اعوذباللّٰه من الشيطن الرجيمo بسم اللّٰه الرحمٰن الرحيمo
قُلْ بِفَضْلِ اﷲِ وَبِرَحْمَتِه فَبِذٰلِکَ فَلْيَفْرَحُوْاط هُوَ خَيْرٌ مِّمَّا يَجْمَعُوْنَ
(يونس: 58)
’’فرما دیجیے: (یہ سب کچھ) اللہ کے فضل اور اس کی رحمت کے باعث ہے (جو بعثتِ محمدی صليٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذریعے تم پر ہوا ہے) پس مسلمانوں کو چاہیے کہ اس پر خوشیاں منائیں، یہ اس (سارے مال و دولت) سے کہیںبہتر ہے جسے وہ جمع کرتے ہیں‘‘۔
اللہ رب العزت کا بے پایاں لطف و کرم اور احسان عظیم ہے اور تاجدار کائنات کے نعلین پاک کے تصدق سے اور شیخ الاسلام کی توجہات کے طفیل، آج ہم ایک عظیم شخصیت کی ولادت کی مناسبت سے انعقاد پذیر تقریب میں شریک ہیں۔ اللہ پاک ہم سب کا یہاں جمع ہونا اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے۔
حاضرین گرامی! جہاں اجتماعیت ایک مسلمہ حقیقت ہے وہاں انفرادیت بھی ایک واضح حقیقت ہے۔ اللہ رب العزت کبھی معاشروں کی اور قوموں کی اجتماعیت میں اپنی عظمت کے رنگ دکھاتا ہے تو کبھی شخصیات کی انفرادیت کے ذریعہ اپنی عظمت زمانے پر آشکار کرتا ہے۔ کبھی قرآن پاک میں ارشاد ہوا ہے کہ
اِنَّ اﷲَ وَمَلٰئِکَتَه يُصَلُّوْنَ عَلَی النَّبِیِّ ط يٰـاَيُهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوْا تَسْلِيْمًاo
’’بے شک اللہ اور ا س کے (سب) فرشتے نبیِّ (مکرمّ صليٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر درود بھیجتے رہتے ہیں، اے ایمان والو! تم (بھی) اُن پر درود بھیجا کرو اور خوب سلام بھیجا کرو‘‘۔
(الاحزاب: 56)
کبھی اس آیت کے ذریعے انسانیت کو عظمت اجتماعیت کی طرف متوجہ کرتا ہے تو کہیں ’قل ھواللہ احد‘‘ فرماکر حقیقت انفرادیت کی طرف لوگوں کو متوجہ کرتا ہے۔ تو بات سمجھ آئی کہ معاشروں کی ترقی میں جہاں اجتماعیت اپنا کردار ادا کرتی ہے وہاں انفرادیت رکھنے والی شخصیات کا ہونا بھی اشد ضرورت ہے۔
یہ حسن انفرادیت ہی تو ہے جو کبھی کسی زمانے کو دوسرے زمانوں سے افضل بنادیتا ہے۔ کبھی ایام کو دیگر ایام سے منفرد کردیتا ہے، کبھی پتھروں کو دوسرے پتھروں سے جدا بنا دیتا ہے، کبھی انسانوں کو دوسرے انسانوں سے منفرد کردیتا ہے اور کبھی انسانوں کو بھی اللہ رب العزت کی دیگر مخلوقات سے منفرد بنادیتا ہے۔ مثال کے طور پر ہر زمانہ، دن رات کے بدلنے اور ساعتوں کے چلنے کے اعتبار سے تو ایک ہے مگر آقا نے فرمایا:
’’کہ میرے بعد سب سے بہتر زمانہ میرے صحابہ کا ہوگا پھر اس کے بعد سب سے بہتر زمانہ ان کا ہوگا کہ جنہوں نے میرے صحابہ سے ملاقات کی۔ پھر ان کے بعد سب سے بہتر زمانہ ان کا ہوگا کہ جنہوں نے میرے صحابہ سے ملنے والوں سے ملاقات کی‘‘۔
اسی طرح، دیکھنے میں تو ہر رات ایک سی ہے مگر پھر شب میلاد کو، شب برات کو، شب معراج کو یا شب قدر کو باقی راتوں میں منفرد اور محترم کردیا۔ اسی طرح سب پتھر اپنی جنس میں تو ایک ہیں مگر باقی پتھروں کو کہا کہ توڑ دو اور حجر اسود کو کہا کہ چوم لو! اسی طرح تمام رسول منصب رسالت میں ایک ہیں مگر حضرت موسيٰ نے جب دیدار کا مطالبہ کیا تو فرمایا: لن ترانی! اور جب حضور اکرم صليٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی باری آئی تو خود معراج کی شب عرش پر بلا کر دیدار کرادیا۔ اسی طرح دونوں عمر تو قریش سے تھے۔ ایک کو عظمت کا مینار بنادیا تو دوسرے کو ابوجہل کہہ کر عبرت کا نشان بنادیا۔ غرض بات کیا سمجھ آئی کہ انفرادیت کی حقیقت اللہ رب العزت نے ہر ہر شے میں عیاں فرمائی ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ دن ہوں، اشیاء ہوں یا انسان ہوں، اپنی جنس میں تو وہ ایک ہوتے ہیں پھر وہ کیا شے ہے جو کسی کو باقیوں میں منفرد اور ممتاز کردیتی ہے؟ اگر انفرادیت کی وجہ سے کسی ذات میں ہوتی تو پھر تو سب ہی کو ممتاز اور منفرد ہونا چاہئے تھا؟ لیکن ایسا نہیں ہوتا تو سمجھ کیا آئی کہ کسی کا منفرد ہونے کا باعث اس کی ذات نہیں ہے بلکہ نسبت ہے جو کسی کو دوسروں پر فضیلت دے دیتی ہے اور باقیوں پر ممتازو محترم کردیتی ہے۔ جیسا کہ زمانوں میں سے جن زمانوں کو حضور نبی اکرم صليٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم یا ان کے صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم سے نسبت ہوگئی۔ یا اہل بیت پاک رضی اللہ تعالیٰ عنہم سے نسبت ہوگئی۔ وہ باقیوں میں ممتاز اور منفرد ہوگئے۔ جس گھر کو خدا سے نسبت ہوگئی وہ باقی گھروں میں منفرد ہوگیا۔ جس پتھر کو خدا کے گھر سے نسبت ہوگئی وہ باقی پتھروں میں منفرد ہوگیا۔ اسی طرح جس شہر کو حضور نبی اکرم صليٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نسبت ہوگئی وہ باقی شہروں سے منفرد ہوگیا اور ہر ہر دور میں جس جس شخص کو تاجدار کائنات صليٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نسبت ہوگئی اور ان کی نسبت سے پہچانا جانے لگا تو وہ اپنے زمانے کے باقی کروڑوں افراد سے منفرد ہوگیا۔ اسی طرح اس دور میں حضور شیخ الاسلام کی پہچان، نسبت رسول صليٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم، محبت رسول صليٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم، اتباع رسول صليٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم، اور آقا کی تعلیماتِ امن اور حضور نبی اکرم صليٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت کی غمگساری اور فلاح بنی تو وہ اس زمانے میں سب سے منفرد و ممتاز ستارہ بن کر چمک رہے ہیں۔
حاضرین گرامی! اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ نسبت والے تو بہت لوگ ہوتے ہیں مگر منفرد اور ممتاز کوئی کوئی ہوتا ہے تو وہ منفرد کوئی کوئی کیوں ہوتا ہے؟ طریقہ تو یہ ہونا چاہئے کہ جس کو نسبت ملی وہ ہر شخص ہی برابر منفرد اور ممتاز ہوجائے مگر ایسا نہیں ہوتا تو پھر وہ کیا شے ہے جو کسی کسی کو نسبت رکھنے والوں میں منفرد و ممتاز کرتی ہے؟ وہ شے نسبت کی تاثیر اور اثر ہے۔ یہ ایسے ہی ہے کہ ہر مہندی رکھنے والا شخص ہاتھوں پر اس سے بکھرنے والی زینت سے مستفید نہیں ہوتا۔ زینت سے فائدہ وہی اٹھاتا ہے جو اس کا استعمال ہاتھوں پر کرتا ہو پھر لگانے والے کے فن پر بھی ہے کہ کون اس کا استعمال کیسے کرتا ہے؟ اسی طرح نسبت تو فرشتے بھی رکھتے ہیں مگر اشرف المخلوقات انسان ہے۔
بات سمجھ یہ آئی کہ فقط نسبت رکھنا کافی نہیں ہے۔ اس کا رنگ چڑھ جانا اور اس کا اثر زمانے کو نظر آنا ضروری ہے۔ یہ تب ممکن ہے کہ جب کوئی شخص اپنی زندگی اسی انداز میں بسر کرے جیسی وہ بسر کرتا ہے کہ جس سے اس کو نسبت ہے۔ بہت سے لوگ ایسے نظر آتے ہیں کہ جن کے قول اور کلام میں نسبت کی بات ملتی ہے مگر ان کی زندگی اور ان کا عمل بے اثر اور بے ثمر نظر آتا ہے۔ یوں تو ہر شخص دعویدار ہے کہ اسے نبی امن و رحمت سے نسبت ہے مگر وہی شخص اپنے کلام اور عمل کے ذریعے معاشرے میں بدامنی پھیلاتا نظر آتا ہے۔ یوں تو ہر شخص دعویدار ہے کہ اسے نسبت ہے اس نبی صليٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کہ جن سے اپنی امت کی پریشانی، غربت اور مظلومیت دیکھی نہیں جاتی مگر وہ دعویدار خود لوگوں کی نیندیں حرام کرتا ہے۔ اس سے بڑھ کر یہ کہ جو مظلوم کو حق دلانے کے لئے کھڑا ہو وہ اس کے خلاف متحرک ہوجاتا ہے اور منافقت کرتا ہے۔
ایسی مایوسی کے دور میں پھر کیوں نہ شیخ الاسلام امید کا سورج بن کر افق عالم پر چمکیں؟ کہ جنہیں نسبت نبی امن سے ہوئی تو اس نسبت نے انہیں سفیر امن بنادیا۔ جنہیں حضور نبی اکرم صليٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیمات سے نسبت ہوئی تو اس نے انہیں مجدد رواں صدی بنادیا اور نسبت حضور نبی اکرم صليٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت سے ہوئی تو اس نے انہیں قائد انقلاب بنادیا۔ یہ اس لئے ہوا کہ ان پر ان کی ہر نسبت نے اپنا اثر بکھیرا۔ آقا صليٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی علم دوستی کی شان یہ تھی کہ جب غزوات میں کفار مکہ قیدی ہوکر آتے تو آپ صليٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم ان سے اسی بات پر وعدہ فرمالیتے کہ ان میں سے اگر کوئی مدینہ منورہ کے دس بچوں کو پڑھنا لکھنا سکھادے تو اسے آزاد کردیا جائے گا۔
اسی طرح آقا صليٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی احترام انسانیت اور امن پسندی کی تعلیمات کا عالم یہ تھا کہ دشمن ریاست کے بوڑھوں، عورتوں اور بچوں کو مارنے کی اجازت نہ دیتے۔ ان کے درخت کاٹنے کی اجازت نہ دیتے اور آپ صليٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اپنی مظلوم امت کی فکر مندی کا عالم یہ تھا کہ آپ صليٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی امت کی خاطر شب معراج بھی اللہ رب العزت کی قربتیں چھوڑ کر زمین پر واپس تشریف لے آئے اور آپ صليٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اہل بیت پاک کا امت کی فکر مندی کا عالم یہ تھا کہ مظلوم عوام کے حقوق کی بحالی کی خاطر، پورا خانوادہ پاک شہید کروالیا۔
تاریخ اسلامی میں جب بھی ان نسبتوں نے کسی شخصیت پر اپنا اثر دکھایا تب وہ اثر سر چڑھ کے بولا۔ کبھی وہ اثر سیدنا عمر بن عبدالعزیز پر نمایاں ہوا تو وہ ظالم کے دور میں مظلوم امت کے لئے امید کی کرن بن گئے۔ کبھی وہ اثر سلاطین اسلام پر نمایاں ہوا تو وہ Modern Sciences کی بنیاد ڈالنے والے بن گئے اور ان میں ایک ایسے بادشاہ بھی ہوئے کہ جب انہوں نے جنگ کے نتیجے میں سلطنت روم کا ایک بڑا حصہ حاصل کرلیا تو فقط روم میں پڑی ہزارہا Greek زبان کی کتابوں کے ذخیرے کے عوض حاصل کردہ وسیع رقبہ واپس کردیا۔ یہ بھی نسبت محمدی صليٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اثر تھا کہ شیخ عبدالقادر الجزائری صلیبی جنگوں کے دور میں شہر دمشق میں جنگجو مسلمانوں کے خلاف Non-Combatant Christians اور یہودیوں کو اپنے گھر میں پناہ دیتے اور کسی مسلمان کو ان کو نقصان پہنچانے کی ہمت نہ ہوتی۔
حاضرین گرامی! پھر ایک ایسا دور آیا کہ جب اسلام کے پرامن تشخص کو پامال کیا گیا۔ کبھی دینی تعلیم کے نام پر دہشت گردی کی Nurseries وجود میں آئیں تو کبھی سیاسی دہشت گردوں نے مظلوم عوام سے ان کے دیگر حقوق کے ساتھ ان سے جینے کا حق بھی چھین لیا۔ پھر نسبت محمدی صليٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فروغ تو دور کی بات، محبت رسول صليٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بھی Controversial بنادیا۔ اس مایوسی کے دور میں ان عظیم نسبتوں کے امین، حضور شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری صبح نو کی نوید بن کر اٹھے اور تعلیم کے میدان میں سینکڑوں تعلیمی اداروں کا ملک میں جال بچھادیا جس سے آج صرف ملک پاکستان میں ہی ایک لاکھ سے زائد غریب طلباء و طالبات علم کے نور سے آراستہ ہورہے ہیں۔ کہیں اپنی تصانیف و خطابات کے ذریعہ آقا صليٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی احترام انسانیت اور امن پسندی کی تعلیمات کو گھر گھر عام کیا اور جب عشق و محبت رسول صليٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم پر بدعقیدگی نے یلغار کی تو اتنی جاندار آواز بن کر عالم میں گونجے کہ بدعقیدہ لوگ اپنے اسلاف کو بھولنے لگے اور جب مظلوم عوام پاکستان کے بنیادی حقوق پامال ہوتے دیکھے تو ایسی تاریخی Movement اور ایسے عظیم دھرنے کے موجد بن گئے کہ جس کی مثال پھر نہ مل سکے۔
میری عظیم بہنو! یہ سب کیا ہے؟ یہ سب اسی نسبت محمدی صليٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اثر اور تاثیر ہے جو حضور شیخ الاسلام کی صورت میں سر چڑھ کر بول رہا ہے تو بات سمجھ کیا آئی کہ سچی نسبت وہی کہلاتی ہے کہ جس کا اثر منسوب کے ہر ہر عمل میں دکھائی دے۔
آج ہم سب جس عظیم قائد کی ولادت کی خوشی منارہے ہیں، ہم ان سے نسبت رکھتے ہیں اور اس نسبت کا تقاضا یہ ہے کہ ہماری زندگیوں پر بھی ان کی امن پسندی، علم دوستی اور ان کی مظلوم و غریب پروری کا رنگ چڑھ جائے۔ ہم خود بھی پرامن ہوجائیں اور جن گلی محلوں میں ہم رہتے ہیں، ہمارا ہونا ان علاقوں میں، امن کے قیام کے باعث بنے اور ظلم کے خاتمے کا باعث بنے۔ ہمارا وجود، لوگوں کو ان کے حقوق میسر آنے کا سبب بنے تاکہ دیکھنے والے، اہل نسبت پر، نسبت کا رنگ جاگتی آنکھوں سے ملاحظہ کرسکیں۔
آخر میں آپ سب کو ایک بار پھر حضور شیخ الاسلام کی ولادت مبارک ہو۔ اللہ رب العزت ان کا سایہ ہمارے سروں پر تادیر قائم و دائم رکھے اور جس مشن اور مقصود کو لے کر چل رہے ہیں اللہ رب العزت اس کو ان کے ہاتھوں سے پایہ تکمیل تک پہنچائے اور ہم سب کو ان کی قیادت میں اس عظیم مشن پر استقامت کے ساتھ گامزن رکھے اور اللہ پاک مصطفوی انقلاب کا سویرا جلد طلوع فرمائے۔ آمین