دنیائے اسلام کی سب سے بڑی اعتکاف گاہ (حرمین شریفین کے بعد) تحریک منہاج القرآن کے زیرِ اہتمام ہر سال ’’شہرِ اعتکاف‘‘ کے نام سے جامع المنہاج بغداد ٹاؤن میں سجائی جاتی ہے۔ 1990ء سے لے کر اب تک 31 سالانہ شہر اعتکاف آباد ہوچکے ہیں۔ جن میں نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر سے ہزارہا معتکفین و معتکفات ہر سال شریک ہوتے ہیں۔
اس شہرِ اعتکاف کو قدوۃ الاولیاء حضور پیر سیدنا طاہر علاؤالدین القادری الگیلانی البغدادی رحمۃ اللہ علیہ کی روحانی سرپرستی حاصل ہے جبکہ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کی علمی و فکری معیت اور ڈاکٹر حسن محی الدین قادری اور ڈاکٹر حسین محی الدین قادری کی ہمہ جہتی نگرانی اس اجتماعی اعتکاف کا طرہ امتیاز ہے۔
امسال بھی الحمدللہ تعالیٰ تحریک منہاج القرآن کے زیر اہتمام شہر اعتکاف سجایا گیا جس میں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری دامت برکاتہم العالیہ نے ’’خدا کو کیوں مانیں اور مذہب کو کیوں اپنائیں؟‘‘ کے موضوع پر خصوصی خطابات ارشاد فرمائے۔
یہاں یہ بات قابل زکر ہے کہ مہنگائی کے اس دور میں جہاں زندہ رہنا مشکل ہوگیا اور میسر اور دستیاب وسائل سے ضروریات کہیں بڑھ گئیں۔ اس صورتِ حال کے باوجود شہرِ اعتکاف میں معتکفین و معتکفات کی تعداد پچھلے سال سے کئی گنا بڑھ گئی ہے۔
20 رمضان المبارک کو شہرِ اعتکاف کے آغاز پر صدر منہاج القرآن ویمن لیگ انٹرنیشنل ڈاکٹر غزالہ حسن قادری، محترمہ فضہ حسین قادری، صدر منہاج القرآن ویمن لیگ ڈاکٹر فرح ناز، نائب صدر محترمہ سدرہ کرامت نے معتکفات کو خوش آمدید کہا۔ بعد ازاں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے تعلیمی، تربیتی، روحانی، تجدیدی اور احیائے اسلام کی عالمگیر تحریک کے عظیم مرکز منہاج القرآن کے شہر اعتکاف میں ہزاروں معتکفین و معتکفات کو خوش آمدید کہتے ہوئے ان کے لیے نیک تمناؤں کا اظہار کیا اور خصوصی دعا کی۔
ویمن اعتکاف 2024ء کے فقیدالمثال انتظامات
منہاج القرآن ویمن لیگ کے زیر اہتمام ویمن اعتکاف 2024ء میں اندرون و بیرون ملک سے ہزارہا معتکفات شریک ہوئیں۔ اِن ہزارہا معتکفات کی رہائش اور سحر و افطار کے خصوصی انتظامات کیے گئے۔ ہزاروں خواتین معتکفات اور سیکڑوں معتکف بچوں کے لیے علیحدہ انتظامات کیے گئے ۔ معتکفات کی سہولت کیلئے شہر اعتکاف کو مختلف بلاکس میں تقسیم کیا گیا۔
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کے خطابات
امسال شہر اعتکاف 2024ء میں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری دامت برکاتہم العالیہ نے ’’زوال پذیر معاشرتی اقدار اور قرآنی احکامات‘‘کے موضوع پر 9 خصوصی خطابات ارشاد فرمائے۔ شیخ الاسلام کے یہ خطابات منہاج ٹی وی، آفیشل یوٹیوب چینل ڈاکٹر قادری، انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کے ذریعے روزانہ براہِ راست نشر کیے گئے۔
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کے شہرِ اعتکاف 2024ء کے ایمان افروز خطابات کا خلاصہ قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے:
پہلی نشست: خدا کو کیوں مانیں اور مذہب کو کیوں اپنائیں؟
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری دامت برکاتہم العالیہ شہرِ اعتکاف کی پہلی نشست سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ شہرِ اعتکاف میں پاکستان سمیت دنیا بھر سے تشریف لانے والے جملہ معتکفین کو خوش آمدید کہتا ہوں۔ خدا ہر جگہ موجود ہے اس دعوے کا جواب قرآن نے ان الفاظ میں دیا ہے کہ ساری کائنات اس کے احاطہ میں ہے، شرق تا غرب سب کچھ اسی کی دسترس میں ہے، ساری کہکشائیں جن کی تعداد اربوں میں ہے یہ نظام شمسی اور یہ سارا سولر سسٹم ایک چھوٹی سی چیز ہے، اللہ ان سب سے بڑا ہے۔ ایمان بالغیب ہی وہ صفت ہے جس سے ایمان کا راستہ نکلتا ہے، غیب عربی زبان کا لفظ ہے، غیب اس چیز کو کہتے ہیں جو موجود تو ہو مگر مشہود نہ ہو یعنی دکھائی نہ دے سکے، جس چیز کو دیکھا نہ جا سکے اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ موجود نہیں ہے، بہت ساری چیزیں ہیں جو موجود تو ہیں مگر ہماری آنکھ انھیں دیکھ نہیں سکتی۔
انہوں نے کہا کہ نوجوان اپنا تعلق علم اور کتاب سے جوڑیں، علم میں پختگی کے لیے خوب محنت کریں اور مطالعہ کا شوق پیدا کریں۔ قرآن مجید پر غور و فکر کریں اور تحقیقی موازنہ کی طرف آئیں۔ قرآن میں 856 آیات ایسی ہیں جن میں اللہ نے علم کی ضرورت و اہمیت پر زور دیا ہے، جب کہ ایک ہزار کے قریب آیات میں بالواسطہ یا بلاواسطہ سائنسی حقائق بیان کیے گئے ہیں۔ قرآن مجید میں پونے دو ہزار آیات ایسی ہیں جن میں علم اور سائنس کی بات کی گئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ قرآن مجید نے اپنے ماننے والوں کو بار بار دعوت دی کہ غور کرو، تدبر سے کام لو، تحقیق سے کام لو علم سے تعلق جوڑو، جو کتاب اپنے ماننے والوں کو غوروفکر کی دعوت دے کیا وہ کتاب غلط ہو سکتی ہے؟ اسی لیے قران کا دعویٰ ہے کہ دنیا بھر کے اہل زبان مل کر اس جیسی کوئی ایک آیت یا سورۃ لے آؤ؟۔ کہا جاتا ہے کہ سائنس ایجادات کرتی ہے اور پھر بعد میں انھیں قرآن کے اندر سے ڈھونڈ نکالا جاتا ہے کہ یہ سائنسی حقیقت قرآن میں موجود ہے۔ سوال کرنے والے کہتے ہیں اگر یہ قرآن میں موجود تھا تو مسلمانوں یہ ایجادات خود کیوں نہیں کیں؟ اس کا ایک جواب یہ ہے کہ کسی اور مذہب نے اپنی مذہبی کتاب سے یہ حقائق کیوں نہ ڈھونڈ نکالے؟ قرآن میں یہ حقائق موجود ہیں تو نکالے گئے۔ دوسرا جواب یہ ہے کہ ان حقائق تک رسائی کے لیے دونوں طرف کا پختہ علم ہونا شرط اول ہے، جوں جوں سائنس کائنات کے پردے اٹھاتی چلی جائے گی وہ قرآن کے دعوؤں اور معارف و معانی کی توثیق کرتی چلی جائے گی کیونکہ یہ سب حقائق 14 سو سال قبل قرآن نے بیان کر دیے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ قرآن مجید نے 14 سو سال قبل جو حقائق بیان کیے انھیں آج کے دن تک کوئی جھٹلا نہیں سکا اور قرآن نے جو چیلنج کیے وہ چیلنج بھی آج کے دن تک کوئی قبول نہیں کر سکا، جو کتاب چیلنج کرے، غوروفکر کی دعوت دے ایسی کتاب جھوٹ ہو سکتی ہے؟۔ جو ہر جگہ موجود ہو اس کا کوئی ایک پتہ نہیں ہوتا، جس کا ایک پتہ ہوتا ہے وہ ہر جگہ موجود نہیں ہوتا، اللہ ان جگہوں پر بھی ہے جس کا ہمیں علم نہیں ہے۔ قرآن کہتا ہے کہ اگر زمین و آسمان میں موجود نشانیوں پر غور کرو گے تو ان میں سے ہر نشانی اللہ کی ذات کا پتہ دے گی، اللہ ہر چیز پر محیط ہے اس لیے وہ نظر نہیں آتا، نظر کی ایک حد ہے، نظر کی استعداد حواس خمسہ کی مرہون منت ہے اور ان کے دائرہ کار کی ایک حد ہے جب کہ اللہ لا محدود اور بے حد ہے، حد والے حواس بے حد کو نہیں دیکھ سکتے اسی لئے فرمایا گیا غیب پر ایمان لاؤ۔
انہوں نے کہا کہ جب یقین کمزور ہوجاتا ہے تو پھر بعض ذہنوں میں یہ خیال جنم لیتا ہے کہ اگر خدا ہے تو وہ کہاں ہے اور اس کا پتہ کیا ہے؟۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں فرمایا کہ قرآن مجید کی آیات پر غور و تدبر کریں اور اہل عقل و دانش ان سے ہدایت و راہنمائی حاصل کریں۔ مہنگائی اور گرانی کے اس دور میں اپنے کاروبار سے الگ ہو کر اللہ کی رضا کے لیے دس دن خود کو اس تربیتی ورکشاپ کے لیے مخصوص کرنا بہت بڑی سعادت ہے۔ اللہ تعالیٰ آپ کی اس کاوش کو قبول و منظور فرمائے۔ جو چیزیں حواس خمسہ کے ذریعہ محسوس ہوں ان کو انسان جان لیتا ہے مگر جو چیزیں حواس خمسہ سے ماورا ہوں انہیں سائنسدان اور سائنس کچھ نشانیوں سے جانتی اور پہچانتی ہے، جیسے پھول کو تو ہم دیکھ سکتے ہیں مگر خوشبو کو نہیں دیکھ سکتے۔ مگر اس کے وجود سے انکار بھی نہیں کر سکتے۔
انہوں نے کہا کہ سائنسی ایجادات اور فتوحات کی عمر گزشتہ دو صدیاں ہیں، اس سے پہلے تو سائنس خود ٹامک ٹوئیاں مار رہی تھی۔ قرآن نے 14 سو سال قبل اعلان کر دیا تھا کہ وقت آئے گا تو تم جان لو گے کہ اللہ نے اس کتاب میں جو بیان کر دیا وہ حق ہے۔ وقت مقررہ پر تم یہ سب جان لو گے اور ساری گتھیاں سلجھتی جائیں گی۔
دوسری نشست: خدا کو کیوں مانیں اور مذہب کو کیوں اپنائیں؟
نشست سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ خدا تک رسائی کا طریقہ، تحقیق ہے اور تحقیق کے لیے انسان کو قرآن مجید میں غوطہ زنی کرنی پڑتی ہے۔ اگر کوئی اُس حسنِ مطلق کی تلاش میں سرگرداں ہو اور اس تلاش کے تمام مطلوبہ تقاضے پورے کرے تو اس کا پتہ لازمی مل جاتا ہے اور اُس تک رسائی نصیب ہوجاتی ہے۔ ایمان والوں کو لمحہ بہ لمحہ ایسے اِہتمام کی ضرورت ہوتی ہے جو ان کے ایمان میں اضافے کا باعث بنتی رہے۔ ایمان پر جتنی شدت کے حملے ہورہے ہیں، اس کے بچاؤ کے لیے کوشش بھی اتنی شدت کی ہونی چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ آج کے دور میں ایمان کو کمزور کرنے کے عوامل بے شمار ہیں۔ موبائل فون اس کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ ہدایت پا لینے کے بعد بھی ہدایت کی ضرورت باقی رہتی ہے۔ ایمان کی دولت نصیب ہونے کے بعد بھی ایمان کو پختہ کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ میری کوشش ہے کہ ملک و ملت اور اُمت کے سرمائے کی مانند اپنے نوجوانوں کو لادینیت کے فتنے سے بچایا جائے اور ان کے اَخلاق و کردار کی حفاظت کی جائے۔ ایمان کو حاصل کرنے اور ایمان کو بچانے کےلیے ہماری کوئی شعوری کوشش نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج کی نوجوان نسل بکھرے ہوئے تنکوں کی مانند ہے جسے تھوڑی سی ہوا کہیں بھی لے جا سکتی ہے۔
انہوں نے کہا پہلے شفا خانے ہوتے تھے، اب بدقسمتی سے مرض خانے کھل گئے ہیں۔ آن لائن گروپس بن گئے ہیں جنہیں ex-Muslims کا نام دیا گیا ہے۔ وہ دہریت کے online گروپس چلا رہے ہیں، ان کی اپنی زندگیوں میں بے شمار کجیاں ہیں اور وہ خود راہِ ہدایت پر نہیں ہیں۔ ایمان کا بچاؤ قرآن کے ذریعے ممکن ہے اور اس بچاؤ کیلئے اچھی سنگت اور صحبت لازم ہے۔ القرآن: "وہ لوگ جنہوں نے محنت کر کے ہدایت پالی تھی اللہ نے انہیں مزید ہدایت عطا فرما دی ہے۔ " جو رب سے ملاقات رکھتے ہیں، ان سے ملاقات و تعلقات اُستوار رکھنا ہمیں اُس ملاقات کی کچھ تجلیات، اثرات اور کیفیات دیتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ سلامتی پانے کے لیے دنیا کو دل سے نکالنا ہوتا ہے۔ جس دل سے دنیا نکل جائے گی اس دل میں سلامتی آجائے گی۔ اگر آپ اُس سے جڑے رہیں اور دنیا کو بھی اپنے دل میں سموئے رکھیں تو سلامتی نہیں آتی۔ اللہ سے ملاقات کے لیے دل کو دنیا سے مستغنی کرنے کی ضرورت ہے۔ جب تک دل میں دنیا کا حرص، لالچ، رغبت اور تڑپ قائم رہے گی اور دل دنیا سے جڑا رہے گا، اُس وقت تک وہ مولا سے جڑ نہیں سکتا۔ کسی کے وصل کے لیے فصل ضروری ہوتی ہے۔ کہیں سے کٹو گےتو کہیں جڑو گے۔ اِس مادی دنیا سے دل کٹے گا تو اللہ سے جڑنے کا راستہ آسان ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ اللہ والے کہا کرتے تھے کہ اللہ کی صحبت اور مجلس میں بیٹھا کرو۔ اگر ایسا نہ کر سکو تو کم از کم ان لوگوں کی خدمت میں ضرور بیٹھا کرو جو اللہ کی مجلس میں بیٹھنے والے ہیں۔ اپنی نمازوں کو رب سے ملاقات کا ذریعہ بناؤ۔ عبادات میں حسن پیدا کرتے ہوئے اپنے رب سے اپنی دوری کو ختم کرو۔
تیسری نشست: خدا کو کیوں مانیں اور مذہب کو کیوں اپنائیں؟
نشست سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ 1875ء میں یہ تحقیق سامنے آئی کہ پہاڑ جتنے زمین کے اوپر ہیں، اُتنے ہی زمین کے نیچے ہوتے ہیں۔ یوں سائنس دانوں یہ 150 سال قبل یہ آگہی دنیا کو دی۔ جب کہ اسلام نے آج سے 1400 سال قبل قرآن مجید کے ذریعے یہ معلومات انسانیت کو فراہم کر دی تھیں۔ آج سے ساڑھے 14 صدیاں قبل جہالت بھرے دور میں نازل ہونے والے قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے وہ تمام سائنسی حقائق بیان کردیے تھے جو آج سائنسی تحقیقی سے معلوم ہو رہے ہیں۔ یہی اس بات کی دلیل ہیں کہ خدا کو مانا جائے۔ المیہ یہ ہے کہ ہم قرآن مجید کو پڑھنا اور اس کی آیات کو سمجھنا ہی نہیں چاہتے۔ خدا، دین اور حق کا راستہ اُن سے معلوم کرنا چاہتے ہیں جو خود بھٹکے ہوئے ہیں۔ ایسے ہزاروں سوالات ہیں جن کی خبر سائنس اور انسانیت کو آج ملی ہیں جب کہ قرآن مجید ان کا واضح تذکرہ ساڑھے 14 صدیاں قبل کر چکا ہے۔
انہوں نے کہا کہ خدا کے وجود سے انکار کرنے والوں سے یہ سوالات لازمی کریں کہ جو علم سائنس کو گزشتہ دو تین صدیوں میں حاصل ہوا، وہ آج سے 1450 سال قبل قرآن کو کیسے معلوم ہوا اور قرآن نے کیسے بیان کیا؟ سائنس آج زمین کی گردش ثابت کررہی ہے، جب کہ قرآن نے زمین کی گردش کا علم 1,450 سال قبل انسانیت کو عطا کر دیا تھا۔ جن کو حق کی تلاش ہوتی ہے وہ سب سے پہلے اُس جگہ جاتے ہیں جہاں حق ملتا ہے۔ پھر اُس پر غور و فکر کرتے ہیں اور سوچ اور تدبر کے ساتھ حق تلاش کرتے ہیں تو اُنہیں حق مل جاتا ہے۔ خدا نے کائنات کے پھیلاؤ کا تصوّر حضور نبی اکرم ﷺ کے ذریعے اِنسانیت کو اُس کو وقت دیا جب عالمِ عرب میں ہر سُو جہالت کے ڈیرے تھے؛ جب کہ سائنس یہ باتیں 1450 سال بعد لوگوں کو بتا رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ عاشق کی علامت کیا ہے؟، عاشق وہ ہوتا ہے جو کسی حال میں محبوب کو نہ بھولے۔ نماز، محبوبِ حقیقی سے ملاقات ہوتی ہے۔ اگر فرض نماز میں غفلت برتی تو کسی اور کام کی کوئی وُقعت و حیثیت نہیں۔
چوتھی نشست: خدا کو کیوں مانیں اور مذہب کو کیوں اپنائیں؟
انہوں نے کہا کہ نوجوان دنیا کا ہر علم حاصل کریں مگر قرآن کو ہرگز نظر انداز نہ کریں۔ دنیا اور آخرت کی ہر کامیابی اور ترقی کا راز قرآن میں مضمر ہے۔
سورۃ عبس کی آیت نمبر 18 اور 19 کے مطابق انسانی تخلیق کے ابتدائی مراحل میں یہ طے ہوجاتا ہے کہ پیدا ہونے والا انسان کیسا ہوگا: گورا ہوگا یا کالا، لمبا ہوگا یا چھوٹا؛ اس کی دیگر خصوصیات کیا ہوں گی، وغیرہ۔
قرآن مجید اپنی گواہی خود دیتا ہے۔ دنیا کے کسی اور مذہب کی کتاب اس طرح کے چیلنج سے شروع نہیں ہوتی کہ اس کتاب میں کسی قسم کا کوئی شک نہیں۔
جتنی خدمت سائنس نے قرآن کی کردی ہے، شاید کسی اور علم نے اتنی خدمت دین کی نہیں کی۔ سائنس نے جا بجا حقانیتِ قرآن کے عقلی دلائل دیے ہیں۔
اِلحاد، دین بیزاری، لامذہبیت اور ناخدائیت کے بعد لاجنسیت کا فتنہ آنے والا ہے، جس میں انسان اپنی جنس کا انکار کرے گا۔ لڑکا کہے گا: میں لڑکی ہوں؛ جب کہ لڑکی کہے گی: میں لڑکا ہوں۔ کوئی دوسرا میری جنس متعین نہیں کرسکتا، بلکہ اپنی جنس کا تعین میں خود کروں گا۔ آج ان فتنوں کی پیش بندی کرنا وقت کا اہم تقاضا ہے۔
سائنس بتاتی ہے کہ تیسرے ہفتے ميں رحم مادر میں کان کا پردہ بنتا ہے اور چوتھے ہفتے ميں آنکھ کا پردہ بنتا ہے۔ ... قرآن مجید میں ہر جگہ کان کا ذکر پہلے ہوا ہے اور آنکھ کا بیان بعد میں، کیوں کہ رحم مادر میں انسان کی تخلیق کے مراحل میں پہلے کان بنتے ہیں اور بعد میں آنکھوں کی تشکیل ہوتی ہے۔ یہ علم کیسے قرآن میں آگیا؟ ... اگر خدا نہیں ہے تو پھر کون ہے جس نے آج سے 1450 سال قبل قرآن میں یہ حقائق بیان کردیے؟
یہ بات مسلمہ ہے کہ قرآن مجید میں ساتویں صدی عیسوی میں بیان کیے گئے سائنسی حقائق کسی انسانی کاوش کا نتیجہ ہرگز نہیں ہوسکتے۔ ... بلکہ یہ ناقابلِ تردید حقیقت ہے کہ ایسے تمام facts خدا نے اپنے پیغمبر پر آشکار کیے ہیں۔ [ڈاکٹر کیتھ مور]
ڈاکٹر کیتھ مور کہتا ہے کہ سورۃ الزمر کی آیت نمبر 6 کے مطالعہ نے مجھے ورطۂ حیرت میں مبتلاکر دیا کہ کیسے قرآن نے 1450 سال قبل مرحلہ وار انسانی تشکیل کی تفصیلات بیان کر دیں۔
لازم ہے کہ ہم اپنے مسائل کا حل قرآن مجید کو پڑھ کر نکالیں۔ قرآن مجید کا آغاز ہی اِس حقیقت سے ہوا ہے کہ اِس میں کوئی شک نہیں۔
1941ء سے پہلے تک سائنس کو یہ معلوم نہ تھا کہ انسان کی پیدائش کا عمل کیا ہے اور یہ کس طرح انجام پاتا ہے، جب کہ آج سے 1450 سال پہلے اسلام نے یہ تمام معلومات قرآن کے ذریعے انسانیت کو عطا کر دی تھیں۔
مسلم دنیا آج سے 1450 سال پہلے سے مراکزِ علم سے منور تھی، جب کہ 1915ء تک سائنس وہیں رُکی ہوئی تھی کہ کائنات متحرک نہیں بلکہ جامد ہے۔
پانچویں نشست: "خدا کو کیوں مانیں اور مذہب کو کیوں اپنائیں؟"
انہوں نے کہا کہ نوجوان بیٹے اور بیٹیاں اپنے مَن کے اندر اللہ کی محبت کی ایسی پیاس پیدا کریں کہ جب اُس ذاتِ حق کے ذکر اور یاد کا پانی پیو تو مَن کے اندر ٹھنڈک چلی جائے۔ نوجوانو! رب ذو الجلال کے تابع فرمان بن جاؤ۔ جو اُس کی اطاعت میں آجاتے ہیں، اُنہیں باری تعالیٰ اپنا عشق و محبت اور قُرب عطا فرماتا ہے۔ آج کے نوجوان کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ بغیر محنت کے ہر چیز حاصل کرنا چاہتا ہے۔ میرے بیٹو اور بیٹیو! پڑھنے اور سمجھنے کے بغیر کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ آپ سب اپنے مذہب کی تعلیمات اور قرآن کا مطالعہ کیا کریں، اور اس میں غور و فکر اور تدبر کیا کریں۔ اللہ کے عاشقوں کے دل اللہ کے راز اور اَسرار و رُموز کے میدانوں کی سیر کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ انسان کا جسم 100 کھرب خلیوں (cells) کے ساتھ تشکیل پاتا ہے اور ہر سیل اپنے اندر ایک کائنات ہے۔ ایک سیل کے اندر 100 ارب atoms اور 4 کروڑ 20 لاکھ مالیکیولز ہوتے ہیں۔ ان سیلز پر تحقیق سے معلوم ہوگا کہ کوئی ذات ہے جس نے انہیں ڈیزائن کیا، بنایا اور پھر ترتیب سے ان کی جگہوں پر لگایا ہے۔ ... وہی خدا ہے۔ کائنات میں تمام اشیاء خلیات (cells) سے مل کر بنی ہیں۔ ایک خلیہ کا سائز اتنا ہوتا ہے کہ 10 لاکھ خلیات (cells) جمع کیے جائیں تو ان کا سائز ایسے بنتا ہے جیسے بال پوائنٹ کی نوک ہوتی ہے۔ انسانی جسم کے ہر خلیہ (cell) کے اندر ایک کائنات آباد ہے۔ خدا نے اس سیل کی ضرورت کی تمام اشیاء اس کے اندر پیدا کی ہیں۔ جیسا کہ آنکھ کے retina کے خلیات میں ایک ہزار سے اڑھائی ہزار تک پاور پلانٹس ہوتے ہیں اور وہ پاور پلانٹس جسم میں موجود شوگر سے چلتے ہیں۔ صرف یہی نہیں بلکہ آنکھ کے ایک سیل سے پورا انسان تشکیل پاسکتا ہے۔ ہمیں علم، تحقیق اور سائنس کی آنکھ کھول کر ان آفاقی حقیقتوں کو دیکھنے کی ضرورت ہے۔ اس سے ہمیں خدا کے وجود کا پتہ ملے گا۔
انہوں نے کہا کہ انسانی دل ایک دن میں ایک لاکھ مرتبہ دھڑکتا ہے اور جسم میں موجود تمام سیلز کو خون مہیا کرتا ہے۔ انسان کے اندر موجود تمام خودکار نظام خود سے نہیں بنے، بلکہ انہیں کسی نے بنایا ہے اور انہیں ان کے معاملات کا شعور دیا ہے۔۔۔ وہی خدا ہے!۔ خون کے سرخ خلیات (red blood cells) ہر 90 سیکنڈز میں 75 ہزار میل کا سفر کرتے ہیں۔۔۔ سوال یہ ہے کہ انہیں کون گائیڈ کرتا کہ انہوں نے کب، کہاں اور کس طرف جانا ہے؟ کوئی تو ان کا تخلیق کار اور ان کا صورت گر ہوگا؟۔۔۔ وہی خدا ہے!۔ انسانی جسم میں موجود ہر خلیے کے گرد cell membrane ہوتا ہے۔ یہ membrane نہ صرف خلیے کی حفاظت کرتا ہے بلکہ cell کے اُمور میں مکمل راہ نُمائی بھی فراہم کرتا ہے۔ اسی طرح پودوں میں خلیہ کے گرد cell wall ہوتی ہے، اس کا کام بھی خلیہ کی حفاظت کرنا ہوتا ہے۔ ناک کے اندر 50 لاکھ nerve cells ہوتے ہیں، جن کی مدد سے انسان سونگھتا ہے۔ انسانی 10 ہزار قسموں کی مہک سونگھ سکتی ہے۔ اسی طرح زبان کو بھی اللہ تعالیٰ نے یہ خوبی دی ہے کہ زبان 10 ہزار قسموں کے ذائقوں کی شناخت کرتی ہے۔ خون کے ایک قطرے میں 50 لاکھ cells ہوتے ہیں جو پھیپھڑوں سے آکسیجن لے کر پورے جسم کے ہر ٹشو تک پہنچاتے ہیں اور پھر پورے جسم سے کاربن ڈائی آکسائیڈ لے کر پھیپھڑوں کے ذریعے جسم سے باہر نکال دیتے ہیں۔ ہر ایک سیکنڈ میں خون کے 20 لاکھ خلیے مر جاتے ہیں اور اُسی لمحے 20 لاکھ خلیے نئے پیدا ہوتے ہیں۔۔۔ تو کون ہے جو اس نظام کو چلاتا ہے؟۔۔۔ وہ خدا ہے۔
چھٹی نشست: "خدا کو کیوں مانیں اور مذہب کو کیوں اپنائیں؟"
انہوں نے کہا کہ ہر وہ شخص جو دیانت داری سے اِنسان کے اندر اور باہر کی کائنات میں غور و فکر کرے گا، وہ اللہ کی وحدانیت کا اِقرار اور اُس پر ایمان لائے بغیر نہیں رہ سکتا۔ شہرِ اِعتکاف میں پہلی بار آنے والے بیٹوں اور بیٹیوں کو میری طرف سے بہت پیار اور دعائیں ہیں۔ آپ ہمیشہ اِعتکاف میں آتے رہیں اور اپنے دین و ایمان کی حفاظت کا ساماں کرتے رہیں۔
انہوں نے کہا کہ دہریت، لا مذہبیت اور ناخدائیت کی فکری لہر دو اڑھائی سو سال قبل مغرب میں شروع ہوئی تھی۔ آغاز میں اس فتنہ میں اِسلام کا کوئی ذکر نہیں تھا۔ لہٰذا اس فتنہ کا پس منظر سمجھنا بہت ضروری ہے تاکہ فکری اِنتشار کا شکار ہونے والی نوجوان نسل اس کی تاریخ سے آگاہ ہوسکے۔ درحقیقت یورپ میں ایک طویل عرصے تک ریاست اور چرچ کا گٹھ جوڑ تھا۔ وہاں چرچ کو خدا کے نمائندہ کی حیثیت دی جاتی تھی اور وہ اس کے ذریعے اپنے مفادات کا تحفظ کرتے تھے۔ چرچ اور ریاست کے اس گٹھ جوڑ کے ردِ عمل میں فتنۂ اِنکارِ مذہب شروع ہوا۔ جب مذہبی راہ نُما مذہب کو اپنے مفادات کے حصول اور روزگار و دنیا کمانے کا ذریعہ بناتا ہے تو پھر اسے خود ساختہ نظریات گھڑنے پڑتے ہیں اور لوگوں کو اندھا کرنا پڑتا ہے تاکہ وہ اس کی کہی کسی بات کو چیلنج نہ کریں۔ اور یوں وہ اپنی خود ساختہ اتھارٹی کو maintain رکھ سکے۔ یورپ کے مذہبی راہنما یہ برداشت نہیں کرتے تھے کہ کوئی ان کے بنائے ہوئے نظریات کو چیلنج کرے۔ اس لیے ایک ہزار سال تک یورپ میں سائنس کو ترقی نہیں کرنے دی گئی۔ اِس وجہ سے یورپ ان ہزار سالوں کو dark ages کہتا ہے کیوں کہ ان سالوں میں سائنسی تحقیقات آگے نہیں بڑھنے دی گئیں۔ یورپ میں مذہب اور سائنس کے مابین جاری جنگ میں بالآخر سائنس جیت گئی کیوں کہ ریاست کو چرچ کی ضرورت نہیں رہی تھی۔
انہوں نے کہا کہ سیاست کسی کی وفادار نہیں ہوتی۔ یہ صرف اور صرف اپنے مفادات کی وفادار ہوتی ہے۔ سیاست کا مفاد صرف سیاست ہے اور اپنے مفادات کی خاطر یہ رحمان اور شیطان دونوں سے اتحاد کر سکتی ہے۔ وطنِ عزیز کے مذہبی و سیاسی اور سماجی راہ نُماؤں نے معاشرے کو تماشبین بنا دیا ہے۔ اَخلاق، نصیحت، اچھائی، خوش خُلقی اور قرآن و و حدیث کی بات کریں تو سوشل میڈیا پر اس کی viewership نہیں ہوتی۔ عقل اور تحقیق کی بات کرنے والوں کو مذہبی راہ نُما اپنا مخالف سمجھتے تھے۔
انہوں نے کہا کہ جب ریاست نے اپنے مفادات کی خاطر سائنسی تحقیقات کو روکنا تھا تو مذہبی راہ نُماؤں کا سہارا لیا۔ اور جب ریاست نے اپنے مفادات کی خاطر چرچ کو کچلنا تھا تو اس نے سائنس کا سہارا لیا۔ بعد ازاں مذہبی راہنما کمزور ہوئے تو خدا کا نمائندہ کہلانے والے مذہبی نمائندگان کے خلاف پلنے والی ایک ہزار سالہ نفرت صرف مذہبی راہ نُماؤں تک محدود نہ رہی بلکہ سائنس دانون نے مذہب اور خدا کے خلاف اپنا غصہ نکالا۔ حالاں کہ اَصلاً وہ خدا کے وجود کے انکاری نہ تھے بلکہ صرف اُن مذہبی راہ نُماؤں کے خلاف تھے۔ منٹگمری واٹ کہتا ہے کہ صدیوں تک یورپ کا اِنحصار اسلامی تحقیقات پر رہا اور یورپ میں مسلم سائنس دانوں کے کتابیں پڑھائی جاتی رہیں۔ سر تھامس آرنلڈ کہتا ہے کہ یورپ کی dark ages میں مسلمان پوری دنیا کو سائنس، علم اور شعور دے رہے تھے۔ یورپ نے اسلام اور مسلمانوں سے سائنس سیکھ کر ترقی حاصل کی۔ جس دور میں مسلم سائنس دانوں نے اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے عطا کردہ علوم سے سائنس کو فروغ دیا اُس وقت یورپ تاریکی کے اندھیروں میں ڈوبا ہوا تھا۔ میڈیکل سائنس کی پوری تاریخ میں ایسا کوئی کام نہیں ہے جو ابن سینا کے کام سے زیادہ پڑھا یا چھَپا ہو۔ پروفیسر فلپ ہٹی اپنی کتاب History of the Arabs میں لکھتا ہے کہ اسلام کا علم اسپین اور سسلی کے ذریعے پورے یورپ میں پھیلا۔ یہ وہ دور تھا جب یورپ اندھیروں میں ڈوبا ہوا تھا۔
انہوں نے کہا کہ سائنس آج کثیر تحقیقات کے بعد کہتی ہے کہ کائنات کا سارا نظام zero defect ہے، جب کہ اللہ تعالی نے آج سے 1450 سال قبل قرآن مجید کے ذریعے اعلان کیا کہ ساری کائنات کا مطالعہ اور مشاہدہ کرلو تمہیں کہیں کوئی ہلکا سا نقص نظر نہیں آئے گا۔ اللہ نے عقل دی ہے۔ قرآن مجید پڑھیں اور سوچیں کہ کس طرح کائنات میں موجود تمام کہکشائیں اپنے مقررہ راستوں میں چلتی ہیں اور ان میں کوئی حادثہ یا مسئلہ نہیں ہوتا۔ کون ہے اس عظیم نظام کو پیدا کرنے والا؟ کون ہے اس کو برقرار رکھنے والا؟ ۔۔۔ وہ ایک خدا ہے۔
ساتویں نشست: حضرت بشرالحافیؒ سے ملاقات
انہوں نے کہا کہ ایمان ایک بیج کی طرح ہے جو دل کی زمین پر بویا جاتا ہے۔ یہ خود بخود پروان نہیں چڑھتا اور پھل دار نہیں بنتا، بلکہ ایمان کی مضبوطی و پختگی کے سارے مرحلے اندرونی و بیرونی کوشش کے محتاج ہوتے ہیں۔ ایمان بیج کی طرح ہمارے دلوں میں آجاتا ہے لیکن ایمان کے پودے کو پھل دار بنانے کے لیے مسلسل محنت درکار ہوتی ہے۔ اگر ہم ہر قدم پر اِس کی حفاظت نہیں کریں گے تو پھر ہم اِس کے پھل سے محروم ہو جائیں گے۔ [العیاذ باللہ] ہم اِس غلط فہمی میں ہیں کہ چونکہ ہم مسلمان گھرانوں میں پیدا ہوئے ہیں، اس لیے ہمارے ایمان کا بیچ خود بخود پھل دار بن جائے گا۔ ہمیں ہر وقت ایمان کے اس پودے کی حفاظت کی ضرورت رہتی ہے۔ نیکیوں، اَعمالِ صالحہ، نماز، روزہ، حج، زکوۃ، تلاوت قرآن اور سنتِ مصطفیٰ ﷺ کی پیروی سے ایمان کی حفاظت کرنا ہوگی۔ نیک اَعمال ایمان کے محافظ اور promoter ہیں، اَعمالِ صالحہ سے ایمان کی افزائش (growth) ہوتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ تصور غلط ہے کہ ہم دل کے مسلمان ہیں اور ہمارا دل نیک، پاک اور صاف ہے۔ جس شخص کا ظاہر طیب، مطہر اور پاک نہیں اور اس میں فسق و فجور ہے، اس کا باطن کبھی مسلمان اور پاکیزہ نہیں ہوسکتا۔ یہ تصور Godless فکر اور سوچ کا دیا ہوا ہے کہ زندگی میں ہر لمحہ حرام کماتے اور کھاتے رہیں اور پھر اسے اپنا پرائیویٹ معاملہ قرار دے دیں۔ ظاہر اور باطن کے اپنے اپنے فوائد ہوتے ہیں۔ اَعمالِ صالحہ نہ کرنا اور اِسے اپنا اور رب کا معاملہ قرار دینا بالکل غلط تصور ہے۔ یہ اِیمان کو کفر اور اِلحاد کی طرف لے جانے والی فکر ہے۔ جس طرح کسی پھل کا ظاہر اس کا چھلکا ہوتا ہے۔ اگر اسے اتار کر پھینک دیا جائے اور اس کا گودا جسے ہم بالعموم کھاتے ہیں، بچا کر رکھ لیں تو کچھ گھنٹوں بعد وہ پھل خراب ہو جاتا ہے۔ اِسی طرح اگر ایمان کے ظاہر کی حفاظت نہیں کریں گے تو اس کا بیج یعنی ہمارا باطن بھی درست نہیں رہے گا۔ ہمیں ہر وقت نیک اعمال کے ذریعے ایمان کے ظاہر اور باطن دونوں کی حفاظت کی ضرورت ہوتی ہے۔ ایمان کے معاملے میں انسان کا کوئی معاملہ ذاتی نہیں رہتا۔ ہر معاملہ اللہ اور اُس کے رسول ﷺ کے اَحکامات کے تابع ہوگا تو ایمان محفوظ رہے گا۔
انہوں نے کہا کہ اللہ رب العزت نے قرآن مجید کے جملہ اَحکامات میں توبہ، ایمان اور عملِ صالح کو جوڑا ہے۔ عمل اور شے ہے اور تقریر اور شے۔ اگر دین عمل میں نہیں ڈھلا تو پھر کسی تقریر کا کوئی فائدہ نہیں، نہ دنیا میں نہ آخرت میں۔ آج اکثر واعظین کا حال یہ ہے کہ تقریر میں عمدہ گفتگو کے فضائل بتاتے ہیں مگر اپنے عمل میں بد زبانی پر عمل پیرا رہتے ہيں۔ تقریر میں اچھے اخلاق کا پرچار کرتے ہیں مگر معاملات میں بد اَخلاقی کا مظاہرہ کرتے رہتے ہیں۔ قول و عمل کے اس تضاد سے معاشرے میں کوئی مثبت تبدیلی نہیں آسکتی۔ جب بھی آپ کہیں جاتے ہیں، کسی نہ کسی کی نمائندگی کر رہے ہوتے ہیں۔ آپ نے جہاں جانا ہے وہاں آپ نے اپنی اصل کی حفاظت بھی کرنی ہے۔ یہ ذمہ داری اللہ کے دین کے نمائندوں پر زیادہ بھاری ہے کہ ان کے ہر عمل کو ان کی جماعت، مسلک اور مذہب کے ساتھ جوڑا جائے گا۔ وہ جیسے ہی کوئی غلط عمل کریں گے تو کہا جائے گا: صرف یہ نہیں بلکہ اس کی جماعت، مسلک، مذہب اور خدا ہی غلط ہے۔
انہوں نے کہا کہ امام احمد بن حنبل فرماتے تھے: بشر الحافی کا مقابلہ کون کرسکتا ہے؟ بشر الحافی جیسا کون ہوسکتا ہے؟ ... اللہ کی بارگاہ میں ان کا مقام و مرتبہ بہت بلند ہے۔ اللہ کی حرام کردہ تمام اشیاء کو ترک کردینا اور اپنی زندگی کو ہر حرام سے پاک کرلینا تقویٰ کی ابتداء ہے۔ زندگی کو حرام سنگت و صحبت سے پاک کرلینا حقیقی تقویٰ ہے۔ شریعت کے اَحکام کی حفاظت کرنا مسلمانی ہے، اور شریعت کے آداب کی حفاظت کرنا تقویٰ ہے۔ خود کو ہر اُس شے سے بچائیں جو آپ کے دل و دماغ میں فسق و فجور ڈالے اور آپ کو اللہ اور اُس کی یاد سے دور کرے۔ تقویٰ یہ ہے کہ انسان ہر اُس جگہ نہ ہو جہاں خدا اُسے دیکھنا نہیں چاہتا، اور ہر اُس جگہ موجود ہو جہاں خدا اُسے دیکھنا چاہتا ہے۔ [فرمانِ غوث الاعظمؒ]۔کسی عورت نے امام احمد بن حنبل سے مسٔلہ دریافت کیا کہ میں اپنی چھت پر سوت کات رہی تھی کہ اُس راستے سے شاہی لشکر کا گزر ہوا۔ میں نے اُس لشکر کی روشنی میں تھوڑا سا سوت کات لیا۔ کیا وہ سوت میرے لیے جائز ہے؟ یہ سن کر امام احمد بن حنبل نے فرمایا: پہلے یہ بتاؤ کہ تم کون ہو؟ اس عورت نے جواب دیا: میں بشر الحافی کی ہمشیرہ ہوں۔ امام احمد رو پڑے اور فرمایا: وہ سوت تمہارے لیے جائز نہیں۔ تم حضرت بشر الحافی کی بہن ہو جو اَہل تقوی ہیں، آپ کو اپنے بھائی کے نقشِ قدم پر چلنا چاہیے جو مشتبہ کھانے پر اگر ہاتھ بڑھاتے تو ہاتھ بھی ان کی پیروی نہیں کرتا تھا۔
حضرت بشر الحافی کی توبہ کا واقعہ بیان کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ حضرت محمد بن صلت بیان کرتے ہیں: حضرت بِشر بن حارث (الحافی) سے ان کی توبہ کے معاملہ اور سلوک و تصوف کی ابتداء کے بارے میں پوچھا گیا: بے شک آپ کا نام لوگوں میں ایسے ہی محترم ہے جیسے کسی نبی کا نام ہو، اس کی کیا وجہ ہے؟ آپ نے فرمایا: یہ سراسر فضلِ اِلٰہی ہے۔ میں آپ کو اس فضل کے بارے میں بتاتا ہوں۔ میں بڑا آوارہ اور غلط دوستیاں رکھنے والا شخص تھا۔ ایک دن میں گزر رہا تھا کہ اچانک مجھے راستے میں کاغذ کا ایک ٹکڑا نظر آیا، اسے میں نے اٹھا لیا۔ میں نے دیکھا کہ اس پر {بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ} لکھی ہوئی ہے۔ میں نے اسے پونچھا، صاف کیا اور اسے چوم کر اپنی جیب میں رکھ لیا۔ میرے پاس اُس دِن دو درہم تھے، ان کے علاوہ میرے پاس کچھ نہ تھا۔ میں عطر فروشوں کے پاس گیا، ان دو درہموں سے میں نے قیمتی عطر خریدا اور اسے کاغذ کے ٹکڑے پر مَل دیا۔ اُس رات میں سویا تو خواب دیکھا۔ گویا کوئی کہنے والا مجھے کہہ رہا تھا: اے بشر بن حارث! تو نے راستے سے ہمارا نام اٹھایا اور اسے خوشبو لگائی، میں ضرور بالضرور تمہارے نام کو دنیا و آخرت میں پاکیزہ کردوں گا۔ اور پھر ایسا ہی ہوا۔
انہوں نے کہاکہ علم بیان کرنے کے لیے نہیں بلکہ عمل کرنے کے لیے ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انبیاء کرام علیہم السلام کو علم عطا کیا اور انہوں نے اِس علم کے ذریعے اِنسانیت کی راہ نُمائی فرمائی۔ آخرت کا عمل ہو اور بندہ اس سے دنیا کمائے۔ ... اس سے قبیح عمل کوئی نہیں۔ جو شخص نیک اَعمال اِس نیت سے کرے کہ وہ پہچانا جائے، اِس سے بری نیت کوئی نہیں۔ جو اپنے علم کے ذریعے یہ خواہش رکھے کہ وہ پہچانا جائے اور اسے عزت و تکریم ملے، وہ نیک اَعمال کی لذت نہیں پاسکتا۔ ... اگر نیک اعمال کی لذت پانا چاہتے ہو تو ہر چیز سے بے نیاز ہو جاؤ۔ اپنی نیکیوں کو اُسی طرح چھپاؤ جیسے اپنے گناہوں کو چھپاتے ہو۔ جب آپ سنگتیں اور دوستیاں بناتے ہیں تو دیکھیں کن دوستیوں اور سنگتوں سے دل سخت ہوتا جا رہا ہے اور دین کی محبت کم ہوتی جا رہی ہے۔ گویا دل مردہ ہوتے جارہے ہیں۔ فوراً ایسی مجلس چھوڑ دیں۔مُردوں اور زندوں کا فرق جاننا ہے تو چلتے پھرتوں کو زندہ نہ جانو اور فوت شدگان کو مُردہ نہ جانو۔ حقیقی زندہ وہ لوگ ہیں جن کے ذکر سے مُردہ دلوں کو راحت، حیات اور لذتِ اِیمانی مل جائے۔ جن کی دوستی، صحبت اور سنگت سے دل مردہ ہوجائیں وہ مردہ لوگ ہیں۔ مُردوں اور زندوں کا فرق جاننا ہے تو چلتے پھرتوں کو زندہ نہ جانو اور فوت شدگان کو مُردہ نہ جانو۔ حقیقی زندہ وہ لوگ ہیں جن کے ذکر سے مُردہ دلوں کو راحت، حیات اور لذتِ اِیمانی مل جائے۔ جن کی دوستی، صحبت اور سنگت سے دل مردہ ہوجائیں وہ مردہ لوگ ہیں۔ اللہ کی نافرمانی چھوڑ دینے کا نام دعا ہے۔ دعا کی حقیقت یہ ہے کہ بندہ گناہ چھوڑ دے تو اللہ بن مانگے عطا کر دیتا ہے۔ نماز کو لمحۂ ملاقات بنا لیں۔ کسی قیمت پر نماز نہ چھوٹے۔
آٹھویں نشست: "انسانی نفسیات اور قرآنی شخصیتِ محمدیﷺ"
انہوں نے کہا کہ آج معاشرے میں کفر اور اِنتشار پھیلا کر نوجوانوں کے ذہنوں میں یہ تصور پختہ کیا جا رہا ہے کہ کوئی خدا ہے ہی نہیں۔ جو لوگ خدا کی ذات اور اس کے وجود کے منکر ہیں، وہ حضور نبی اکرم ﷺ کو بھی رسول اور نبی نہیں مانتے۔ وہ یہ الزام لگاتے ہیں کہ قرآن مجید کوئی اُلوہی کتاب نہیں بلکہ رسول اللہ ﷺ نے (معاذ اللہ) خود لکھی ہے۔ یہ ایک مسلّمہ حقیقت ہے کہ اِنسان کے اِرد گرد کے حالات و واقعات اُس کی طبیعت، مزاج، طرزِ فکر اور طرزِ عمل پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ جب حضور نبی اکرم ﷺ کی ولادت باسعادت ہوئی اُس وقت مکی معاشرے میں حق، نیکی، عدل و اِنصاف، شرافت، انسانیت، صالحیت، صداقت، پرہیزگاری اور پاکیزگی نام کی کوئی چیز نہ تھی۔ شر، جاہلیت، ظلم و جبر، گمراہی اور کفر و شرک کے سوا کچھ نہ تھا۔ اُس ماحول میں حضور ﷺ نے اپنی حیات کے ابتدائی چالیس برس گزارے۔ کفر و شرک کے ماحول میں 40 برس گزارنے کے بعد حضور نبی اکرم ﷺ نے یک لخت دعوتِ حق دی کہ ایک خدا ہے، وہ وحدہٗ لا شریک ہے۔ جھوٹ، جہالت اور ظلم و جبر کی فضا میں آپﷺ نے نیکی اور اچھائی کی دعوت دیتے ہوئے کہا کہ علم حاصل کرو، سچ بولو، امانت پوری کرو، بتوں کی پوجا نہ کرو، ایک خدا کی عبادت کرو، صلہ رحمی کرو، پڑوسیوں اور کمزوروں کے حقوق ادا کرو، حرام کاموں سے بچو، قتل و غارت گاری نہ کرو، عورتوں پر تہمت نہ لگاؤ اور یتیم کا مال نہ کھاؤ۔
انہوں نے کہا کہ حضور نبی اکرم ﷺ کو سیدہ خدیجۃ الکبری سلام اللہ علیہا سے اتنی محبت تھی کہ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا ارشاد فرماتی ہیں: حضور ﷺ مدینہ منورہ میں آخرِ عمر تک جب بھی کہیں تشریف فرما ہوتے سیدہ خدیجہ کا تذکرہ ضرور فرماتے اور انہیں یاد فرماتے۔ اگر حضور نبی اکرم ﷺ اللہ کے سچے رسول نہ ہوتے اور قرآن اللہ کی سچی کتاب نہ ہوتی، تو پھر قرآن مجید میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کا تذکرہ نہ ہوتا بلکہ حضورﷺ کا تذکرہ ہوتا۔ لیکن قرآن مجید میں حضرت موسیٰ کا ذکر 131 آیات میں 136 مرتبہ آیا ہے۔ یہ امر دلیل ہے کہ یہ کتاب رسول اللہ ﷺ کی تحریر کردہ نہیں بلکہ اللہ کی نازل کردہ سچی کتاب ہے۔ قرآن اگر حضور ﷺ کی اپنی لکھی کتاب ہوتی تو اس میں اِنسانی جذبات کا ادراک ہوتا اور قرآن کی کیفیت مختلف ہوتی۔ مگر جب قرآن کے اندر psychological angles سے شخصیتِ محمدی ﷺ کو دیکھتے ہیں تو پھر ایک ایک آیت ثابت کرتی ہے کہ یہ کتاب حضور ﷺ کی تحریر کردہ نہیں بلکہ اللہ رب العزت کی نازل کردہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ میں نے اپنا کام کر دیا ہے، اب اسے دنیا کے کونے کونے تک پہنچانا آپ لوگوں کی ذمہ داری ہے۔ تحریک منہاج القرآن کی ذمہ داری موجودہ اور آئندہ صدیوں میں دین کی حفاظت، سربلندی، اشاعت، قدروں کو زندہ کرنا اور کٹے ہوئے لوگوں کو دین سے جوڑنا اور اگلی نسلوں تک منتقل کرنا ہے۔ میرے اِس پیغام کو سوشل میڈیا کے ذریعے دنیا کے ہر کونے تک پہنچائیں۔ آپ نے اس کی منصوبہ بندی کرنی ہے کہ اور اس پیغام کو کم از کم پاکستان کے 10 کروڑ لوگوں تک ضرور پہنچانا ہے، تاکہ ہر ایک کو اللہ اور رسول ﷺ کی شناخت کروائی جائے اور ہر ایک کو دین سے متعلق کرکے اس کے ایمان کو بچایا جائے۔ ہمیں کسی شعبے میں جانے کے لیے 20 سال تک پڑھنا پڑتا ہے، پھر ہم اُس موضوع پر بات کرنے کے قابل ہوتے ہیں۔ جب کہ ہم نے دین، قرآن، تفسیر، حدیث، فقہ، فلسفہ اور دلائل کبھی نہیں پڑھے اور دین کبھی کسی سے سیکھا نہیں۔ پھر جب دین پر گفتگو کرتے ہیں تو کہتے ہیں: میری عقل نہیں مانتی کہ خدا ہے۔ سوال یہ ہے کہ آپ ہوتے کون ہیں یہ کہنے والے کہ خدا نہیں ہے۔ اپنی صحبت درست کریں۔ زندگی میں بھلائی اور تباہی دونوں چیزیں صحبت ہی لاتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ اِعتکاف 2024ء میں میرا پیغام یہ ہے کہ خود کو قرآن مجید سے جوڑ لیں۔ قرآن مجید نہ پڑھنے اور اس سے دور ہونے کی وجہ سے ہم ہدایت کے ذریعے سے کٹ گئے ہیں۔ اسے ترجمہ عرفان القرآن اور The Manifest Qur’an کے ساتھ پڑھیں۔ قرآن کے ساتھ اپنا تعلق مضبوط کریں اور اس میں غور و فکر کرکے فہم حاصل کریں۔ ہمارا فریضہ ہے کہ ہر ایک کو خدا کی معرفت کرائی جائے۔ ہر ایک کا تعلق قرآن کے ساتھ جوڑا جائے اور ہر ایک کا دین بچایا جائے۔ اِعتکاف 2024ء کے میرے خطابات کو دنیا کے کونے کونے تک پہنچانا اب آپ لوگوں کی ذمہ داری ہے۔ میرے پیغام کو زیادہ سے زیادہ پھیلانے کے لیے ٹھوس لائحہ عمل وضع کریں اور سوشل میڈیا کے مختلف پلیٹ فارمز کا استعمال کرتے ہوئے ہر ایک تک لازمی پہنچائیں۔ نوجوانو! بیٹو اور بیٹیو! دین پڑھو اور سیکھو۔ دین کو چیلنج نہ کرو کیونکہ آپ کے پاس وہ بنیادی authorities نہیں ہیں کہ آپ دین کو چیلنج کرسکیں۔ جب آپ کسی مذہب دشمن کو سنیں گے تو وہ آپ کو ورغلائے گا اور غلط طرف لے جائے گا۔ مگر جب آپ دین کو اچھی طرح سیکھ لیں گے تو پھر کوئی آپ کو غلط سمت نہیں لے جا سکے گا۔
نویں نشست: "دین اور ادب"
انہوں نے کہا کہ جس شخص نے اپنے نفس کو برائیوں کے غلبے سے پاک کرلیا اور نیکی کے جذبہ کو غالب کر لیا تو وہ شخص کامیاب ہوگیا۔ جس نے اس نفس کو گناہوں میں ملوث کردیا اور نیکی کو دبا دیا، وہ شخص نامراد و ناکام ہوگیا۔ خُلق کی تعریف یہ ہے کہ انسان کے اندر پائی جانے والی عمدگی، اچھائی اور خوبصورتی کو اندر سے باہر نکالنا تاکہ وہ چھپی اور دبی ہوئی صلاحیت نہ رہے بلکہ باہر نکل کر فطرت بالفعل (actual nature) بن جائے۔ اگر آپ کے افعال اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے اَوامر و اَحکام (commandments) کے تابع ہو جائیں تو وہ فعل عملِ صالح بن جاتا ہے۔ اور آپ جو بھی عملِ صالح کر رہے ہوں اسے نہایت عمدہ اور خوبصورت لباس پہنا دیں تو وہ ادب بن جاتا ہے۔ کسی کو اُس کے حق یا ضرورت سے زیادہ دینے کے عمل میں ناگواری کا نہ ہونا خُلقِ حسن اور ادبِ حسن کا طریق ہے۔ ہمارا پورا دین ادب سے لبریز ہے، جو بے ادب ہے گویا وہ بے دین ہے۔ اللہ تعالیٰ، اُس کے رسولﷺ، صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین، اہل بیت علیھم السلام، بزرگانِ دین اور ہر مخلوق کے ساتھ معاملہ کا اہنا اپنا ادب ہے۔ افسوس! ہمارا تصور دین اور تصور زندگی ادب کے پورے تصور سے خالی ہوگیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے اُمت کو بارگاہِ رسالتﷺ کا ادب سکھایا اور بارگاہِ رسالت ﷺ کے ادب کو اپنا ادب قرار دیا۔ رسول اللہ ﷺ کی بارگاہ اور آپ سے متعلق ہر چیز کا ادب ہم پر لازم ہے۔ اس لیے کہ آپ ﷺ ظاہری حیات سے پردہ فرمانے کے باوجود زندہ ہیں۔ حدیث صحیح ہے: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: جب کوئی شخص مجھ پر سلام بھیجتا ہے تو اللہ تعالیٰ نے میری روح لوٹا دی ہوئی ہے، میں اس سلام بھیجنے والے کو سلام کا جواب دیتا ہوں۔ انبیاء کرام علیھم السلام بارگاہِ الٰہی کا ادب یوں بجا لاتے کہ بیماری یا کمزوری کی نسبت اپنی طرف کرتے، جب کہ شفاء یابی اور اپنی کامیابی کو اللہ کی طرف منسوب کرتے۔ حضرت موسی و خضر علیہما السلام کی ملاقات میں کشتی میں سوراخ کی نسبت حضرت خضر علیہ السلام نے اپنی طرف کی، جب کہ خزانے کی حفاظت کیلئے دیوار کی تعمیر کو ادبا اللہ رب العزت کی طرف منسوب کیا۔ حضرت موسی علیہ السلام اور فرعون کے نمائندہ جادوگروں کے مابین ہونے والے مکالمے میں جادگروں نے مقابلہ سے پہلے ادبا حضرت موسی علیہ السلام سے درخواست کی کہ پہلے آپ اپنا عصا ڈالیں گے یا ہم؟ صرف اس ادب کے باعث اللہ تعالی نے تمام جادوگروں کو ایمان کی دولت سے نواز دیا۔ روزِ قیامت حضرت عیسی علیہ السلام سے پوچھا جائے گا کہ مسیحیوں کو آپ نے اپنی عبادت کے لیے کہا تھا؟ حضرت عیسی علیہ السلام ادباً عرض کریں گے: مولا! اگر میں نے کہا ہوتا تو تو بہتر جانتا ہے۔ بارگاہِ الٰہی کے ادب کے باعث اُنہوں نے اپنی صفائی بھی پیش نہیں کی۔
انہوں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے سورۃ الحجرات میں آقا علیہ السلام کی بارگاہ کا ادب سکھایا ہے۔ آپ ﷺ کو عام لوگوں کی طرح بلانے، مخاطب کرنے یا عامیانہ انداز میں آپ ﷺ سے بات کرنے سے منع فرما دیا ہے ۔ چند بدو صحابہ کرام نے آقا علیہ السّلام کو حجرے کے باہر سے باآواز بلند پکارا تو اللہ رب العزت نے تنبیہ فرمائی کہ انکو (بارگاہ رسالت مآب کے ادب کی) عقل و شعور ہی نہیں۔ آقا علیہ الصلاۃ والسلام کی بارگاہ کے آداب آج بھی اُسی طرح قائم ہیں جیسا کہ آپکی ظاہری حیات میں تھے۔ افسوس! آج ہم ادب سے اتنا دور ہوگئے ہیں کہ انبیاء، صحابہ کرام اور اولیاء کرام کی تعظیم و ادب کو شخصیت پرستی، شرک و بدعت اور خرافات قرار دے دیتے ہیں جبکہ ذخیرۂ حدیث میں صحابہ کرام کا آقا علیہ الصلواۃ والسلام کے لئے غایت درجہ تعظیم و ادب بجا لانا احادیث صحیحہ سے ثابت ہے۔ امام بخاری نے الأدب المفرد میں باب باندھا ہے: صحابہ کرام کا آقا علیہ الصلواۃ والسلام کے ہاتھ اور پاؤں چومنے کا باب اور اسی طرح دہگر محدثین نے بھی یہ باب باندھا ہے۔ گویا بارگاہِ رسالت کا غایت درجہ ادب و تعظیم اجل محدثین کا مشرب تھا۔ حضرت ابو ہریرہ رض اللّٰہ عنہ کا حالت نجابت میں آقا علیہ الصلواۃ والسلام سے اتفاقا سامنا ہوگیا تو حضرت ابوہریرہ ادبا تیزی سے آقا علیہ الصلواۃ والسلام کے سامنے سے ہٹ گئے۔
انہوں نے کہا کہ حضور ﷺ کے چچا حضرت عباس بن عبدالمطلب سے پوچھا گیا: آپ اور حضورﷺ میں بڑا کون ہے؟ وہ ادب سے یوں گویا ہوئے: بڑے آقا علیہ السلام ہی ہیں میں صرف پیدا پہلے ہوگیا ہوں۔ صحابہ کرام صرف حاملِ ادب نا تھے بلکہ وہ کمالِ ادب کا مرقع تھے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عکھم آقا علیہ الصلواۃ کے رشتوں اور آپ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی نسبتوں کا بھی ادب وحیاء کرتے۔ حضرت عباس کو آتا دیکھتے تو ادبا سواری سے اتر جاتے۔ بدقسمتی سے آج ہمارا دین ادب سے خالی ہوگیا ہے۔ یہ تحریک منہاج القرآن کا طرۂ امتیاز ہے کہ اُس نے لوگوں کو ادب کا شعور دیا ہے اور دلیل کے ساتھ دیا ہے اور ادب سے معمور ایمان کا تصور دیا ہے اور دلیل کے ساتھ دیا ہے۔ جب حيا ہوتا ہے تو ادب ہوتا ہے، جب ادب ہو تو ایمان مکمل ہوتا ہے۔ ادب سے پہلے ایک درجہ آتا ہے جسے "خُلق" کہتے ہیں! انسان کے اندر اچھائی کی جو صلاحیت ہے، اس potential کو utilize کرنا اخلاق حسنہ کہلاتا ہے۔ جب یہ صلاحیت آپ کا عمل بن جائے اور اس میں پختگی آجائے تو اسے "اخلاق" کہتے ہیں اور جب "اخلاق" میں مزید خوبصورتی اور نکھار آ جائے تو اسے "ادب" کہتے ہیں!۔
انہوں نے کہا کہ جو ادب سیکھنے سے ملتا ہے وہ صرف علم سیکھنے سے نہیں ملتا۔ ادب کا ایک باب سیکھنا علم کے 70 باب سیکھنے سے بہتر ہے، میرے بیٹو، بیٹیو، بھائیو, بہنوں اور بزرگو دین کو بچانے کے لیے ہر ایک کے لیے واجب ہے کہ ادب کی طرف لوٹ آئے، ادب اور حیا کی قدریں پھر سے زندہ کریں، اور ان حدود کو قائم کریں جن حدودِ ادب کے ساتھ دین کی سلامتی ہوتی ہے۔ تحریک منہاج القرآن ادبِ دین کی تحریک ہے، میرا یہ دین کی پختگی کا پیغام، اللہ کے وجود پر ایمان لانے کا پیغام، خدا کو کیوں مانیں کی معرفت کا پیغام، اور حقیقی دین کے فہم کا پیغام، وہ دین جو ادب سے معمور ہے اس کا پیغام لوگوں تک پہچائیں، تاکہ آپ کی پوری زندگیاں دمِ آخر تک ادب سے منور ہوجائیں اور اس سے آپ کے دین کی حفاظت ہو۔
منہاج القرآن ویمن لیگ کے مختلف زونز، نظامتوں اور ڈیپاڑٹمنٹس کے زیر اہتمام تربیتی نشستوں کا انعقاد
شہر اعتکاف میں منہاج القرآن ویمن لیگ کے ڈیپارٹمنس اور نظامتوں نے بھی اپنے اپنے شعبہ اور نظامت سے متعلقہ خواتین اور طالبات کی تربیت کے لیے علمی و فکری نشستوں کا اہتمام کیا۔ اس ضمن میں مصطفوی سٹوڈنٹس موومنٹ اور ناظمات زونز نے متعدد نشستوں کا انعقاد کیا گیا۔ جس میں ڈاکٹر غزالہ حسن قادری، مسسز فضہ حسین قادری، ڈاکٹر فرح ناز، سدرہ کرامت، صدر MSM سسٹرز اور دیگر مرکزی ویمن قائدین نے متعدد موضوعات پر لیکچرز دیئے۔
صدر منہاج القرآن ویمن لیگ انٹر نیشنل اور محترمہ فضہ حسین قادری کا ویمن اعتکاف کے مختلف حلقہ جات اور ہالز کے دورہ جات:
صدر منہاج القرآن ویمن لیگ انٹرنیشنل ڈاکٹر غزالہ حسن قادری، محترمہ فضہ حُسین قادری نے شہر اعتکاف میں پاکستان اور دیگر ممالک سے تشریف لائی ہوئی معتکفات کے حلقہ جات اور ہالز کے دورہ جات کیے اور معتکفات سے ملاقاتیں بھی کیں۔ اِن ملاقاتوں کے دوران معتکفین نے احیائے اسلام، تجدید دین اور اصلاحِ احوال کے حوالے سے اپنے اپنے علاقوں میں جاری سرگرمیوں کے بارے میں مرکزی قائدین کو آگاہ کیا اور مرکزی قائدین نے مصطفوی مشن کے پیغام کے فروغ اور اسلامی تعلیمات کی کماحقہ ترویج کے لیے تنظیمات و کارکنان کے کام کو سراہا اور ہدایات سے نوازا۔
ایگرز اعتکاف:
امسال بھی منہاج القرآن ویمن لیگ کے ذیلی فورم ایگرز کے زیر اہتمام کڈز اعتکاف کا الگ سے اہتمام کیا گیا جس میں سیکڑوں بچوں اور بچیوں نے خصوصی شرکت کی۔ کڈز اعتکاف بچوں کی باقاعدہ تعلیم و تربیت کا ایک جامع پروگرام ہے۔ جس میں 7 سال سے لے کر 10 سال کی عمر تک کے بچے شریک ہوتے ہیں۔ ان بچوں کو اسلامی احکامات کے مطابق زندگی گزارنے کے انداز، فرض و مسنون عبادتیں، آداب اور سیرتِ نبوی ﷺ کی روشنی میں سیرت و اخلاق سنوارنے کے متعلق تعلیم و تربیت دی جاتی ہے۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے شہر اعتکاف میں سیکڑوں بچوں کی شرکت پر منہاج القرآن ویمن لیگ، ایگرز اور ان بچوں کے والدین کو خصوصی مبارکباد دی جو اپنے بچوں کے ایمان کو محفوظ بنانے کے لیے مصروفِ عمل ہیں۔
صوم و صلوٰۃ کمیٹی کی زیرِ نگرانی ویمن اعتکاف گاہ میں باجماعت فرض نمازوں اور تراویح کی ادائیگی کا اہتمام کیا جاتا رہا ہے۔ دورانِ نماز نظم و ضبط کو قائم رکھنا اس کمیٹی کی ذمہ داریوں میں شامل تھا۔صوم و صلوٰۃ کمیٹی میں شامل رضاکاران صفوں کی درستگی کا اہتمام کرتی ہیں اور جائے نماز بچھانے اور صفیں درست کرنے میں بزرگ خواتین کی مدد بھی کرتی ہیں۔ معتکفات کی کثیر تعداد کے باوجود دوران نماز نظم و نسق کو برقرار رکھنے کا سہرا اس کمیٹی کے سر ہے۔
شہرِ اعتکاف کی خوبصورتی معتکفات کی اجتماعی عبادات اور باہمی صحبت و سنگت سے دوچند ہو جاتی ہے۔ منہاج القرآن ویمن لیگ کی 2024ء کی اعتکاف گاہ میں خواتین کی کثیر تعداد نے 10 روز باجماعت نمازِ تراویح ا دا کی۔
اجتماعی تراویح میں معتکفات 10 روز یوں ذوق و شوق سے شریک ہوتی رہیں کہ یہ روح پرور مناظر ایمان کو تازگی اور توانائی بخشتے رہے۔ خواتین کو صلوٰۃ تراویح سے وہ قلبی کیفیات نصیب ہوتی ہیں جن کی نظیر نہیں اور اجتماعی عبادات کا ثواب بھی کئی گنا ملتا ہے۔ یہ صلوٰۃ تراویح کلامِ رحمان کے ساتھ تعلقِ محبت جوڑنے کا بھی بہترین ذریعہ ہے۔
شہرِ اعتکاف میں شرکت کرنے والی خواتین کو سحر و افطار تقسیم کرنے پر مامور میس کمیٹی کی رضاکاران بے لوث خدمات سر انجام دیتی رہیں۔
معتکفات کو سحر و افطار مہیا کرنا ایک سعادت عظمیٰ ہے اور میس کمیٹی کی تمام ممبران پورے خلوص سے یہ فریضہ پورے 10 روز ادا کرتی ہیں۔ خدمت کا جذبہ لئے ان رضاکاران کی دس دن معتکفات کو کھانا مہیا کرنے کی اہم ذمہ داری کی بطریق احسن انجام دہی لائقِ ستائش و تحسین ہے۔
دس روز کے لئے روحانی تربیت و بالیدگی کے لئے سجے شہرِ اعتکاف لاہور میں معتکفین و معتکفات کی سہولت کا مکمل انتظام و انصرام موجود رہا۔ اسی ضمن میں ویمن اعتکاف گاہ میں میڈیکل کیمپ لگایا گیا تاکہ معتکفات کو طبی معاونت فراہم کی جائے اور کسی ناگہانی صورتحال سے بچا جا سکے۔
اس میڈیکل کیمپ میں نہایت قابل اور کوالیفائیڈ ڈاکٹرز کی زیرِ نگرانی معتکفات کو طبی سہولیات فراہم کی جاتی رہیں اور بیماریوں سے نبردآزما ہونے کے لئے بہترین ادویات بھی موجود تھیں۔ اس کیمپ کا مقصد معتکفات کا کسی بیماری میں مبتلا ہونے کی صورت میں فوری اور بروقت علاج فراہم کرنا تھا تاکہ خواتین کو دورانِ اعتکاف طبی مسائل کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
دورانِ اعتکاف منہاج القرآن ویمن لیگ کے زیرِ اہتمام "الرحلۃ الی الاحسان" کے عنوان سے ایک تربیتی سیشن کا انعقاد کیا گیا۔ گزشتہ برس اعتکاف میں حضور شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے اپنے خطابات میں احسان کے تصور کی وضاحت کرتے ہوئے "محسنین" کی خصوصیات سے متعارف کروایا تھا۔ حضور شیخ الاسلام نے منہاج القرآن کے رفقاء اور وابستگان سے عہد لیا تھا کہ وہ احسان کے سفر کا آغاز کریں گے۔
امسال اسی تناظر میں ویمن لیگ نے فیلڈ کی عہدیداران کی ٹریننگ کے لئے ان سیشنز کا انعقاد کیا ہے۔ ان سیشنز کا مقصد خواتین میں اللہ رب العزت کے مقرب بندوں یعنی "محسنین" کی صفات پیدا کرنے کے لئے تگ و دو کرنا ہے۔ ان سیشنز کے ذریعے راہِ احسان پر گامزن خواتین کی عملی تربیت کر کے اُنہیں جامع رہنمائی فراہم کی گئی۔
شہرِ اعتکاف 2024ء میں صلوٰۃ کیمپ کا انعقاد کیا گیا۔ اس کیمپ میں خواتین کو نماز کے تمام اراکین کی درست ادائیگی سکھائی گئی۔اس کیمپ کے مضامین میں اذان کے آداب، حکم نماز، ادائیگی نماَز، نماَز کا ترجمہ اور مفہوم، آدابِ نماز، نماز کے فوائد اور برکات، نماَز کے ترک کرنے پر وعید اور تنبیہ اور نماز کی اقسام و لازمی شرائط شامل رہیں۔
شہرِ اعتکاف معتکفات کے لئے نہ صرف روحانی ارتقاء کا ذریعہ بنتا ہے بلکہ اس میں دین و دنیا کی تعلیم و تربیت کا سامان بھی بہم پہنچایا جاتا ہے۔ اسی تناظر میں ویمن اعتکاف گاہ میں منہاج القرآن ویمن لیگ کے زیرِ اہتمام فیلڈ کی تنظیمات کی تربیت کے لئے ایک سیشن کا انعقاد کیا گیا جس میں منہاج القرآن ویمن لیگ کی ملک بھر سے آئی ہوئیں عہدیداران شریک ہوئیں۔ کیونکہ اس تربیتی نشست کا بنیادی مقصد ان داعیانِ دین کی تربیت کرنا تھا جن کے ذریعے عوام الناس تک علومِ دینیہ پہنچتے ہیں اور ان معلمات و مبلغات کی تربیت کے لئے اعتکاف سے بہترین موقع میسر نہیں آ سکتا۔
صلوٰۃ کیمپ کے انعقاد کا مقصد معتکفات کی صلوٰۃ میں اصلاح تھا تاکہ وہ بارگاہِ الٰہی میں سربسجود ہوتے ہوئے آدابِ صلوٰۃ کو ملحوظ رکھیں۔ اس صلوٰۃ کیمپ کی یہ خاصیت تھی کہ یہاں معتکفات کو درستگی کے ساتھ اراکینِ نماز عملی طور پر سٹیج پر کر کے دکھائے گئے۔ صلوٰۃ کیمپ میں نماز کی مشق کے لئے حلقہ جات بھی تشکیل دیئے گئے۔ یہ کیمپ منہاج القرآن ویمن لیگ کی سربراہی میں ہوا جس میں منہاج القرآن ویمن لیگ کی مرکزی عہدیداران بھی شریک ہوئیں۔
حلقات العلم
ویمن اعتکاف گاہ میں منہاج القرآن ویمن لیگ کے زیرِ اہتمام پاکستان کے طول و عرض سے تشریف لائی سینکڑوں معتکفات کی تعلیم و تربیت کے لیے شہر اعتکاف میں 20 سے زائد تربیتی حلقہ جات کا اہتمام کیا گیا ہے۔
ان حلقہ جات کے مضامین میں کلامِ الٰہی کو لحن داؤدی کے انداز میں پڑھنے کی مشق، بندگئ خدا کا خوبصورت قرینہ بصورت سنت نبوی، نماز کو خشوع اور خضوع سے ادا کرنے کا طریقہ، پاکیزگی اور طہارت کا اسلامی نصاب، اور اللہ کی عبادات ازروئے کلامِ الہی کو شامل کیا گیا۔
حلقہ جات کو مراکز العلم کے نصاب کے مطابق ترتیب دیا گیا۔ مذکورہ نشستوں میں 60 سکالرز نے بطور معلمات اپنے فرائض سر انجام دیئے۔ حلقہ جات میں خواتین کو بنیادی شرعی مسائل سے لے کر جملہ معاشرتی ذمہ داریوں اور فرائض کے متعلق تعلیم دی گئی ہے تاکہ اُنہیں دینِ مبین کی خدمت اور آنے والی نسلوں کی تربیت کے لئے تیار کیا جا سکے۔
قرآن کریم کو ہدایت کا حقیقی سرچشمہ قرار دیتے ہوئے اقبال فرماتے ہیں:
گرتومی خواہی مسلماں زیستن
نیست ممکن جُز بہ قرآں زیستن
یعنی ''اگر تم مسلمان کی حیثیت سے زندہ رہنا چاہتے ہوتو یاد رکھو ایسی زندگی قرآن کے بغیر نصیب نہیں ہو سکتی''-
قرآنِ حکیم وہ مقدس کتاب ہے کہ جو تمام شعبہ ہائے زندگی کے لئے کامل ہدایت کا منبع ہے۔ ویمن اعتکاف گاہ میں رمضان المبارک کی ستائیسویں شب محفلِ حُسن قرآت کا انعقاد کیا گیا۔ خوبصورت اور دلآویز انداز میں قرآن مجید فرقان حمید کی تلاوت سے معتکفات کے قلوب و اذہان کو تسکین و فرحت سے نوازا گیا۔ کلامِ رحمان سے جڑنا گویا رحمان سے جڑنا ہے اور شہرِ اعتکاف تعلق باللہ کی پختگی کے لئے ہی سجایا جاتا ہے۔
رمضان المبارک کی ستائیسویں شب میں حضور شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کی بارگاہِ ایزدی میں خصوصی دعا کے دوران ویمن اعتکاف گاہ میں رقت آمیز مناظر دیکھنے کو ملے۔
شہرِ اعتکاف اپنے اندر ایک الگ دنیا سموئے ہوئے ہوتا ہے اور اس کی تشکیل میں خواتین کی تمام تر ضروریات کو مدِنظر رکھتے ہوئے اقدامات اٹھائے جاتے ہیں۔خواتین کی آسانی کے لئے شہرِ اعتکاف کی حدود کے اندر تمام بنیادی ضروریاتِ زندگی دستیاب رہیں۔ منہاج القرآن ویمن لیگ کے زیرِ انتظام ویمن اعتکاف گاہ میں معتکفات کی آسائش و سہولت کے پیشِ نظر فوڈ سٹالز موجود تھے۔ ان فوڈ سٹالز پر کھانے کی متنوع چیزیں دستیاب تھیں۔ معتکفات کے لئے حفظانِ صحت کے اصولوں کو مدنظر رکھتے ہوئے ان فوڈ سٹالز کا قیام کسی نعمت سے کم نہ تھا۔
پردہ اور حجاب منہاج القرآن ویمن لیگ کی شناخت اور منہاج القرآن سے وابستہ خواتین کا مخصوص پیرہن ہے۔ حسب روایت منہاج القرآن ویمن لیگ کے زیرِ انتظام ویمن اعتکاف گاہ 2024ء میں عبایا اور حجاب کے سٹالز بھی موجود تھے۔ ان سٹالز پر موجود دیدہ زیب اور خوبصورت عبایات اور حجاب معتکفات کی توجہ کا مرکز رہے۔ معتکفات کی سہولت کے پیشِ نظر یہ سٹالز قائم کئے گئے تاکہ شہرِ اعتکاف میں ایک باپردہ ماحول میں وہ اپنی من پسند چیزوں کی خریداری بھی کر سکیں۔
شہرِ اعتکاف علم و آگہی سے ذہنوں کی آسودگی اور سیرابی کر کے فکر و تحقیق کی نئی راہیں کھولتا ہے۔ ویمن اعتکاف گاہ میں قائم کردہ بکس سٹالز جویانِ علم کی علمی و فکری تسکین کا مرکز رہے۔ ان بکس سٹالز میں حضور شیخ الاسلام پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہر القادری کی سینکڑوں معرکتہ الآرا تصانیف موجود تھیں۔
شیخ الاسلام کی کتب ہر عمر اور ہر طبقے کے افراد کے لئے یکساں مفید اور مؤثر ہیں۔ قرآن و حدیث کے علوم میں غوطہ زن ہو کر تالیف کی گئیں یہ کتب آئندہ صدیوں تک ہدایت و رہنمائی کا سرچشمہ بنیں گی۔ علومِ تفسیر، حدیث، فقہ، تصوف، سائنس، معیشت، معاشرت، قانون الغرض زندگی کے ہر شعبہ کے متعلق رہنمائی ان کتب میں میسر ہے۔
شیخ الاسلام کے صاحبزادگان کی کتب بھی ان بکس سٹالز کا حصہ تھیں۔ معتکفات کے لئے یہ کتب راعتی قیمت پر دستیاب تھیں تاکہ زیادہ سے زیادہ افراد علوم و حکمت کے ان ذخائر سے فیض یاب ہو سکیں۔
شہرِ اعتکاف میں علم و حکمت اور تدبر و تفکر کے وہ در وا ہوتے ہیں کہ اس کے خزائن سے ہر ایک کو وافر حصّہ نصیب ہوتا ہے۔ رواں برس معتکفین و معتکفات کی بلند بختی ہے کہ حضور شیخ الاسلام پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہر القادری کے صاحبزادگان کے خطابات تشنگانِ علم کی پیاس بجھانے کا نہایت خوبصورت ذریعہ تھے۔
ویمن اعتکاف گاہ 2024ء میں ڈاکٹر حسن محی الدین قادری کے خطابات بعنوان " اصلاح احوال اور آداب زندگی"، پروفیسر ڈاکٹر حسین محی الدین قادری کے خطابات بعنوان " تاریخ تصوف و تعلیماتِ صوفیاء" اور شیخ حماد مصطفیٰ المدنی القادری کے خطابات بعنوان " راہ محبت و شوق میں تعلق باللہ کے مختلف زاویے اور راستے" بذریعہ ویڈیو لنک سنوانے کا خصوصی انتظام موجود تھا۔
ان خطابات کے ذریعے متلاشیانِ حق کو تصوف و معرفت کی منازل طے کرنے کے لئے اپنے راستے متعین کرنے میں مدد ملتی رہی۔
امسال ویمن اعتکاف 2024 میں 36مختلف کمیٹیز پر مشتمل اعتکاف انتظامیہ تشکیل دی گئی جس میں منہاج القرآن ویمن لیگ مرکزی ذمہ داران، سینئر ممبران، فیلڈ ذمہ داران اور منہاج کالج برائے خواتین کی سٹاف و طالبات سمیت کم و بیش 450 ممبران نے مختلف کمیٹیز میں خدمات سر انجام دیں ۔ علاوہ ازیں میل کوآرڈینیشن میں 24 ممبران نے خدمات سر انجام دیں ۔ جس میں سربراہ حاجی منظور مشہدی، نائب سربراہ محترمہ الیاس ڈوگر اور محترمہ حافظ محمد آفتاب احمد اور سیکرٹری حافظ غلام فرید صاحب شامل تھے۔
منہاج القرآن ویمن لیگ کی درج ذیل ذمہ داران نے ویمن اعتکاف 2024ء میں مستقل 10 روز مختلف ذمہ داریوں پر خدمات سرانجام دیں:
مرکزی کمیٹی:
محترمہ ڈاکٹر فرح ناز (نگران)
محترمہ سدرہ کرامت (سربراہ)
محترمہ انیلہ الیاس، محترمہ عائشہ مبشر، محترمہ لبنی ٰ مشتاق (نائب سربراہان)
محترمہ اُم حبیبہ اسماعیل (سیکرٹری)
محترمہ ڈاکٹر شاہد ہ مغل، محترمہ شازیہ بٹ، محترمہ حمیرا ناز،محترمہ شمیم خان، محترمہ ڈاکٹر جویریہ حسن (ممبران مرکزی کمیٹی)
مراکز علم ٹریننگ و تنظیمی ورکشاپس کمیٹی:
محترمہ اُم حبیبہ اسماعیل (سربراہ) اور دیگر ممبران
رجسٹریشن و الاٹمنٹ کمیٹی:
محترمہ انیلہ الیاس (سربراہ)، محترمہ جویریہ رفیع (سیکرٹری)
انتظامی کمیٹی:
محترمہ عائشہ مبشر (سربراہ)، قیادت شیڈول کمیٹی، محترمہ لبنی ٰ مشتاق (سربراہ)
DFA کمیٹی:
محترمہ صبا اسلم (سیکرٹری) اور دیگر ممبران
الیکٹرانک میڈیا و VIP گیسٹس کوآرڈینیشن کمیٹی:
محترمہ زینب ارشد (سربراہ)، محترمہ حلیمہ سعدیہ (سیکرٹری)
ریکارڈ کیپنگ:
سیما قراۃالعین (سربراہ)
میڈیکل کمیٹی:
محترمہ ثناء وحید (سربراہ)، ڈاکٹر ضحی رضوان (سیکرٹری)، محترمہ سامع اشرف (ڈپٹی سیکرٹری)، ڈاکٹر اسری ٰ قادری، مس نعیمہ، شانزہ فاطمہ، کنیز فاطمہ، کومل، ارم شہزادی، ڈاکٹر شمیم عالم، ڈاکٹر اسری ٰ اسلم، ڈاکٹر اریبہ، ڈاکٹر رابعہ لیاقت
سیکیورٹی کمیٹی:
فریدہ سجاد (سربراہ)، محترمہ طیبہ کوثر (نائب سربراہ)، محترمہ مصباح کبیر (سیکرٹری)، محترمہ حافظہ سرفراز (سیکرٹری)، محترمہ فرح امیر (سیکرٹری)، محترمہ ریحانہ رشید (سیکرٹری)
خدمت (نگرانی معمولات ) کمیٹی + صوم و صلوۃ:
محترمہ صائمہ نور (سربراہ)، محترمہ صالحہ نور (سیکرٹری )
پنڈال ڈسپلن کمیٹی:
محترمہ بتول مشتاق (سربراہ)، محترمہ نصرت فاطمہ (سیکرٹری)
رابطہ و ملاقا ت کمیٹی:
محترمہ فاطمہ کامران (سربراہ)، محترمہ انعم اسد (نائب سربراہ)، محترمہ ثمن امین (سیکرٹری)
Theme ڈیکو ریشن کمیٹی:
محترمہ رافعہ عروج (سربراہ) اور دیگر ممبران
میس کمیٹی:
محترمہ فاریہ منور (سربراہ)، سیدہ قراۃ العین (سیکرٹری)
صفائی کمیٹی:
محترمہ مریم اقبال (سربراہ)، محترمہ بشری ٰ ظفر (سیکرٹری )
مرکزی کنٹرول و سٹالز روم کمیٹی:
محترمہ ارشاد اقبال (سربراہ)
سالانہ عالمی روحانی اجتماع کمیٹی:
محترمہ نورین علوی (سربراہ)، محترمہ فہنیقہ (سیکرٹری)، محترمہ نعیمہ باسط (سیکرٹری)
حلقہ جات کمیٹی:
محترمہ حافظہ سحر عنبرین (سربراہ)، محترمہ سعدیہ الماس (نائب سربراہ)، محترمہ عائشہ صدیقہ (سیکرٹری)
محفل ذکر ونعت کمیٹیز:
محترمہ عائشہ شبیر (سربراہ)، محترمہ کلثوم طارق (سیکرٹری)
ساؤنڈ سسٹم و اعلانات کمیٹی:
محترمہ حجاب فاطمہ (سربراہ) اور دیگر ممبران
سوشل میڈیا کمیٹی:
محترمہ جویریہ وحید (سربراہ)، محترمہ انشراح نوید (سیکرٹری)، محترمہ فرزانہ رزاق، محترمہ عطیہ (ڈپٹی سیکرٹریز)، محترمہ انزلہ ملک (کوآرڈینیٹر )، محترمہ مناحل حجاب، محترمہ طیبہ بتول (کوریج کوآرڈینیٹر)، محترمہ صبیحہ نور (کیمپ کوآرڈینیٹر)
ایم ایس ایم سسٹرز کمیٹی:
محترمہ آمنہ مغل (سربراہ)، محترمہ وردہ ناز (سیکرٹری)، محترمہ فاطمہ الزہرا (ڈپٹی سیکرٹری )
ایگرز اعتکاف کمیٹی:
محترمہ ام کلثوم قمر (سربراہ)، محترمہ عائشہ مشتاق (سیکرٹری) اور دیگر ممبران
تمام ذمہ داران نے اپنے ذمہ عائد ذمہ داریوں کو احسن طور پر نبھایا اور اس سالانہ شہر اعتکاف کو کامیابی سے ہمکنار کیا۔
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے منہاج القرآن ویمن لیگ کی جملہ عہدیداران کو خصوصی مبارکباد دی اور دعاؤں سے نوازا کہ آج کے دور میں خواتین کا اس طرح انفرادی اور اجتماعی سطح پر اصلاحِ احوال کے لیے کاوشیں کرنا آئندہ نسلوں کے ایمان کی حفاظت کے لیے از حد ضروری ہے۔
ویمن شہر اعتکاف 2024ء کی جملہ علمی، فکری اور روحانی سرگرمیاں www.minhaj.tv اور www.minhaj.org اور تحریک کے سوشل میڈیا پر موجود جملہ اکاؤنٹس سے براہ راست نشر کی گئیں۔