استقامت اور اعتدال و میانہ روی کا عنصر نظر آئے گا تو وہی انداز فکر اور طرز زندگی نیچے غرباء و مزدور اور محنت کش طبقے میں منتقل ہوگا۔ لیکن اگر معاملہ اس کے برعکس ہو تو عوام بھی حکمرانوں کی لوٹ مار، کرپشن، نفرت، اقرباء پروری اور ذخیرہ اندوزی کو دیکھتے ہوئے جرائم کا ارتکاب کرتے ہیں کیونکہ انہیں بھی معلوم ہوتا ہے کہ کوئی بھی ہماری بھلائی و خیر خواہی اور حقوق کی ادائیگی کے لئے عملی قدم اٹھانے کو تیار نہیں ہے۔ یہ ملک چونکہ اسلام کے نام پر غیر مسلموں سے حاصل کیا گیا تھا اس لئے ہمارے حکمرانوں پر زیادہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ پاکستانی باشندوں کو پرامن و پرسکون فضاء مہیا کریں مگر آج قائداعظم کی پرخلوص قیادت کے بعد ایسا کوئی حکمران نہ آیا کہ جس نے پسے ہوئے اور نان شبینہ سے محروم مزدور طبقے اور پاکستان کی غریب عوام کی بہتری کے لئے کاوشیں کی ہوں۔
موجودہ دور میں پاکستان عوامی تحریک کے قائد و کارکنان غریب و مزدور طبقہ کے حقوق کی بازیابی کے لئے جنگ تن تنہا لڑ رہے ہیں اور باطل قوتوں سے ٹکرا رہے ہیں جس کے لئے تحریک کے جانثار کارکنان جام شہادت بھی نوش کرچکے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ تمام تر مزدور پیشہ اور غریب پسے ہوئے افراد معاشرہ سب اکٹھے ہوکر ایک آواز بنیں اور قائد انقلاب ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی قیادت میں اپنے حقوق خود آگے بڑھ کر چھین لیں۔ کیونکہ بقول اقبال:
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو آپ خیال جسے اپنی حالت کے بدلنے کا
اسی مقصد کے حصول کے لئے پاکستان عوامی تحریک نے بلدیاتی الیکشن میں بھرپور حصہ لینے کا اعلان کیا ہے تاکہ گراس روٹ لیول تک محنت کش اور مزدور پیشہ خواتین و حضرات کے حقوق کی جنگ ان کے سنگ لڑی جاسکے۔علاوہ ازیں قائد انقلاب کے انقلابی منشور کے مطابق آئندہ عام انتخابات میں پاکستان عوامی تحریک کی کامیابی کی صورت میں ہر بے گھر کو گھر دیا جائے گا اور متوسط خاندانوں کو گھر کی تعمیر کے لئے 25 سال کی اقساط پر بلاسود قرض دیا جائے گا۔ ہر بے روزگار شخص کو مناسب روزگار فراہم کیا جائے گا یا روزگار الائونس دیا جائے گا۔ قلیل آمدنی والوں کو ضروری اشیائے خوردونوش (آٹا، گھی، چینی، چاول، دودھ، دال اور سادہ کپڑا) آدھی قیمت پر فراہم کئے جائیں گے۔ لوئر مڈل کلاس کے لئے بجلی، پانی اور گیس کے بلوں پر ٹیکس ختم کردیئے جائیں گے اور مذکورہ یوٹیلٹیز نصف قیمت پر فراہم ہوں گی۔ سرکاری انشورنس کا نظام بنایا جائے گا جس کے تحت غریبوں کا علاج مکمل طور پر فری ہوگا۔ یکساں نظام کے تحت میٹرک تک تعلیم مفت اور لازمی ہوگی۔ غریب کسانوں اور ہاریوں کو 10/5 ایکڑ زرعی زمینیں برائے کاشت مفت فراہم کی جائیں گی۔ مستحق گھرانوں میں خواتین کو گھریلو صنعتوں کے ذریعے روزگار فراہم کیا جائے گا تاکہ انہیں معاشی استحکام مل سکے اور خواتین کے خلاف امتیازی رسوم اور ظالمانہ قوانین کا خاتمہ کیا جائے گا۔ سرکاری و غیر سرکاری چھوٹے بڑے ملازمین کے درمیان تنخواہوں کے فرق کو ممکنہ حد تک کم کیا جائے گا۔ فرقہ واریت اور دہشت گردی کے خاتمے کے لئے انقلابی پالیسی بنائی جائے گی۔ دس ہزار Peace Training Centers قائم کئے جائیں گے۔ مدارس اور سکولز کے نصابات میں ترامیم اور جدت پیدا کی جائے گی اور پورے معاشرے کو انتہاء پسندی سے پاک اور معتدل بنایا جائے گا تاکہ یہاں امن، حفاظت، خوشحالی اور ترقی کی ضمانت فراہم کی جائے۔