تعارف
اسلام ایک آسمانی اور فطری دین ہے جو زندگی کے ہر گوشے میں انسان کو عقلی، روحانی اور عملی رہنمائی فراہم کرتا ہے۔ بدقسمتی سے امتِ مسلمہ میں رفتہ رفتہ کچھ ایسی توہمات اور رسومات نے جگہ بنا لی ہے جن کا نہ اسلام سے کوئی تعلق ہے، نہ عقل و نقل سے۔ ماہِ صفر سے متعلق منفی تصورات اور اس سے جڑی رسومات ایسی ہی بدعات و خرافات میں شامل ہیں۔ زیرِ نظر مضمون میں ہم ماہِ صفر کی حقیقت، اس سے متعلق توہمات، ان کا تاریخی و اعتقادی پس منظر، اور ان کے ازالے کی شرعی و فکری بنیادوں کا جائزہ لیں گے۔
ماہِ صفر کا تعارف اور تاریخی پس منظر
ماہِ صفر اسلامی قمری سال کا دوسرا مہینہ ہے، جو محرم الحرام کے بعد آتا ہے۔ "صفر" کا مطلب خالی ہونا ہے۔ عرب زمانہ جاہلیت میں اس مہینے کو منحوس تصور کرتے تھے کیونکہ اس میں وہ گھروں کو خالی چھوڑ کر جنگوں کے لیے نکلتے تھے۔ اسی بنیاد پر اس مہینے کے ساتھ مختلف قسم کے واہمے جُڑ گئے، جو بعد میں توہمات کی صورت اختیار کر گئے۔ بعض لوگ اسے بیماریوں، مصیبتوں اور نحوست کا وقت تصور کرتے تھے۔ افسوس کہ یہ تصور آج بھی بہت سے لوگوں کے دل و دماغ میں موجود ہے، حالانکہ اسلام نے ایسی توہمات کی واضح الفاظ میں تردید کی ہے۔ علامہ ابن اثیر لکھتے ہیں۔
کانت العرب تتشاءم بصفر۔
النہایہ فی غریب الحدیث، جلد 3، ص 40)
ترجمہ: عرب ماہِ صفر کو منحوس سمجھتے تھے۔
توہم پرستی اور ماہِ صفر
توہم پرستی دراصل انسانی کمزوری، جہالت اور عدمِ توکل کی علامت ہے۔ معاشرتی دباؤ، لاعلمی، اور موروثی روایات نے عوام کے ذہنوں میں یہ بات بٹھا دی کہ کچھ دن یا مہینے بذاتِ خود منحوس ہوتے ہیں۔ ماہِ صفر کی 13، 14، 15 تاریخوں کو خاص طور پر نحوست کے ایّام سمجھا جاتا ہے۔ جب کہ یہ بات نہ قرآن سے ثابت ہے نہ حدیث سے۔ مارے معاشروں میں ماہِ صفر کے بارے میں کچھ معروف لیکن بے بنیاد نظریات رائج ہیں۔ مثلاًاس مہینے میں 320 آفات نازل ہوتی ہیں۔ اس مہینے میں نحوست نازل ہوتی ہے۔ اس مہینے میں حادثات نازل ہوتے ہیں۔ اس مہینے میں بیماریاں اترتی ہیں۔ اس مہینے میں مخصوص طریقے کی مروجہ قرآن خوانی ضرور کرانی چاہیے۔ اس مہینے میں آٹے کی 365 گولیاں بنا کر پانی کے تالاب وغیرہ میں ڈالنا۔ اس ماہ میں 311 مرتبہ سورۃ مزمل پڑھنا۔
نوٹ:اس میں کوئی شک نہیں کہ قرآن کریم پڑھنا باعث برکت ہے لیکن اس کیلئے بعض دنوں کو متعین کر کے اسے لازمی سمجھنا اور دین کا جز قرار دینا یہ ہرگز درست نہیں۔ قرآن پڑھیں سارا سال پڑھیں کوئی منع نہیں کرتا لیکن اپنی طرف سے ایام اور اوقات کی تعیین کو دین سمجھ کر ضروری قرار دینا سراسر غلط ہے۔
اس مہینے میں لولے لنگڑے اور اندھے جنات اترتے ہیں۔ اس مہینے میں چنے ابال کر تقسیم کرنا ضروری ہے۔ اس مہینے میں چوری بنا کر تقسیم کرنا ضروری ہے۔ اس مہینے میں مزاج میں شدت اور تیزی آ جاتی ہے۔ اس مہینے میں پہلے 13 دن انتہائی بھاری ہوتے ہیں۔ اس مہینے میں گھریلو لڑائی جھگڑے ضرور ہوتے ہیں۔ اس مہینے میں صندوقوں اور پیٹیوں کو ڈنڈوں سے خوب پیٹا جائے تا کہ جنات بھاگ جائیں۔ اس مہینے میں مٹی کے برتن توڑ دینے چاہئیں۔ اس مہینے میں کاروبار میں خسارہ آتا ہے۔ اس مہینے میں آخری بدھ کے روز عید منائی جائے۔ اس مہینے میں شادی و بیاہ اور خوشی کی تقریبات نہیں کرنی چاہئیں۔ اس مہینے میں نئے شادی شدہ جوڑے کو حقوق زوجیت سے روکا جاتا ہے کہ یہ منحوس مہینہ ہے۔ اس مہینے میں بعض لوگ یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ آخری بدھ کو آسمان سے تین لاکھ بیس ہزار بلائیں نازل ہوتی ہیں۔ صفر کا آخری بدھ نبی کریم ﷺ کی صحت یابی کا دن ہے۔ شادی یا نکاح کرنے سے نحوست آتی ہے۔ نئے کاروبار یا سفر میں ناکامی ہوتی ہے۔
اسلام ایک آسمانی اور فطری دین ہے جو زندگی کے ہر گوشے میں انسان کو عقلی، روحانی اور عملی راہ نمائی فراہم کرتا ہے، توہمات بدشگونیوں اور جاہلانہ رسومات کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے، توہم پرستی دراصل انسانی کمزوری ہے جو جہالت سے پھوٹتی ہے
بعض محققین کے مطابق ماہِ صفر کی بدشگونی کا عقیدہ دراصل ہندومت اور ایرانی مجوسیت سے متاثرہ وہمات کا نتیجہ ہے جو اسلامی معاشروں میں ثقافتی اختلاط کے ذریعے در آئے۔ ہندو عقائد میں کچھ دن اور تاریخیں "اشُبھ" سمجھی جاتی ہیں۔ مجوسی تہذیب میں مخصوص مہینے شر کی علامت مانے جاتے تھے۔ اسلام نے ان تمام مشرکانہ نظریات کو جڑ سے اکھاڑ دیا۔ قرآن کا زور "ایام اللہ" یعنی "اللہ کے دنوں" پر ہے، نہ کہ انسان کی گھڑی یا مہینے کی نحوست پر۔ ان تمام باتوں کی کوئی اصل نہ قرآن میں ہے نہ سنت میں، بلکہ یہ محض عوامی روایتوں اور ثقافتی اثرات کا نتیجہ ہیں۔ شیخ الحدیث حضرت مولانا سرفراز خان صفدرؒ فرماتے ہیں۔ کہ:
"ماہِ صفر کی نحوست کا عقیدہ نہ صرف غیر اسلامی بلکہ توحید کے منافی ہے۔ یہ درحقیقت اللہ تعالیٰ کے نظام پر بدگمانی ہے۔ "
دینِ اسلام کا مؤقف
اسلام کا بنیادی عقیدہ ہے کہ نفع و نقصان صرف اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ مہینے، دن، یا اشیاء خود بخود اثر انداز نہیں ہوتیں جب تک اللہ کا اذن شامل نہ ہو۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ کہ
قُلْ لَّنْ یُّصِیْبَنَاۤ اِلَّا مَا كَتَبَ اللّٰهُ لَنَا
(التَّوْبَة, 9 : 51)
ترجمہ: "کہہ دو ہمیں وہی پہنچتا ہے جو اللہ نے ہمارے لیے لکھ رکھا ہے۔ "
سورۃ یونس میں ارشاد ہے کہ
اور اگر اللہ تمہیں کوئی تکلیف پہنچائے تو اس کے سوا کوئی اسے دور کرنے والا نہیں اور اگر وہ تمہارے ساتھ بھلائی کا ارادہ فرمائے تو کوئی اس کے فضل کو رد کرنے والا نہیں۔ وہ اپنے بندوں میں سے جسے چاہتا ہے اپنا فضل پہنچاتا ہے، اور وہ بڑا بخشنے والا نہایت مہربان ہے۔
سورۃ شوریٰ میں ارشاد ہے
وَ مَاۤ اَصَابَكُمْ مِّنْ مُّصِیْبَةٍ فَبِمَا كَسَبَتْ اَیْدِیْكُمْ وَ یَعْفُوْا
عَنْ كَثِیْرٍؕ
(الشُّوْرٰی, 42 : 30)
اور جو مصیبت بھی تم کو پہنچتی ہے تو اُس (بد اعمالی) کے سبب سے ہی (پہنچتی ہے) جو تمہارے ہاتھوں نے کمائی ہوتی ہے حالاں کہ بہت سی(کوتاہیوں) سے تو وہ درگزر بھی فرما دیتا ہے۔
اور سورہ النسآء میں فرمان ہے
مَاۤ اَصَابَكَ مِنْ حَسَنَةٍ فَمِنَ اللّٰهِ ؗ وَ مَاۤ اَصَابَكَ مِنْ سَیِّئَةٍ فَمِنْ
نَّفْسِكَ
(النِّسَآء, 4 : 79)
(اے انسان اپنی تربیت یوں کر کہ) جب تجھے کوئی بھلائی پہنچے تو (سمجھ کہ) وہ اللہ کی طرف سے ہے (اسے اپنے حسنِ تدبیر کی طرف منسوب نہ کر) اور جب تجھے کوئی برائی پہنچے تو (سمجھ کہ) وہ تیری اپنی طرف سے ہے (یعنی اسے اپنی خرابیٔ نفس کی طرف منسوب کر)۔
درج بالا آیات سے واضح ہوتا ہے کہ کوئی وَقْت، دن اور مہینہ بَرَکت و عظمت اور فضل والا تو ہوسکتا ہے، مگر کوئی مہینہ یا دن منحوس نہیں ہوسکتا۔ کسی دن کو نحوست کے ساتھ خاص کردینا درست نہیں، اس لیے کہ تمام دن اللہ تعالیٰ نے پیدا کیے ہیں اور انسان ان دنوں میں افعال و اعمال کرتا ہے، سو ہر وہ دن مبارک ہے جس میں اللہ تعالیٰ کی اطاعت کی جائے اور ہروہ زمانہ انسان پر منحوس ہے جس میں وہ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کرے۔
اسی طرح نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ’’ ( اسلام میں نہ امراض کا ) تعدیہ ہے ، نہ ہامہ اور نہ صفر (کے مہینے کی نحوست) ہے۔ ‘‘ اس پر ایک دیہاتی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: ’’ یارسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم )! اونٹوں کی ایک جماعت کا کیا معاملہ ہے جو ریت میں اس حال میں ہوتے ہیں کہ گویا وہ ہرن ہیں ( یعنی ہرن کی طرح بیماری سے صاف ستھرے ہیں) پھر ان کے ساتھ کوئی خارش زدہ اونٹ آملتا ہے جو اِن سب کو خارش زدہ کردیتا ہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’(اچھا یہ بتاؤکہ ) پہلے اونٹ کو کس کے ذریعے سے خارش لگی؟۔ ‘‘ (یہ سن کر وہ دیہاتی لاجواب ہوگیا۔ )
( بخاری ، مسلم و ابو داؤد)
نبی کریم ﷺ نے ان تمام جاہلانہ تصورات کا بطلان کیا۔ چنانچہ صحیح بخاری کی حدیث ہے
"لَا عَدْوَى، وَلَا طِيَرَةَ، وَلَا هَامَةَ، وَلَا صَفَرَ"
(بخاری، کتاب الطب، حدیث: 5707)
یعنی: نہ بیماری کا خود بخود لگ جانا ہے، نہ بدشگونی، نہ اُلّو کی نحوست، نہ صفر کی کوئی نحوست ہے۔
ماہِ صفر کی سختیاں بیان کرنے والی کہانیوں کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے، ماہِ صفر کے حوالے سے بدقسمتی سے اسلامی سوسائٹی میں بھی بے بنیاد تصورات رائج ہیں، یہ سوچ گمراہ کن ہے کہ اس مہینے میں آفات نازل ہوتی ہیں
یہ حدیث واضح کرتی ہے کہ صفر کو منحوس سمجھنا عہدِ جاہلیت کی یادگار ہے، جسے اسلام نے مکمل طور پر مسترد کیا۔
ایک اورحدیث ہے کہ
من ردته الطيرة عن حاجته فقد أشرك
(مسند احمد، حدیث: 9251)
ترجمہ: جسے بدشگونی نے اس کے مقصد سے روک دیا، اس نے شرک کیا۔
امام ابن تیمیہؒ فرماتے ہیں۔
ماہِ صفر یا کسی بھی مہینے میں نحوست کا تصور اسلام میں نہیں۔ یہ جاہلیت کے بقیہ اوہام ہیں۔
مفتی تقی عثمانی لکھتے ہیں۔
اسلام میں کوئی دن، تاریخ یا مہینہ خود بخود برا یا اچھا نہیں ہو سکتا، جب تک شریعت اس کی تعیین نہ کرے۔
تاریخ اسلام کے کئی روشن واقعات ماہِ صفر میں پیش آئے جن کا ذکر کرنا توہم پرستی کا رد بن سکتا ہے۔ ہجرت نبوی ﷺ کی منصوبہ بندی کا مرحلہ ماہِ صفر میں ہوا۔ حضرت علیؓ کی یمن سے واپسی صفر میں ہوئی، جس پر نبی ﷺ نے ان سے محبت کا اظہار فرمایا۔ غزوہ خیبر کی تیاری بھی صفر کے اختتام پر ہوئی، جو اسلام کی عظیم فتحوں میں سے ہےاگر یہ مہینہ منحوس ہوتا تو کیا اللہ تعالیٰ اس میں اسلام کی فتح کے اسباب مہیا فرماتا؟.
ایک لطیفہ
ایک بادشاہ اپنے غلام سے کہہ رکھا تھا کہ تو صبح سویرے مجھے اپنی صورت نہ دکھا یا کر اس لیے کہ تو منحوس ہے ورنہ تیری نحوست کا مجھ پر شام تک اثر رہے گا ایک دن اتفاق سے وہ غلام صبح سویرے کسی کام سے بادشاہ کے پا س چلا گیا اور بادشاہ نے اس کو تنبیہ کی اور حکم دیا کہ اس کو شام تک کوڑے لگائے جائیں ۔
شام ہونے پر بادشاہ نے کہا آئندہ صبح سویرے مجھے اپنا منہ مت دکھا نا اس لیے کہ تو منحوس ہے ۔ غلام نے کہا بادشاہ سلامت منحوس میں نہیں ہوں بلکہ آپ ہیں اس لیے کہ آج صبح میں نے آپ کا چہرہ دیکھا تھا اور آپ نے میرا چہرہ دیکھا تھا آپ کا چہرہ دیکھنے سے مجھے یہ صلہ ملا کہ شام تک کوڑے لگتے رہے اور میرا بابرکت چہرہ دیکھنے کے بعد آپ صبح سے شام تک صحیح سلامت رہے۔ "
صفر کے آخری بدھ کی حقیقت
بعض عوام میں یہ تصور رائج ہے کہ صفر کے آخری بدھ کو نبی کریم ﷺ صحت یاب ہوئے اور آپ نے سیر و تفریح فرمائی، لہٰذا یہ دن خوشی کا دن ہے۔
یہ بات تاریخی اعتبار سے غلط ہے۔ سیرت ابن ہشام، سیرت ابن اسحاق، اور زاد المعاد (ابن القیم) جیسے مستند مصادر کے مطابق نبی کریم ﷺ کی بیماری کا آغاز ماہِ صفر ہی میں ہوا تھا، اور آپ ﷺ کی وفات ربیع الاول میں ہوئی۔ لہٰذا اس دن خوشی منانا یا کھانے پکانا دین میں بدعت شمار ہوگا۔ امام مالکؒ نے فرمایا
"من ابتدع في الإسلام بدعة يراها حسنة، فقد زعم أن محمدًا ﷺ خان الرسالة"
(الاعتصام للشاطبی)
ترجمہ: جس نے اسلام میں کوئی نئی چیز ایجاد کی اور اسے اچھا سمجھا تو گویا اس نے یہ گمان کیا کہ محمد ﷺ نے رسالت میں خیانت کی۔
توہم پرستی کا خاتمہ اور علمی و سماجی کردار
توہم پرستی صرف ایک انفرادی گمراہی نہیں بلکہ ایک اجتماعی بیماری ہے۔ اس کے باعث لوگ غیر ضروری خوف میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ فیصلے دلیل کی بجائے واہموں پر کیے جاتے ہیں۔ افراد کے درمیان بداعتمادی جنم لیتی ہے۔ دین کا چہرہ مسخ ہو کر رہ جاتاہے۔ اور بدقسمتی سے ٹی وی ڈرامے، سوشل میڈیا ویڈیوز اور بعض عوامی خطبات نے "نحوست" کے تاثر کو مزید تقویت دی ہے۔ ماہِ صفر کے دنوں میں اگر کوئی حادثہ ہو جائے تو بعض افراد فوراً اسے "ماہِ صفر کی نحوست" سے جوڑ دیتے ہیں۔ حالانکہ اسلام نے حادثات کو "ابتلاء" اور "امتحان" کہا ہے، ۔ نہ کہ نحوست۔
جب کوئی معاشرہ توہمات میں ڈوب جائے تو وہ ترقی کی راہ پر نہیں چل سکتا۔ لوگ نئے کام کرنے سے ڈرتے ہیں، فیصلے جذبات اور ڈر کی بنیاد پر کرتے ہیں، اور حالات کے ذمہ دار وقت، دن یا کسی اور کو ٹھہرا دیتے ہیں۔ اس سے فرد کا یقین کمزور ہو جاتا ہے۔ محنت سے بھاگنے لگتا ہے اور ہر ناکامی کا الزام قسمت یا مہینے پر ڈال دیتا ہے۔ ایسے ماحول میں نہ عقل کا استعمال ہوتا ہے۔ نہ اعتماد باقی رہتا ہے، اور نہ آگے بڑھنے کا جذبہ۔
اس طرح کی منفی سوچ سے نکلنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم اپنے طرزِ فکر کو بدلیں۔ سب سے پہلے، ہمیں یہ ماننا ہوگا کہ کوئی دن، مہینہ یا چیز بذات خود نفع یا نقصان دینے والی نہیں ہوتی۔ اصل طاقت ہماری نیت، محنت اور مثبت رویے میں ہے۔ اگر ہم زندگی کو اعتماد اور مثبت سوچ کے ساتھ گزاریں ۔ تو کوئی وقت برا نہیں ہوتا۔ بچوں کو بچپن سے سچائی، حقیقت اور عقلی باتیں سکھانی چاہییں تاکہ وہ بھی بڑے ہو کر اندھی تقلید کا شکار نہ ہوں۔
اس لیےامت کو توہم پرستی سے نجات دلانے کے لیے دینی تعلیمی ادارے، مدارس، یونیورسٹیز، خطباء و معلمین پر بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ کہ وہ درج ذیل مؤثر اقدامات کے ذریعے اس برا ئی کا خاتمہ کریں ۔ مثلا طلبہ میں عقائد کی درستی پر زور دیا جائے۔ منبروں، دروس، اور درسی کتب میں توہم پرستی کا علمی ردّ شامل کیا جائے۔ ثقافتی رسوم و دینی تعلیمات کا فرق واضح کیا جائے۔ تحقیقی مقالات و سیمینارز کے ذریعے معاشرے میں شعور بیدار کیا جائے۔ قرآنی تعلیمات کو عام کیا جائے۔ رسول اکرمﷺ کی سیرت پر روشنی ڈالی جائے، جنہوں نے صفر کے مہینے میں نکاح، سفر اور جنگیں کیں۔ سماج میں علمی بیداری پیدا کی جائے، ۔ خاص طور پر نوجوان طبقے میں۔ بچوں کی تربیت ایسے ماحول میں ہو جہاں دلیل اور عقل کی بنیاد پر بات کی جائے۔ نہ کہ بے بنیاد خوف کی بنیاد پر۔ امت کو اصل اسلامی تعلیمات سے روشناس کرانا ضروری ہے تاکہ بدعات اور توہمات کا قلع قمع کیا جا سکے۔
آج کے دور میں جب نوجوان انٹرنیٹ، سوشل میڈیا اور مختلف ذرائع سے معلومات حاصل کرتے ہیں تو ان کو درست رہنمائی دینا بہت ضروری ہے۔ ماں باپ، اساتذہ، اور سماجی شخصیات کو چاہیے کہ وہ گھروں، اسکولوں، اور محفلوں میں یہ پیغام عام کریں کہ توہم پرستی ایک کمزور ذہن کی علامت ہے۔ علم، تحقیق، مثبت سوچ اور سچائی ہی وہ راستہ ہے جس سے معاشرہ ترقی کر سکتا ہے۔ اگر ہم نئی نسل کو اعتماد، حوصلہ اور حقیقت پسندی سکھائیں تو ایک روشن اور خوشحال قوم بن سکتی ہے۔
حاصل کلام
توہم پرستی محض دینی گمراہی نہیں، بلکہ ایک نفسیاتی بیماری بھی ہے۔ جب انسان اپنے اردگرد کے حالات پر قابو نہ پا سکے، تو وہ بیرونی عوامل (جیسے مہینے، دن، یا علامتیں) کو اپنی ناکامی یا بدقسمتی کا ذمہ دار ٹھہراتا ہے۔ ماہِ صفر کی "نحوست" کو جوڑنا اصل میں کسی نفسیاتی کمزوری کا اظہار ہے، جس کا اسلام نے علاج ایمان، صبر، اور دعا کے ذریعے تجویز کیا ہے۔ مؤمن اپنے معاملات اللہ کے سپرد کر دیتا ہے، اور بدشگونی اس کا وصف نہیں۔
ماہِ صفر بذاتِ خود نہ منحوس ہے، نہ باعثِ آفت۔ یہ دیگر مہینوں کی طرح اللہ تعالیٰ کا بنایا ہوا مہینہ ہے۔ کسی بھی مہینے، دن یا چیز کو نحس سمجھنا ایک باطل، جاہلانہ اور غیر اسلامی تصور ہے، جو نہ صرف عقیدے کو خراب کرتا ہے بلکہ اسلامی تہذیب و تمدن کو بھی نقصان پہنچاتا ہے۔
بعض محققین کے مطابق ماہِ صفر کی بدشگونی کا عقیدہ ہندو مت اور ایرانی مجوسیت سے متاثرہ وہمات کا نتیجہ ہے جو اسلامی معاشرہ میں ثقافتی اختلاف کے ذریعے داخل ہوئے
اسلام ایک مکمل، معتدل اور عقلی مذہب ہے جو انسان کو خوف و وہم کی زنجیروں سے نکال کر اللہ تعالیٰ کی رحمت، قدرت اور علم پر یقین سکھاتا ہے۔ ماہِ صفر ہو یا کوئی اور مہینہ، ہر دن اور ہر لمحہ اللہ کا بنایا ہوا ہے، اور وہی ہر چیز پر قادر ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے دل و دماغ کو ان فضول عقائد سے پاک کریں اور قرآن و سنت کی روشنی میں ایک باشعور مسلمان بن کر زندگی گزاریں۔ اہلِ علم کا فرض ہے کہ وہ علم، فہم، اور حکمت کے ذریعے امت کو اس فکری زنجیر سے آزاد کروائیں۔
ایک حدیث مبارک میں ہے کہ جس نے اسلام میں اچھے طریقہ کی بنیاد ڈالی (اور اچھا طریقہ جاری کیا جس کی بعد میں دوسروں نے پیروی کی ) تو اس شخص کو اس عمل کا ثواب حاصل ہو گا لیکن ان اعمال کرنے والوں کے ثواب میں کوئی کمی نہیں کی جائے گے اور جس شخص نے کسی برے طریقہ کی بنیاد ڈالی (برا طریقہ جاری کیا تو اس پر اس برے طریقہ کا وبال ہو گا اور جو لوگ اس کی اتباع میں ) اس پر عمل کریں گے ان کا وبال بھی ان پر ہو گا لیکن ان دوسروں کے وبال میں کوئی کمی نہیں کی جائے گی ۔
(مسلم ، ترمذی)