دارالافتاء تحریک منہاج القرآن

سوال: کسی موجد کی ایجاد کا فارمولا چرا کر اُس سے فائدہ حاصل کرنا کیسا ہے؟

جواب: اسلامی ضابطہ حیات ہر قسم کی چوری، خیانت اور دھوکہ دہی کو ممنوع قرار دیتا ہے۔ اسلام میں جس طرح کسی کا مال چوری کرنا منع ہے اسی طرح کسی کی محنت چوری کرنے کی بھی ممانعت ہے۔ اس لیے کسی کا ایجاد کردہ سافٹ ویئر، فارمولا یا شائع کردہ کتاب سے مواد چوری کر کے بیچنا اور اپنے نام سے شائع کرنا جائز نہیں ہے۔ فرمانِ باری تعالیٰ کے مطابق دوسرے کی محنت کو اپنے نام کرنا یعنی credit لینا جرم اور باعثِ عذاب گناہ ہے۔ جیسا کہ قرآن مجید میں ہے:

لَا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ يَفْرَحُونَ بِمَا أَتَوْا وَيُحِبُّونَ أَنْ يُحْمَدُوا بِمَا لَمْ يَفْعَلُوا فَلَا تَحْسَبَنَّهُمْ بِمَفَازَةٍ مِنَ الْعَذَابِ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ.

(آل عمران، 3: 188)

’’آپ ایسے لوگوں کو ہرگز (نجات پانے والا) خیال نہ کریں جو اپنی کارستانیوں پر خوش ہو رہے ہیں اور ناکردہ اعمال پر بھی اپنی تعریف کے خواہش مند ہیں، (دوبارہ تاکید کے لیے فرمایا:) پس آپ انہیں ہرگز عذاب سے نجات پانے والا نہ سمجھیں، اور ان کے لیے دردناک عذاب ہے۔‘‘

اس آیت مبارکہ سے معلوم ہوا کہ چوری صرف مال کی نہیں ہوتی بلکہ دوسرے کی محنت کو خریدے بغیر یا اس اجازت لیے بغیر استعمال کرنے کی بھی چوری ہوتی ہے۔ اس بات کی تصدیق حدیث مبارکہ سے بھی ہوتی ہے کہ چوری صرف مال کی نہیں ہوتی بلکہ حقوق کی بھی چوری ہوتی ہے جیسا کہ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

إِنَّ أَسْوَأَ النَّاسِ سَرِقَةً، الَّذِي يَسْرِقُ صَلَاتَهُ، قَالُوا: يَا رَسُولَ اللهِ وَكَيْفَ يَسْرِقُهَا؟ قَالَ: لَا يُتِمُّ رُكُوعَهَا وَلَا سُجُودَهَا.

(أحمد بن حنبل، المسند، 3: 56، الرقم: 11549، مصر: مؤسسة قرطبة)

’’سب سے بدترین چور وہ ہے جو اپنی نماز کی چوری کرتا ہے، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول! نماز کی وہ کیسے چوری کرتا ہے؟ تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: وہ اپنی نماز کے رکوع کو مکمل نہیں ادا کرتا ہے اور نہ سجدہ صحیح ادا کرتا ہے۔‘‘

مذکورہ بالا تصریحات کی روشنی میں آپ کے سوالات کے جوابات بالترتیب درج ذیل ہیں:

1. مہنگے داموں فروخت ہونے والے سافٹ ویئر غیر قانونی طریقے سے مفت ڈاؤن لوڈ کرکے بیچنا ممنوع اور ناجائز عمل ہے۔

2. اسی طرح کسی موجد کی ایجاد کا فارمولا جسے اُس نے پبلک نہ کیا ہو، چرا کر اُس کی مرضی کے بغیر کوئی شے بنا کر فروخت کرنا بھی جائز نہیں ہے۔

3. کسی مصنف کی اجازت کے بغیر کسی پبلشر کا اس کی کتاب کو شائع کرکے کمائی کرنا بھی ناجائز ہے اور کسی کی کتاب سے مواد چوری کر کے اپنے نام سے شائع کرنا بھی ممنوع امور میں سے ہے۔

سوال: کیا چوری کی بجلی سے بننے والا کھانا حلال ہے؟

جواب: بجلی چوری کرنا غیر اخلاقی، حرام اور قانوناً جرم ہے۔ ایسا کرنے والا خدا تعالیٰ کی نظر میں گنہگار اور ملکی قانون کی نگاہ میں مجرم ہے اور اپنے عمل کا ذمہ دار ہے۔ تاہم جو شخص اس چوری کے بارے میں نہیں‌ جانتا اس کے لیے اس سے بننے والا کھانا جائز ہے اور اس سے کیا گیا وضو بھی درست ہے۔

سوال: کیا چوری کے پیسوں سے سیکھے ہوئے ہنر کی کمائی حلال ہو گی؟

جواب: جس کے پیسے اس نے چوری کیے تھے اس کو واپس دے، اس سے معافی مانگے، پھر اللہ تعالی کی بارگاہ سے توبہ کرے، آئندہ ایسا کام نہ کرنے کا وعدہ کرے۔ یہی اس کی کمائی کو حلال کرنے کا بہترین طریقہ ہے ورنہ اس کی کمائی حرام ہو گی۔

سوال: مردوں کے لیے ریشم حرام ہونے کی علت کیا ہے؟

جواب: قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانتَهُوا وَاتَّقُوا اللهَ إِنَّ اللهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ.

(الْحَشْر، 59: 07)

اور جو کچھ رسول (ﷺ) تمہیں عطا فرمائیں سو اُسے لے لیا کرو اور جس سے تمہیں منع فرمائیں سو (اُس سے) رُک جایا کرو، اور اللہ سے ڈرتے رہو (یعنی رسول ﷺ کی تقسیم و عطا پر کبھی زبانِ طعن نہ کھولو)، بیشک اللہ سخت عذاب دینے والا ہے۔

مذکورہ بالا آیت مبارکہ میں اللہ پاک اہلِ ایمان کو حکم دے رہا ہے کہ رسول اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم تمہیں جس کام کے کرنے کا حکم دیں اسے اپنا لیا جائے اور جس کام سے روکیں اسے ترک کر دیا جائے۔ رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ریشم اور سونے کے بارے میں فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے یہ دونوں چیزوں میری امت کے مردوں پر حرام کر دی ہیں۔ اہلِ ایمان کے لیے سونے اور ریشم کو ترک کرنے کے لیے یہی وجہ کافی ہے کہ رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان سے منع کیا ہے۔ حضرت ابومسیٰ اشعری اور سیدنا علی کرم اللہ وجہہ الکریم روایت کرتے ہیں کہ آقا علیہ السلام نے ارشاد فرمایا:

عَنْ اَبِي مُوسَی الْاَشْعَرِیِّ، اَنَّ رَسُولَ اللہِ ﷺ قَالَ: حُرِّمَ لِبَاسُ الْحَرِيرِ وَالذَّهَبِ عَلَی ذُکُورِ اُمَّتِي وَاُحِلَّ لِإِنَاثِهِمْ.

(ترمذي، السنن، 4: 217، رقم: 1720، دار احياء التراث العربي، بيروت)

’’حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: میری امت کے مردوں پر ریشمی لباس اور سونا حرام ہے، عورتوں کے لیے حلال ہے۔‘‘

عَنْ اَبِي اَفْلَحَ الْهَمْدَانِيِّ رضی الله عنه عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ زُرَيْرٍ رضی الله عنه يَعْنِي الْغَافِقِيَّ اَنَّهُ سَمِعَ عَلِيَّ بْنَ اَبِي طَالِبٍ رضی الله عنه يَقُولُ إِنَّ نَبِيَّ اللہِ ﷺ اَخَذَ حَرِيرًا فَجَعَلَهُ فِي يَمِينِهِ وَاَخَذَ ذَهَبًا فَجَعَلَهُ فِي شِمَالِهِ ثُمَّ قَالَ إِنَّ هَذَيْنِ حَرَامٌ عَلَی ذُکُورِ اُمَّتِی.

’’حضرت ابو افلح ہمدانی رضی اللہ عنہ نے عبد اللہ بن زریر رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ انہوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو فرماتے ہوئے سنا کہ حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ریشمی کپڑا لیا اور داہنے دست مبارک سے پکڑا اور سونا لے کر اسے دوسرے دست مبارک میں تھاما۔ پھر فرمایا کہ یہ دونوں چیزیں میری امت کے مردوں پر حرام ہیں۔‘‘

(ابي داود، السنن، 4: 50، رقم: 4057، دار الفکر)

اسلام نے جن اشیاء کو حرام قرار دیا ہے، بلاشبہ اس کی کوئی علت ضرور ہوتی ہے۔ ریشم کا لباس اور سونے کے زیورات بنیادی طور پر زینت کی چیزیں ہیں اور اسلام زیب و زینت، بناؤ سنگھار کو خواتین کی ضرورت قرار دیتا ہے، مگر اس کے لیے اعتدال شرط ہے۔ ریشم اور سونے کو مردوں کے لیے حرام قرار دے کر رسول اکرم صلیٰ اللہ علیہ آلہ وسلم نے انہیں تکبر، اسراف اور دنیاوی زینتوں کو مقصودِ محض بنانے سے روکا ہے۔ جدید سائنس طبی نقطہ نظر سے ریشم کو مردوں کے لیے نقصاندہ قرار دے چکی ہے۔

سوال: مرد کتنی مقدار میں سونا اور چاندی استعمال کرسکتا ہے؟

جواب: حضرت معاویہ بن سوید بن مقرن نے حدیث مبارکہ بیان کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ:

سَمِعْتُ الْبَرَاءَ بْنَ عَازِبٍ رضی اللہ عنهما یَقُولُ نَهَانَا النَّبِيُّ صلیٰ الله علیه وآله وسلم عَنْ سَبْعٍ نَهَانَا عَنْ خَاتَمِ الذَّهَبِ اَوْ قَالَ حَلْقَةِ الذَّهَبِ وَعَنِ الْحَرِیرِ وَالْإِسْتَبْرَقِ وَالدِّیبَاجِ وَالْمِیثَرَةِ الْحَمْرَائِ وَالْقَسِّيِّ وَانِیَةِ الْفِضَّةِ وَاَمَرَنَا بِسَبْعٍ بِعِیَادَةِ الْمَرِیضِ وَاتِّبَاعِ الْجَنَائِزِ وَتَشْمِیتِ الْعَاطِسِ وَرَدِّ السَّلَامِ وَإِجَابَةِ الدَّاعِي وَإِبْرَارِ الْمُقْسِمِ وَنَصْرِ الْمَظْلُومِ.

میں (معاویہ بن سوید) نے حضرت برا بن عازب رضی اللہ عنہما کو فرماتے ہوئے سنا کہ نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں سات (7) باتوں سے منع فرمایا: سونے کی انگوٹھی یا سونے کا چھلا، ریشم، استبرق، دیباج سرخ گدوں، قسی (ایک قسم کا ریشمی کپڑا) اور چاندی کے برتن، اور سات (7) باتوں کا ہمیں حکم دیا ہے: یعنی بیمار کی مزاج پرسی کرنا، جنازے کے ساتھ جانا، چھینکنے والے کو جواب دینا، سلام کا جواب دینا، دعوت کو قبول کرنا، قسم کو پورا کرنا اور مظلوم کی مدد کرنا۔

(بخاري، الصحیح، 5: 2202، رقم: 5525، دار ابن کثیر الیمامة بیروت)، (مسلم، الصحیح، 3: 1635، رقم: 2066، دار احیاء التراث العربي بیروت)

عَنْ عَبْدِ اللہِ رضی اللہ عنهما اَنَّ رَسُولَ اللہِ صلیٰ الله علیه وآله وسلم اتَّخَذَ خَاتَمًا مِنْ ذَهَبٍ وَجَعَلَ فَصَّهُ مِمَّا یَلِي کَفَّهُ فَاتَّخَذَهُ النَّاسُ فَرَمَی بِهِ وَاتَّخَذَ خَاتَمًا مِنْ وَرِقٍ اَوْ فِضَّة.

(بخاري، الصحیح، 5: 2202، رقم: 5527)، (مسلم، الصحیح، 3: 1656، رقم: 2091)

حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سونے کی ایک انگوٹھی پہنی اور اس کا نگینہ ہتھیلی کی جانب رکھا تو لوگوں نے بھی پہننی شروع کردیں، بعد ازاں آپ نے وہ پھینک دی اور چاندی کی انگوٹھی تیار کروالی۔

درج بالا حدیث کی تشریح کرتے ہوئے حضرت علامہ علی بن سلطان محمد القاری المعروف ملا علی قاری فرماتے ہیں:

’’یہ اس وقت کی بات ہے جب مردوں پر سونا حرام نہیں ہوا تھا۔ امام محمد رحمہ اللہ علیہ نے ’’موطا‘‘ میں فرمایا ہے کہ مرد کے لیے جائز نہیں کہ وہ سونے، لوہے اور پیتل کی انگوٹھی بنائے۔ البتہ چاندی کی انگوٹھی بنانے کی اجازت ہے، جبکہ عورتوں کے لیے سونے کی انگوٹھی بنانے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ امام نووی رحمہ اللہ علیہ نے فرمایا ہے کہ اس بات پر اجماع ہے کہ عورتوں کے لئے سونے کی انگوٹھی جائز اور مردوں کے لیے حرام ہے۔‘‘

(ملا علی قاري، مرقاة المفاتیح، 8: 242، دار الکتب العلمیة بیروت)

حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سونے یا چاندی کی انگوٹھی پہنی اور اس کا نگینہ ہتھیلی کی جانب رکھا اور اس کے اندر محمد رسول اللہ نقش کروایا۔ پس لوگوں نے بھی اسی طرح کی پہن لیں۔ جب آپ نے انہیں پہنے ہوئے دیکھا تو اپنی انگوٹھی پھینک دی اور فرمایا: میں اب اسے کبھی نہیں پہنوں گا۔ پھر آپ نے چاندی کی انگوٹھی تیار کروائی، تو لوگوں نے بھی چاندی کی انگوٹھیاں بنوالیں۔ حضرت ابن عمر فرماتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعد وہ انگوٹھی حضرت ابو بکر نے پہنی، پھر حضرت عمر نے اور پھر حضرت عثمان نے یہاں تک کہ حضرت عثمان سے وہ اریس کے کنویں کے اندر گرگئی۔

(بخاري، الصحیح، 5: 2202، رقم: 5528) ،(مسلم، الصحیح، 3: 1656، رقم: 2091)

عبد اللہ بن بریدہ نے اپنے والد ماجد سے روایت کی ہے کہ ایک آدمی حضور نبی اکرم صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوا اور اس نے پیتل کی انگوٹھی پہنی ہوئی تھی۔ آپ نے اس سے فرمایا: کیا بات ہے کہ مجھے تم میں سے بتوں کی بو آرہی ہے؟ اس نے وہ پھینک دی اور پھر لوہے کی انگوٹھی پہن کر حاضر ہوا، آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: کیا بات ہے کہ میں تمہیں دوزخیوں کا زیور پہنے ہوئے دیکھ رہا ہوں؟ تو اس نے وہ پھینک دی، اور عرض گزار ہوا: یا رسول اللہ(صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم)! میں کس چیز کی انگوٹھی پہنوں؟ آپ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا چاندی کی پہنو جو ایک مثقال سے کم ہو۔

(ابي داود، السنن، 4: 90، رقم: 4223) (ترمذي، السنن، 4: 248، رقم: 1785، دار احیاء التراث العربي بیروت)

حضرت علامہ ملا علی قاری، اس حدیث مبارکہ کی شرح میں لکھتے ہیں:

’’علامہ ابن الملک رحمہ اللہ علیہ مظہر کی اتباع میں فرماتے ہیں یہ نہی ’’ارشاد الی الورع‘‘ ہے، اس لئے کہ اولیٰ یہ ہے کہ انگوٹھی کا وزن مثقال سے کم ہو۔ کیونکہ یہ اسراف سے بعید ہے اور اس طرح یہ تکبر سے بھی بعید ہے۔ شوافع کے کچھ علماء تو کہتے ہیں کہ مثقال سے زائد حرام ہے، لیکن بعض دوسرے علماء نے اس کے جواز کو ترجیح دی ہے۔ ان مجوزین میں حافظ عراقی رحمہ اللہ علیہ بھی ہیں انہوں نے ’’شرح الترمذی‘‘ میں کہا ہے کہ نہی مذکور تنزیہ پر محمول ہے۔ ترمذی اور نسائی نے اس کو سند جید کے ساتھ روایت کیا ہے، بلکہ ابن حبان وغیرہ نے اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے۔

(ملا علی قاري، مرقاة المفاتیح، 8: 253)

امام الفقہ علامہ محمد بن علی بن محمد علاء الدین حصنی دمشقی المعروف حصفکی رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں:

لاباس بازرار الدیباج والذهب.

(حصفکي، الدر المختار، 6: 355، دار الفکر بیروت)

ریشم اور سونے کی گھنڈی (قمیض کے بٹن) کے استعمال میں کچھ حرج نہیں۔

ولا یتحلی الرجل بذهب وفضة مطلقا الا بخاتم ومنطقة وحلیة سیف منها اي الفضة اذا لم یرد به التزین.

(حصفکي، الدر المختار، 6: 358، 359)

کوئی شخص مطلقا سونے اور چاندی کا زیور نہ پہنے، سوائے چاندی کی انگوٹھی، کمر بند اور تلوار کی دستی کے، جب زیب و زینت اور نمائش کا ارادہ نہ ہو۔

شیخ نظام الدین اور ان کے ساتھ علماء ہند فتاوٰی عالمگیری میں لکھتے ہیں:

لاباس بلبس الثوب في غیر الحرب اذا کان ازاره دیباجا او ذهبا.

(الشیخ نظام وجماعة من علماء الهند، الفتاوٰی الهندیة، 5: 332، دار الفکر)

جنگ کے علاوہ اگر ایسا کپڑا پہنے کہ جس کے بٹن ریشمی یا سونے کے ہوں تو کوئی حرج نہیں۔

خلاصہ کلام:

مردوں کے لیے چاندی کی انگوٹھی کے علاوہ سونے، چاندی یا کسی دوسری دھات کے زیورات پہننا جائز نہیں۔ چاندی کی انگوٹھی کا وزن ایک مثقال سے کم ہونا چاہیے، جو کہ چار (4) ماشے (3.03775 گرام) کے برابر ہے۔ اسی طرح سونے، چاندی کے برتنوں میں کھانا عورتوں اور مردوں دونوں کے لیے حرام ہے۔

مرد دانت، ناک یا کوئی بھی ضائع ہوجانے والا عضو سونے، چاندی یا کسی اور دھات کا لگوا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ مرد سونے، چاندی کے بنے ہوئے بٹن بھی قمیص کو لگوا سکتا ہے۔