ہر سال یکم مئی کو بلاتخصیص جنس مزدوروں کا عالمی دن دنیا بھر میں منایا جاتا ہے۔ پاکستان میں بھی مختلف آرگنائزیشنز مزدوروں کے حقوق کے حوالے سے ریلیاں نکالتی اور سیمینارز منعقد کرتی ہیں۔ مقتدر سیاسی جماعتوں سمیت حزب مخالف کی شخصیات بھی مزدوروں کے معاشی تحفظ اور حقوق کے لئے خوبصورت لفظوں پر مشتمل بیانات جاری کرتی ہیں۔ یہ سلسلہ جب سے پاکستان بنا ہے جاری ہے مگر عملاً مزدوروں کو حقوق تو کیا ملنے تھے اب مزدور اور غیر مزدور کی شناخت بھی ختم ہو کررہ گئی ہے۔ 10 کروڑ سے زائد ملکی آبادی خطِ غربت کی لکیر پر زندہ ہے۔ لوگوں کو نہ صرف مہنگائی اور گرانی کے مطابق معاوضے ملتے ہیں بلکہ اُنہیں ملازمتوں کا تحفظ بھی حاصل نہیں رہا۔ سرکاری سطح پر مزدوروں کی کم سے کم جو تنخواہ مقرر کی گئی ہے وہ بھی میسر نہیں ہے۔ پرائیویٹ ادارے قانون کی گرفت سے بچنے کے لئے کسی کو مستقل ملازمتی تقرر نامے نہیں دیتے اور اُنہیں کسی حساب کتاب میں لائے بغیر یومیہ اجرت کے کھاتے میں ڈال دیا جاتا ہے۔ پاکستان میں وہ مزدور جنہیں سوشل سکیورٹی کا تحفظ حاصل ہے وہ آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں ہیں۔ قوانین تو موجود ہیں مگر اُن پر عملدرآمد کرنے والا کوئی ادارہ موجود نہیں ہے۔ اگر کوئی مزدور اپنے ساتھ ہونے والی زیادتی پر آواز بلند کرتا ہے تو طاقتور فیکٹری مالک اُسے نوکری سے نکال دیتا ہے اور پھر عدالتوں میں سالہا سال کیسز چلتے رہتے ہیں فیصلے نہیں ہوتے جس پر مزدور اپنا حق مانگنے کی بجائے مل مالک کی مرضی کے مطابق کام کرنے اور معاوضہ وصول کرنے میں عافیت سمجھتا ہے۔ اسلام وہ واحد ضابطۂ حیات ہے جس نے جہاں زندگی کے ہر شعبہ سے تعلق رکھنے والے کمزور طبقات کے مفادات کا تحفظ یقینی بنایا ہے بلکہ مزدوروں کے لئے بطور خاص احکامات صادر کئے ہیں۔ حضور نبی اکرم ﷺ نے محنت کش کو اللہ کا دوست قرار دیا ہے اور براہ راست ہاتھوں سے کمائے جانے والے رزق کو رزق حلال کی بہترین شکل قرار دیا ہے۔ اللہ کے نبی ﷺ نے حکم دیا ہے کہ مزدور کو پسینہ خشک ہونے سے پہلے اُس کی اجرت ادا کر دی جائے مگر بظاہر تو ہم ایک اسلامی ملک ہیں جس کا آئین اور قوانین قرآن و سنت کے واضح احکامات کے برعکس نہیں بن سکتے مگر عمل کے میدان میں ہمارے رویے اور عملی اقدامات انتہائی افسوسناک ہیں۔ جب ہم خواتین کو آبادی کا نصف قرار دیتے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ محنت و مشقت کرنے والی خواتین کی تعداد بھی مردوں کے مقابلے میں نصف ہی ہے۔ ویسے تو مزدور مرد بھی کسی نہ کسی شکل میں معاشی استحصال سے دو چار رہتے ہیں تاہم خواتین کے معاملے میں صورت حال زیادہ دگرگوں ہے۔ خواتین کو مردوں کے مقابلے میں کم معاوضہ دیا جاتا ہے۔ اُن سے کام بھی بہت زیادہ لیا جاتا ہے۔ خاص کر کے زرعی شعبہ میں کام کرنے والی مزدور خواتین کا بری طرح استحصال ہوتا ہے۔ کہنے کو قانون موجود ہے کہ خواتین کو بھی مردوں کے برابر معاوضہ ادا کیا جائے گا اور انہیں صحت مند، محفوظ ماحول مہیا کیا جائے گا اور دوران زچگی اُنہیں تنخواہ کے ساتھ چھٹی بھی دی جائے گی اس کے علاوہ انہیں فیملی اینڈ میڈیکل رخصت بھی اُس کا حق ہے۔ بیماری اور حادثے کی صورت میں اُسے معاوضہ دیا جائے گا اور ورک پلیس پر ہر قسم کی ہراسمنٹ سے اُسے بچایا جائے گا۔ اُسے علاج، معالجہ کی مفت سہولت میسر ہو گی۔ یہ خوبصورت قوانین ہماری کتابوں میں محفوظ ہیں مگر عملاً یہ ناپید ہیں۔ بحیثیت مسلمان ملک ہمارے ذمہ داران کی یہ آئینی، دینی و انسانی ذمہ داری ہے کہ وہ خواتین مزدوروں کو اور کچھ نہیں دے سکتے تو کم از کم جن مراعات کے سرکاری اعلانات کئے جاتے ہیں اُن پر تو عملدرآمد یقینی بنا دیا جائے۔