سیدہ زینب سلام اللہ علیھا کی حیات مبارکہ

عائشہ قیوم

 سیدہ زینب سلام اللہ علیھا کی حیات مبارکہ

عائشہ قیوم

اِنَّمَا یُرِیْدُ اللّٰهُ لِیُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ اَهْلَ الْبَیْتِ وَ یُطَهِّرَكُمْ تَطْهِیْرًاۚ۝

(الْأَحْزَاب, 33 : 33)

ترجمہ : بس اللہ یہی چاہتا ہے کہ اے (رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے) اہلِ بیت! تم سے ہر قسم کے گناہ کا میل (اور شک و نقص کی گرد تک) دُور کر دے اور تمہیں (کامل) طہارت سے نواز کر بالکل پاک صاف کر دے۔

حضرت زینب سلام اللہ علیہا کی حیات طیبہ کو دیکھتے ہیں تو سیدہ زینب سلام اللہ علیھا ایک فرد نہیں بلکہ اپنے مقدس وجود میں ایک عظیم کائنات سمیٹے ہوئے ہیں۔ ایک ایسی عظیم کائنات جس میں عقل و شعور کی شمعیں اپنی مقدس کرنوں سے کاشانہ انسانیت کے دروبام کو روشن کئے ھوئے ہیں اور جس کے مینار عظمت پر کردار سازی کا ایسا پر چم لہراتا ہوا نظر آتا ہے کہ بی بی زینب کے مقدس وجود میں دنیائے بشریت کی وہ تمام عظمتیں اور پاکیز ہ رفعتیں سمٹ کر ایک مشعل راہ بن جاتیں ہیں۔کربلا کی شیر دل خاتون زینب کبریٰ ہیں جو عقیلہ بنی ہاشم کہلاتی ہیں۔ سیدہ زینب سلام اللہ علیھا نے کربلا کی سرزمین پر وہ مقام حاصل کیا جس کی سرحدیں دائرہ امکان میں آنے والے ہر کمال سے آگے نکل گئیں اور حضرت زینب کی شخصیت تاریخ بشریت کی کردار ساز ہستیوں میں ایک عظیم اور منفرد مثال بن گئیں۔گویا آپ کے بارے میں یہ کہنا بے جا نہ ہوگا۔

اسلام کا سرمایۂ تسکین ہے زینب رضی اللہ عنہا
ایمان کا سلجھا ہوا آئین ہے زینب رضی اللہ عنہا
حیدر کے خدو خال کی تزئین ہے زینب رضی اللہ عنہا
شبیر ہے قرآن تو یاسین ہے زینب رضی اللہ عنہا

آپ کی ولادت کے موقع پر آپ کے والدین کریمین سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ اور سیدہ فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی منشاء پر آپ کا نام زینب منتخب فرمایا، حسنین کریمین رضی اللہ عنہما کی طرح آپ بھی وہ خوش نصیب نواسی ہیں جنہیں دوشِ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر سوار ہونے کی سعادت نصیب ہوئی۔ جب حضور ﷺ سیدہ زینب سلام اللہ علیھا کو دیکھنے کیلئے تشریف لائے تو آپ کو ا پنی گود میں اٹھایا تو ایک کھجور چوس کر اس کا لعاب دہن آپ کےمنہ میں ڈال دیا۔ ایک مرتبہ ایک ہار حضورﷺ کے پاس کہی سے تحفہ آیاتو آپ ﷺ نے فرمایا میں یہ ہار اسے دوں گا جس سے مجھے سب سے زیادہ پیار اور تعلق ہو گا اورآپﷺ نے وہ ہار سیدہ زینب سلام اللہ علیھا کو پہنایا۔ اور آپ کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ 10 ہجری کو جب آپﷺ نے آخری حج ادا کیا اس میں بھی سیدہ زینب سلام اللہ علیھا آپ کے ہمراہ تھیں۔

یوں توں" زینب" نام کے کئی مطالب بیان ہوئے ہیں جن میں سے ایک مطلب خوبصورت چہرے والی ہے۔ ایک اور معروف مطلب ہے کہ زین سے زینت اور اب سے مراد پاب یعنی کے "باپ کی زینت"۔ ذرا چشم تصور میں لائیں۔ آپ کے نام کا انتخاب حضور علیہ الصلوۃالسلام نے زینب فرمایا تو اس وقت ان عظیم المرتبت ہستیوں کے ذہن میں کیا ہو گا وہ چہرہ جو دین کی ایسی زینت ہے جس کے لئے حضورﷺ نے فرمایا اس کو تکنا بھی عبادت ہے۔ سیدہ زینب سلام اللہ علیھا کو اس دین کی زینت والے چہرے کی بھی زینت کا نام دیا گیا۔حضرت زینب کا یہ نام اس حقیقت کو بیان کرتا ہےکہ آپ کا کردار، آپ کے والد حضرت علی کرم اللہ وجہہ کےلئے باعث سرفرازی اور ٖفخر تھا۔آپ کا وجود آپ کے والد اور خاندان کے لئے فخر ہو گا یہی وجہ تھی حضرت علی کرم اللہ وجہہ اپنی پیاری شہزادی پر فخر کیا کرتے تھے۔

سیدہ زینب سلام اللہ علیھا ایک نفس نہیں بلکہ اپنے مقدس وجود میں طہارت و پاکیزگی اور علم و عرفان کی کائنات سمیٹے ہوئے ہیں، آپ سلام اللہ علیہا کے ملفوظات سے کاشانۂ انسانیت کے در و بام روشن ہوئے

آپ رضی اللہ عنہا کی تعلیم و تربیت اس گھرانے میں ہوئی جو تعلیم و تربیت کا گہوارہ تھا، وہ اتنی بلند پایہ اور جامع کمالات شخصیات کا بے مثال گھرانہ تھا کہ روئے زمین پر ان کا کوئی ثانی نہ تھا، آپ رضی اللہ عنہا کے نانا جان نبی آخر الزمان رحمۃ اللعالمین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم، آپ رضی اللہ عنہا کے والد گرامی حیدر کرار حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ باب شہر علم، والدہ محترمہ خاتون جنت سیدۃ النساء العالمین اور بھائی جوانانِ جنت کے سردار، گویا پنجتن پاک کے عظیم محاسن و کمالات نے آپ رضی اللہ عنہا کو اپنے جھرمٹ میں لے رکھا تھا، اور ہر آن ان کے فطری جواہر معراجِ کمال کی جانب محو سفر تھے۔ سیدہ زینب سلام اللہ علیھا کا بچپن فضیلتوں کے ایسے پاکیزہ ماحول میں گذرا جو اپنی تمام جہتوں سے کمالات میں گھرا ہوا تھا جس کی طفولیت پر نبوت و امامت کاسایہ ہر وقت موجود تھا اور اس پر ہر سمت نورانی اقدار محیط تھیں۔ رسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں اپنی روحانی عنایتوں سے نوازا اور اپنے اخلاق کریمہ سے زینب کی فکری تربیت کی بنیادیں مضبوط و مستحکم کیں۔نبوت کے بعد امامت کے وارث مولائے کائنات نے انھیں علم و حکمت کی غذا سے سیر کیا، عصمت کبریٰ فاطمہ زہراء نے انہیں ایسی فضیلتوں اور کمالات کے ساتھ پرورش فرمائی کہ جناب زینب تطہیر و تزکیہ نفس کی تصویر بن گئیں۔ آپ رضی اللہ عنہا کی شخصیت کے ہر پہلو، انداز و اطوار، سلیقے، اور اوصاف و وقار میں سیدہ فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا کا عکس نظر آتا تھا۔ اس لئے آپ کو ثانی زہرا رضی اللہ عنہا بھی کہا جاتا ہے۔ آپ رضی اللہ عنہا کو اپنے عظیم والد کی فصاحت و بلاغت اور زورِ بیان ورثہ میں ملا تھا۔ آپ سلام علیھا کی تربیت اس پاکیزہ ماحول میں ہونا آپ کی ذات و کردار کے باحیا و باکمال ہونے کی دلیل ہے۔

سیدہ زینب سلام اللہ علیھا امام عالی مقام خانوادئہ رسول صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وہ عظیم سپوت ہیں جن کو آغوشِ تربیت میں شہادت جیسا عظیم جذبہ ملا، شہزادئہ رسول بخوبی آگاہ تھے کہ معرکہء کربلا درحقیقت معرکہء حق و باطل ہو گا جس میں حق کی سربلندی کیلئے سر کو کٹانا ہوگا مگر سلامِ عظمت ہے فخر انسانیت امام حسین علیہ السلام کی قابلِ فخر بہن کی عظیم شخصیت کو کہ آپ صنفِ نازک سے تعلق رکھنے کے باوجود جذبہء جہاد اور شہادت سے سرشار تھیں۔ یہی وجہ تھی کی وقت آنے پہ آپ نے اپنے معصوم بیٹے حق کی فتح کیلئے قربان کر کے اپنے جذبہء قربانی کا اظہار کیا۔بی بی زینب سلام اللہ علیہا نے نہ صرف اپنے بیٹوں کی شہادت کا غم سہا بلکہ اپنے شیر جوان بھتیجوں شہزادہ علی اکبر، شہزادہ قاسم، معصوم علی اصغر، با وفا بھائی عباس علیہ السلام اور فخر انسانیت امام حسین علیہ السلام کی شہادت کا غم سہ کر قربانیوں کی تاریخ میں تمام خواتین کیلئے واضح نمونہ عمل قائم کر دیا۔یہ وہ زینب سلام اللہ علیھاتھیں جنہوں نے اپنا پورا خانوادہ راہ حق پر لٹا کر دشمنوں کا مقابلہ جرات کے ساتھ کیا اور صبر و استقامت کا پہاڑ بنی رہیں۔اس طرح سے زینب سلام علیھا نے اپنے گھرانے کی تعلیم و تربیت کی لاج رکھی اور قیامت تک کی نسل انسانی کےلئے اپنی پروقار شخصیت و کردار کی مثال قائم کر دی۔

آپ کے بچپن کا واقعہ ہے کہ ایک دفعہ سیدہ زینب سلام اللہ علیھا اپنے والد کی گود میں تھی اور مولا علی کرم اللہ وجہہ آپ کو گنتی سکھا رہے تھے۔ سیدہ زینب سلام اللہ علیھا سے آپ نے فرمایا "قل واحد" واحد کہو تو آپ سلام اللہ علیھا نے واحد کہا پھر فرمایا "کل اثنین" دو کہو تو سیدہ زینب سلام اللہ علیھا خاموش ہو گئیں۔آپ نے پھر فرمایا " قل اثنین" تو سیدہ زینب سلام اللہ علیھا کہنے لگیں :بابا میری زبان کیسے اثنین کہہ سکتی ہے میری زبان نے واحد کا اعلان کر دیا ہے۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ اپنی پیاری بیٹی کا جواب سن کر بہت خوش ہوئے کہ پچپن میں ہی توحید اور اللہ کی ذات پر کامل یقین تھا۔

جناب زینب رضی اللہ عنہا شرم و حیا کا پیکر تھیں جو اپنے باپ سے بھی پردہ کرتی تھیں۔ حضرت زینب سلام علیھا کی شخصیت میں حیا کا عنصر اس قدر نمایاں تھا کہ جب آپ کسی مجلس میں گفتگو فرماتی تو اپنی نظریں جھکا لیتیں۔ سیدہ زینب سلام اللہ علیھا نے ایسے ماحول میں تربیت پائی جہاں پورا کا پورا گھرانہ شرم و حیا کا نمونہ تھا۔جناب زینب سلام اللہ علیھا شرم و حیا کا سر چشمہ تھیں اور سختی کے ساتھ پردےکی پابند تھیں۔جناب زینب نے حیا کا دامن کسی صورت نہیں چھوڑا وہ میدان کربلا ہو، بازار دمشق ہو یا پھر دربار یزید۔ زندگی کےمشکل ترین حالات میں بھی حیا کا پیکر بنی رہیں۔ سیدہ زینب سلام اللہ علیھا اپنے کردار کی عفت و پاکیزگی اور پیکر حیا سے امت مسلمہ کی خواتین کو یہ عظیم سبق دے گئیں کہ باکردار اور پروقار طریقے سے بھی کھٹن حالات کا سامنا کیا جا سکتا ہے۔ آپ عفت و عصمت کا حیا کا پیکر کیوں نہ ہوتی آپ نے جس گود میں آنکھ کھولی ان کی عصمت و حیا کی کائنات گواہ ہے۔

سیدہ زینب سلام اللہ علیھا کو بھی بچپن میں ہی اپنے نانا محمد عربی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے سایہ رحمت اور پھر چند ہی ماہ بعد اپنی عظیم ماں کی مادرانہ شفقت سے محروم ہونا پڑا کوفہ میں قیام کے دوران آپ کی زندگی میں وہ مشکل ترین اور دل سوز واقعہ پیش آیا۔ جس کی وجہ سے سیدہ زینب سلام اللہ علیھا پر غم و اندوہ کے پہاڑ ٹوٹ پڑے۔ وہ واقعہ آپ رضی اللہ عنہا کے والد محترم سیدنا حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کی شہادت کا ہےلیکن زمانے کے ان حادثوں نے مستقبل کے عظیم فرائض کی ادائیگی کے لئے پانچ سالہ زینب کے حوصلوں کو اور زیادہ قوی و مستحکم کردیا۔حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا کی رحلت کے بعد تمام خانگی امور کے علاوہ خواتین اسلام کی تہذیب و تربیت کی ذمہ داریوں کو اس طرح اپنے کاندھوں پر سنبھال لیا کہ تاریخ آپ کو ’’ثانی زہراء‘‘ اور ’’عقیلہ بنی ہاشم‘‘ جیسے خطاب عطاکرنے پر مجبور ہوگئی۔

اسلامی اقدار کو حیات نو بخشنے والا اور تاریخ انسانیت کو سرخرو کرنے والا کربلا کا تاریخ ساز معرکہ جرات و شجاعت کی ایک عظیم مثال ہے۔۔ شاہی دربار میں یزید جیسے ظالم سفاک بادشاہ اور سات سواعیان سلطنت اور بیرونی نمائندوں کی موجودگی میں۔ سیدئہ زینب سلام اللہ علیہا نے خالقِ حقیقی کی حمد و ثناء اور بارگاہِ رسالت میں ہدیہء درود و سلام پیش کرنے کے بعد قرآنی آیت سے اپنے انقلابی خطبے کا آغاز کیا اور جبر و بربریت کے ترجمان یزید کو للکار کر کہا۔

زینب نام کے کئی مطالب ہیں، ایک مطلب پاکیزہ و خوبصورت چہرے والی ہے، ایک مطلب باپ کی زینت ہے، آپ سلام اللہ علیہا کے نام کا انتخاب حضور نبی اکرم ﷺ نے خود فرمایا، بلاشبہ آپ سلام اللہ علیہا دین مصطفیﷺ کے چہرے کی زینت ہیں

اے یزید تو یہ سمجھ بیٹھا ہی کہ تونے زمین و آسمان کو ہم پر تنگ کر دیا تیرے گماشتوں نے ہمیں شہر شہر حالتِ اسیری میں پھرایا تیرے زعم میں ہم رسوا اور تو باعزت ہو گیاہے ؟ تو تکبر میں مبتلا ہو گیا ہے کہ تیری سفاکیوں نے تیری قدر میں اضافہ کر دیا اور تو اپنی فوج، طاقت اور توانائی دیکھ کر خوشی کے مارے آپے سے باہر ہو گیا ہے۔۔ تو بھول چکا ہے کہ یہ فرصت(مہلت) تجھے صرف اسلئے دی گئی کہ تو اپنی فطرتِ بد کو آشکار کر سکے۔ تو نے قولِ خدا کو فراموش کر دیا، کافر یہ خیال نہ کریں کہ یہ مہلت جو انہیں دی گئی ہے یہ بہترین موقع ہے بلکہ یہ مہلت اسلئے دی گئی کہ وہ اپنے گناہوں میں اور اضافہ کر لیں تاکہ پھر ان پررسوا کرنے والا عذاب نازل ہو۔ اے یزید تو آلِ رسول کے خون بہانے پر خوش نہ ہو کہ تْو بہت جلد خدا کی بارگاہ میں حاضر ہو گا اس وقت تو یہ تمنا کرے گا کہ کاش تو اندھا ہوتا اور یہ بھیانک دن نہ دیکھتا۔ جس دن رسولِ خدا صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم انکے اہلبیت اور فرزند رحمتِ الٰہی کے سایہ میں آرام فرما ہونگے تو ذلت و رسوائی کے ساتھ ان کے سامنے کھڑا ہو گا۔

ایک بار مولا علی کرم اللہ وجہہ آپ سلام اللہ علیہا کوگنتی سکھا رہے تھے، آپ ؓنے فرمایا ’’قل واحد‘‘، سیدہ زینب سلام اللہ علیھا نے پڑھا، پھر آپ ؓ نے فرمایا ’’قل اثنین‘‘ مگر سیدہ زینب سلام اللہ علیھا خاموش رہیں، یعنی توحید کا سبق ان نفوس قدسیہ کی گھٹی میں ہے

جناب سیدہ کی تقریراسقدر منطقی اور اثر آفرین تھی کہ دربارِ یزید کا کوئی شخص سیدہ سلام اللہ علیہاکے رعب و دبدبہ کے سامنے کھڑا نہیں رہ سکا۔ سیدہ کے خطبے کی جامعیت و قطعیت نے یزید کی ملعون شخصیت کے تمام پہلوئوں کو اجاگر کر دیا۔ جس کو ایک شاعر یوں بیان کرتے ہیں:

ہر کان میں رس گھول رہے ہوں جیسے
جبرئیل زبان کھول رہے ہوں جیسے
دربار دمشق میں وہ زینب کا خطاب
منبر پر علی بول رہے ہوں جیسے

حضرت زینب رضی اللہ عنہا نے اپنی پروقار کردار اور جرات سےبتایا کہ صبر و استقامت کسے کہتے ہیں؟ آپ نے اپنے عمل سے بتایا کہ ہر فرعون، ہر نمرود اور ہر یزیدی باطل قوت کے سامنے حق ڈٹا رہا اور بالآخر حق کو فتح ملی۔ سیدہ زینب سلام اللہ علیھا کی پروقار شخصیت اور استقامت سے یہ بات ثابت ہوئی کہ حق ہی طاقت ہے۔جس طرح آپ نے شدید غم وآندوہ کی کیفیت میں دربار یزید میں کھڑے ہو کر اس کوللکارا اور اس نقطے کو نکھارا کہ تمہاری یہ جیت ہار ہے اور قیامت تک اہل حق کی طاقت کیا ہوگی۔ سیدہ زینب سلام اللہ علیھا کی پر وقار اور باحیاشخصیت کے بارے شاعر یوں گویا ہوا۔

قدم قدم پر چراغ ایسے جلا گئی ہے علی کی بیٹی
یزیدیت کی ہر ایک سازش پہ چھا گئی ہے علی کی بیٹی
کہیں بھی ایوانِ ظلم تعمیر ہو سکے گا نہ اب جہاں میں
ستم کی بنیاد اس طرح سے ہلا گئی ہے علی کی بیٹی
نبی کا دین اب سنور سنور کے یہ بات تسلیم کر رہا ہے
اجڑ کے بھی انبیاء کے وعدے نبھا گئی ہے علی کی بیٹی
نہ کوئی لشکر، نہ سر پہ چادر، مگر نجانے ہوا میں کیونکر
غرورِ ظلم و ستم کے پُرزے اڑا گئی ہے علی کی بیٹی
کئی خزانے سفر کے دوران کر گئی خاک کے حوالے
کہ پتھروں کی جڑوں میں ہیرے چھپا گئی ہے علی کی بیٹی
ابد تلک اب نہ سر اُٹھا کے چلے گا کوئی یزید زادہ
غرورِ شاہی کو خاک میں یوں ملا گئی ہے علی کی بیٹی

بیٹوں کی شہادت، خاندان نبوت اور اصحاب حسین علیہ السلام کی قربانی، عظیم بھائی امام حسین علیہ السلام کی دل سوز شہادت، اہل بیت کے باقی ماندہ افراد کی اسیری اور قافلہ حسین علیہ السلام کے پسماندگان کی کوفہ،شام اور دمشق کی جانب سفر کے قیامت خیز لمحات پر سیدہ زینب رضی اللہ عنہا کا صبر و ثبات ناقابل فراموش ہے۔ آپ رضی اللہ عنہا نے گریہ کناں اور آہ وفغاں کی بجائے اسے رب کی رضا جانتے ہوئے نہایت حوصلہ سے برداشت کیا۔ یزید کے دربار میں اس جرات کے ساتھ تقریر کی کہ یزید اور اس کے درباریوں پر سکتہ طاری ہو گیا۔ یزید کو خوف محسوس ہوا کہ کہیں لوگ خاندان رسالت کی حمایت میں میرے خلاف نہ اٹھ کھڑے ہوں۔

معرکہ کربلہ میں سیدہ سلام اللہ علیہا کی فکری، نظریاتی اور اخلاقی معاونت مجاہدین کربلا کے حوصلوں کی بلندی کا باعث بنی رہی۔ یہی وجہ تھی کہ شہادت والی رات سپہ سالارِ قافلہ حق امامِ عالی مقام نے اپنی باوفا وباکمال بہن کو اپنے خیمے میں بْلا کر حالات سے آگاہ کیا اور کلمہء حق کی سربلندی کیلئے اپنی جان کا نذرانہ پیش کرنے کے پختہ عزم کا اظہار کیا نیز اپنی شہادت کے بعد قافلہ کی نگرانی کی ذمہ داری اپنی بہن سیدہ زینب سلام اللہ علیھا کے سپرد کی۔ یہ وہ لمحہ تھا جب ایک بہن کی اپنے بھائی سے بے پناہ محبت کا بے مثال فطری جذبہ اسکے قدم ڈگمگا دے اور وہ بھائی کی شہادت اور ہمیشہ کی جدائی کو کبھی قبول نہ کرے مگر تاریخ شاہد ہے بے مثال بھائی کی بے نظیر بہن نے اپنے ناناسے محبت، اپنی عظیم ماں کی تربیت اور حق پر ڈٹ جانے والے باپ کی شفقت کی لاج نبھائی بی بی زینب سلام اللہ علیہا نے اپنے عظیم بھائی کے سامنے راہِ وفا پہ آنے والے تمام مصائب کا ڈٹ کر مقابلہ کرنے کے پختہ عزم کا اظہارکیا اور شہادتِ حسین علیہ السلام کے بعد سرخیلِ قافلہ بن کرحق اور فرض شناسی کی راہ میں دنیا کی تمام خواتین کیلئے مینارئہ نور بن گئیں۔

حضرت امام حسین ؑ کی شہادت کے بعد حسینی وقار، عظمت و شجاعت اور حق گوئی کا حقیقی اظہار وجود زینب سلام اللہ علیہا کے ذریعے اس باکمال طریقے سے ہوا کہ آپ سلام اللہ علیہا کا ادا کیا ہوا ایک ایک کلمہ ایمان کی سلامتی اور رشد و ہدایت کا ذریعہ بن گیا

حضر ت اما م حسین علیہ السلام کی شہادت کے بعد حْسینی وقا ر، عظمت، شجا عت، استقا مت، حق گو ئی اور دلیر ی کا حقیقی اظہا ر و جو د زینب سلام اللہ علیہاکے ذریعے سے ہوا اور با وفا و با کمال بہن نے پیغا م و فلسفہء شہادتِ امام حْسین کو قیا مت تک زندہ اور پا ئندہ رکھا۔ آپ سلام اللہ علیھا نے سالارِ قافلہ بن کرکوفہ وشام کے گلی کوچوں میں امتِ مسلمہ کے شعور کی بیداری کا بیڑہ اٹھایا جس سے خوابیدہ ضمیروں کو زندگی ملی، یزید کی اسلام دشمنی اور بربریت بے نقاب ہوئی اور واقعہ کربلا حق کی فتح اور باطل کی عبرتناک شکست کا سنگِ بنیاد بن گیا۔ سیدہ زینب رضی اللہ عنہا کے صبر و استقامت، جرات و بہادری، مقام و مرتبہ، شر م و حیا، عفت و عصمت، تحمل و بردباری، زہد و ورع، تقویٰ و طہارت، وفا شعاری، ایثار و قربانی، اور عظمت کردار کو بیان کرنے سے الفاظ قاصر ہیں۔ ان تمام الفاظ کو رفعت و بلندی آپ رضی اللہ عنہا کے کردار ہی کی بدولت ملی۔ آپ رضی اللہ عنہا کے فضائل و کمالات کو احاطہ تحریر میں لانا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ والدین کا گھر ہویا شوہر کا، شہر مدینہ ہو یا حرم مکہ، کرب و بلا کا تپتا ہوا ریگزار ہو یا کوفہ و شام اور دمشق کے بازار ہر مقام پر آپ رضی اللہ عنہا پیکر صبر و رضا رہیں۔

انسان کو زندگی کا قرینہ سکھا گئیں
زینب حسینت کو جینا سکھا گئیں

میری بہنوں! اگر زندگی میں کبھی مشکل وقت آجائے تو حضرت زینب سلام علیھا کی عظیم قربانیوں کو یاد کر لینا۔ اگر کوئی غم ستانے لگے تو وہ وقت یاد کر لینا جب سیدہ زینب سلام اللہ علیھا نے اپنے شہزادوں عون ومحمد کو اپنے ہاتھوں سے شہادت کےلئے میدان کربلا روانہ کیا۔ جب کبھی کوئی پریشانی آجائےتو سیدہ زینب سلام اللہ علیھا کے میدان کربلا اور بازار دمشق میں حوصلے اور ہمت کو یاد کرلینا۔آج ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنے اندر وہ کردار پیدا کریں اور وہ حوصلہ اور ہمت پیدا کریں جو سیدہ زینب سلام اللہ علیھا ہمیں سکھا گئیں۔ اللہ رب العزت ہمیں توفیق عطا فرمائےکہ سیدہ زینب سلام اللہ علیھا کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اپنی زندگیوں کو صبر و رضا، شرم و حیا اور استقامت کے ساتھ دین کی خدمت میں گزاریں۔