شجر کاری ایک دینی و قومی فریضہ

ارشاد اقبال اعوان

اللہ تعالیٰ نے زمین کو انسان کے لیے ایک خوبصورت اور پُرامن مسکن بنایا ہے، مگر جب انسان فطرت کے نظام کو بگاڑتا ہے تو قدرتی آفات، جیسے سیلاب، زلزلے، طوفان وغیرہ، اُس کی زندگی کو خطرے میں ڈال دیتے ہیں۔ وطن عزیزمیں سیلاب ایک بڑی تباہی کی صورت اختیار کر چکا ہے۔ پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک میں ہر سال سیلاب کی وجہ سے ہزاروں لوگ بے گھر ہو جاتے ہیں، کھیت کھلیان تباہ ہو جاتے ہیں، اور قیمتی جان و مال کا نقصان ہوتا ہے۔ سیلاب کی وجوہات میں بارشوں کی شدت، گلیشئرز کا پگھلنا، دریاؤں کا بند ٹوٹنا اور سب سے بڑھ کر درختوں کی بے دریغ کٹائی شامل ہے۔ درخت قدرت کا وہ عظیم عطیہ ہیں جو زمین کو سنبھال کر رکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ سیلاب کی روک تھام کے لیے درخت لگانا بے حد ضروری ہے- درخت زمین کی خوبصورتی اور فضائی آلودگی کے خاتمے کے ساتھ ساتھ انسانی زندگی کی بقاء کے ضامن ہیں۔ درخت محض اکسیجن فراہم نہیں کرتے، بلکہ وہ ایک مکمل ماحولیاتی نظام کو متوازن رکھتے ہیں۔ ان کے بغیر زمین بنجر، ماحول آلودہ، اور موسم غیر متوازن ہو جاتے ہیں۔

قرآن و حدیث میں درختوں کی اہمیت

جب زمین کا سینہ چیرا جاتا ہے، پہاڑوں کے درخت کاٹے جاتے ہیں، ندی نالوں کو بےقابو چھوڑ دیا جاتا ہے، اور انسان ترقی کے نام پر فطرت کے توازن کو بگاڑتا ہے، تو اس کے نتیجے میں جو تباہی آتی ہےاسے ہم سیلاب کے نام سے جانتے ہیں۔

آج پاکستان سمیت دنیا بھر میں موسمی تغیر، طوفانی بارشیں، ندیوں کی طغیانی، کھیتوں کی بربادی، گھروں کا بہہ جانا، لاکھوں لوگوں کا افراد کابے گھر ہونا — یہ سب کچھ کسی حد تک انسانی کوتاہیوں اور فطرت سے بغاوت کا نتیجہ ہے۔

مگر سوال یہ ہے: کیا ہمیں اس صورتحال سے بچنے کا کوئی حل اسلام نے دیا ہے؟

جی ہاں! ہمارے پیارے نبی کریم ﷺ نے صَدیوں پہلے وہ رہنما اصول دے دیے تھے، جو آج کے ماحولیاتی بحران کا بہترین علاج ہیں۔

آئیے قارئین کرام قرآن واحادیثِ نبوی ﷺ کی روشنی میں ایک جامع راستہ تلاش کرتے ہیں۔

اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں بار بار زمین، پانی، نباتات اور درختوں کا ذکر فرمایا، جو انسانی زندگی کی بنیادی نعمتیں ہیں

وَ فِی الْاَرْضِ قِطَعٌ مُّتَجٰوِرٰتٌ وَّ جَنّٰتٌ مِّنْ اَعْنَابٍ وَّ زَرْعٌ وَّ نَخِیْلٌ صِنْوَانٌ وَّ غَیْرُ صِنْوَانٍ یُّسْقٰی بِمَآءٍ وَّاحِدٍ ۫ وَ نُفَضِّلُ بَعْضَهَا عَلٰی بَعْضٍ فِی الْاُكُلِ ؕ اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یَّعْقِلُوْنَ۝

(الرَّعْد, 13 : 4)

اور زمین میں (مختلف قسم کے) قطعات ہیں جو ایک دوسرے کے قریب ہیں اور انگوروں کے باغات ہیں اور کھیتیاں ہیں اور کھجور کے درخت ہیں، جھنڈدار اور بغیر جھنڈ کے، ان (سب) کو ایک ہی پانی سے سیراب کیا جاتا ہے، اور (اس کے باوجود) ہم ذائقہ میں بعض کو بعض پر فضیلت بخشتے ہیں، بیشک اس میں عقل مندوں کے لئے (بڑی) نشانیاں ہیں.

درخت لگانا صدقہ جاریہ ہے

نبی کریم ﷺ نے فرمایا:

جب کوئی مسلمان درخت لگاتاہے یا کھیتی باڑی کرتا ہے اور اس میں سے انسان، جانور یا پرندہ کچھ کھاتا ہے تو یہ اس کے لیے صدقہ ہے۔

(بخاری: 2320، مسلم:1552۔ )

یہ حدیث مبارکہ ہمیں بتاتی ہے کہ درخت لگانا صرف ایک سماجی یا زرعی عمل نہیں، بلکہ ایک دینی عمل ہے صدقہ، نیکی، اور قیامت کے بعد بھی ثواب جاری رکھنے والا عمل۔

جب ایک درخت بارش سے ہونے والی تباھی کو روکتا ہے، پانی جذب کرتا ہے، زمین کو مضبوطی دیتا ہے، جانوروں کے لیے پناہ بنتا ہے، تو اس سے نہ صرف ماحول محفوظ ہوتا ہے بلکہ انسانوں کی زندگیاں بھی بچتی ہیں اور اس کا فائدہ درخت لگانے والے کے نامہ اعمال میں صدقہ بن کر لکھا جاتا ہے۔

قیامت کی گھڑی میں بھی پودا لگانا

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

اگر قیامت قائم ہو رہی ہو اور کسی کے ہاتھ میں ایک پودا ہو، اور وہ اسے لگا سکتا ہو تو ضرور لگا دے- (مسند احمد)

یہ حدیث پاک دنیا کو امید، عمل اور مثبت طرزِ فکرکا پیغام دیتی ہے۔ قیامت جیسے کڑے وقت میں بھی پودا لگانے کا حکم ہمیں سکھاتا ہے کہ درخت لگانا کبھی ضائع نہیں جاتا۔ س حدیثِ مبارکہ میں ماحولیات، خدمتِ خلق اور عمل کے جذبے کی عظیم تعلیم دی گئی ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں یہ پیغام دیا کہ خواہ حالات کتنے ہی نازک اور آخری کیوں نہ ہوں، نیکی کا عمل ترک نہیں کرنا چاہیے۔ درخت لگانا ایک ایسا عمل ہے جو انسانوں، جانوروں اور ماحول سب کے لیے فائدہ مند ہے۔ قیامت جیسے ہولناک منظر میں بھی پودا لگانے کا حکم دینا اس بات کی دلیل ہے کہ اسلام میں مثبت عمل کی حوصلہ افزائی آخری لمحے تک کی گئی ہے۔ اس حدیث سے ہمیں یہ سیکھنے کو ملتا ہے کہ امید، خدمت، اور بہتری کی سوچ کبھی ترک نہ کی جائے، چاہے دنیا کے حالات کتنے ہی مایوس کن کیوں نہ ہوں۔

انسان ترقی کے نام پر فطرت کے توازن کو بگاڑتا ہے تو اس کے نتیجے میں تباہی آتی ہے، درختوں کو بلاجواز کاٹ کرسیلاب کے عذاب کو دعوت دی جاتی ہے، اسی لئے تاجدارِ کائنات ﷺ نے درخت لگانے اور ان کی حفاظت کرنے کی تعلیم فرمائی ہے

سائنسی نکتہ نظر: درخت اور سیلاب کی روک تھام

سائنس دانوں اور ماہرینِ ماحولیات کے مطابق درخت سیلاب کو کنٹرول کرنے کے قدرتی آلےہیں ۔ (Natural Flood Barrier) ہیں۔

1. درخت پانی جذب کرتے ہیں

2. درختوں کی جڑیں بارش کا پانی زمین میں جذب کر کے سطحی بہاؤ کو کم کرتی ہیں، جس سے نالے اور دریا فوراً نہیں بھرتے۔

3. زمین کا کٹاؤ روکتے ہیں

4. درختوں کی جڑیں زمین کو باندھ کر رکھتی ہیں، جس سے زمین ندیوں میں بہنے سے بچ جاتی ہے۔ خاص طور پر پہاڑی علاقوں میں درخت نہ ہونے کی وجہ سے زمینی تودے اور لینڈ سلائیڈنگ عام ہوتی ہے۔

درخت آبی چکر (Water Cycle) کو متوازن رکھتے ہیں

درخت آبی چکر (Water Cycle) کو متوازن رکھنے میں نہایت اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ وہ زمین سے پانی جذب کرتے ہیں اور اپنے پتوں کے ذریعے بخارات کی صورت میں فضا میں چھوڑتے ہیں، جس سے تبخیر (evaporation) کا عمل بڑھتا ہے اور بادل بننے میں مدد ملتی ہے۔ درخت بارش کے پانی کو زمین میں جذب کرنے میں بھی مدد دیتے ہیں، جس سے زیرِ زمین پانی کے ذخائر محفوظ رہتے ہیں اور سیلاب کا خطرہ کم ہوتا ہے۔ ان کے سائے اور جڑوں کا نظام زمین کی نمی کو محفوظ رکھتا ہے اور درجہ حرارت کو متوازن بناتا ہے۔ اس طرح درخت آبی چکر کے تمام مراحل کو سہارا دیتے ہوئے ماحول میں توازن برقرار رکھتے ہیں۔

حضور نبی اکرم ﷺ نے شجر کاری کی اہمیت یوں بیان فرمائی کہ ’’اگر قیامت قائم ہورہی ہو اور کسی کے ہاتھ میں ایک پودا ہو اور وہ اُسے لگا سکتا ہو تو ضرور لگا دے‘‘۔ درختوں کی ضرورت و اہمیت اور افادیت کے حوالے سے اس سے بڑھ کر اور کوئی کلمہ خیر نہیں ہو سکتا

درخت اور عالمی حدت (Global Unity)

درخت (Global Warming) کو کم کرتے ہیں، جو آج کل غیر متوقع بارشوں اور سیلابوں کی بڑی وجہ ہے۔ درخت نہ صرف زمین کے ماحولیاتی نظام کے تحفظ کا ذریعہ ہیں بلکہ عالمی وحدت (Global Unity) کی علامت بھی ہیں۔ جیسے درخت زمین میں جڑیں مضبوط کرتے ہیں، ویسے ہی انسانیت کو بھی اپنی بنیادیں امن، احترام اور باہمی یگانگت پر استوار کرنی چاہییں۔ مختلف قوموں، مذاہب اور ثقافتوں سے تعلق رکھنے والے لوگ درخت کی مانند ایک ہی فطری نظام کا حصہ ہیں، اور درخت ہمیں سکھاتے ہیں کہ بقاء اور خوبصورتی تب ہی ممکن ہے جب ہم سب مل کر، ایک دوسرے کے ساتھ جُڑے رہیں۔ لہٰذا درخت عالمی وحدت، باہمی احترام اور مشترکہ ذمے داری کا استعارہ بن کر ہمیں ایک بہتر اور پُرامن دنیا کی طرف دعوت دیتے ہیں۔ تو پھر آج جب ہماری زمین پر سیلاب آ رہے ہیں، جانیں ضائع ہو رہی ہیں، معیشت کمزور ہو رہی ہے، ہم کیوں خاموش بیٹھے ہیں۔

حاصل کلام

درخت لگانا صرف ایک ماحولیاتی عمل نہیں بلکہ قرآن و سنت کی روشنی میں عبادت، صدقہ جاریہ، اور ایک اجتماعی فلاح کا ذریعہ ہے۔ جب ہم درخت لگاتے ہیں تو ہم زمین پر زندگی کی سانس بحال کرتے ہیں، آفاتِ ارضی جیسے سیلاب کی شدت کو کم کرتے ہیں، اور اپنی نسلوں کو ایک محفوظ مستقبل کی ضمانت دیتے ہیں۔ آج انسانیت کو ایسے ہی اعمال کی ضرورت ہے جو روحانی، سائنسی اور سماجی ہر پہلو سے خیر کا سبب بنیں۔ درخت لگانا دین کا حکم بھی ہےاور سائنس کی ضرورت بھی ہے، یہ صدقہ جاریہ بھی ہے اور ماحول کی حفاظت بھی، یہ انسانیت کی خدمت بھی ہے اور سیلاب سے بچاؤ بھی۔ ہم سب کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ اگر ہر فرد صرف ایک درخت بھی لگا دے تو مستقبل کے سیلابوں، خشک سالیوں اور ماحولیاتی بگاڑ سے ملک کو بچایا جا سکتا ہے۔ درخت لگائیں، ملک و ملت کو قدرتی آفات سے بچائیں... سنت نبوی ﷺ پر عمل کریں اور قوم و ملت کی زندگی کاتحفظ کریں۔ ہم کیوں درخت لگانے کو صرف باغبانی سمجھتے ہیں؟یہ تو ملکی سلامتی کا دفاع ہے۔