قر آن مجید جو نوع انسانی کی طرف اللہ تعالیٰ کی آخری ہدایت و رہنمائی اور ایک کامل ضابطہ حیات ہے اصول سیاست و ریاست بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے:
وَشَاوِرْهُمْ فِی الْاَمْرِ.
( آل عمران:159)
’’اور اپنے کاموں میں ان (لوگوں) سے مشورہ کرلیا کرو‘‘
پھر دوسرے مقام پر اسی تصور کو یوں واضح کیا:
وَاَمْرُهُمْ شُوْرٰی بَيْنَهُمْ.
(الشوری:38)
’’وہ اپنے کام باہمی مشورے سے کرتے ہیں‘‘
اسی طرح سے اسلامی ریاست اور حکومت کے قیام کا مقصد بیان کرتے ہوئے فرمایا:
’’وہ لوگ اگر ہم ان کو ملک (حکومت) عطا کریں تو نمازوں کو قائم کریں، زکوٰۃ دیں اور (دوسروں کو بھی) نیک کاموں کا حکم دیں اور بری باتوں سے روکیں‘‘
(الحج:41)
مذکورہ بالا اصولوں کے علاوہ یہ قر آن و سنت کا متفقہ فیصلہ اور پوری امت اسلامیہ کا بلا اختلاف اس مسئلہ پر اجماع ہے کہ کائنات پست و بالا میں حاکمیت مطلقہ کا اعزاز صرف اور صرف اللہ رب العالمین کو ہی حاصل ہے اور اس کائنات ارضی میںبندوں کے پاس اقتدار بطور امانت ہے. اس لئے بندے بہر صورت ان اصول و ضوابط اور ہدایات کی روشنی میں زمین پر حکومت کرنے کے حق دار ہیں جو اس خالق و مالک اور حاکم مطلق نے اپنے آخری کلام کی صورت میں ان کو عطا کردیئے ہیں چنانچہ وہ جب بھی ان اصولوں سے انحراف کرے گا اسی وقت زمین پر فتنہ و فساد، شر اور ظلم پھیل جائے گ.
سیاست شرعیہ اور اسلامی ریاست کے اصول و ضوابط کے جان لینے کے بعد اب آیئے ہم یزیدی عہد میں سبط رسول، جگر گوشہ بتول حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ تعالٰی عنہ کی شہادت کے حوالے سے اس پہلو سے غورو فکر کرتے ہیں کہ ابھی خیرالقرون اولیٰ کی مہکار بھی ختم نہ ہونے پائی تھی کہ ایسے حالات پیدا ہوگئے تھے کہ راکب دوش مصطفی کو نہ صرف اپنی بلکہ اپنے پھول سے بھی زیادہ نرم و نازک اور معصوم بچوں کی قربانی دینا لازم ہوگئی اس حقیقت کو جاننے کے لئے ہمیں تاریخ کے اس دور سیاہ کی ورق گردانی کرنا ہوگی.
یہ وہ دور بے اماں تھا کہ شراب کے نشے میںمخمور رہنے والا یزید پلید اعلانیہ طور پر شریعت کا مذاق اڑاتا تھا یہاں تک کہ اس نے حرم مدینہ کو تین دن کے لئے مباح قرار دے دی. اس دوران یزیدی فوج نے اہل مدینہ کے گھروں میں گھس کر پاک دامن خواتین کی چادر عصمت کو تار تار کیا اور مسجد نبوی میں تین دن تک اذان بھی نہ ہوسکی. غرض یہ کہ اسلام کے نظام سیاست و ریاست کے اصولوں کو اس طرح پامال ہوتے دیکھ کر ریحان النبی حضرت امام حسین رضی اللہ تعالٰی عنہ اس کے مقابلے میں نکل آئے اور اپنے سر کا نذرانہ دے کر ہمیشہ کے لئے انسانوں کو یہ درس حیات دے دی.
چڑھ جائے کٹ کے سر تیرا نیزے کی نوک پر
لیکن یزیدیوں کی اطاعت نہ کر قبول
بہر حال اس تمہیدی گفتگو کے بعد اب آیئے ہم اس بات پر غوروفکر کرتے ہیں کہ یزیدی دور حکومت میں اسلامی نظام ریاست و اصول سیاست میں کن کن پہلوئوں سے تغیر واقع ہوا تھا اور وہ تغیر کس نوعیت کا تھا کہ جس کے نتیجہ میں چرخ نیلی فام کو معرکہ کربلا جیسا محیرالعقول منظر دیکھنا پڑ.
اسلامی ریاست کی بنیادیں
اسلام نے بحیثیت دین مسلمانوں کو کار جہاں بندی کے لئے ایسی بنیادیں فراہم کی ہیں کہ اگر ان پر حکومت کو استوار کیا جائے تو پھر معاشرہ اخوت و بھائی چارہ کے ساتھ امن و آشتی کا منظر بھی پیش کرتا ہے. ایک مثالی معاشرہ کی تشکیل کے لئے اسلام نے درج ذیل بنیادیں فراہم کی ہیں.
حق خود ارادیت
حق خود ارادیت سیاست شرعیہ اوراصول ریاست کی وہ بنیاد ہے جو حقیقت میں دستور اسلامی کے لئے ’’سنگ بنیاد‘‘ کا درجہ رکھتی ہے. اسی اصول اور نظریئے کے ذریعہ سے معاشرے کے مختلف افراد کو اس امر کا پابند بنادیا گیا ہے کہ کوئی شخص خود اپنی کوشش سے اقتدار حاصل کرے اور نہ اس کی خواہش ہی کرے بلکہ معاشرے کے تمام طبقات باہمی مشاورت سے بہترین سیرت و کردار اور اعلیٰ صلاحیتوں کے مالک شخص کو چن کر اقتدار اس کے سپرد کریں. منتخب ہونے کے بعد وہ عام لوگوں سے بیعت لے یا یوں کہہ لیں کہ بیعت اقتدار کا نتیجہ نہ ہو بلکہ اس کا سبب ہو. اس کے علاوہ بیعت پر لوگوں کو مجبور نہ کیا جائے بلکہ اس سلسلہ میں ہر فرد آزادی کے ساتھ اپنی رائے کا اظہار کرے. اسی اصول کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ کوئی بھی شخص اس وقت تک مسند اقتدار پر فائز رہ سکتا جب تک اسے لوگوں کا اعتماد حاصل رہے اور عدم اعتماد کی صورت میں وہ اقتدار کے ساتھ چمٹا نہ رہے.
حضور علیہ الصلوۃ والسلام کے وصال مبارک کے بعد خلافت راشدہ کے زمانے میں اس اصول پر سختی کے ساتھ عمل ہوتا رہا لیکن حضرت معاویہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کے دور میں معاملہ کچھ مشتبہ ہوگیا جس کی وجہ سے انہیں صحابی ہونے کے باوجود خلفائے راشدین میں شمار نہیں کیا جات. انہوں نے اپنے بعد اپنے صلبی بیٹے یزید کو ولی عہد مقرر کرکے اس قاعدے کو یوں پلٹ کر رکھ دیا کہ ان کے اس طرز عمل سے تاریخ اسلام میں ایک خاندان کی موروثی بادشاہت کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوگیا اور انتخابی خلافت ہمیشہ ہمیشہ کے لئے اپنے انجام کو پہنچ گئی. چنانچہ حق خود ارادیت کے اس اصول کو عملی اعتبار سے پس پشت ڈالنے کے بعد بیعت کو اقتدار کا سبب سمجھا جانے کی بجائے اقتدار کی قوت کے بل بوتے پر لوگوں کو بیعت پر مجبور کیا جانے لگا اور یوں انہیں آزادانہ طور پر بیعت کرنے یا نہ کرنے یا بیعت توڑنے کے قانونی حق سے محروم کردیا گیا اور پھر یہ سلسلہ یہاں تک دراز ہوا کہ اگر کسی مرد حر نے بادشاہ وقت کی چیرہ دستیوں کے خلاف صدائے حق بلند کرتے ہوئے جبری بیعت کو توڑنے کا اعلان کیا تو پیرانہ سالی کے باوجود بھی اس کی پیٹھ پر کوڑے برسائے گئے اور ہاتھ شانوں سے الگ کردیئے گئے.
چنانچہ اسلامی دستور میں یہ وہ پہلا تغیر تھا جس کے خلاف حضرت امام عالی مقام رضی اللہ تعالٰی عنہ اٹھ کھڑے ہوئے اور آپ نے لوگوں کو ان کا یہ حق دلوانے کے لئے اپنے تن من دھن کی بازی لگادی.
باہمی مشاورت کا اصول
اس دستور کا دوسرا اصول یہ تھا کہ امور مملکت باہمی صلاح اور مشورے سے سرانجام دیئے جائیں اور یہ مشورہ ان لوگوں سے لیا جائے جو صائب الرائے اور صاحب فکر ہونے کے ساتھ ساتھ متقی، پرہیزگار، پابند صوم و صلوۃ اور شریعت کے اوامر و نواہی پر عمل کرنے والے ہوں اور لوگوں میں اعتماد کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہوں، حضور سید عالم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اگرچہ بحیثیت نبی براہ راست اللہ تعالیٰ کی ہدایت وراہنمائی میں تمام معاملات کو حل کرتے تھے لیکن اس کے باوجود آپ تعلیم و تربیت کے نقطہ نظر سے بہت سے امور میں اپنے صحابہ رضی اللہ عنہم سے مشورہ فرمایا کرتے تھے. آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وصال مبارک کے بعد خلفائے راشدین کے عہد میں بھی اس اصول پر سختی سے عمل کیا جاتا رہ. مشاورت کے لئے باقاعدہ مجلس شوریٰ کا قیام عمل لایا جاتا تھ. جس کے ارکان آج کی جدید سیاسی اصطلاح میں ’’ارکان پارلیمنٹ‘‘ بھی ہوتے تھے. یہ ممبر اگرچہ آج کے جدید طریق انتخاب کے مطابق منتخب تو نہیں ہوتے تھے بلکہ ان کی حیثیت نامزد کی تھی لیکن اس کے باوجودوہ تقویٰ و طہارت، دیانت داری، عدل و انصاف، خلوص و بے غرضی کے اس اعلیٰ مقام پر فائز تھے کہ ان سے حق گوئی اور باطل کی مخالفت کے سوا کسی چیز کی توقع ہی نہیں کی جاسکتی تھی. آج کے معروف طریقہ کے مطابق اگر عوام الناس کو اراکین شوریٰ کے منتخب کرنے کا کہا جاتا ہے تو وہ یقینا ان کی تدین پسندی کے پیش نظر پاکباز ہستیوں کو ہی اس منصب کا مستحق قرار دیتے. ان ارکان کی نامزدگی اس لئے نہیں کی گئی تھی کہ وہ حکومت کی ہاں میں ہاں ملائیں گے اور حکومت کو کسی غلط راہ پر چلنے کا مشورہ دیں گے بلکہ ان سے یہی امید تھی کہ وہ عدل و انصاف اورحق گوئی کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنے علم و ضمیر کے مطابق فیصلہ دیں گے اور یہ بات جریدہ عالم پر ایک حقیقت ثابتہ کے طور پر موجود ہے کہ امر واقعہ میں ان نفوس قدسیہ نے محض رضائے الہٰی کی خاطر اس بار عظیم کی ذمہ داریوں کو نبھای. لیکن جب امارت کی جگہ بادشاہت نے لے لی اور مشاورت کی جگہ من مانی اور خود غرضی نے لے لی تو اس سے تاریخ اسلام میں پہلی مرتبہ شخصی بادشاہت کا نہ بند ہونے والا دروازہ کھل. جس کی خشت اول یزیدی دور قرار پای. چنانچہ اس کے ساتھ ہی شوریٰ کا طریق کار بدل گیا، بادشاہ وقت جبر و استبداد اور مطلق العنانی کے ساتھ کار حکومت سرانجام دینے لگا اور اب اس کے مشیر بھی ایسے لوگ تھے جو اپنے سیرت و کردار کی بناء پر حکومت کی غلط پالیسیوں پر تنقید کرنے کی جرات نہیں رکھتے تھے. اس اصولی تغیر نے معاشرے کے اندر حکومتی سطح پر ایک عجیب و غریب منظر پیش کردی. جس کو بدلنے کے لئے حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ تعالٰی عنہ میدان میں اترے اور جادہ حق پر گامزن ہوتے ہوئے جام شہادت نوش فرمای.
امر بالمعروف اور نہی عن المنکر
اسلام کے اندر امر بالمعروف ونہی عن المنکر ہر انسان کا حق ہی نہیں بلکہ فرض قرار دیا گیا ہے. کتاب مبین اور حدیث نبوی میں جتنا اس امر پر زور دیا گیا ہے کسی اور پر نہیں دیا گی. اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ کسی بھی معاشرے اور ریاست بالخصوص اسلامی معاشرے کا صحیح خطوط کی طرف چلنے کا تمام تر انحصار اس بات پر ہے کہ اس معاشرے کے افراد کے ضمیر زندہ اور زبانیں آزاد ہوں. وہ جہاں کہیں بھی غلطی کو دیکھیں اور برائی کو عام ہوتا پائیں تو پھر کسی مصلحت کا شکار ہوئے بغیر اور کسی بھی قسم کے خوف سے بالاتر ہوکر برائی کی اس قوت کو روک سکیں. خلافت راشدہ کے زمانے میں اس کو اس حد تک تسلیم کیا گیا تھا کہ تنقید کرنے والے کو پابند سلاسل یا نذر زنداں نہیں کیا جاتا تھا بلکہ اس فرض کے ادا کرنے میں بلا امتیاز ان کی ہمت افزائی کی جاتی تھی. پوری قوم کو ارکان شوریٰ تو کیا خلیفہ وقت سے بھی بلا روک ٹوک باز پرس کرنے اور مواخذہ کرنے کا قانونی حق حاصل تھ. جس کو وہ استعمال بھی کرتے تھے. لوگوں کو اس پر ڈانٹ ڈپٹ پلائی جاتی تھی اور نہ ان کی زبان بندی کی جاتی تھی. اس لئے کہ اظہار رائے کی یہ آزادی کوئی شاہی عطیہ اور بخشش خسروانہ نہ تھی بلکہ اسلام کا تفویض کردہ ایک دستوری حق تھا جس کی ادائیگی اور احترام وہ اپنا فرض سمجھتے تھے. لیکن خلافت راشدہ کے بعد جب بادشاہت کا دور دورہ شروع ہوا تو قلم پر پہرے اور زبانوں پر قفل ڈال دیئے گئے. کسی نے اگر زبان کو کھولنا ہی ہے تووہ یا تو حکومت کی چاپلوسی کرتے ہوئے اس کی ہر غلط کاوش کی تعریف کرے یا پھر اگر وہ ایسے ضمیر کا مالک ہے جو بڑا زور آور ہے کہ حق گوئی سے باز نہیں آسکتا تو پھر زینت زنداں بننے کے لئے تیار رہے. اسی اصولی تغیر کے واقع ہونے کے بعد مصلحت پرستی اور نظریہ ضرورت نے اسلامی معاشرے کے اندر جڑیں پکڑیں. جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ایماندار اور دیانتدار لوگ رفتہ رفتہ پس پردہ چلے گئے اور حکومت پر ایسے ایسے لوگ براجمان ہونے لگے کہ جن کے عمل اور کردار سے فتنہ و فساد اور شرانگیزی جنم لینے لگی.
جواب دہی کا تصور
یہ تو ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ حاکمیت اعلیٰ صرف اور صرف خالق کائنات کو ہی حاصل ہے. انسانوں کے پاس اس کا تفویض کردہ اقتدار ایک امانت ہے جس کی باز پرس کی جانی ہے. خلفائے راشدین کے دور میں یہ تصور اس قدر غالب تھا کہ حضرت سیدنا عمر فاروق رضی اللہ تعالٰی عنہ جیسے بارعب اور پرہیبت خلیفہ وقت سے بھی ایک بدوی بھرے مجمع میں کھڑے ہوکر یہ سوال کرسکتا ہے کہ مال غنیمت سے ملنے والی چادر سے آپ کا کرتہ نہیں بن سکتا اس لئے آپ نے یقینا دو چادریں لی ہوں گی. بدوی کا یہ اعتراض سن کر فاروق اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ غصہ سے آگ بگولا نہیں ہوئے اور نہ معترض کو شاہ کی توہین کا کوئی نوٹس دیا گیا بلکہ آپ نے بڑے تحمل، بردباری کے ساتھ کہا کہ اس کا جواب میرا بیٹا عبداللہ رضی اللہ تعالٰی عنہ دے گا چنانچہ حضرت عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے کہا کہ میں نے اپنے حصے کی چادر اپنے والد کو دے دی تھی تاکہ ان کی قمیض بن جائے. یہ تھا خلفائے راشدین کے دور میں احتساب کا معیار لیکن جب یہ عہد ہمایوںختم ہوا اور ملوکیت و بادشاہت نے اپنے پنجے گاڑ لئے تو اب جواب دہی کے تصور سے بالا ہوکر حاکم وقت بیت المال کو مال غنیت سمجھنے لگے. خلفائے اربعہ کے مبارک دور میں تو یہ طریقہ تھا کہ وہ عوام کے دکھ درد میں شریک ہونے کے لئے دن میں پانچ مرتبہ مسجد میں نماز باجماعت ادا کرتے اور پھر ہفتے کے بعد ہر جمعہ کے موقع پر لوگوں کے عام اجتماع میں حاضر ہوتے ان کی سنتے اپنی سناتے تھے. اس کے علاوہ بھی وہ صبح و شام بغیر کسی محافظ اور ہٹو بچو کی ہیبت ناک آوازوں کے بغیر گلی کوچوں، بازاروں میں چلتے پھرتے تھے، عوام و خواص میں سے ہر کوئی بلا جھجھک ان سے مل سکتا تھ. ان کے گھر اور حجرے جو ان کے دربار ہوا کرتے تھے کے دروازے بھی ہر ایک کیلئے کھلے رہتے تھے ان پر کوئی مسلح محافظ یا دربان کوئی نہیں ہوا کرتا تھ.
یہ اسلامی دستور یا اصول ریاست وسیاست میں واقع ہونے والے وہ تغیرات تھے جن کو اصلی حالت میں بحال کرنے کے لئے راکب دوش مصطفی حضرت سیدنا امام حسین رضی اللہ تعالٰی عنہ نے دیگر اکابرین امت کے اختیار کردہ طریق رخصت کو اپنانے کی بجائے راہ عزیمت کا انتخاب کیا اور وقت کے ظالم، طاغوت کے نمائندے فرعون صفت حکمرانوں کے خلاف علم جہاد بلند کیا اور مصطفوی مشن کی خاطر نہ صرف اپنی جان کی قربانی پیش کی بلکہ اپنے معصوم بچوں تک کو راہ خدا میں قربان کردی.
موجودہ دور میں شہادت حسین رضی اللہ تعالٰی عنہ کا درس
اے فرزندان ملت! یہ بات یاد رکھیں کہ حسین ایک شخصیت کا نام نہیں ایک پیغام ہے، آفاقی پیغام جو ہر دور کے مظلوم اور مجبور انسانوں کو درس عمل اور ولولہ تازہ اور شوق فراواں عطا کرتا ہے اور عطا کرتا رہے گ. حسین رضی اللہ تعالٰی عنہ نام ہے اس پولیٹیکل سکول آف تھاٹ کا جس میں اصولوں کی سودے بازی نہیں کی جاسکتی، حسین رضی اللہ تعالٰی عنہ ایک ملت ہے جس کا آغاز ابراہیم سے ہوا اور جو کربلا کے میدان میں اپنے نقطہ عروج کو پہنچی، حسین رضی اللہ تعالٰی عنہ صدائے انقلاب ہے جو ہر دور میں بلند ہوتی رہے گی، حسین رضی اللہ تعالٰی عنہ ایک تہذیب ہے اور معیار ہے شرافت ک.
موجودہ دور میں جب یزیدی دور سیاست اپنے تمام تر ہتھکنڈوں کے ساتھ ایک مرتبہ پھر پوری مسلم دنیا کو اپنے تسلط میں لے چکا ہے اور اس کی سیاہ رات کے سائے روز بروز گہرے ہوتے جارہے ہیں اور اسی کے نتیجہ کے طور پر اس وقت تمام مسلم حکمران باطل کے حاشیہ نشینوں میں باقاعدہ شامل ہوچکے ہیں جس کے باعث ملت اسلامیہ اس وقت ہر جگہ یہود و ہنود کے مظالم کی چکی میں پس رہی ہے. بوسنیا، چیچنیا، کشمیر، ہندوستان، فلسطین اور دیگر علاقوں میں خون مسلم کچھ اس قدر ارزاں ہوچکا ہے کہ ان خطوں میں تڑپتے لاشے، فضائوں میں اڑتے انسانی اعضاء، بوڑھی مائوں کی آہیں، معصوم بچوں کی چیخیں جن سے فلک بوس پہاڑ بھی لرز رہے ہیں لیکن امن عالم کی نام نہاد داعی اقوام متحدہ میں بیٹھے ہوئے یہودیوں کو یہ آوازیں سنائی نہیں دیتیں ان حالات میں ملت اسلامیہ کے لئے بقاء اور نجات کا راستہ وہی ہے جو امام عالی مقام رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اختیار کیا تھ. اب پوری ملت اسلامیہ کو یہ نوشتہ دیوار پڑھ لینا چاہئے کہ اس خطہ ارضی بالخصوص پاکستان کو اس وقت تک اقوام عالم کی صفوں میں باعزت مقام نہیں دلایا جاسکتا جب تک یزید کی معنوی اولاد اور طاغوت کے نمائندہ سیاست دانوں سے چھٹکارا حاصل نہیں کرلیا جاتا، مصطفوی انقلاب ایک مرتبہ پھر کسی حسین کو معرکہ کربلا بپا کرتے دیکھنا چاہتا ہے. خون حسین رضی اللہ تعالٰی عنہ آج بھی ملت اسلامیہ کو پکار پکار کر صدائیں دے رہا ہے کہ اے اسلام کا نام لینے والو! میرے نانا محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی غلامی کا دم بھرنے والو! اور ہر سال محرم الحرام کے دنوں میں میرے یوم شہادت کے دن منانے والو! تم کب مصطفوی انقلاب کے لئے بیدار ہوگے، کب ظالم کے دست تظلم کو مروڑ کر توڑ دو گے، کیا اب بھی ملت کی رسوائی و بے توقیری میں کوئی کسر باقی ہے. تم کب بے حمیت، بے غیرت اور بے حس حکمرانوں کو ان کے ایوانہائے اقتدار سے اٹھاکر پائوں کی ٹھوکر سے مار بھگائو گے؟
اے روح حسین رضی اللہ تعالٰی عنہ ، آج ہم اس بات کا عہد کرتے ہیں کہ جو آپ نے اپنے سر اقدس اور معصوم بچوں کی قربانی دے کر ظلم کے خلاف ڈٹ جانے کا عملی درس دیا ہے ہم ان شاء اللہ اس کو پھر یاد کرتے ہوئے آپ کے نقوش پاکو اپنے لئے خضر راہ بنائیں گے.
یزیدی دور سیاست لپیٹا جائے گا
صدا حسین رضی اللہ تعالٰی عنہ کی گونجی ہے رہبر بن کر
وہ اور کشتیاں ہوں گی ڈبودیا جن کو تم نے
ہماری راہ میں آنا کبھی بھنور بن کر