محمد آصف

ماں قدرت کا انمول تحفہ ہے۔ ہر تہذیب، ہر ملک اور ہر خاندان میں ماں کا احترام کیا جاتا ہے۔ ماں وہ ہستی ہے جس کے سائے تلے اولاد اپنا ہر غم بھول جاتی ہے ماں، دنیا کا سب سے خوبصورت رشتہ، سب سے خوبصورت لفظ، سب سے حسین شئے، سب سے بڑی خوشی۔ سب سے بڑی دولت، سب سے بڑا سہارا، سب سے بڑی دعا اور سب سے بڑی دوا۔ دنیا سچ کہتی ہے،ماں کی گود کا کوئی متبادل نہیں۔ ماں کی دعا سے بڑی کوئی طاقت نہیں۔ ماں کے دل سے زیادہ نازک دنیا میں کچھ نہیں۔ ماں اللہ تعالی کا انسان کیلئے قیمتی اور نایاب تحفہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ماں کو ایسا درجہ عطا کیا کہ اس کے قدموں تلے جنت رکھ دی۔ حقیقت یہ ہے کہ ماں پرہی دنیا شروع ہے اور ماں پر ہی ختم، ماں کہنے کو تو تین حروف کا مجموعہ ہے لیکن اپنے اندر کُل کائنات سموئے ہوئے ہے۔ دنیا یہی سوچتی ہے کہ کیا شئے ہے ماں، سچائی کا پیکر ہے ماں، لازوال محبت کا نمونہ ہے ماں، شفقت کا سمندر ہے ماں، تڑپ کا دریا ہے ماں، قربانی کا سیلاب ہے ماں، مہربانی کا خزانہ ہے ماں۔ ۔ تین حرفوں کا لفظ ’ماں‘ناقابل فراموش رشتہ ہے۔ جس کے بارے میں رسول اللہ نے فرمایا کہ جنت تمہاری ماؤں کے قدموں کے نیچے ہے۔ اب اندازہ لگا لیں کہ ماں کا مقام کیا ہے؟کیا ہے درجہ ماں کا۔ کیا ہے رتبہ ماں کا۔

ماں، صرف نو مہینے کی کہانی نہیں ہوتی۔

کیا آپ جانتے ہیں کہ جب ایک عورت ماں بنتی ہے تو صرف بچہ اُس کے پیٹ میں نہیں پلتا… بلکہ اُس کے خلیے (cells) ماں کے خون میں شامل ہوکر واپس بچے تک آتے جاتے رہتے ہیں؟

یہ سائنسی حقیقت "فیتل-میٹرنل مائیکرو کیمیرزم (Fetal-Maternal Microchimerism)" کہلاتی ہے — ایک ایسا نظام جو صرف خالقِ کائنات کی کاریگری کو سلامی دیتا ہے۔

41 ہفتوں تک ماں اور بچے کے خلیے ایک دوسرے کے جسم میں گردش کرتے رہتے ہیں۔

اور جب بچہ پیدا ہوتا ہے… تو اُس کے کچھ خلیے ہمیشہ کے لیے ماں کے جسم میں محفوظ ہوجاتے ہیں — اُس کے دل، دماغ، ہڈیوں اور جلد میں۔

یہی نہیں، اگر ماں کا دل زخمی ہو جائے، تو تحقیق کے مطابق بچے کے خلیے خود بخود ماں کے دل تک پہنچ کر اُسے مرمت کرنے لگتے ہیں!

یعنی ماں، جو خود بچے کو بنانے میں لگی ہوتی ہے…

وہی بچہ، رحمِ مادر سے ماں کو ٹھیک بھی کر رہا ہوتا ہے۔

کیا یہ محبت نہیں؟ کیا یہ قدرتی قربانی نہیں؟

اگر کبھی دورانِ حمل عورت کی کوئی بیماری ختم ہو جائے — تو یہ محض اتفاق نہیں، بلکہ سائنسی معجزہ ہے۔

بچہ ماں کو بچانے کی کوشش کرتا ہے، کیونکہ ماں کی زندگی اُس کی زندگی ہے۔

اور اگر حمل ضائع ہو جائے، یا اسقاط ہو، تب بھی وہ ننھے وجود کے خلیے ماں کے جسم میں زندہ رہتے ہیں — کئی سالوں تک، بعض اوقات 18 سال بعد بھی ماں کے دماغ میں اُن کا وجود پایا گیا ہے!

ماں، صرف بچے کو جنم نہیں دیتی، وہ اُسے ہمیشہ کے لیے اپنے اندر بساتی ہے۔

اور یہی وجہ ہے کہ مائیں اپنے بچوں کو دور بیٹھے ہوئے بھی "محسوس" کر لیتی ہیں۔

جب بیٹا پریشان ہو… یا بیٹی رو رہی ہو… ماں کا دل بےچین ہو جاتا ہے۔

یہ کوئی "جادو" نہیں… بلکہ وہ حیاتیاتی رشتہ ہے جو کبھی ختم نہیں ہوتا۔

ہر ماں کی بھوک، تھکن، اُلٹی، نیند کی کمی — سب ایک قربانی ہے۔

اور ہر بچہ اپنی ماں کے جسم میں ایک ایسی "نشانی" چھوڑ جاتا ہے جو زندگی بھر باقی رہتی ہے۔

تو جب بھی ماں تھک جائے… یا بیمار ہو جائے…

یاد رکھیے: وہ جسمانی نہیں، روحانی جنگ لڑ چکی ہوتی ہے۔

یہی ماں کی عظمت ہے… یہی اُس کا درد ہے… یہی اُس کا انعام بھی۔

یہ حقیقت ہے کہ ماں ہی وہ عظیم ہستی ہے جس کے جذبوں اور محبت میں غرض نہیں ہوتی، جب اولاد اس دنیا میں آنکھ کھولتی ہے تو اس کیلئے خود کو وقف کر دیتی ہے جب بچہ بول بھی نہیں پاتا اس کی ضرورت کو سمجھتی اور پورا کرتی ہے پھر اسے بولنا سکھاتی ہے پھر اُنگلی پکڑ کر چلنا سکھاتی ہے ہر آواز پر دوڑی چلی آتی ہے اپنی آغوش میں سمیٹ لیتی ہے، اولاد کی خوشی میں خوش اور اس کے دکھ میں دکھی ہوتی ہے، عمر کے ہر دور میں ساتھ دیتی ہے اور دعاگو رہتی ہے۔ ماں احسانات، احساسات، خوبیوں اور جذبات کا وہ بے مثال مجموعہ ہے جو سارے زمانے کے حالات اور موسم کی سختیاں خود سہتی ہے مگر اس کا ہر لمحہ اپنی اولاد کیلئے فکر ودعا کرتے گزرتا ہے۔

ماں وہ عظیم ہستی ہے جس کے بنا گھر ایک قبرستان کی مانند ہے چاہے وہ گھر شیش محل ہی کیوں نہ ہو۔ ہر ماں اپنی اولاد کی کامیابی چاہتی ہے بلکہ ہمیشہ یہ تمنا رہتی ہے کہ اس کا بیٹا بادشاہوں جیسی زندگی گزارے۔ اگر خدانخواستہ اولاد کی وجہ سے ماں کے دل کو صدمہ پہنچتا ہے تو وہ اولاد کبھی بھی کامیاب نہیں رہتی۔ ایسے انسان کا معاشرے میں بھی کوئی مقام نہیں رہتا۔ اس حالت میں اپنا مقام پانے کیلئے ماں کو منانے کے سوا کوئی حل نہیں۔ اس کی کامیابی کا راز ماں کی دعاؤں میں ہے، ویرانوں میں بھٹکی ہوئی اولاد کیلئے ماں کی دعائیں کامیابی کی کرن ثابت ہوتی ہیں۔

ماں کا جو رتبہ اسلام اور قرآن میں بیان کیا گیا ہے،اس کی بنیاد پر یہی کہہ سکتے ہیں کہ ہماری زندگی کا ہر پل ماں کا مقروض ہے۔ اس قرض کو ہم زندگی کے ہر پل میں ماں کو یاد کرکے بھی ادا نہیں کرسکتے۔ ماں کا رتبہ، ماں کا پیار،ماں کی ممتا اور ماں کا دودھ یہ انسان کو اس بات کا احسا س دلانے کےلئے کافی ہے زندگی ماں کا قرض ہے جس کو انسان کبھی چکا نہیں سکتا ماں اللہ تعالی کا ایسا عطیہ ہے جس کا کوئی نعم البدل نہیں جو اللہ تعالیٰ کے بعد اپنی اولاد کے دل کا حال بہت جلد جان لیتی ہے۔ اولاد کے دل میں کیا چل رہا ہے ماں سے زیادہ بہتر کوئی نہیں جانتا۔ دنیا مانتی ہے کہ ماں خدا کی محبت کا دنیا میں ایک روپ ہے، ماں سے زیادہ اولاد سے محبت کرنے والا کوئی اور نہیں، ماں کی قدموں میں جنت رکھی گئی ہے۔ کوئی ماں کی محبت، شفقت، مرتبے اور اس رشتے کی انفرادیت کے حوالے سے قرآن و حدیث سے لے کر عظیم ہستیوں کے اقوال تک، اس قدر خوبصورت تشبیہات سے مزین افکار موجود ہیں کہ جن کو پڑھ کر ایمان تازہ ہو جاتا ہے۔ اس کے باوجود ہر عام سے عام شخص کے پاس ماں کی تعریف الگ الگ ہے۔ اپنی اپنی ہے۔ اور یقیناً ان میں سے ہر تعریف اور احساس، قابل قدر بھی ہے۔ سب جانتے ہیں کہ ماں ہے تو دنیا ہے ورنہ زندگی ادھوری ہے۔ مذہب ہو یا معاشرہ ماں کا لفظ آتا ہے توبا ادب ہونے کا اشارہ مل جاتا ہے۔ اللہ تعالی نےماں کے قدموں کے نیچے جنت رکھ کربتا دیا کہ کیا درجہ ہے ماں کا، ماں بڑا پیارا لفظ ہے جسے انسان اپنے دل کی گہرایوں سے اداکرتا ہے۔ بچپن سے لیکر عمر کے ہر مرحلے میں وہ ماں کی ممتاکا محتاج رہتا ہے۔ اپنی حاجتوں کی تکمیل کے لئے اسی سے توقع رکھتا ہے۔ ماں کے بغیر گھر سنسان اور زندگی ویران ہوتی ہے۔ برکت کا راستہ ماں باپ کی خدمت سے ہی آسان ہوتا ہے،

یہی وجہ ہے کہ،، اللہ تعالی قُرآن پاک میں فرماتے ہیں، ترجمہ- تمہارے رب نے فیصلہ کر دیا ہے (فرض کر دیا ہے) کہ اس اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو اور ماں باپ کے ساتھ حُسن سلوک سے پیش آؤ اگر ان میں سے کوئی ایک یا دونوں تمہارے سامنے بوڑھاپے کو پہنچ جائیں تو انہیں اُف تک نہ کہو اور نہ انہیں جھڑکو، اور تم ان دونوں سے نرمی اور شفقت سے بات کیا کرو۔ آپ سوچئے ماں کا درجہ کیا ہے، کیا رتبہ ہے۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیںکہ ایک شخص رسول اللہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ میں جہاد کرنا چاہتا ہوں لیکن اس کی قدرت نہیں، رسول اللہ نے دریافت فرمایا: کیا تمہارے والدین میں سے کوئی زندہ ہے؟

اس شخص نے کہا ہاں میری والدہ زندہ ہے۔ رسول اللہ نے ارشاد فرمایا " ان کے ساتھ نیکی اور حسن سلوک کرکے اللہ تعالیٰ سے ملو، اگر تم نے ایسا کیا تو تم حج کرنے والے، عمرہ کرنے والے اور جہاد کرنے والے (کی طرح) ہو ایک اور روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ایک شخص نے دریافت کیا یارسول اللہﷺ !میرے حُسن سلوک کا سب سے زیادہ مستحق کون ہےفرمایا ”تیری ماں“ پوچھا ”پھرکون“ فرمایا۔ ۔ ” تیری ماں“ اُس نے عرض کیا،، پھر کون۔ فرمایا،، ”تیری ماں“ تین دفعہ آپ نے یہی جواب دیا، چوتھی دفعہ پوچھنے پر ارشاد ہوا، تیرا باپ۔

ایک بار ایک صحابی حضور نبی کریم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا۔ یا رسول اللہ !میں نے اپنی ماں کو اپنے کاندھوں پر بٹھا کر حج کروایا ہے، کیا میں نے ماں کا حق اداکر دیا ؟ آپ نے فرمایا۔ نہیں، تُونے ابھی اپنی ماں کی ایک رات کے دودھ کا حق بھی ادا نہیں کیا، انسانیت کا عکس ’’ماں‘‘ ہے،ماں دنیا کی سب سےبڑی دولت ہے۔ دنیا کے عظیم دانشوروں اور مفکرین نے بھی ماں کو کچھ اس انداز میں یاد کیا ہے کہ ان کے الفاظ دنیا کےلئے ایک مشعل راہ بن گئے ہیں یونانی فلسفی افلاطون نے کہا تھا کہ،، اس بات سے ہمیشہ ڈرو کہ ماں نفرت سے آسمان کی طرف ہاتھ اٹھائے۔ ایک اور عظیم یونانی فلسفی ارسطو کے الفاظ کچھ اس طرح ہیں کہ ’’۔ ماں سے ہمدردی کی توقع رکھنے کی بجائے ماں کا ہمدرد ہونا چاہئے‘۔ مشہور انگلش شاعر اور ڈرامہ نگارشکسپیئر نے کہا تھا کہ ’’۔ بچے کے لئے سب سے اچھی جگہ ماں کا دل ہے ‘۔ دنیا میں حکمت کے شہنشاہ مانے جانے والے حکیم لقمان نے ماں کی تعریف کچھ اس انداز میں کی تھی کہ ’’۔ اگر مجھے ماں سے جدا کر دیا جائے تو میں پاگل ہو جاؤں گا۔ ‘ مغل دور میں اکبر بادشاہ نے ماں کی عظمت کو کچھ ان الفاظ میں یاد کیا تھا کہ ’۔ ہر شخص انسانیت کی حقیقی تصویر اپنی ’’ماں‘‘ کے چہرے پر دیکھ سکتا ہے‘۔

برصغیر میں شاعر مشرق علامہ محمد اقبال کہہ گئے کہ ’سخت سے سخت دل کو ماں کی پرنم آنکھوں سے موم کیا جاسکتا ہے‘۔ ممتاز شاعرالطاف حسین حالی کے مطابق ’۔ ماں کی محبت حقیقت کی آئینہ دار ہوتی ہے‘، ہندوستان کے ممتاز جنگ مجاہد ور عالم محمد علی جوہر نہ کہا تھا کہ ’۔ دنیا میں حسین شے صرف ماں ہے۔ اور کچھ مذید دانشور فرما گے کہ ماں کی دعا جنت کی ہوا، ماں جیسی ہستی کوئی نہیں، ’ماں‘‘ مہر و محبت، ایثار و مروت، صبرورضا اور خلوص و وفا کی ایک روشن مثال ہے، ماں کی ممتا کا کوئی نعم البدل نہیں، ماں ایک ایسا سایہ ہے جس کے بغیر زندگی ویران ہے، ماں کی دعا اولاد کا سرمایہ ہے، ماں ایک ایسا تحفہ ہے جو اللہ نے انسان کو دیا، ماں کی محبت کبھی کم نہیں ہوتی، ماں کی شفقت اولاد کا سہارا ہے، ماں کی گود میں سکون ہے، ماں ایسا شجرِ سایہ دار ہے، جس کی گھنی چھاؤں کبھی کم نہیں ہوتی اور نہ اس پر خزاں آتی ہے، ماں اور پھولوں میں مجھے کوئی فرق نظر نہیں آتا، دنیا کا کوئی رشتہ ماں سے پیارا نہیں، ماں کی گود انسانیت کا سب سے پہلا مکتب ہے۔ یہ تہذیب و شائستگی کا گہوارہ اور کائنات کا سب سے پُرخلوص رشتہ ہے، آسمان کا بہترین اور آخری تحفہ ماں ہے، محبت کی ترجمانی کرنے والی اگر کوئی چیز ہے تو وہ صرف ماں ہے، نبی پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم نے فرمایا قسم اس خدا کی کہ جس نے مجھے حق کے ساتھ مبعوث کیا، ایک رات ماں کی خدمت میں رہنا راہ خدا میں ایک سال جہاد کرنے سے بہتر ہے۔ اے لوگو جان لو کہ اس کارخانہِ سود و زیاں کی تمام زینتیں اور زیبائیاں وجودِ مادر ہی کی بدولت ہیں.ماں کی آہِ نیم شبی عرشِ بریں کو ہلا دیتی ہےاور اس کی دعائیں خداوندِ تعالی کے درِ اجابت پہ دستک دیتی ہیں خدا اگر دیدہ بینا دے تو ماں کے گارے میں لُتھرے ہوئے کپڑے خلعتِ شاہی سے زیادہ قیمتی نظر آتے ہیں، ماں آٹا گوندھ رہی ہو تو اُس کے وہ ہاتھ تقدیر مبرم کو ٹالنے کی قدرت رکھتے ہیں‘ ماں لوریاں دے رہی ہو تو اس کے لہجے میں ملائک محوِ گفتار نظر آتے ہیں، ماں کا دل اداس ہو توجنت کے شگوفے مرجھانے لگتے ہیں، ماں دامن پھییلا دے تو خدا اپنی جنت کی ساری نعمتیں اُس میں انڈیل دیتا ہے، ماں اپنے بچے پر میلا آنچل ڈال دے تو رحمت خداوندی گھٹا بن کر چھاجاتی ہے اور اﷲ نہ کرے ماں کی نگاہ غضب آلودہ ہو جائے تو عرش الٰہی تھر تھر کانپنے لگتا ہے، ماں کے آبگینہِ محبت کی لطافت اور دل کی شفافیت کے آگےگلاب کی پنکھڑی اورکنول کے پھول کی بھی کوئی حیثیت نہیں رہتی۔ ماں محبت و شفقت کا وہ حسین شاہکار ہے جو اولاد کے تئیں بے غرض ہمدردیوں اور بے لوث اُلفتوں کا ایک روشن مینار ہے. لا ریب ہماری ملت کی ندی میں ہر پیچ و تاب ”ماں “ سے ہے، اس ندی میں موج، گرداب اور بُلبلے اسی وجود کے باعث ہیں۔ ماں کے پیار کا شمار حدِ امکاں سے باہر ہے. ماں کی محبت و ممتا عالم میں ایک مثال ہے،ماں کی محبت وہ گہرا سمندر ہے،جس کی گہرائی کو آج تک کوئی ناپ نہ سکا اور نہ ناپ سکے گا۔ ماں کی محبت وہ ہمالیہ پہاڑ ہے کہ جس کی بلند یوں کو کوئی آج تک چھو نہ سکا اور نہ چھو سکے گا۔ ماں کی محبت وہ سدا بہار پھول ہے جس پر کبھی خزاں نہیں آتی مگر افسوس اس بات کا ہےکہ آج پُر آسائش زندگی، مادیت کی دوڑ دھوپ اور خوب سے خوب تر طرز زندگی کی تلاش اور سوشل میڈیا میں ڈوبے نوجوان جو چند لمحات بھی ماں باپ کو نہیں دیتے ہائے افسوس ان خرافات نے ہم سے اپنی ماؤں کا احساس چھین لیا ہے، اے نوجوانان امت مسلمہ اور بلخصوص پاکستانی نوجوانوں غور کرو ! ایک دفعہ حضرت موسیٰ کلیم اللہؑ نے اللہ سے سوال کیا کہ پروردگار، جنت میں میرا رفیق کون ہے؟ میرا پڑوسی کون ہو گا! جواب ملا، موسیٰؑ، وہ ایک قصاب ہے، جو فلاں بستی میں رہتا ہے، یہ سن کر موسیٰ علیہ السّلام اس قصاب کی تلاش میں نکل پڑے، تاکہ یہ جان سکیں کہ وہ کون سا عمل ہے، جس کی بدولت اللہ تعالیٰ نے اس قصاب کو اتنا بلند اور ممتاز مقام عطا فرمایا ہے کہ اسے ایک نبی کا ہمسایہ بنایا ہے۔

حضرت موسیٰ علیہ السّلام سے ملاقات اور ان کی بات سن کر وہ انہیں اپنے گھر لے آیا۔ بعد ازاں موسیٰ علیہ السّلام نے دیکھا کہ اس نے اپنی ضعیف العمر ماں کو انتہائی ادب و احترام سے سہارا دیا، منہ کو صاف کیا، اپنے ہاتھوں سے کھانا کھلایا، تب اس کی ماں نے اسے دعا دی کہ اللہ تجھے جنت میں موسیٰ علیہ السلام کا پڑوسی بنائے۔ یہ نہ کوئی بہت بڑا عابد و زاہد تھا، نہ عالم، نہ صوفی، نہ غازی، نہ مجاہد، تاہم اسے یہ بلند مقام ماں کی خدمت، اطاعت اور اس سے حُسنِ سلوک کے صلے میں ملا تھا۔

نا جانے آج بھی کتنی مائیں اپنے لاڈلوں کی خاطر نیندیں حرام کر رہی ہونگی اور کتنی مائیں بچوں کے منہ سے لفظ “ماں” سننے کے لئے تڑپ رہی ہوں گی..لہذاء ہمیں ماں کی عظمت کا بھولا ہوا سبق ایک بار پھر عمیق قلب سے دہرانے کی ضرورت ہے.. اسی میں ہماری دنیا و آخرت کی کامیابی ہے. آج 16 جون میری ماں کے وصال کا دن ہے( ویسے اسلامی کیلنڈر کے مطابق 27 رمضان تھا تب )میں اپنی ماں کی یاد میں مہو تھا تو یہ چند الفاظ کو جمع کردیا اللہ سب کی ماؤں کو سلامت رکھے اور جن کی وصال کرچکی ہیں اُنہیں جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا فرمائے آمین۔