ترتیب و تدوین: محمد حسین آزاد/ معاونت: ملکہ صبا
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
مَا کَذَبَ الْفُؤَادُ مَا رَاٰی.
(النجم:11)
’’(اُن کے) دل نے اُس کے خلاف نہیں جانا جو (اُن کی) آنکھوں نے دیکھا‘‘۔
محترم مشائخ و علماء کرام، معزز خواتین و حضرات اور عزیزان گرامی قدر! یہ مہینہ معراج النبی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مبارک مہینہ ہے۔ آج 27 رجب کو شب معراج جن فضائل و کرامات سے اور جن انعامات و نوازشات سے حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بہرہ ور فرمایا گیا ان میں سے ایک فضیلت کا ذکر آج کرتے ہیں اور وہ فضیلت ہے حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اللہ تعالیٰ کا دیدار نصیب ہوا۔ اللہ رب العزت نے حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جن فضائل و کمالات، بزرگیوں، نوازشوں، عنایات، معجزات اور بڑی بڑی نشانیوں سے نوازا ان میں سب سے بڑی نعمت دیدار الہٰی نصیب ہونا ہے۔ دیگر انبیاء کرام علیہم السلام کو ان کی شان، ان کی بساط، ان کے درجے او ران کے مراتب کی بدولت جو معجزات عطا کئے گئے وہ سارے حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات اقدس میں یکجا اور جمع کئے گئے۔ اسی لئے کہا گیا:
حسن یوسف دم عیسیٰ ید بیضا داری
آنچہ خوباں ہمہ دارند تو تنہا داری
یہ فضیلت اپنے مقام و مرتبہ کے اعتبار سے بھی حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات اقدس میں منتہیٰ کمال کو پہنچی مگر رؤیت باری تعالیٰ اور دیدار الہٰی کا شرف صرف حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لئے خاص کیا گیا۔
میں نے شروع میں جو آیت مبارکہ تلاوت کی ہے اس میں اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا:
مَا کَذَبَ الْفُؤَادُ مَا رَاٰی
(النجم:11)
’’(اُن کے) دل نے اُس کے خلاف نہیں جانا جو (اُن کی) آنکھوں نے دیکھا‘‘۔
میرے محبوب صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی آنکھوں نے جو کچھ دیکھا دل نے اسے نہیں جھٹلایا (بلکہ دل نے اس کی تصدیق کردی) اب آنکھوں نے کیا دیکھا اور دل نے کس کی تصدیق کی اور کیسے تصدیق کی؟ یہ تفصیل طلب مسئلہ ہے۔ حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اللہ کے دیدار سے شرفیاب ہونا، اس مسئلہ پر صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم سے لے کر آئمہ کرام تک علماء کرام کی آراء، اقوال اور نکتہ ہائے نظر مختلف رہے ہیں۔ اس پر بحثیں بھی ہوئی ہیں اور بعض لوگوں نے اس کے متعلق یہ تک کہا کہ انہوں نے اللہ کو نہیں دیکھا۔ بہت سے صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے اور تابعین نے اور آئمہ کرام نے یہ مذہب اختیار کیا کہ حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بلاشک و شبہ اللہ پاک کو دیکھا اور وہ صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم جنہوں نے کہا کہ اللہ کو نہیں دیکھا انہوں نے یہ مفہوم لیا کہ ’’اس سے مراد یہ ہے کہ اس دنیا میں نہیں دیکھا‘‘ اس میں نفی شب معراج کے مشاہدے کی نہیں ہے بلکہ عمومی قول ہے کہ اس دنیا میں جو آنکھیں ہیں وہ اللہ پاک کے دیدار کی سکت نہیں رکھتیں۔ جیسے فرمایا گیا:
لَا تُدْرِکُهُ الْاَبْصَارُز وَهُوَ يُدْرِکُ الْاَبْصَارَ
(الانعام:103)
’’نگاہیں اس کا احاطہ نہیں کر سکتیںاور وہ سب نگاہوں کا احاطہ کیے ہوئے ہے‘‘۔
اور جو کہتے ہیں کہ اللہ رب العزت کو دیکھا وہ اس آیت سے استدلال کرتے ہیں۔
ثُمَّ دَنَا فَتَدَلّٰی فَکَانَ قَابَ قَوْسَيْنِ اَوْ اَدْنٰی
(النجم: 8،9)
’’پھر وہ (ربّ العزّت اپنے حبیب محمد صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم سے) قریب ہوا پھر اور زیادہ قریب ہوگیاo۔ پھر (جلوہِ حق اور حبیبِ مکرّم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم میں صِرف) دو کمانوں کی مقدار فاصلہ رہ گیا یا (انتہائے قرب میں) اس سے بھی کم (ہوگیا)‘‘۔
آقا علیہ السلام کو قاب قوسین او ادنی کی منزلوں پر سرفراز کردیا گیا اور ساری مسافتوں اور فاصلوں کو ہٹادیا گیا اور قربت و وصال اپنے کمال پر پہنچا تو وہاں حجابات اٹھادیئے گئے تب حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اللہ رب العزت نے اپنا جلوہ عطا فرمایا۔
حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا قول ہے کہ سیدنا امام حسن بصری رضی اللہ تعالیٰ عنہ جب حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نسبت رؤیت باری تعالیٰ سے شرف یاب ہونے کی بات آتی تو آپ اللہ کی قسم کھاکر کہتے کہ ’’اللہ کی قسم ہے! حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اللہ کو دیکھا۔ اللہ کو دیکھا۔ اللہ کو دیکھا‘‘۔ اس مسئلہ پر ان کے شرح صدر اور یقین کی پختگی کا عالم یہ تھا کہ تین بار اسے دہرایا۔ اسی طرح امام احمد بن حنبل سے پوچھا گیا تو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا: ’’ہاں حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اللہ کا دیدار کیا اللہ کا دیدار کیا اللہ کا دیدار کیا‘‘ یہ فرماتے رہے فرماتے رہے حتی کہ ان کا سانس رک گیا یعنی بار بار ان کلمات کو دہراتے رہے۔ مقصد یہ ہوا کہ آئمہ کو اس مسئلہ پر اتنا یقین کامل تھا کہ پوری قطعیت کے ساتھ اسے بیان کرتے۔
ان دو مثالوں سے سمجھانا مقصود یہ ہے کہ اس پر مختلف اقوال ہیں مگرمذہب مختار اور اکثریت صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہ ، تابعین، آئمہ محدثین کی اس طرف گئی ہے کہ حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اللہ پاک کا دیدار کیا اور بعض نے یہ بھی کہا کہ دیدار کیا اور آنکھوں سے دیدار کیا۔ بعض نے کہا آنکھوں سے نہیں دل سے دیدار کیا، بعض نے کہا کہ دل اور آنکھوں دونوں سے دیدار کیا۔
اس علمی مسئلہ میں مختلف اقوال ہیں لیکن ساروں کو ایک بناکر سمجھا جائے تو ان میں ایک صورت تطبیق کی بھی ہے جو میں عرض کرنا چاہتا ہوں کہ آنکھوں سے بھی دیکھا، دل سے بھی دیکھا۔ قرآن کا یہ کہنا کہ دل نے اسے نہیں جھٹلایا جسے ہمارے محبوب صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آنکھوں سے دیکھا۔ اب ان سب باتوں کا معنی کیا ہے؟ اسے سیدنا موسیٰ علیہ السلام کے واقعہ (جو کوہ طور پر پیش آیا) کی روشنی میں سمجھنا آسان ہے۔ سیدنا موسیٰ علیہ السلام نے طور پر اللہ رب العزت کے حضور عرض کیا: رَبِّ اَرِنِيْ! ’’اے اللہ تو مجھے اپنا آپ دیکھا‘‘۔ تو اس پر اللہ رب العزت نے فرمایا:
لَنْ تَرَانِيْ
الاعراف:143
’’تم مجھے (براہ راست) ہرگز دیکھ نہ سکو گے‘‘۔
لن ترانی میں نفی اس چیز کی ہے کہ اے موسیٰ! مجھے نہیں دیکھ سکتے لیکن اس بات کی نفی نہیں کی کہ مجھے دیکھا نہیں جاسکتا یا کوئی بھی نہیں دیکھ سکتا۔ اس جواب کے اندر ایک وضاحت پوشیدہ ہے اور اس نفی کے اندر ایک اثبات پوشیدہ ہے۔ اس سے مراد یہ ہے کہ مجھے دیکھا تو جاسکتا ہے اور میرا جلوہ حسن بھی ممکن ہے اور کوئی آنکھ تاب نظارہ رکھتی ہو تو میرا جلوہ دیکھ تو سکتی ہے مگر اے موسیٰ! تیرے لئے یہ کام مشکل ہے۔
اگر بات یہاں ختم ہوجاتی تو پھر بھی اس کی یہاں ایک حد تھی مگر ا س سے آگے جو ایک واقعہ پیش آیا وہ ایک اور حقیقت کی طرف متوجہ کرتا ہے۔ اللہ رب العزت نے فرمایا:
وَلٰـکِنِ انْظُرْ اِلَی الْجَبَلِ فَاِنِ اسْتَقَرَّ مَکَانَه فَسَوْفَ تَرَانِيْ
(الاعراف:143)
’’مگر پہاڑ کی طرف نگاہ کرو پس اگر وہ اپنی جگہ ٹھہرا رہا تو عنقریب تم میرا جلوہ کرلوگے‘‘۔
اس میں حضرت موسیٰ علیہ السلام سے مخاطب ہوکر تجلی پہاڑ پر ڈالنے کا کہا (اس میں تجلی ظاہر ہونے کا معنی بیان کررہی ہے) اور تم اس پہاڑ کی طرف دیکھو۔ پھر فرمایا:
فَلَمَّا تَجَلّٰی رَبُّه لِلْجَبَلِ جَعَلَه دَکًّا وَّخَرَّ مُوْسٰی صَعِقًا
(الاعراف:143)
’’پھر جب اس کے رب نے پہاڑ پر (اپنے حسن کا) جلوہ فرمایا تو (شدّتِ انوار سے) اسے ریزہ ریزہ کردیا اور موسیٰ (ں) بے ہوش ہوکر گرپڑے‘‘۔
اس سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ جو لوگ کہتے ہیں کہ اللہ رب العزت کا دیدار ہی ناممکن ہے تو (دیدار کہا جاتا ہے آنکھ پر کسی کا ظاہر ہونا) پہاڑ پر کیا ہوا؟ آیت میں ہے کہ جب اللہ رب العزت نے پہاڑ پر اپنے جلوہ حسن کو ظاہر کیا تو وہ ظہور جلوہ ذات کو برداشت نہ کرسکا اور ریزہ ریزہ ہوگیا اور موسیٰ علیہ السلام نے پہاڑ پر رب العزت کے ظہور حسن کا جو نظارہ کیا تو پہاڑ ریزہ ریزہ ہوگیا اور موسیٰ علیہ السلام بے ہوش ہوکر نیچے گر پڑے۔یہاں تین سوال پیدا ہوگئے۔
- اللہ پاک نے اپنا ظہور فرمایا یا پھر نہیں فرمایا؟
- جب پہاڑ پر جلوہ حسن ظاہر کیا تو پہاڑ جذب نہ کرسکا۔ (یہ مفہوم ہے برداشت نہ کرسکنے کا اور جو جذب کرلے اس نے برداشت کرلیا۔)
- وہ جو ظہور ہوا اس کا حصہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو ملا یا نہ ملا؟
جلوہ حسن کا پرتو اگر حضرت موسیٰ علیہ السلام پر نہ پڑا ہو تو آپ علیہ السلام کے بے ہوش ہونے کا کیا مطلب ہے؟ لہذا جو اثر پہاڑ پر ہوا وہی اثر حضرت موسیٰ علیہ السلام پر بھی ہوا مگر فرق یہ تھا کہ پہاڑ پر براہ راست ظہور ہوا تھا لہذا وہ جل اٹھا اور حضرت موسیٰ علیہ السلام نے انعکاسی ظہور کا اثر لیا اس لئے بے ہوش ہوگئے اور قرآن مجید نے فرمایا تھا کہ اگر یہ قائم رہا تو اے موسیٰ تم مجھے دیکھ لو گے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اگر پہاڑ نے جلوہ حسن کو برداشت کرلیا تو وہ میرے حسن کا مظہر بن جائے گا جیسے سورج کا ظہور آئینے پر ہو اور وہ سورج آئینے میں چمکنے لگے اور کوئی آئینے کو دیکھے تو اس نے سورج کو دیکھ لیا لیکن اس کے لئے شرط ہے کہ آئینہ برقرار بھی رہے لیکن اگر اس کا شیشہ ٹوٹ جائے تو پھر نہیں دیکھا جاسکے گا کیونکہ آئینہ مظہر نہ رہا اور اگر اپنی حالت میں برقرار رہا تو سورج اس میں چمک اٹھا اور دیکھنے والے نے اس آئینہ میں سورج کو دیکھ لیا۔
سو اس پہاڑ کو اللہ جل مجدہ نے آئینہ کی مثل بنایا۔ فرمایا: موسیٰ! براہ راست تیری نگاہ مجھے نہیں دیکھ سکتی۔ ہم اس طور کو آئینہ بناتے ہیں اور اس کے آئینے میں اپنے حسن کا جلوہ اتارتے ہیں۔ اگر یہ طور اپنی حالت میں برقرار رہا تو دیکھنا تمہیں میرا حسن نظر آجائے گا۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام کی التجاء اللہ نے مشروط قبول کرلی تو اللہ رب العزت نے اپنا ظہور فرمایا۔ مگر وہ پہاڑ تھا ریزہ ریزہ ہوگیا پھر انعکاسی شعاعیں حضرت موسیٰ علیہ اسلام کی روح پر پڑیں تو آپ علیہ السلام اس کے نظارے سے بے ہوش ہوگئے چونکہ وہ تجلی جذب نہیں ہوئی تھی (پہاڑ میں) لہذا اسی طرح منعکس ہوگئی۔
اب اس واقعہ کے ساتھ اس آیت کریمہ کی تفسیرکرنا چاہتا ہوں جس میں فرمایا: ’’ماکذب الفواد مارای‘‘ آنکھوں نے جو کچھ دیکھا دل نے اس کی تصدیق کی۔ پتہ چلا کہ اللہ رب العزت نے فرمایا لاتدرک الابصار۔ ’’آنکھیں نہیں دیکھ سکتیں‘‘۔ بے شک آنکھیں نہیں دیکھ سکتیں باوجود اس کے کہ لن ترانی فرمایا تھا مگر دکھائے جانے کا اہتمام تو فرمایا تھا اور طور کو مظہر بنایا تھا لہذا مظہریت کی سبیل پر حضرت موسیٰ علیہ السلام کو دیدار کرانے کی ایک تدبیر تھی۔ ادھر اللہ رب العزت نے فرمایا۔ ’’ثم دنا فتدلی فکان قاب قوسین او ادنی‘‘ پھر دونوں ایک دوسرے کے قریب ہوئے اور جب اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مقام قاب قوسین کے بعد مقام او ادنی پر فائز کیا تو اس مقام پر اللہ رب العزت سے حضورعلیہ السلام نے دیدار چاہا کیونکہ آنکھیں تو اس پیکر بشریت کی تھیں ناں! اور دل حضور علیہ السلام کا عرش الہٰی سے بھی بلند و بالا تھا۔ اس مقام پر اللہ رب العزت نے چاہا کہ دیدار سے نوازا جائے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے لئے اہتمام یوں کیا تھا کہ طور کو مظہر بنایا تھا اور اس پر جلوہ کرکے اپنا آپ ظاہر کیا اور حضرت موسیٰ علیہ السلام سے کہا کہ اے موسیٰ اسے دیکھو! مگر یہاں سارا کچھ اندر ہی اندر کردیا۔ فرمایا: محبوب تیرے اپنے دل کو اپنی جلوہ گاہ بناتے ہیں۔ ان آنکھوں نے نظر اٹھائی مگر نور ایک حجاب تھا۔ فرمایا: میری آنکھوں نے دیکھا مگر وہ تو نور ہی نور تھا۔ اس نور سے آگے کیسے دیکھتا؟ تو آنکھوں کے سامنے تو نور ایک حجاب تھا مگر قلب اطہر کے لئے کوئی حجاب نہ تھا تو حضور علیہ السلام کے قلب اطہرکو اللہ رب العزت نے اپنے جلوہ ذات کا ٹھکانہ بنادیا اور وہ عمل جو صفاتی تجلی کے اعتبار سے (طور پر جلوہ ذات بھی نہ تھا جلوہ صفات تھا اس لئے کہ انبیاء علیہم السلام اللہ پاک کے صفاتی مظہر ہوتے ہیں۔ اولیاء کرام اللہ پاک کے اسمی مظہر ہوتے ہیں۔ سارے مخلوق اللہ کی افعالی مظہر ہے جبکہ تنہا تاجدار کائنات صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ کی ذات کے مظہر ہیں۔) صفاتی تجلی کا مظہر طور کو بنایا اور طور کو قلب مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کیا نسبت؟ یہاں اپنے جلوہ ذات کے لئے قلب محمدی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اللہ پاک نے اپنا مظہر بنایا اور فرمایا اے محبوب ہم تیرے دل کو اپنی ذات کی جلوہ گاہ بناتے ہیں اور اپنی ذات کا جلوہ تیرے قلب اطہر پر اتارتے ہیں اور یوں اتارتے ہیں کہ تیرا دل میرے جلوہ کے مظہر ہونے کے لئے مکاں سے لامکاں تک پہنچ جائے جیسے لامکاں میری ذات کی جلوہ گاہ ہے اسی طرح محبوب تیرا دل میری ذات کا جلوہ گاہ ہوگا۔ جیسے ہم نے موسیٰ علیہ السلام سے کہا تھا کہ جب ہم جلوہ اتاریں گے پہاڑ پر اور وہ برقرار رہا تو میرا مظہر بن جائے گا اور تم مجھے دیکھ لو گے۔ محبوب اسی طرح ہم تیرے قلب اطہر میں اپنی ذات کا جلوہ اتارتے ہیں اگر تیرا دل میری ذات کے جلوہ پر برقرار رہا اس کی حالت بگڑی نہیں اور میرے جلوہ ذات کو اپنے اندر سمولیا تو محبوب وہ آنکھیں جو میرا جلوہ براہ راست نہیں دیکھ سکتیں وہ تیرے دل کو دیکھیں گی تو پھر وہ مجھے دیکھ لیں گی۔
کہنے والے یہی کہتے ہیں کہ آنکھیں براہ راست نہیں دیکھ سکتیں تومحبوب کیا ہوا اگر آنکھیں براہ راست میرے جلوہ ذات کو تک نہیں سکتیں تو ہم اپنا جلوہ تیرے دل میں اتار دیتے ہیں۔
آئینہ دل میں ہے تصویر یار جب ذرا گردن جھکائی دیکھ لی
اور تیرے دل کو اپنی ذات کی جلوہ گاہ بنادیتے ہیں۔ اب محبوب صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم تیری آنکھیں تیرے دل کو دیکھیں وہاں دل نظر نہیں آئے گا بلکہ میری ذات نظر آئے گی کیونکہ تیرے دل میں بس میرا جلوہ ہی جلوہ ہوگا۔
پھر فرمایا: مازاغ البصر وماطغی ’’پھر آنکھ نہ بھٹکی نہ حد سے بڑھی‘‘۔ پھر اس کی تشریح ہوئی ماکذب الفواد مارای سوآنکھوں نے دیکھا اور دل نے اس کی تصدیق کردی۔ کس چیز کی تصدیق کردی جو آنکھوں نے دیکھا کہ یہ جلوہ ذات خدا کا ہے کیونکہ شاید لوگوں کو شبہ ہوتا کہ جو آنکھوں نے دیکھا وہ جلوہ ذات خدا کا تھا یا نہ تھا تو دل نے اس کی تصدیق کردی۔ نہیں مت بھولو یہی ہے، یہی ہے، فرق صرف یہ ہوا کہ طور برداشت نہ کرسکا اور قلب مصطفی صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم برداشت کرگئے۔ یہ برداشت بھی اللہ رب العزت نے عطا فرمائی۔ دل اور آنکھیں دونوں رب العزت کے دیدار سے مستفیض ہوئے۔ دل تو خود ہی مظہر بن گیا مگر آنکھیں دیر تک سیر ہوکر تکتی رہیں اور خدا جانے کتنی دیر تک تکتی رہیں۔
اب موسیٰ علیہ السلام کی تشنگی ایک باقی تھی فسوف ترانی والی کیونکہ پہاڑ تو ریزہ ریزہ ہوگیا تھا لہذا شعاع کے انعکاس کا اثر تو پڑا تھا مگر برداشت نہ کرسکا تو یہ تشنگی تھی کہ کاش طور برقرار رہتا اور وہ جلوہ حسن الہٰی کا مظہر بن جاتا اور میں دیکھتا رہتا۔ یوں تشنگی قائم تھی کہ نہ طور برقرار رہا اور نہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کا ہوش برقرار رہا۔ ہوش میں آکر عرض کی: اے مولا! میں اپنے سوال سے تائب ہوتا ہوں۔ مگر آرزو کی تشنگی تو باقی تھی (میرا دل کہتا ہے اس واقعہ کے بعد تشنگی اور بھی زیادہ بڑھ گئی ہوگی) توبہ تو کردی یہ بارگاہ الہٰی کا ادب تھا مگر وہ جو تھوڑی سی لذت بے ہوشی کی ملی اس نے تو آرزو کو آگ لگادی ہوگی کیونکہ جب تک دیکھا نہ تھا اور جب تک چکھا نہ تھا خالی آرزو تھی اب تو تھوڑا سا چکھ بھی لیا لہذا اب تو آرزو آتش میں بدل گئی ہوگی۔ جب تک کسی نے دیکھا نہ ہو اور چکھا نہ ہو آرزو کی جو شدت ہوتی ہے وہ تو ہوتی ہے لیکن جو اس حال کو پہنچ جائے کہ دیکھ بھی لے اور نہ بھی دیکھے تھوڑی سی چکھ لے اور سیراب بھی نہ ہو تو اندازہ کرلیں کہ ایسا عالم کیا ہوگا؟
پھر موسیٰ علیہ السلام انتظار کرتے رہے، کرتے رہے، یہاں تک کہ شب معراج آگئی۔ حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم اوپر گئے، پلٹے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے عرض کیا: مولا! طور تو جلوہ گاہ نہیں بن سکا تھا۔ جل گیا تھا۔ چلو مولا وہ برقرار نہیں رہ سکا تھا تو تیرا محبوب تو برقرار ہے۔ فرمایا موسیٰ! ہم محبوب کو 50نمازیں تحفہ میں دے دیتے ہیں تم راستے میں کھڑے ہوجائو آج تیری اسی تشنگی کو بجھادیتے ہیں۔ میرا محبوب آئے گا پوچھنا کتنی نمازیں لائے ہو۔ میرے محبوب فرمائیں گے پچاس توفرمانا آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت اتنا بوجھ برداشت نہیں کرسکے گی لہذا کم کروالائیں۔ بعض کتابوں میں آیا ہے کہ موسیٰ علیہ السلام نے 9 مرتبہ التجا کی تھی۔ موسیٰ علیہ السلام نے نہ صرف آقا علیہ السلام کو دیکھا بلکہ پلٹ کر آئے پھر دیکھا لہذا جتنی بار حضرت موسیٰ علیہ السلام نے دعا کی تھی برابر دعا کے عوض ایک بار دیدار نصیب ہوا تھا۔
لہذا اس آیت کے مظہر اتم صاحب معراج حضور صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم ہوگئے اور پھر آقا علیہ السلام کو یہ شان دائمی نصیب ہوگئی اس لئے جب نیچے آئے تب بھی فرمایا:
من رانی فقد رای الحق
(صحيح مسلم جلد4، ص1776، حديث 2267)
’’جس نے مجھے دیکھا اس نے اللہ کو دیکھ لیا‘‘۔
کوہ طور اگر برقرار رہتا تو چند لمحوں کے لئے جلوہ گاہ بن کر برقرار رہتا مگر آقا علیہ السلام برقرار رہے تو عمر بھر کے لئے جلوہ گاہ بن گئے اور آج تک آقا علیہ السلام حسن ذات الہٰی کے جلوہ گاہ ہیں۔