فرمانِ الٰہی
اَللهُ لَآ اِلٰهَ اِلَّا ھُوَ ج الْحَیُّ الْقَیُّوْمُ ج لَا تَاْخُذُهٗ سِنَۃٌ وَّلَا نَوْمٌ ط لَهٗ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ ط مَنْ ذَا الَّذِیْ یَشْفَعُ عِنْدَهٗٓ اِلَّا بِاِذْنِهٖ ط یَعْلَمُ مَا بَیْنَ اَیْدِیْھِمْ وَمَا خَلْفَهُمْ ج وَلَا یُحِیْطُوْنَ بِشَیْئٍ مِّنْ عِلْمِهٖٓ اِلَّا بِمَا شَآءَ ج وَسِعَ کُرْسِیُّهُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ ج وَلَا یَؤُوْدُهٗ حِفْظُھُمَا ج وَھُوَ الْعَلِیُّ الْعَظِیْمُ.
(البقرة، 2: 255)
’’اﷲ، اس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں، ہمیشہ زندہ رہنے والا ہے (سارے عالم کو اپنی تدبیر سے) قائم رکھنے والا ہے، نہ اس کو اُونگھ آتی ہے اور نہ نیند، جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے سب اسی کا ہے، کون ایسا شخص ہے جو اس کے حضور اس کے اِذن کے بغیر سفارش کر سکے، جو کچھ مخلوقات کے سامنے (ہو رہا ہے یا ہو چکا) ہے اور جو کچھ ان کے بعد (ہونے والا) ہے (وہ) سب جانتا ہے، اور وہ اس کی معلومات میں سے کسی چیز کا بھی احاطہ نہیں کر سکتے مگر جس قدر وہ چاہے، اس کی کرسئ (سلطنت و قدرت) تمام آسمانوں اور زمین کو محیط ہے، اور اس پر ان دونوں (یعنی زمین و آسمان) کی حفاظت ہرگز دشوار نہیں، وہی سب سے بلند رتبہ بڑی عظمت والا ہے۔‘‘
فرمانِ نبوی ﷺ
عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ رضی اللہ عنہ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللہِ ﷺ، یَقُولُ: مَنْ سَلَکَ طَرِیْقًا یَبْتَغِي فِیْہِ عِلْمًا سَلَکَ اللہُ لَهُ طَرِیْقًا إِلَی الْجَنَّۃِ، وَإِنَّ الْمَـلَائِکَۃَ لَتَضَعُ أَجْنِحَتَھَا، رِضَائً لِطَالِبِ الْعِلْمِ وَإِنَّ الْعَالِمَ لَیَسْتَغْفِرُ لَهُ مَنْ فِي السَّمَوَاتِ وَمَنْ فِي الْأَرْضِ حَتَّی الْحِیْتَانُ فِي الْمَاءِ، وَفَضْلُ الْعَالِمِ عَلَی الْعَابِدِ، کفَضْلِ الْقَمَرِ عَلَی سَائِرِ الْکَوَاکِبِ، إِنَّ الْعُلْمَاءَ وَرَثَۃُ الْأَنْبِیَاءَ إِنَّ الْأَنْبِیَاءَ لَمْ یُؤَرِّثُوْا دِیْنَارًا، وَلاَ دِرْھَمًا، إِنَّمَا وَرَّثُوْا الْعِلْمَ، فَمَنْ أَخَذَ بِہِ، أَخَذَ بِحَظٍّ وَافِرٍ. رَوَاهُ أَبُوْحَنِیْفَۃَ وَالتِّرْمِذِيُّ وَاللَّفْظُ لَهُ.
’’حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضور نبی اکرم ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: جو آدمی طلبِ علم میں کسی راستہ پر چلتا ہے تو اﷲ تعالیٰ اسے جنت کے راستے پر چلا دیتا ہے۔ اور بیشک فرشتے طالبِ علم کی رضا کے حصول کے لئے اس کے پائوں تلے اپنے پر بچھاتے ہیں۔ اور عالم کے لئے زمین و آسمان کی ہر چیز یہاں تک کہ پانی میں مچھلیاں بھی مغفرت طلب کرتی ہیں۔ اور عابد پر عالم کی فضیلت ایسے ہی ہے جیسے چودہویں رات کے چاند کی فضیلت تمام ستاروں پر ہے۔ اور بے شک علماء انبیاء کرام علیہم السلام کے وارث ہیں۔ بے شک انبیاء کرام کی وراثت درہم و دینار نہیں ہوتی بلکہ ان کی میراث علم ہے پس جس نے اسے پایا اسے (وراثتِ انبیاء سے) بہت بڑا حصہ مل گیا۔‘‘
(المنہاج السوی، ص:430)