حافظ محمد سعید رضا بغدادی

عرفان القرآن کورس درس نمبر 49 آیت نمبر 106 تا 108 (سورۃ البقرہ) تجوید

وقف کا بیان

سوال: وقف کسے کہتے ہیں؟

جواب: کسی حرف کی حرکات کو تبدیل کر کے ساکن کرنا اور اس متحرک حرف کو ساکن کرنے کے بعد سانس توڑ

کر ٹھہرنے کا نام ’’وقف‘‘ ہے۔

سوال: علاماتِ وقف مع نام و کیفیت بیان کریں؟

علامت وقف

نام

کیفیت وقف

O

وقفِ تام

یہ وقفِ(O) تام ہے یہاں ٹھہرنا سنتِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے۔ (یہاں ٹھہریں)

لا

وصل

ا گر وقفِ تام (O) پر (لا) ہو تو وصل کرنا بہترہے اگر آیت کے اندر ہو تو ہر صورت وصل کریں۔ (وصل سے مراد ہر صورت ملانا ہے)

م

وقفِ لازم

یہ علامت وقفِ لازم کی ہے۔ (ضرور ٹھہریں)

ط

وقفِ مطلق

یہ علامت وقفِ مطلق کی ہے۔ (یہاں ٹھہریں)

ج

وقفِجائز

یہ علامت وقفِ جائز کی ہے۔ (یہاں وقف جائز ہے ٹھہریں)

ز

وقفِ مجوز

یہ علامت وقفِ مجوز کی ہے۔ (یہاں ٹھہرنے کا جواز ہے)

ترجمہ

مَا نَنْسَخْ مِنْ اٰيَة أَوْ نُنْسِهَا نَأتِ بِخَيْرٍ مِنْهَا

متن

مَا

نَنْسَخْ

مِنْ

اٰيَة

اَوْ

نُنْسِھَا

نَاتِ

بِخَيْرٍ

مِنْھَا

لفظی ترجمہ

جو کچھ

ہم منسوخ کرتے ہیں

کوئی

آیت

یا

ہم بھلا دیتے ہیں اس کو

لے آتے ہیں

بہتر

اس سے

عرفان القرآن

ہم جب کوئی آیت منسوخ کر دیتے ہیں یا اسے فراموش کرا دیتے ہیںتوہم لے آتے ہیں اس سے بہتر

أَوْ مِثْلِها ط أَلَمْ تَعْلَمْ أَنَّ اللّٰهَ عَلٰی کُلِّ شَئٍ قَدِيْرٌO

متن

اَوْ

مِثْلِها

أَلَمْ

تَعْلَمْ

اَنَّ

اللّٰهَ

عَلٰی

کُلِّ

شَئٍ

قَدِيْرٌ

لفظی ترجمہ

یا

اس کی مثل

کیا نہیں

تجھے معلوم

بے شک

اللہ

پر

ہر

چیز

قادر ہے

عرفان القرآن

یا ویسی ہی کوئی‘ کیا تم نہیں جانتے کہ اللہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔

أَلَمْ تَعْلَمْ أَنَّ اللّٰهَ لَه مُلْکُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ط

متن

أَلَمْ

تَعْلَمْ

اَنَّ

اللّٰهَ

لَه

مُلْکُ

السَّمٰوٰتِ

وَ

الْاَرْضِ

لفظی ترجمہ

کیا نہیں

تجھے معلوم

بیشک

اللہ

اسی کی

بادشاہت

آسمانوں

اور

زمین کی

عرفان القرآن

کیا تمہیں معلوم نہیں کہ آسمانوں اور زمین کی بادشاہت اللہ ہی کے لئے ہے۔

وَمَالَکُمْ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ مِنْ وَّلِیٍّ وَّلَا نَصِيرٍO

متن

و

مَا

لَکُمْ

مِنْ دُوْنِ

اللّٰهِ

مِنْ

وَّلِیٍّ

وَّلَا

نَصِير

لفظی ترجمہ

اور

نہیں

تمہارے لیے

سوائے

اللہ کے

کوئی

دوست

اور نہ

کوئی مددگار

عرفان القرآن

اور اللہ کے سوا نہ تمہارا کوئی دوست ہے اور نہ ہی مددگار۔

أَمْ تُرِيدُوْنَ أَنْ تَسْئَلُوْا رَسُوْلَکُمْ کَمَا سُئِلَ مُوْسیٰ مِنْ قَبْلُ ط

متن

اَمْ

تُرِيدُوْنَ

أَنْ

تَسْئَلُوْ

رَسُولَکُم

کَمَ

سُئِلَ

مُوْسیٰ

مِنْ

قَبْلُ

لفظی ترجمہ

کیا

تم چاہتے ہو

کہ

سوال کرو اپنے رسول سے

جس طرح

سوال کیے گئے

موسی سے

اس سے

قبل

عرفان القرآن

(اے مسلمانو!) کیا تم چاہتے ہو کہ تم بھی اپنے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اسی طرح سوالات کروجیساکہ اس سے پہلے موسی علیہ السلام سے سوال کئے گئے تھے

وَمَنْ يتَبَدَّلِ الْکُفْرَ بِالِْإيْمَانِ فَقَدْ ضَلَّ سَوَآءَ السَّبِيْلِO

متن

و

مَنْ

يتَبَدَّلِ

بِالِْإيْمَانِ

فَقَدْ

ضَلَّ

سَوَآءَ

السَّبِيْل

لفظی ترجمہ

اور

جو کوئی

بدلے میں کہے کفر کو

ایمان کے ساتھ

پس تحقیق

وہ گمراہ ہوا

سیدھے

راستے سے

عرفان القرآن

توجوکوئی ایمان کے بدلے کفر حاصل کرے پس وہ واقعتا سیدھے راستے سے بھٹک گی۔

تفسیر

مَا نَنْسَخْ مِنْ اٰيَةٍ اَوْ نُنْسِها.... الخ

1۔ بعض آیات اور احکام خاص مقاصد اور مصالح کی تکمیل کیلئے نازل کیے گئے ۔جب وہ مقاصد اور مصالح پورے ہو گئے تو انہیں منسوخ کر کے نئے احکام اتارے گئے اور ان پراسلام کے نظام کی بنیاد رکھی گئی۔ اس میں تشریعی اور تکوینی دونوں حیثیتیں پیش نظر تھیں۔ یہی فلسفہ نسخ ہے۔

فائدہ: سالک بعض اوقات قلبی کیفیات اور روحانی واردات میں سے کسی سے محروم کر دیا جاتا ہے حالانکہ اس کا کوئی قصور اور گناہ نہیں ہوت۔ایسی صورت میں باری تعالیٰ سابقہ کیفیت کومنسوخ کر کے اسے نئی اعلیٰ کیفیت سے نوازتے ہیں۔ یہ طریق علاج ہے ۔اطباء بھی مریضوں کے علاج کے بارے میں صحیح تشخیص اور صحیح تجویز کے باوجود ادویات مرحلہ وار بدلتے رہتے ہیں۔اس میں صرف ارتقائی حکمت کار فرما ہوتی ہے۔مشائخ بھی مریدین کی تربیت کے دوران حسب حال مختلف وظائف تجویز کرتے ہیں جس سے تدریجاً ترقی احوال ہوتی ہے۔

(تفسير منهاج القرآن)

ناسخ اور منسوخ کی بحث

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نسخ کے معنی بدلنے کے ہیں۔ مجاہد رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ فرماتے ہیں۔ مٹانے کے ہیں جو کبھی لکھنے میں باقی رہتی ہے اور معنی بدل جاتے ہیں‘ ضحاک رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ فرماتے ہیں۔ بھلا دینے کے معنی ہیں‘ عطاء رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ فرماتے ہیں۔چھوڑ دینے کے معنی ہیں‘ سدی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ فرماتے ہیں ۔ اٹھا لینے کے معنی ہیں۔

طبرانی میں ایک روایت ہے کہ دو آدمیوں نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ایک سورت یاد کی تھی۔ ایک مرتبہ رات کی نماز میں ہر چند اسے پڑھنا چاہا لیکن قوت حافظہ نے ساتھ نہ دی۔گھبرا کر خدمت نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں حاضر ہوئے اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اس کا ذکر کی۔آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا یہ منسوخ ہو گئی اور بھلا دی گئی۔دلوں میں سے نکال لی گئی تم غم نہ کرو بے فکر ہو جاؤ۔

اس مقام میں یہودیوں کا زبردست رد ہے اور ان کے کفر کا بیان ہے کہ وہ نسخ کے قائل نہ تھے۔اس آیت میں گو خطاب فخر عالم کو ہے مگر در اصل یہ کلام یہودیوں کو سنانا ہے۔ جو انجیل اور قرآن کو اس وجہ سے نہیں مانتے تھے کہ ان میں بعض احکام تورات کے منسوخ ہو گئے تھے۔جس طرح اللہ اپنے کاموں میں بے نیاز ہے اپنے حکموں میں بھی بے نیاز ہے۔

  1. حضرت آدم علیہ السلام کے بیٹے اوربیٹیاں آپس میں بھائی بہن ہوتے تھے لیکن نکاح جائز تھا پھر حرام کر دیا گی۔
  2. نوح علیہ السلام جب کشتی سے اترتے ہیں تو اس وقت تمام حیوانات کا کھانا حلال تھا لیکن پھر بعض کی حلت منسوخ ہو گئی۔
  3. دو بہنوں کا نکاح اسرائیل اور ان کی اولاد پر حلال تھا لیکن پھر تورات میں اور اسکے بعد حرام کر دیا گی۔
  4. ابراہیم علیہ السلام کو بیٹے کی قربانی کا حکم دیا پھر قربانی سے پہلے منسوخ کر دی۔
  5. بنی اسرائیل کو حکم دیا جاتاکہ بچھڑا پوجنے میں جو شریک تھے سب اپنی جانوں کو قتل کر ڈالیں لیکن ابھی بہت سے باقی ہیں اور حکم منسوخ ہو جاتا ہے ۔

  6. پہلے جس عورت کا خاوند مرتا تھا اس کی عدت ایک سال تھی بعد میں چار ماہ کر دی گئی اور دونوں آیات قرآن پاک میں موجود ہیں۔
  7. قبلہ پہلے بیت المقدس تھا پھر کعبۃ اللہ بن گی۔
  8. پہلے مسلمانوں کو حکم تھا کہ ایک ایک مسلمان دس دس کافروں سے لڑے پھریہ حکم منسوخ ہو کر دو دو کے مقابلے میں صبر کرنے کا حکم ہو۔ اور دونوں آیات کلام اللہ میں موجود ہیں۔
  9. پہلے حکم تھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سرگوشی کرنے سے پہلے کچھ صدقہ دے دیا کرو لیکن پھر یہ حکم منسوخ ہوا اور دونوں آیات قرآن مجید میں موجود ہیں۔وغیرہ وغیرہ ۔ واللہ اعلم

اَمْ تُرِيدُوْنَ اَنْ تَسْئَلُوْا رَسُوْلَکُمْ... الخ

(1) غیر ضروری اور زیادہ سوالات باعث ہلاکت وتباہی ہیں۔ صحیح حدیث میں ہے کہ مسلمانوں میں سب سے بڑا مجرم وہ ہے جو اس چیز کے بارے میں سوال کرے جو حرام نہ تھی پھر اس کے سوال سے حرام ہو گئی۔

صحیح مسلم میں ہے کہ جب تک میں کچھ نہ کہو ںتم بھی نہ پوچھوتم سے پہلے لوگوں کو اسی بد خصلت نے ہلاک کر دیا کہ وہ بکثرت سوال کیا کرتے تھے اور اپنے نبیوں سے اختلاف کرتے تھے۔جب میں تمہیں حکم دوں تو اپنی طاقت کے مطابق بجا لاؤ اور اگر منع کروں تو رک جایا کرو۔ یہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس وقت فرمایا تھا جب لوگوں کو خبر دی کہ اللہ تعالیٰ نے تم پر حج فرض کیا ہے تو کسی نے کہا حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلمہر سال؟

آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خاموش ہو گئے ۔اس نے پھر پوچھ۔آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کوئی جواب نہ دی۔اس نے تیسری دفعہ پھر یہی سوال کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہر سال نہیں،لیکن اگر میں ہاں کہہ دیتا توہر سال فرض ہو جاتا اور پھر تم کبھی بھی اس حکم کو نہ بجا لاسکتے۔

ابوالعالیۃ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کہتے ہیں کہ ایک شخص نے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کہا یا رسول اللہ کاش ہمارے گناہوں کا کفارہ بھی اسی طرح ہو جاتا جس طرح بنی اسرائیل کے گناہوں کا تھ۔آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سنتے ہی تین دفعہ جناب باری تعالی میں عرض کی کہ نہیں اے اللہ! ہم یہ نہیں چاہتے پھر فرمایا سنو، بنو اسرائیل میںسے جہاں کوئی گناہ کرتا اس کے دروازے پر قدرتاً لکھا ہوا پایا جاتا اور ساتھ ہی اس کا کفارہ بھی لکھا ہوا ہوتا تھ۔اب یا تو دنیاوی رسوائی کوقبول کر کے کفارہ ادا کرے او راپنے پوشیدہ گناہوں کو ظاہر کرے ۔یا کفارہ نہ دے اور آخرت کی رسوائی کو منظور کرے۔ لیکن تم سے اللہ تعالیٰ نے فرمای۔

وَمَنْ يَّعْمَلْ سُوءً ا اَوْ يَظْلِمْ نَفْسَه ثُمَّ يَسْتَغْفِرُ اللّٰهَ يَجِدِ اللّٰه غَفُورًا رَحِيْماً.

’’ جس سے کوئی برا کام ہو جائے یا وہ اپنی جان پر ظلم کر بیٹھے،پھر استغفار کرے تو وہ اللہ تعالیٰ کو بہت بڑا بخشش اور مہربانی کرنے والا پائے گا۔‘‘

اسی طرح ایک نماز دوسری نماز تک گناہوں کا کفارہ ہو جاتی ہے ۔پھر جمعہ دوسرے جمعہ تک کے گناہوں کا کفارہ ہو جاتا ہے۔سنو! جو شخص برائی کا ارادہ کرے لیکن برائی نہ کرے تو برائی لکھی نہیں جاتی اور اگر کر گزرے تو ایک ہی برائی لکھی جاتی ہے اور اگر بھلائی کا ارادہ کرے اور بھلائی کر نہ سکے پھر بھی بھلائی لکھ دی جاتی ہے اور اگر کرلے تو دس بھلائیاں لکھی جاتی ہیں اب بتؤ تم اچھے رہے یا بنی اسرائیل؟ نہیں تم ہی بنی اسرائیل سے بہت اچھے ہو باوجود اتنے رحم و کرم کے پھر بھی کوئی ہلاک ہو تو سمجھو کہ یہ خود ہی ہلاک ہونے والا تھ۔ اس پر یہ آیت کریمہ نازل ہوئی۔ (تفسیر ابن کثیر)

حدیث

عَنْ عَلْقَمَة قَالَ: قَالَ عَبْدُ اﷲِ بْنُ مَسْعُوْدٍ رضی الله تعالی عنه: اَلاَ اُصَلِّي بِکُمْ صَلَاةَ رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم ؟ قَالَ: فَصَلَّی فَلَمْ يَرْفَعْ يَدَيْهِ إِلَّا مَرَّةً.

رَوَاُ اَبُوْدَاوُدَ وَالتِّرْمِذِيُّ، وَالنَّسَائِيُّ وَزَادَ: ثُمَّ لَمْ يُعِدْ. وَقَالَ اَبُوْعِيْسَی: هذَا حَدِيْثٌ حَسَنٌ.

’’حضرت علقمہ روایت کرتے ہیں کہ حضرت عبد اللہ بن مسعود ص نے فرمایا: کیا میں تمہیں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نماز نہ پڑھاؤں؟ راوی کہتے ہیں: پھر اُنہوں نے نماز پڑھائی اور ایک مرتبہ کے سوا اپنے ہاتھ نہ اٹھائے۔‘‘ امام نسائی کی بیان کردہ روایت میں ہے: ’’پھر انہوں نے ہاتھ نہ اٹھائے۔‘‘