بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناحؒ پاکستان کو جدید اسلامی جمہوری فلاحی ریاست بنانے کے خواہاں تھے۔ جس میں اقتدار کا سرچشمہ عوام ہوں۔ تمام امور مملکت جمہور کی رائے اور ان کے منتخب کردہ نمائندوں کے ذریعے طے پائیں قومی آزادی اور ملکی سلامتی کے لیے افواج پاکستان کی قوت پر بھروسہ کیا جائے۔ وسائل دولت کی منصفانہ تقسیم ہو۔ ہر شہری کو بلالحاظ مذہب و ملت بنیادی انسانی حقوق حاصل ہوں۔ عوام کو اپنے حکمران منتخب یا معزول کرنے کا اختیار ہو۔ آپ کے ذہن میں پاکستان کے لیے ایک ایسا منصفانہ، جمہوری، معاشی و سماجی نظام کا تصور موجود تھا جو اس نوزائیدہ مملکت خداداد کی یکجہتی اور قومی سلامتی کو یقینی بناسکے۔
قائد ملک و ملت کے سیاسی نظریات کا بغور جائزہ لیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ آپ کے سیاسی تصورات کی بنیاد جمہوریت، جمہوری رویوں اور خالص اسلامی جمہوری نظریات پر قائم تھی۔ آپ مغرب کی سیکولر طرز کی جمہوریت کے حامی نہ تھے بلکہ ریاست پاکستان میں ایک ایسا جمہوری نظام قائم کرنا چاہتے تھے جو اسلامی بنیادوں پر استوار ہو۔
23 مارچ 1940ء کو قرار داد پاکستان کے منظور ہونے کے بعد جیسے ہی آل انڈیا مسلم لیگ کی تحریک آزادی کے نتیجہ میں ایک نئی مسلم ریاست کے خدوخال ابھرنے لگے تو سیاسی اور صحافتی حلقوں میں یہ قیاس آرائی کی جانے لگی کہ نئے خطہ ارض کے حصول کے بعد یہاں نظم حکومت کی نوعیت کیا ہوگی۔ ایسی ہی ایک محفل میں ایک صحافی نے قائداعظم محمد علی جناح سے استفسار کیا کہ کیا پاکستان سیکولر ریاست ہوگی یا تھیوکریٹک آپ نے ان دونوں نظریات کی نفی میں دلائل پیش کیے کہ نوزائیدہ مملکت نہ سیکولر ریاست ہوگی اور نہ یہاں تھیوکریسی کے لیے کوئی جگہ ہوگی۔ اس سے پہلے 1938ء میں آپ مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کے طلبہ کو عندیہ دے چکے تھے کہ پاکستان میں نوجوان نسل کو نہ صرف مغربی حکمرانوں سے نجات حاصل ہوگی بلکہ رجعت پسند عناصر سے بھی آزادی حاصل ہوگی۔
آپ نے زور دے کر اعلان کیا کہ ایسے موقع پرست اور تنگ نظر مذہبی طبقات جو عہدوں کے لالچ میں کانگرس اور برطانوی حکمرانوں کے حاشیہ بردار بنے ہوئے ہیں۔ ایسے عناصر کی ریاست پاکستان میں کوئی گنجائش نہیں ہے۔ آپ نے مختلف مواقع پر یہ بھی وضاحت فرمائی کہ پاکستان ایک سیکولر ریاست نہ ہوگا۔ آپ نے سیکولر جمہوریت کے تصور کو پوری قوت اور دلیل محکم کی طاقت سے مسترد کریا اور اس عزم کا اظہار کیا کہ وہ بیسیوں صدی میں ایسی جدید اسلامی ریاست کی تشکیل چاہتے ہیں جو اس جدید دور میں مدنی سیاست و معاشرت کے نمونہ کی پیروی کرے۔
آپ ایک جمہوریت پسند رہنما تھے۔ جمہوریت میں اسلامی جمہوری اصولوں اور روایات کے زبردست علمبردار تھے۔ 28 مارچ 1948ء کو ایک خطاب میں آپ نے اس خواہش کا اظہار کیا کہ پاکستان فاروق اعظم حضرت عمرؓ کے سنہری دور کی عملی تصویر بنے۔ مارچ 1943ء میں مولوی محمد منورالدین سے ایک ملاقات میں نظام حکومت پر بحث کرتے ہوئے آپ نے فرمایا کہ ملک کو قرآن و سنت کے اسلامی ضابطوں کے مطابق چلایا جائے گا۔ پیر مانکی شریف نے آپ سے وضاحت چاہی کہ پاکستان میں کون سا نظام رائج ہوگا تو آپ کا یہی جواب تھا کہ
پاکستان میں اسلام کے سوا کوئی دوسرا نظام نافذ نہ ہوگا
آپ کے نزدیک اسلام نے تیرہ سو سال قبل ہی انسانیت کو جمہوریت سکھادی تھی۔ آپ اسلامی اصولوں کے مطابق جمہوریت، رواداری اور مساوات کا ثمر تمام مذاہب اور طبقات کے لیے یکساں چاہتے تھے۔ آپ نے 25 جنوری 1948ء کو کراچی بار ایسوسی ایشن سے خطاب کرتے ہوئے نبی کریم محمدﷺ کو خراج عقیدت پیش کیا اور ان کی جمہوری روایات کو بطور مثال پیش کرتے ہوئے فرمایا۔ آج سے تیرہ سو سال قبل ہی حضورﷺ نے جمہوریت کی بنیاد رکھ دی تھی۔ رسول اکرمﷺ، عظیم مصلح، عظیم رہنما اور قانون دان تھے۔ آپ عظیم سیاست دان و حکمران تھے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ جب ہم اسلام کی بات کرتے ہیں تو بہت سے لوگ اسے پسند نہیں کرتے جب کہ اسلام سب کے لیے انصاف، رواداری، شرافت، دیانت اور عزت کے اعلیٰ اصولوں پر مبنی معاشرہ چاہتا ہے۔ توحید ربانی اور مساوات انسانی اسلام کے بنیادی اصول ہیں۔
آپ اسلامی جمہوریت کے اصولوں پر پختہ ایمان رکھتے تھے اور انہی اصولوں میں پاکستان کا مستقبل محفوظ اور تابناک خیال کرتے تھے۔ سبی دربار بلوچستان میں 14 فروری 1948ء کو اپنی تقریر میں اس کی وضاحت ان الفاظ میں فرمائی۔ میرا ایمان ہے کہ ہماری نجات کا واحد ذریعہ ان سنہری اصولوں والے ضابطہ حیات پر عمل کرنا ہے جو عظیم پیغمبر اسلام نے ہمارے لیے چھوڑا ہے۔ ہمیں اپنی جمہوریت کی بنیادیں سچے اسلامی اصولوں اور تصورات پر رکھنی چاہیے۔ یہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ مملکت کے امور وسائل کے بارے میں فیصلے باہمی افہام و تفہیم اور مشوروں سے کیا کرو۔
14 دسمبر 1946ء کو انھوں نے لندن کے کنگزوے ہال میں جمہوریت کی تعریف ان الفاظ میں کی کہ جمہوریت مسلمانوں کے خون میں ہے۔ مسلمان کامل انسانی مساوات پر یقین رکھتے ہیں۔ میں آپ کے سامنے ایک مثال پیش کرتا ہوں کہ میں جب بھی مسجد جاتا ہوں تو میرا شوفر (کار ڈرائیور) میرے شانہ بشانہ کھڑا ہوتا ہے۔ مسلمان اخوت، مساوات اور آزادی پر یقین رکھتے ہیں۔
قائداعظم محمد علی جناحؒ کی جمہوریت پسندی کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ آپ نے پاکستان سے وابستہ غیر مسلم طبقات کو نئی مملکت کا قابل احترام شہری اور آئینی و قانونی طور پر پاکستانی قوم کا حصہ قرار دیا۔ 11 اگست 1947ء میں دستور ساز اسمبلی کے خطبہ صدارت میں مملکت اسلامیہ میں اقلیتوں کو مساوات، جمہوریت اور ذاتی عقیدے کی آزادی کا عندیہ دیا۔ آپ کا نظریہ تھا کہ اسلام ایسے غیر مسلموں کے ساتھ جو مسلمانوں کے زیر سایہ ہوں انصاف، مساوات، حسن سلوک برداشت بلکہ فراخدلانہ سخاوت کا حکم دیتا ہے۔ وہ ہمارے بھائیوں جیسے ہیں اور مسلمان مملکت میں برابر کے شہری قرار پاتے ہیں۔ (مسلم یونیورسٹی علی گڑھ 1941ء)
چنانچہ آپ اپنے فرمودات میں اسلامی جمہوریت کی ترویج کرتے نظر آتے ہیں۔ آپ کے نزدیک اسلامی جمہوریت انصاف، رواداری اور مساوات کے بلند ترین معیار پر قائم کی گئی ہے اور یہ ہر شہری کے لیے خوشحالی اور امن کا پیام لاتی ہے۔
سید نور کے مطابق قائداعظم کا ہمیشہ اصرار تھا کہ پاکستان ایک جمہوری ملک ہوگا اور پاکستان کے جمہور میں اس مملکت کا ہر شہری بلالحاظ مذہب و ملت یکساں حیثیت سے شامل ہوگا۔ ڈاکٹر جاوید اقبال کے نزدیک جمہوریت ان کے لیے عقیدے کی حیثیت رکھتی تھی۔ اگرچہ انھوں نے یہ ظاہر نہیں کیا تھا کہ وہ پارلیمانی نظام جمہوریت کا زیادہ پسند کرتے ہیں یا صدارتی مگر انہیں اس امر کا یقین کامل تھا کہ حکومت عوام کے براہ راست انتخاب کردہ نمائندوں کو بنانی چاہیے۔
پاکستان میں جمہوریت کی نوعیت اور خدوخال کی وضاحت دستور پاکستان میں ہی ممکن تھی کیونکہ کسی بھی ملک کا دستور نظم مملکت چلانے کے لیے بنیادی اصول فراہم کرتا ہے۔ قائداعظم کی زندگی میں پاکستان کا آئین نہ بن سکا لیکن آپ کو یقین تھا کہ یہ اسلامی جمہوری نوعیت کا ہوگا اور اسے پاکستان کی دستور ساز اسمبلی بنائے گی۔ فروری 1948ء میں اپنی ایک تقریر میں آپ نے فرمایا پاکستان کا دستور ابھی بننا ہے اور یہ پاکستان کی دستور ساز اسمبلی بنائے گی۔ مجھے نہیں معلوم کہ اس دستور کی شکل و ہیبت کیا ہوگی لیکن اتنا یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ یہ جمہوری نوعیت کا ہوگا اور اسلام کے بنیادی اصولوں پر مشتمل ہوگا۔ ان اصولوں کا اطلاق آج کی عملی زندگی میں بھی اسی طرح ہوسکتا ہے جس طرح تیرہ سو سال پہلے ہوا تھا۔ اسلام اور اس کے نظریات سے ہم نے جمہوریت کا سبق سیکھا ہے۔ اسلام نے ہمیں انسانی مساوات، انصاف اور ہر ایک سے رواداری کا درس دیا ہے۔ ہم ان عظیم الشان روایات کے وارث اور امین ہیں اور پاکستان کے آئندہ دستور کے معماروں کی حیثیت سے ہم اپنی ذمہ داریوں اور فرائض سے بخوبی آگاہ ہیں۔
اس اقتباس سے اندازہ ہوتا ہے کہ قائداعظم کے ذہن میں ایک ایسے دستور کا تصور تھا جو اسلامی اور جمہوری بنیادوں پر استوار ہو۔ ان کے خیال میں اسلامی اصول اور ضابطے آج کے دور میں بھی اسی طرح قابل عمل ہیں جیسے اسلام کے ابتدائی دنوں میں قابل عمل تھے۔
جمہوریت سے متعلق بانی پاکستان کے افکار و نظریات بالکل درست سمت میں تھے۔ آپ اسلامی جمہوریت کے علمبردار تھے مگر قیام پاکستان کے تیرہ ماہ بعد ہی آپ کی ناگہانی رحلت کے بعد آئین اور قانون کی حاکمیت کو پس پشت ڈال دیا گیا اور ملکی حمیت و اتحاد کا شیرازہ بکھرنے لگا۔ پاکستان کی خالق جماعت مسلم لیگ قائداعظم اور قائد ملت کے بعد ان کی اصولی سیاست کی روشنی میں پاکستان کی ترقی و استحکام کی منزل حاصل نہ کرسکی۔ جس کا نتیجہ پارلیمانی جمہوریت کی ناکامی کی صورت میں ظاہر ہوا۔ 1947ء سے 1958ء کے مختصر عرصے میں مساوات وزرائے اعظم آئے جس میں آئی آئی چندریگر کی مدتِ وزارت صرف 2 ماہ تھی۔ پاکستان کو اسلامی جمہوریہ بنانے والا آئین ہی 9 سال بعد 1956ء میں نافذ العمل ہوسکا۔ دستور کی اسلامی دفعات جن کی حیثیت محض رہنما اصولوں کی تھی اکابرین سیاست کی طرف سے انہیں شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ حالانکہ یہ خطہ ارض اسلام کے نام پر ہی حاصل کیا گیا تھا۔ ملک کو جمہوریت کی راہ سے ہٹانے کے لیے ملک کی اشرافیہ، بیوروکریسی، وڈیرہ شاہی، مفادپرست اور بے اصول سیاستدانوں نے اپنا اپنا کردار ادا کیا۔ جمہوریت کے نام پر راتوں رات نئی سیاسی جماعتیں تشکیل پانے لگیں۔
اس کی بہترین مثال ری پبلکن پارٹی کی تشکیل ہے۔ اسی طرح سیاسی لیڈر بھی راتوں رات اپنی سیاسی وابستگی تبدیل کرلیتے۔ کامیاب سیاست دان اسے گردانا جاتا جو ہر دور اور ہر وزارت کی کابینہ کا رکن ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ ملک میں لاتعداد سیاسی جماعتیں تشکیل پاگئیں جن کا مقصد علاقائی، صوبائی، لسانی اور فرقہ وارانہ سیاست کو چمکانا تھا۔ یہاں تک کہ ان سیاسی جماعتوں کی اندرونی سیاست کسی بھی آئین یا قانون سے بالاتر تصور ہونے لگی۔ 1945-46 کے انتخابات میں مولانا شبیر احمد عثمانی نے پارٹی ٹکٹوں کے لیے قائداعظم سے سفارش کی درخواست کی مگر قائداعظم نے کہا کہ مسلم لیگ ایک جمہوری جماعت ہے۔ وہ ٹکٹ کے حصول کے لیے مرکزی پارلیمانی بورڈ سے اپیل کریں۔
آپ نے پارٹی کا صدر ہونے کے باوجود پارٹی کی فیصلہ سازی میں مداخلت سے انکار کردیا۔ مگر آج کے دور کی سیاسی جماعتیں اپنے ہی بنائے گئے دستور و منشور کی پابندی سے گریزاں اور نظم و ضبط سے عاری نظر آتی ہیں یہاں تک کہ پارٹی ٹکٹ مرکزی قیادت کے ذریعے کروڑوں میں فروخت ہوتے ہیں۔ الیکشن ایک کاروبار بن گیا ہے۔ جمہوریت کے نام پر مفاد پرستی اور بے اصولی کا ایک ایسا دور دورہ ہے جو وقت کے ساتھ بتدریج کم ہونے کے بڑھتا ہی چلا جارہا ہے۔
وطن عزیز نے 1958ء سے لے کر 2007ء تک آمریت کے چار ادوار کا سامنا کیا جن میں جمہوریت کی گاڑی کو بار بار پٹڑی سے اترنا پڑا چنانچہ جمہوریت مضبوط ہونے کی بجائے کمزور سے کمزور تر ہوتی چلی گئی۔
نسلی، لسانی، علاقائی اور فرقہ وارانہ تعصبات نے ملکی اتحاد کو پارہ پارہ کردیا اور مشرقی پاکستان کی علیحدگی کا عظیم سانحہ رونما ہوا۔ ایسے میں نہ تو مضبوط قومی ادارے تشکیل پاسکے اور نہ مضبوط قومی جمہوری جماعتوں کی ساخت پرداخت ممکن ہوسکی جس کے باعث جمہوریت کے ثمرات عام آدمی تک منتقل نہ ہوسکے بلکہ ہر سال لاکھوں پاکستانی خطِ غربت سے نیچے جانے پر مجبور ہوئے۔ پاکستان ایک اسلامی نظریاتی ریاست ہے مگر قائد کے ویژن کے مطابق نہ تو یہ جدید اسلامی جمہوری فلاحی ریاست بن سکی اور نہ یہاں آج سے تیرہ سو سال پہلے والی اسلامی جمہوریت کے نظام کا خواب شرمندہ تعبیر ہوسکا۔