جشن عید میلاد النبی ﷺ کی شرعی دلیل(شیخ الاسلام کی کتاب "معمولات میلاد "سے اقتباس)

اَحکام اِلٰہیہ سے مستنبط اُصول و قوانین ہر شرعی عمل کی اساس ہیں اور ہر عمل سنت رسول اللهﷺکی بنیاد پر استوار ہے۔ یہی اس دین کی حقانیت و صداقت کی وہ بین دلیل ہے جو اسے دیگر ادیان باطلہ سے ممتاز کرتی ہے۔ اس ضمن میں ہم میلاد النبیﷺ کو بہ طور عید منانے اور اظہار مسرت کرنے کی بابت تفصیلی بحث کر چکے ہیں، لیکن ایسے حضرات کے لیے جو بلاوجہ میلاد شریف کے موقع پر فتویٰ بازی سے جمہور مسلمانوں کو کفر و شرک اور بدعت کا مرتکب ٹھہراتے ہیں اور ہر بات پر قرآن وسنت سے دلیل طلب کرتے ہیں اُن کے دل و دماغ تنگ نظری کا شکار ہیں اور وہ بزعم خویش یہ سوچتے ہیں کہ اس عمل کا کوئی شرعی ثبوت نہیں؟ اُن سے بہ قول اقبال بس اتنی گزارش ہے:

دل بینا بھی کر خدا سے طلب
آنکھ کا نور، دل کا نور نہیں

میلاد النبی ﷺایم جیسی نعمت عظمی پر شکرانے کے ثبوت طلب کرنے والے نادان اور کم نصیب لوگوں نے کبھی یہ نہیں سوچا کہ زندگی میں ہزار ہا دنیاوی خوشیاں مناتے وقت کبھی قرآن و حدیث کی طرف نگاہ اٹھا کر دیکھ لیں کہ اس کا ذکر ان میں ہے یا نہیں؟

1۔ کیا ایسا نہیں ہوتا کہ جب کبھی ایک مدت کے بعد اولاد پیدا ہو تو مٹھائیاں بانٹی جاتی اور دعوتیں دی جاتیں ہیں؟ کیا اُس وقت بھی کتب حدیث اٹھا کر یہ ثبوت طلب کیا جاتا ہے کہ آیا حضور نبی اکرمﷺ یا کسی صحابی نے بیٹوں کی پیدائش پر مٹھائی بانٹی تھی ؟

2۔ ہر سال اپنے بچوں کی سالگرہ پر ہزاروں لاکھوں کی ضیافتیں کرنے والوں نے کیا کبھی قرآن و حدیث سے اس بارے میں بھی ثبوت تلاش کیا ہے؟

3۔عام معمول ہے کہ جب کسی کی شادی قریب ہوتی ہے تو کئی کئی مہینے اس کی تیاریوں میں گزرتے ہیں۔ اشتہار اور دعوتی کارڈ چھپوائے جاتے ہیں، رسم و رواج اور تبادلہ تحائف پر لاکھوں روپے اڑائے جاتے ہیں۔ اچھے کپڑے پہنے جاتے ہیں۔ ولیمہ پر لاکھوں روپے خرچ ہوتے ہیں، اپنے خویش و اقارب اور دوست و احباب کی حتی الوسع خدمت کی جاتی ہے۔ کیا اس موقع پر بھی ہم نے کبھی قرآن و حدیث سے دلیل طلب کی کہ شادیوں پر آقائے دو جہاںﷺ نے یا ان کے غلاموں نے ایسی خوشیاں منائی تھیں یا نہیں؟ کیا انہوں نے بھی اتنے مہنگے اور پر تکلف کھانے تیار کرائے تھے؟ یہاں اس لیے ثبوت طلب نہیں کیے جاتے کہ اپنے بیٹے یا بیٹی کی شادی کا معاملہ ہے اور بات اپنے گھر تک پہنچتی ہے مگر میلاد النبیﷺ ہم پر ثبوت یاد آجاتا ہے کیوں کہ یہ حضور نبی اکرمﷺ کی ولادت کا معاملہ ہے۔

4۔ ۲۳ مارچ کو آزادی کے حصول کے لیے قرارداد پاس ہوئی اور جد و جہد آزادی کا آغاز ہوا تھا۔ اس کی خوشی میں ہر سال ملک کے طول و عرض میں سرکاری و غیر سرکاری سطح پر تقریبات، جشن اور محافل کا انعقاد کیا جاتا ہے۔ جس دن - ۱۴ اگست۔ غیروں کے تسلط سے آزادی ملی اور مملکت خداداد پاکستان کی صورت میں اللہ تعالیٰ کی نعمت ملی تو اُس دن ہر سال پورے ملک کو دلہن کی طرح سجایا جاتا ہے، بے پناہ وسائل خرچ ہوتے ہیں، جگہ جگہ جہازوں، ٹینکوں اور گاڑیوں کی سلامی دی جاتی ہے، گارڈ آف آنر پیش ہوتے ہیں۔ یوم دفاع (۶ستمبر) کی خوشی میں پاک فوج کی جنگی مشقیں دیکھنے کے لیے مخصوص مقامات پر اجتماعات ہوتے ہیں۔ یہ سب امور اگرچہ درست ہیں مگر ان قومی تہواروں کے لیے عہد نبوی ﷺاور عہد صحابہ سے ثبوت تلاش نہیں کیے جاتے۔

ہر سال اپنے بچوں کی سالگرہ پر ہزاروں، لاکھوں کی ضیافتیں کرنے والوں نے کیا کبھی قرآن و حدیث سے اس بارے میں ثبوت تلاش کرنے کی کوشش کی، اگر نہیں تو پھر سرور کائنات ﷺ کی ولادتِ پاک کے اہتمام میں لیت و لعل کیوں؟

5۔ بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح اور حصول آزادی کی جد و جا جہد میں میں کام کرنے والے رہنماؤں کے یوم ولادت پر پورے ملک میں عید کا سا سماں ہوتا ہے۔ دفاتر تعلیمی اور صنعتی ادارے بند کر دیے جاتے ہیں۔ جلسوں کا انعقاد کیا جاتا ہے۔ ان کی زندگی کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالنے کے لیے دور دور سے دانش وروں اور زعماء کو بڑے اہتمام سے دعوتیں دے کر بلوایا جاتا ہے اور ان کی شان میں قصیدہ خوانی کی جاتی ہے۔ لیکن یہاں قرآن و حدیث یا اُسوۂ صحابہؓ سے کسی ثبوت کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔ اس لیے کہ بجا طور پر سمجھا جاتا ہے کہ ملک و قوم کے رہبروں کی ملی خدمات کو سراہا جانا چاہیے لیکن پوری انسانیت بلکہ کائنات ہست و بود کے محسن اعظم ﷺکا یوم ولادت آئے تو اُن کی یاد میں محافل میلاد اور خوشی کرنے پر ہمیں ثبوت یاد آنے لگتے ہیں اور دلیلیں طلب کرنا بھی ضروری سمجھا جاتا ہے۔ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خانؒ اس حوالے سے کیا خوب لکھتے ہیں:

اور تم پر مرے آقا کی عنایت نہ سہی
نجدیو! کلمہ پڑھانے کا بھی احسان گیا

6۔جب ملک کا یوم تاسیس آئے یا بیرون ملک سے کوئی مہمان آئے (خواہ مسلم ہو یا غیر مسلم اُسے اکیس توپوں کی سلامی دی جائے تو اُس وقت قرآن و حدیث سے جواز تلاش نہیں کیا جاتا۔

7۔ملک کے صدر، سربراہ ریاست یا بہت بڑے لیڈر کے انتقال پر بڑے اعزاز کے ساتھ اُس کی تدفین عمل میں آتی ہے، اُس کی وفات پر سوگ کے جلوس نکالے جاتے ہیں، میت پر ماتمی دھنوں سے بینڈ باجے، توپوں کی سلامی ہوتی ہے، پھولوں کی چادریں چڑھتی ہیں ، گل پاشیاں اور نہ جانے کیا کیا تقریبات ہوتی ہیں۔ علماء و غیر علماء سب ان تقریبات میں شریک ہوتے ہیں مگر کسی نے کبھی فتوی صادر نہیں کیا۔ سنت رسولﷺ ملی کام اور اسوہ صحابہؓ سے کبھی سند تلاش نہیں کی۔ اس لیے کہ اس میں ملک کا اعزاز اور مرحوم لیڈر کی خدمات کا اعتراف تھا، اپنی جذباتی وابستگی کا اظہار تھا اور اقوام عالم کے سامنے اپنے قومی وقار کا مسئلہ تھا۔ یہ سب کچھ ٹھیک ہے اور ہمارے نزدیک بھی یہ غلط نہیں ہے۔ ایسا ہونا چاہیے مگر امر زیر بحث یہ ہے کہ کسی صدر مملکت کے لیے ایسا اہتمام ہو تو کوئی ثبوت نہیں مانگے جاتے لیکن باعث موجودات حضرت محمد علیہ الصلوات والتسلیمات کے یوم ولادت کے سلسلے میں دلائل اور فتووں کا مطالبہ کیا جاتا ہے۔ آقائے دو جہاں رحمۃ للعالمینﷺ کی آمد کا دن آئے تو خوشی منانے کے لیے دلائل و براہین اور ثبوت مانگے جائیں، اس کا صاف مطلب ہے کہ باقی ہر موقع پر خوشی تھی بس حضور نبی اکرم ہم کے معاملے میں دل احساسِ مسرت سے محروم ہو گیا اور حکم خداوندی - فَلْيَفْرَحُوا هُوَ خَيْرٌ مِّمَّا يَجْمَعُونَ ، یاد نہ رہا۔ اعمال حسنہ عبادت و ریاضت میں کثرت ذکر پر بھروسہ کافی محسوس ہونے لگا اور دل اس احساس سے خالی ہو گیا کہ دنیا کی سب سے پیاری، سب سے معظم اور سب سے زیادہ واجب التعظیم ہستی آقاﷺ ہیں۔ ان کی محبت ایمان کی اساس ہے اور ایمان دل کی وہ حالت ہے جسے کیفیت یا حال کہتے ہیں، جسے لگن بھی کہتے ہیں اور لگاؤ بھی ، محبت بھی کہتے ہیں اور محبت کا الاؤ بھی۔ یہ الاؤ دل میں جل اٹھے تو مومن اپنی زندگی کے ہر لمحے کو عید میلاد بنا کر مناتا رہے اور اپنے در و دیوار کو آخرت کا گھر سمجھ کر سجاتا رہے۔ ہم سب کو یہ جان لینا چاہیے کہ ان خشک و بے مغز عبادتوں کے ذخیروں کے مقابلے میں حضورﷺ کی آمد پر خوشی کرنا اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں زیادہ افضل عمل ہے۔

افسوس کہ کفر و شرک کے فتاوی صادر کرنے والے منکر میلاد بدعتیوں نے اپنے بیٹوں اور بیٹیوں کی خوشیوں پر لاکھوں روپے خرچ کر دیے تو کوئی چیز رکاوٹ نہ بنی لیکن محبوبﷺ کا ماہ ولادت جلوہ فگن ہوا تو اس کے اہتمام پر خود خرچ کرنے کی بجائے دوسروں کو بھی اس سے منع کرتے رہے۔ یاد رہے کہ کوئی خوشی آقائے دو جہاںﷺ کی آمد کی خوشی سے بڑی نہیں، اس کے مقابلے میں دنیا و جہان کی ساری خوشیاںہیچ ہیں۔

محافلِ میلاد مصطفیٰﷺ کے انعقاد کے تقاضے

گزشتہ صفحات میں ہماری معروضات صراحت سے اس امر کی شہادت فراہم کر رہی ہیں کہ جشن میلاد النبیﷺ کا اہتمام کرنا یقینا مستحسن اور باعث اجر و ثواب عمل ہےلیکن اس موقع پر اگر انعقاد میلاد کے بعض قابلِ اعتراض پہلوؤں سے صرف نظر کرتے ہوئے انہیں برقرار رہنے دیا جائے تو ہم میلاد النبیﷺ کے فیوض و برکات سے محروم رہیں گے۔ جب تک اس پاکیزہ جشن میں طہارت، نفاست اور کمال درجہ کی پاکیزگی کا خیال نہیں رکھا جائے گا سب کچھ کرنے کے باوجود اس سے حاصل ہونے والے مطلوبہ ثمرات سمیٹنا تو درکنار ہم اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول مکرمﷺ کی ناراضی مول لیں گے۔

برصغیر کے عظیم عالم دین مولانا عبدالحئی فرنگی محلی حقہ پی کر میلاد کی محفل میں چلے گئے، بیٹھے بیٹھے آنکھ لگ گئی، خواب میں حضور نبی اکرم ﷺ تشریف لائے اور فرمانے لگے عبدالحئی تمہیں احساس نہیں کہ ہماری محفل میں حقہ پی کر اُسی بدبودار منہ کے ساتھ آگئے ہو۔

محفل میلاد ہو یا جلوس میلاد، یہ سارا اہتمام چوں کہ حضورﷺ کی ولادت کی خوشی کے سلسلہ میں ہوتا ہے، لہذا اس کا تقدس برقرار رکھنا اُسی طرح ضروری ہے جس طرح حضور نبی اکرمﷺ کی ظاہری حیات مقدسہ میں آپ ﷺکی مجلس کے آداب ملحوظ رکھے جاتے تھے۔ ہمیں پوری کوشش کرنی چاہیے کہ ماحول کی پاکیزگی کو خرافات اور خلاف شرع بے ہودہ کاموں سے آلودہ نہ ہونے دیں۔ اس کے ساتھ ساتھ جشن میلاد کے موقع پر محفلیں منعقد کرنا اور صدقہ و خیرات کرنا، جانی و مالی، علمی و فکری غرضیکہ ہر قسم کی قربانی کا جذبہ صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی رضا اور اس کے حبیب مکرمﷺ کی خوشنودی کے حصول کے لیے ہونا چاہیے۔ احادیث مبارکہ میں ہے کہ صبح و شام حضور ﷺپر درود و سلام کے علاوہ اپنی اُمت کے دوسرے نیک و بد اعمال بھی پیش کیے جاتے ہیں۔ حضورﷺ اچھے کام دیکھ کر خوشی کا اظہار فرماتے ہیں اور برائی دیکھ کر ناراضگی اور افسوس کا اظہار کرتے ہیں۔ بالکل اسی طرح ہماری یہ میلاد کی خوشیاں بھی حضورﷺ اسلام کے سامنےپیش کی جاتی ہیں۔ اگر ان میں صدق و اخلاص شامل نہیں ہوگا تو حضورﷺ کو ہماری ایسی محفلوں کے انعقاد سے کیا مسرت ہوگی؟ اور اللہ تعالیٰ اپنی بارگاہ میں اپنے محبوبﷺ کی خاطر کی جانے والی اس تقریب کو کیوں کر شرف قبولیت سے نوازے گا؟ یہ ہمارے لیے لمحہ فکریہ ہے۔ صدقہ و خیرات میں کثرت اور اظہار مسرت کے لیے بڑے بڑے جلسے جلوس اُس بارگاہ میں باعث شرف و قبولیت نہیں جب تک کہ ظاہری عقیدت میں اخلاص باطن اور حسن نیت شامل نہ ہو۔ حضور نبی اکرمﷺ کی سچی محبت اور ادب و تعظیم ہی ہمارے ہر عمل کی قبولیت کی اولیں شرائط میں سے ہیں۔

محفل میلاد کے تقاضوں میں خلوص و تقویٰ کے ساتھ ساتھ ظاہری و باطنی طہارت بھی انتہائی ضروری ہے، آپ ﷺ طہارت اور پاکیزگی کا بے حد خیال فرماتے تھے، میلاد کی محافل میں شریک ہونے والے صاف ستھرے کپڑے پہنیں ، خوشبو لگائیں اور ہر طرح سے صفائی کا خیال رکھیں۔

محفل میلاد کے تقاضوں میں خلوص و تقویٰ کے ساتھ ساتھ ظاہری و باطنی طہارت بھی انتہائی ضروری ہے۔ حضورﷺ چوں کہ خود صفائی کو انتہائی پسند فرماتے تھے، اور جس طرح آپﷺ کی ظاہری حیات مبارکہ میں ہر طرح کی صفائی، طہارت اور پاکیزگی کا خیال رکھا جاتا تھا اُسی طرح حضورﷺ کی نسبت سے منعقد ہونے والی محافل و مجالس میں بھی ہمیں کمال درجہ احتیاط کی ضرورت ہے۔ اس لیے کہ حضورﷺ اگر چاہیں تو اپنے غلاموں کی ان محافل میں اپنے روحانی وجود کے ساتھ تشریف لاتے ہیں۔ یہاں اس سلسلہ میں ایک مثال سے اس امر کی توثیق کی جاتی ہے:

’’راقم کے والد گرامی حضرت علامہ ڈاکٹر فرید الدین قادریؒ نے اسی موقع کی مناسبت سے ایک واقعہ بیان فرمایا ہے کہ مولانا عبد الحی فرنگی محلی حقہ پیتے تھے۔ ایک دفعہ محفل میلاد منعقد تھی۔ حقہ پی کر جلدی سے بغیر کلی کیے محفل میں چلے آئے، بیٹھے بیٹھے اونگھ آگئی۔ خواب میں حضور نبی اکرمﷺ تشریف لائے اور فرمانے لگے: " عبد الحی ! تمہیں احساس نہیں کہ ہماری محفل میں حقہ پی کر اسی بد بودار منہ کے ساتھ آگئے ہو؟“

حضور ﷺکی طبیعت مبارکہ اتنی پاک، منزہ اور لطیف تھی کہ آپﷺ لہسن اور پیاز وغیرہ کھا کر مسجد میں آنے سے بھی صحابہ کرامؓ کو منع فرماتے تھے۔ ایسے کئی واقعات ہیں کہ حضورﷺ اپنے خاص غلاموں کو جس طرح ظاہری حیات طیبہ میں ایسی بد بودار اشیاء استعمال کرنے سے روکتے تھے بعد از وصال بھی اسی طرح حکماً یا اشارتا منع فرماتے۔ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی (۱۱۱۴-۱۱۷۴ھ ) الدر الثمين في مبشرات النبي ﷺ کی اٹھائیسویں حدیث میں اپنے والد گرامی شاہ عبد الرحیم (۱۱۳۱۱۰۵۴ھ) کے حوالہ سے ایک واقعہ نقل کرتے ہیں: دو صالح آدمیوں۔ جن میں سے ایک عالم بھی تھا اور عابد بھی، جب کہ دوسرا عابد تھا عالم نہ تھا۔ کو ایک ہی وقت اور ایک ہی حالت میں حضور نبی اکرمﷺ کی زیارت ہوئی لیکن حضور ﷺکی مجلس میں صرف عابد کو بیٹھنے کی اجازت دی گئی، عالم اس سے محروم رہا۔ چنانچہ اس عابد نے بعد میں لوگوں سے دریافت کیا کہ کیا ماجرا ہے؟ اس عالم کو اس سعادت سے کیوں محروم رکھا گیا ؟ تو اُسے بتایا گیا کہ وہ حقہ پیتا تھا اور حضورﷺ حقہ ناپسند فرماتے ہیں۔ دوسرے دن . یہ عابد اس عالم کے پاس گیا تو دیکھا کہ عالم اپنی اس محرومی پر زار و قطار رو رہا ہے۔ جب عابد نے حقیقت حال سے اُسے آگاہ کیا اور محرومی کا اصل سبب بتایا تو عالم نے اسی وقت تمباکو نوشی سے توبہ کر لی۔ پھر اگلی شب دونوں نے اسی طرح بیک وقت حضورﷺ کی زیارت کی اور اس بار عالم کو مجلس میں نہ صرف حاضری کا شرف بخشا گیا بلکہ آقائے دو جہاںﷺ نے اسے اپنے پاس بٹھایا۔