شیخ حماد مصطفیٰ المدنی القادری کے شہرِ اِعتکاف 2024ء میں "راہِ محبت و شوق میں تعلق باللہ کے مختلف زاویے اور راستے" کے موضوع پر خطابات کا خلاصہ قارئین کے لیے پیش کیا جارہا ہے:
نشست اول:
شیخ حماد مصطفیٰ المدنی القادری نے شہرِ اعتکاف میں شریک ہزاروں معتکفین سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ تصوف کا آغاز اور ابتداء راہِ شوق و محبت سے ہوتی ہے اور کاملین کا یہ طریقہ ہے کہ وہ نہ صرف خود راہِ شوق و محبت سے گزرتے ہیں، بلکہ اس راہِ عشق، محبت، جستجو، آرزو، تقویٰ و پرہیزگاری، قناعت، زہد و ورع سے اپنے پاس بیٹھنے والوں کو بھی گزارتے ہیں۔ اگر تصوف کی تعلیمات اور صوفیاء کی جملہ کُتب و رسائل کا مطالعہ کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ ان کُتب کا آغاز راہِ محبت و شوق سے ہوتا ہے۔ یہ سفر کبھی بیابان اور بنجر زمین کا ہوتا ہے اور کبھی ویران صحراؤں کا ہوتا ہے۔ کبھی یہ سفر غیر آباد بستیوں اور قریوں کا ہوتا ہے۔ جوں جوں سالک اِس سفرِ عشق و محبت میں آگے بڑھتا جاتا ہے، یہ سفر بیابان اور بنجر زمین سے رفتہ رفتہ سر سبز و شاداب باغات کی طرف چلا جاتا ہے۔ اِس سفر کا نقطۂ کمال یار کی گلیوں میں پہنچ کر ہوتا ہے۔ ہم نے اِسی راہِ محبت و شوق کا مسافر بننا ہے اور اِسی راہ پر گامزن رہنا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہمارا مقام، کیفیت اور حال یہ ہے کہ ہم آسودگی و سہولت کی زندگی بسر کررہے ہیں، جب کہ دعویٰ یہ کرتے ہیں کہ ہم خدا کو تلاش کررہے ہیں۔ اولیاء و صوفیاء اور کاملین خدا کی تلاش کے لیے خلوت نشین ہوتے تھے اور جنگلوں و بیابانوں میں زندگیاں گزارتے تھے؛ لیکن آج کے دور میں اگر ہم نے اللہ رب العزت کو پانا ہے تو ہمیں اپنے دلوں کو خلوت گاہ بنانا ہوگا اور حضور سیدی شیخ الاسلام دامت برکاتہم العالیہ کی اِن 10 دنوں کی صحبت سے خوب فیض سمیٹنا ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ اللہ کو 2 آنکھیں بہت پسند ہیں اور دوزخ کی آگ ان 2 آنکھوں کو مس نہیں کرسکتی ہے: ایک آنکھ جو خشیتِ اِلٰہی میں روتی ہے اور دوسری وہ آنکھ جو یادِ الٰہی میں راتوں کو جاگتی ہے۔ اللہ رب العزت کے حضور جب بندہ اُس کی خشیت، مشیئت، عشق، محبت اور معرفت میں خود کو جلا دیتا ہے اور فنا کر دیتے ہیں، تو پھر اللہ رب العزت فرشتوں سے فرماتا کہ گواہ ہوجاؤ میں نے اُسے بخش دیا ہے۔ اللہ رب العزت اُنہی لوگوں کو اپنے طرف آنے والے راستے کی ہدایت عطا فرماتا ہے جو لوگ اُس کی طرف جانے کے لیے مجاہدہ و ریاضت اور محنت و مشقت کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اللہ رب العزت کا قرب و معیت اور وصال حاصل کرنے کا ایک راستہ نہیں بلکہ متعدد راستے ہیں اور یہی سلوک و تصوف کے متعدد طُرق ہیں۔ کسی جماعت، گروہ یا قوم کو جو بھی نعمت عطا ہونا ہوتی ہے وہ نعمت اس قوم کے راہ نُما، لیڈر اور راہ بَر کی وساطت سے ملنا ہوتی ہے۔ تحریک کے جملہ رفقاء و وابستگان اور ذمہ داران و کارکنان کے لیے ضروری پیغام ہے کہ حضور شیخ الاسلام کی صحبت و سنگت اور مجلس میں ہمہ وقت بیٹھے رہیں تاکہ اللہ رب العزت نے ہمیں جو ایک واسطہ و وسیلہ عطا کیا ہے ہم اس سے جڑے رہیں اور رب کے اس چشمۂ ہدایت سے اپنے لیے ہدایت کا ساماں کرتے رہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہم شہرِ اِعتکاف میں حضور قدوۃ الاولیاء سیدنا طاہر علاؤ الدین اور حضور شیخ الاسلام کی بارگاہ میں خود نہیں آئے بلکہ کسی نے ہمیں بلایا ہے۔ یاد رکھیں! خدا کی بارگاہ سے وارفتگی، قرب اور وصال تب تک نہیں ملتا جب تک خدا یہ توفیق عطا نہ کر دے۔ حضور قدوۃ الاولیاء سیدنا طاہر علاؤالدین القادری الگیلانی کی نسبت اور سنگت میں ہم شہرِ اعتکاف کی اس بستی میں اللہ رب العزت کے ذکر، یاد، تلاش، آرزو، جستجو میں گم ہوئے۔
نشست دوم:
خصوصی تربیتی نشست سے خطاب کرتے ہوۓ انہوں نے کہا کہ جو لوگ عشق و محبت کی راہ کے مسافر ہوتے ہیں اُنہیں مصائب و آلام کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ کچھ پانے کے لیے کچھ کھونا پڑتا ہے۔ بدقسمتی یہ ہے کہ ہم یہ اَحوال و کیفیات اور مقامات بھی چاہتے ہیں مگر ان کو حاصل کرنے کے لیے درکار قربانیاں دینے کو تیار نہیں ہیں۔ تحریک منہاج القرآن اور حضور شیخ الاسلام کا پیغام یہ ہے کہ زندگی فقط اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی رضا جُوئی اور خوش نُودی کے لیے بسر کریں۔ حضور شیخ الاسلام فرماتے ہیں کہ اللہ رب العزت کی اپنے بندوں کے ساتھ محبت مقدم ہے اور بندوں کی خدا کے ساتھ محبت مؤخر ہے۔ خدا اپنے بندے کے دل میں جھانک کے دیکھتا ہے کہ کیا اس کے دل میں طہارت اور پاکیزگی ہے، کیا اس میں میرے سوا کوئی اور تمنا، جستجو اور خواہش ہے، جب تک دل سے تمام تر خواہشات محو نہ ہو جائیں تب تک اللہ رب العزت کا اُس دل میں جلوہ نہیں ہوتا۔
انہوں نے کہا کہ سچے عشاق اور محبین دنیا، اہل دنیا اور اُن کی طلب سے بے نیاز ہوتے ہیں۔ جب عشق کا عالم، دعویٰ محبت سچا اور اس کی کیفیات خالص ہوجاتی ہیں تو پھر انسان کو انجام سے غرض نہیں ہوتی۔ پھر یہ حال ہو جاتا ہے کہ: تو نوازے نہ نوازے تری مرضی ہے دوست! ہم تو سجدے تیری چوکھٹ پہ کیے جاتے ہیں۔ اللہ رب العزت کے ساتھ ہمارا تعلق اتنا کمزور اور نحیف ہے کہ کوئی نعمت مل جائے تو خوش ہوجاتے ہیں اور اگر کوئی نعمت چھن جائے تو ناراض ہوجاتے ہیں۔ جب کہ اللہ والوں کا ذاتِ باری تعالیٰ سے تعلق کسی غرض اور عطا کا محتاج نہیں ہوتا۔ اُن کے تعلق کی بنیاد فقط رضائے الٰہی ہے۔ ہمیں بھی اِسی حال اور کیفیت کو اپنے قلوب میں پیدا کرنا ہے۔ اہل اللہ اس کیفیت اور حال میں اُس کا ذکر کرتے ہیں کہ گویا وہ اُس کو دیکھ رہے ہیں، ہم نے اپنی زندگیوں میں اس حال کو پیدا کرنا ہے کہ اللہ کو یوں یاد کیا جائے کہ گویا ہم اللہ کا دیدار کررہے ہیں اور اگر دیکھنے کی استعداد نہ ہو تو یہ حقیقت پیشِ نظر رہے کہ وہ تو دیکھ رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ امام ابو سعد نیشاپوری تہذیب الاسرار میں بیان کرتے ہیں کہ شہزادۂ مولا علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ الکرم سیدنا امام جعفر الصادق رضی اللہ عنہ سے کسی نے پوچھا: کیا آپ نے اپنے رب کو دیکھا ہے؟ سیدنا امام جعفر الصادق فرماتے ہیں: میں ایسا شخص ہی نہیں ہوں کہ اُس رب کی عبادت کروں، جو مجھے نظر ہی نہ آئے۔
تیسری نشست:
اس نشست سےخطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ آج کا ہمارا موضوع التوبہ ہے اور اسی واپسی کے سفر کو توبہ کہتے ہیں۔ رجوع کے عمل کو توبہ کہتے ہیں۔ امام القشیری اس مضمون کی توثیق فرماتے ہیں اور اپنی مشہور زمانہ تصنیف الرسالۃ القشیریہ میں بیان فرماتے ہیں کہ توبہ اہلِ عرب کے ہاں رجوع کو کہتے ہیں۔ انسان توبہ بھی کرے، اللہ کی طرف رجوع بھی کرے، مگر توبہ اور رجوع کے ساتھ ساتھ اپنی اصلاح بھی کرے، جو اپنی اصلاح نہیں کرتا وہ توبہ کے سفر کا حق ادا نہیں کرتا۔ جیسا کہ عموماً ہم جب اپنی قیام گاہ سے سفر کر کے کہیں جاتے ہیں تو پھر لوٹ کر وہیں اپنے مستقل مقام پر واپس آجاتے ہیں۔ آج کا ہمارا موضوع التوبہ ہے اور اسی واپسی کے سفر کو توبہ کہتے ہیں۔ توبہ کا آغاز عاجزی و انکساری، تواضع اور عجز و نیاز سے ہوتا ہے۔ رب کے حضور زبان سے معافی مانگنا اور معذرت خواہ ہونا استغفار کہلاتا ہے۔ عربی محاورہ ہے: کُلُّ شَيْءِ یَرْجِعُ إِلَی أَصْلِہِ۔ ہر شے اپنی اصل کی طرف لوٹتی ہے۔ جیسا کہ عموماً ہم جب اپنی قیام گاہ سے سفر کر کے کہیں جاتے ہیں تو پھر لوٹ کر وہیں اپنے مستقل مقام پر واپس آجاتے ہیں۔ استغفار ایک عارضی امر ہے، جب کہ توبہ ایک دائمی امر ہے، توبہ ایک مسلسل سفر ہے جو عام انسان، مومن، محسن، صالحین، عارفین، اولیاء کاملین اور انبیاء و رسلِ عظام بھی طے کرتے ہیں۔ توبہ کا مرکز و محور دل ہے۔ دل بعض اوقات غفلت میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ غفلت ایک ایسا مقام ہے جہاں انسان خدا کی نافرمانی میں اور ہوتا اور اس بات سے بے خبر ہوتا ہے کہ وہ خدا کی نافرمانی کررہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ پیغام یہ ہے کہ اپنی اصلاح کریں، اپنے احوال، اخلاق، کردار اور آداب کو درست کریں، اللہ رب العزت ایسے لوگوں سے محبت فرماتا ہے جو اپنے ظاہر اور باطن کو پاک و صاف رکھتے ہیں۔ حضور شیخ الاسلام دامت برکاتہم العالیہ ارشاد فرماتے ہیں: توبہ کے پانچ ارکان ہیں۔ توبہ کا پہلا رکن ’’الاستغفار باللسان‘‘ ہے یعنی انسان کا اپنے گناہ اور معصیت کا اعتراف زبان سے کرتے ہوئے اپنی زبان سے اِستغفار کرنا۔ دوسرا رکن ہے: ’’الندم علی ما عمل من العصیان‘‘۔ جو امر غلفت کی وجہ سے صادر ہوگیا، اس لغرش پر انسان اپنے دل میں ندامت محسوس کرے۔ توبہ کا تیسرا رکن ’’الإقلاع عن الذنبِ بالأبدان‘‘ ہے۔ یعنی جو انسانی اعضا گناہ میں ملوث ہیں انہیں پاک اور صاف کرلینا۔ توبہ کا چوتھا رکن ’’عزم ترک العود بالجنان‘‘ ہے، یعنی جب زبان سے توبہ کی، دل سے شرمندگی محسوس کی اور جسمانی اعضا کو ان گناہوں سے پاک اور صاف کرلیا تو پھر دوبارہ اُس گناہ کی طرف نہ پلٹنے کا عزمِ مصمم کرے۔ توبہ کا پانچوں رکن ’’المھاجرۃ عن سییٔ الخُلّان‘‘ ہے، یعنی جو صحبتیں اور سنگتیں آپ کو گناہ کرنے پر مجبور کرتی ہیں، ان صحبتوں اور سنگتوں سے ہجرت کرتے ہوئے دوری اِختیار کر لینا۔
انہوں نے کہا کہ اس شہرِ اعتکاف میں ہم اللہ رب العزت کی چوکھٹ اور دہلیز پر اُسی کی خاطر، اُسی کے ذکر، اُسی کے دیدار کی تمنا، آرزو اور جستجو کی خاطر جمع ہوئے ہیں۔ اللہ رب العزت ہمارا یہاں اس مقدس بارگاہ میں آنا، جمع ہونا اور کچھ دن قیام کرنا اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے۔ شہرِ اعتکاف میں آنے، یہاں جمع ہونے اور کچھ دن قیام کرنے کو سلوک اور تصوف کی راہ میں سفر کہتے ہیں، سفر ایک ایسا معاملہ ہے جس میں آیا بھی جاتا ہے اور جایا بھی جاتا ہے، جو شخص سفر کرکے کسی منزل کی طرف رواں دواں ہوتا ہے تو وہ شخص جاتا بھی ہے اور اُسی نے پلٹ کر بھی آنا ہے۔ اللہ رب العزت ہمیں یہ توفیق عطا فرمائے کہ جس بارگاہ اور جس سنگت و صحبت میں حاضر ہوئے ہیں اُس صحبت سے کچھ فیض سمیٹ سکیں۔ دلوں پر موجود زنگ اور میل کچیل اُتر جائے اور وہ ہمیں اِس قابل بنا دے کہ ہم اِس سفرِ توبہ پر گامزن ہو جائیں۔