قارئین کرام۔ پچھلے دنوں پرندوں پر ایک رپورٹ دیکھی جو مون سون ہواؤں کیساتھ ساتھ ایک شہر سے دوسرے شہر ایک ملک سے دوسرے ملک ہی سفر نہیں کرتے بلکہ یہ سفر ایک براعظم سے دوسرے براعظم پر محیط ہوتا ہے۔ لیکن اس پر ایک اور پہلو قابل غور یہ کہ قریہ قریہ منزل بہ منزل یہ سفر انھیں خانہ بدوش نہیں بناتا، نہ ہی یوں ہوتا ہے کہ اتنے سفر کے دوران کسی من چاہی بستی میں تھکن سے چور ھونے کے باعث ایک اور آشیا نہ بنا کر رہائش اختیار کریں اور وہیں کے ہو کر رہ جائیں بلکہ اپنے وطن سے محبت کا یہ عالم ہے کہ ہزاروں میل دوری پر سالوں کا سفر طے کر کے اپنے وطن واپس پہنچتے ہیں۔ جہاں ان کے دیے گئے انڈے ان کا انتظار کر رہے ہوتے ہیں۔ جنھیں وہ اپنے جذبات واحساسات سے حدت دیتے ہیں اور انہی احساسات و جذبات نے انھیں دورانِ سفر تھکنے نہیں دیا ہوتا۔ بارہا یوں بھی ہوتا ہے کہ واپسی پر موسموں کی شدت کے باعثِ بچے انڈوں سے نکل کر محو انتظار ہوتے ہیں اور اپنی چوں چاں کی آواز سے والدین کا استقبال کرتے ہیں۔یہی وہ لمس اور وطن سے محبت کا احساس ہے جو انھیں کہیں مستقل پڑاؤ نہیں کرنے دیتا۔
یہ مناظر دیکھ کر اپنے وطنِ عزیز کی محبت میں سرشار 14 اگست 1947 کے وہ شہداء یاد آئے جنھوں ے اپنا آج ہمارے کل پر قربان کر دیا۔ ایک نظریاتی فکر لے کر اپنی نسلوں کی بقا کے لیے قافلہ درقافلہ پیادہ اور گاڑیوں ٹرینوں پر وطن عزیز کی طرف ہجرت کی۔ کٹے پھٹے جسموں کے ساتھ وطن کی سرحدوں پر پہنچے تو سہی مگر اپنے قدموں پر باہر نہیں نکل سکے، شہید کر دیے گئے، عزتیں نیلام ہو گئیں۔ اس وطن عزیز کی بنیادوں میں ان شہداء کا خونِ جگر گوشت، گارے کی جگہ اور ہڈیاں، اینٹوں کی جگہ استعمال ہوئیں تب جا کر وطن پاکستان معرض وجود میں آیا۔ اس کی سالمیت امن اور خود مختاری کا تحفظ ہم پر اور ہماری آنے والی نسلوں پر قرض ہےاور الحمدللہ 1947سے اب تک وطن کے جیالے ہر دور میں مختلف محازوں پر ڈٹےوطن کی سالمیت اور بقا پر آنچ نہیں آنے دیتےبلکہ تحفظ کی خاطر قربانیوں کا تسلسل جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اور یوں اہل وطن کی محبت کے چشمے جاری وساری رہتے ہیں۔ وطن سے محبت ایک فطری اور طبعی عمل ہے جہاں انسان پیدا ہوتا ہے بچپن لڑکپن جوانی کے ماہ وسال گزرتے ہیں۔ اس کو بھلا دینا آسان نہیں۔ اور یہی وطن سے محبت کا تقاضا ہے کہ ہمہ وقت خون گرم رہیں، جھپٹا جائے، پلٹا جائے اور دشمن کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اسے للکارا جائے۔ اور اس کی تعمیر وترقی کے لیے سب اہل وطن اپنی کاوشیں جاری رکھیں۔کیونکہ بطور مسلمان وطن سے محبت ایمان کا حصہ ہے۔ جس کی دلیل آقا ﷺ کے مبارک اسوہ سے ملتی ھے۔ جس کے لیے محبت رسول ﷺکی سرشاری سمیٹے 14 قرنوں کی دوری پر کھڑے دور رسول کی طرف پلٹنا ہو گاکہ جہاں ایک نظریاتی فکر وشعور دینےکے باعث آپ ﷺ اپنے ہی وطن کے اندر نہ صرف بے وطن مسافر کی سی زندگی گزار رہے ہیں بلکہ آپ ﷺ کے اصحابؓ انگاروں پر لٹائے جارہے ہیں۔ اپنے ہی وطن میں شعب ابی طالب کی وادی میں اپنے اقربا اور عیال کے ساتھ نہ صرف محصور ہیں بلکہ فاقے کر رہے ہیں۔ پھر ہجرت حبشہ کا جگر سوز منظر، مکہ کا تکلیف دہ واقعہ جب تمام قبائل ننگی تلواریں لے کر قتل کے درپے ہیں ،غار ثور میں تین دن کا قیام اورمکہ سے مدینہ تک کے سفر کی صعوبتیں اور آزمائشیں جھیلتے ہوئے مدینہ پہنچتے ہیں۔ بعد ازاں مدینہ کے دس سالہ سفر کے دوران ملنے والی ان تھک تکالیف کے ساتھ ساتھ وطن سے دوری کا احساس، اس کی یاد، ہجر وفراق کے نہ بھولنے والے ماہ وسال بھی گزارے۔ یہی وجہ تھی کہ آپﷺ نے فرمایا: حدیث مبارکہ کا مفہوم یہ ہےکہ دنیا میں جتنے ملک اور شہر ہیں۔ ان میں سب سے زیادہ پسندیدہ اور خوبصورت میرا وطن شہر مکہ ہے۔ ایک جگہ ارشاد گرامی ملتا ہے کہ آپﷺ نے فرمایا اے شہر مکہ تو مجھے بہت پیارا ہے، خدا کی عزت کی قسم میں تجھے کبھی نہ چھوڑتا۔مگر کیا کروں کہ یہاں کے لوگ مجھے تیرے اندر رینے نہیں دیتے۔
ایک اور جگہ پر آپ کے ارشاد گرامی کاترجمہ یوں ھے۔
کہ اے شہر! کہ تو کتنا پاکیزہ ہے اور مجھے کتنا محبوب ہے۔ کاش تیرے لوگ مجھے ہجرت کرنے پر مجبور نہ کرتے تو میں تیرے سوا کہیں اور سکونت اختیار نہ کر تا۔
مدینہ میں قیام کے دوران اگر یاد کا کوئی دریچہ وطن کو کھلتا تو پہروں اسکی یاد کی تان نہ ٹوٹتی۔ سیرت طیبہ کے مطالعہ سے یہ مناظر دیکھنے کو ملتے ہیں کہ آپ مدینہ طیبہ سے باہر نکل کر ان راستوں پر بیٹھتےجہاں سے مکہ سے آنے والوں کا گزر ہوتا۔ آپﷺ مکہ کے احوال پوچھتے۔وہاں کی چراگاہوں، موسموں اور مکہ مکرمہ کی وادیوں میں اگی گھاس کا تذکرہ فرماتے، ٹھنڈی آہیں بھرتےاور وطن کو یاد کر کے آنسو بہاتے۔
حضور نبی اکرم ﷺ اپنے شہرمکہ سے بے حد محبت اور لگاؤ رکھتے، ایک موقع پر آپ ﷺ نے فرمایااے شہر! تو کتنا پاکیزہ ہے اور مجھے کتنا محبوب ہے، کاش تیرے لوگ مجھے ہجرت کرنے پر مجبور نہ کرتے تو میں تیرے سوا کہیں اور سکونت اختیار نہ کرتا۔
مدینہ طیبہ میں قیام کے دوران ملنے والی کامیابیاں، فتوحات، اصحاب رسول کی لازوال محبتیں، ازواج مطہرات کی قربتیں، دن رات دین اسلام کو ملنے والا عروج، سب کچھ ہی تو ہے مگر ان سب کےحصول کے باوجود میرے آقا ﷺ اپنے آبائی وطن مکہ کو نہیں بھولتے۔ بعد ازاں جب رسول اللہﷺ فتح مکہ کے موقع پر مکہ مکرمہ یعنی آپنے اصلی وطن داخل ہوتے ہیں تو اس وقت میرے آقا ﷺ کی زندگی کا ہر لمحہ ہر واقعہ ہمیں دعوت فکر دیتا ہےاور وطن سے محبت کے آداب سکھاتا ہے۔ آپ فاتحانہ شان سے مکہ میں داخل ہوتے ہیں تو اہل مکہ کے جسموں پر انتقام کی کوئی خراش تک نہیں ملتی۔ عفو ودرگزر کی اعلیٰ مثالیں قائم ہوتی ہیں، شہر مکہ کی معیشت کی کہیں پامالی نہیں ہوتی، کوئی توڑ پھوڑ نہ کسی گلی کوچے مکان کو انتقاماً مسمار کیا جاتا ہے بلکہ ازلی دشمن کے گھر کو جائے امان قرار دیا جاتا ہے۔ یہ وطن سے محبت تھی کہ اسکی سالمیت کی بقا کے لیے اپنے ذاتی دشمنوں اور چچا کے قاتلوں کو معاف کر دیا جاتا ہے اور عام معافی کے اعلان کے بعد مکہ مکرمہ کے امن کو برقرار رکھا جاتا ہے۔
حفیظ جالندھری فرماتے ہیں:
یہ لشکر ساری دنیا سے انوکھا تھا نرالا تھا
کہ اس لشکر کا افسر اک کالی کملی والا تھا
پھر یہی محبت آقاﷺکی اپنے وطن مدینہ ثانی سے بھی تھی۔جب غزوات اور فتوحات کے لیے کئی ماہ مدینہ سے دور گزرتے۔ تو مدینہ واپسی کے وقت جوں ہی مدینہ شہر کے آثار نظر آتے۔تو چہرہ انور دور سے دیکھنے پر ہی کھل جاتا۔آپﷺ اپنی سواری کو ہلکی سی جست لگاتے تو وہ تیز تیز قدم اٹھانے لگتی۔
پاکستان ایک نظریاتی ملک ہے جو اسلام کی بنیاد پر حاصل کیا گیا، اکابرین اُمت اور قوم نے حصولِ وطن کی اس لئے جدوجہد کی کہ ہماری نسلیں اسلامی اصولوں کے مطابق اپنی زندگیاں گزار سکیں۔
قصواء جس کی پشت پر ہزارہا آیات قرآنی کا نزول ہوا، آقا ﷺ کی ان خاص کیفیات کو محسوس کرتی تھی، آپﷺ کی ہر ادا سے واقف تھی، جوں ہی مدینہ نظر آ تا۔ آپ ﷺ کے اضطراب کو پہچان جاتی اور مدینہ کی طرف دوڑ لگا دیتی۔ آپﷺ وارفتگی اور خوشی کے عالم میں قصواء سے باتیں کرتے اورٹھنڈی سانس لیتے حضرت انس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ مدینہ میں داخلے کے وقت آقا ﷺ کے رخ انور پر ایک سرشاری اور خوشی ہوتی جس کو سب محسوس کر سکتے تھے۔ قارئین کرام جغرافیائی حقائق اپنی جگہ مگر کچھ وطن نظریات کی بنیاد پر معرض وجود میں آتے ہیں۔ ہمارا وطن عزیز پاکستان ایک نظریاتی ملک ہے جو اسلام کی بنیاد پر حاصل کیا گیا۔ اکابرین امت اور قوم نے اس لیے کوششیں کیں کہ ہماری نسلیں اسلامی اصولوں کے مطابق اپنی زندگیاں گزار سکیں، انھیں اپنی مذہبی رسومات کی اجازت ہو،عدل وانصاف کا بول بالا ہو،بالکل اس طرح جس طرح آقا ﷺ نے مدینہ طیبہ کی بنیاد رکھی، اس کے رہنے والوں کو مواخات مدینہ کا درس دیا،۔ عدلیہ کا بول بالا کیااور قرآن وسنت کے مطابق ہر شہری کو پوری عزت وقار، آزادی اور حقوق وفرائض کی پہچان کروائی۔ سنت رسولﷺ اور اتباع رسولﷺ کی روشنی میں اس وطن عزیز پاکستان کو نظریاتی بنیادوں پر استوار کرنے کے لیے مصطفوی معاشرے کے قیام کی فکرشیخ الاسلام ڈاکٹر قادری نے اس قوم کو دی اور اس نظریے کے حصول کے لیے 2013کا دھرنا بھی دیا گیاجس میں الیکشن ریفام، احتساب اور پھر شفاف انتخابات آپ کا ایجنڈا تھا۔ آپ نے سنت نبوی کی پیروی کرتے ہوئے ملکی استحکام، اس کی سالمیت اور امن کو قائم رکھنے کے لیے اپنے کارکنان کو سختی سے نصیحت کی کہ خبردار کوئی گملا تک نہ ٹوٹے پرامن احتجاج کی یہ مثال ہمیشہ کے لیے پاکستان کی تاریخ میں سنہری باب اور منہاج القرآن کے ماتھے کا جھومر ہے۔ شیخ الاسلام بھی اس وطن عزیز پاکستان اور آقا ﷺ کی امت کی نفع بخشی کے لیے ہمہ وقت مصروف عمل ہیں۔ انشاءاللہ آپ کے دیے گے شعور کی روشنی میں پاکستان میں مصطفوی معاشرے کا قیام جلد عمل میں آئے گا۔
الغرض آقا ﷺ کی سیرت طیبہ اور حیات مقدسہ سےوطن کی محبت کے ہزارہا پہلو ہیں۔ بصد اختصار کوشش کی عشق مصطفیٰ ﷺ کی چنگاری جب دل میں بھڑکتی ہے تو جذبوں اور محبتوں کے سیلاب کو لفظوں کی شکل میں صفحہ قرطاس کے حوالے کیا جاتا ہے۔
یہ ادنی سی کاوش یہ لفظوں کے نذرانے رب العزت قبول فرمائے۔ آمین بجاہ سید المرسلینﷺ