گزشتہ سے پیوستہ
اس طرح حضرت ایوب ں پر ایک ایسی بیماری طاری کی کہ پورے جسم میں کیڑے ڈال دیئے۔ سر سے پاؤں تک سارے جسم پر جگہ جگہ کیڑے تھے، کتنی شدیدبیماری تھی۔ اب کوئی شخص یوں سوچے کہ (معاذ اللہ) اگر اللہ کے اتنے محبوب تھے تو اتنی بڑی بیماری کیوں آئی؟ تو یہ اس کے ایمان کی کمزوری ہے۔ اسے اس بات کا علم ہی نہیں کہ اللہ کا معاملہ اس کے محبوبوں کے ساتھ کیا ہوتاہے۔ یہ اللہ کے قاعدے کے راز اور اس کی حکمتیں نہیں جانتے۔ مَیں ابھی یہی نکتہ سمجھا رہا ہوں کہ اللہ کے پاک بندوں کے معاملات کو اپنے اوپر قیاس نہ کیا کرو۔ یہ اس کے راز ہیں کہ وہ جیسے حال میں چاہتا ہے اپنے بندوں کو رکھتا ہے اور ان پر مصائب و آلام طاری کرتا ہے۔ رنج، مصیبت اور صبر آزما مرحلوں میں سے گزار کر ان کے درجے بلند کردیتا ہے۔ جیسے حضرت ایوب علیہ السلام کے جسم میں کیڑے اتنے پڑے کہ کیڑوں کے ساتھ حضرت ایوب ں کے دل میں محبت ڈال دی۔ اب سخت تکلیف کے باوجود حالت یہ ہوگئی کہ جو کیڑا نیچے گرجاتا حضرت ایوب ں اسے اٹھا کر پھر زخم میں رکھ دیتے۔ اور اس سے کٹواتے، سارا جسم کیڑوں سے چھلوایا۔ صرف آنکھیں بچ گئی تھیں۔
کاگا میرا سب تن کھائیو چُن چُن کھائیوماس
پر میرے دو نینن نہ کھایؤ مجھے پیا ملن کی آس
محبوب کی خاطر محبوب کی طرف سے جو سزا ہوتی ہے اہلِ محبت کو اس میں بھی لذت ملتی ہے۔ ہماری مصیبت اور ہے محبت والوں کی مصیبت اور ہے یہی وجہ ہے کہ حضرت ایوب علیہ السلام کیڑے کو اٹھا کر زخم پر رکھ دیتے۔ طویل مدت تک مرض باقی رہی۔ بڑے عرصے کے بعد اللہ پاک نے شفا یابی عطا فرمائی۔ جب صحت یاب ہوگئے تو لوگوں نے پوچھا حضرت اب صحت یابی کا زمانہ کیسا ہے؟ فرمایا: اللہ کا شکر ہے۔ اس وقت کی نعمت پر اللہ کا شکر بجا لاتا ہوں مگر اللہ کی عزت کی قسم! جو مزہ کیڑے والی بیماری میں تھا وہ صحت یابی میں نہیں ہے۔ جو لذت اس وقت آتی تھی آج بھی اس لذت کو ترستا ہوں۔
پوچھا وہ لذت کیا تھی؟ فرمایا: لذت کا سبب یہ تھا کہ ہر روز ایک بار صبح اور ایک بار شام جب تکلیف شدید تھی تو میرا رب پیار بھری آواز سے خود پوچھتا کہ بتاؤ ایوب کیسا حال ہے؟ ایوب کیسا مزاج ہے؟ جب میرا رب اپنی پیار بھری آواز سے خود میری مزاج پرسی کرتا تو خدا کی قسم! سارا دن اسی نشے، مستی اور بے خودی میں گزر جاتا اور شام کو انتظار رہتا کہ رات ڈھلے تو پھر محبوب کا پیغام آئے۔ رات ڈھلنے سے پہلے وہ پھرایک بار پوچھتا کہ ایوب کیسا حال ہے؟ پھر شام کی مزاج پرسی سے رات نشے میں گزر جاتی تھی، صبح کی مزاج پُرسی کے نشے میں دن گزر جاتا۔ اب جب سے صحت یاب ہوگیا ہوںتو کان اس لذت والی آواز کو ترس گئے ہیں۔ جو مزہ مزاج پرسی میں تھا وہ صحت یابی میں نہیں ہے۔ آپ نے دیکھا کہ تکلیف اور مصیبت میں خاص کیفیات وارد کی جاتی ہیں، خاص واردات ہوتی ہیں، خاص انعامات سے نوازا جاتا ہے۔ اللہ کا بندہ خاص نوازشوں سے نوازا جاتا ہے، عام انسانوں کو ان کی خبر ہی نہیں ہے۔ ایک حدیث پاک میں آتا ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’میرے بندے! اگر میں تم پر بَلا نازل کروں اور بیمار کروں تو اس کے دو انجام ہوسکتے ہیں۔ موت آجائے یا صحت یاب ہوجائے۔ اگر موت آجائے تو اس بیماری کے اندر سیدھی جنت عطا کرتا ہوں، اگر صحت یاب ہوجائے تو پہلے جسم سے بہتر جسم دیتا ہوں، پہلے خون سے بہتر خون دیتا ہوں، پہلے حال سے بہتر حال دیتا ہوں‘‘۔ اس کا معاملہ ہی بندے کے ساتھ جدا ہوتا ہے تو میں یہ عرض کر رہا تھا کہ اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے بندے پر مصیبت کے مرحلے ڈالتا ہے۔ پھر صبر کی مشقتوں اور صبر کی چکی میں سے اسے گزارتا ہے۔ اس چکی میں بندے کو کیا مزہ آتا ہے یہ وہی جانتا ہے جو چکھ رہا ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس پر اپنی نوازشات کے دروازے کھول دیتا ہے۔
جیسے روزہ ہے اب نماز میں مشقت اور تکلیف زیادہ ہے یا روزے میں( جسمانی اعتبار سے) ورنہ تو اللہ کے حکم کی تعمیل میں تکلیف کا تصور نہیں ہے۔ لامحالہ روزے میں تکلیف نماز سے چونکہ بڑھ کر ہے تو اس کا اجر بھی اسی حساب سے ہے۔ نمازوں اور دیگر اعمال کا ثواب سو گنا سے لے کر سات سو گنا تک ملتا ہے اور ایک حد پر جاکر اجررک جاتا ہے مگردن بھر محبوب کی خاطر بھوکے پیاسے رہنے کا اجر اللہ تعالیٰ بعدکے لئے روک لیتا ہے کیونکہ وہ فرماتا ہے کہ روزہ میرے لئے ہے اور میں اس کا ثواب اپنی مرضی سے جتنا چاہوں گا دوں گا۔ دنیا کی آنکھ اس تک نہیں پہنچ سکتی۔ جس کا اجر اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ دیا جس کے بارے میں حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
للصائم فرحتان يفرحهما اذا افطر فرح، واذا لقی ربه فرح بصومه.
(صحيح بخاری)
"جب روزے دار بھوک پیاس کی تکلیف اُٹھاتا ہے تو میں اسے دو فرحتیں دیتا ہوں (اور میں اسکا معنیٰ کروں گا۔ دو شربت دیتا ہوں)۔ ایک اسے شام کے وقت شر بت افطار دیتا ہوں۔ ایک شربت دیدار دیتا ہوں۔"
شربتِ افطار ہر انسان کو دیتا ہوں۔ جس سے وہ شخص اپنے سینے کو ٹھنڈا کرتا ہے اور مرنے کے بعد شربتِ دیدار دوں گا جس سے آنکھوں کو ٹھنڈا کرے گا‘‘۔ معلوم ہوا جس عبادت میں تکلیف بڑھ گئی اس عبادت میں کرم و احسان بڑھ گیا۔ اے بندے کاش یہ راز تیری سمجھ میں آجائے اور تو مولا کے لئے تکلیفیں اُٹھانے والا بن جائے۔ پھر صبر و شکر کی زندگی گزارنے والا بن جائے۔
اگلا سوال یہ ہے کہ روزے میں تکلیف زیادہ یا شہید ہونے میں؟ روزے میں صبح سے شام تک تکلیف رہی کہ حلق خشک ہوا۔ زبان باہر نکلی۔ گرمی میںشدید پیاس لگی، پریشانی ہوئی مگر جان تو بچ گئی۔ یہاں چونکہ جان بچ گئی۔ لہذا دیدار بھی اُدھار رکھ لیا۔ اس لئے فرمایا کہ جب میرے پاس آؤ گے دیدار دوں گا۔ مگر شہید ہونے میں چونکہ تکلیف کی آخری حد ہے کہ گلا کٹ گیا۔ چونکہ تکلیف بڑھ گئی تو اجر بھی بڑھ گیا۔ وہاں ادھار تھا مگر یہاں دیدار نقد ہے کہ ادھر تلوار تیرے گلے پر چلے، ادھر گولی تیرے سینے پر لگے تو ادھر پردے اُٹھا دوں گا اور روح قبض ہونے سے پہلے دیدار عطا کر دوں گا۔ ایسی لذت دوں گا کہ قیامت کے بعد جنت میں ہر کوئی خوش ہوگا سوائے شہید کے۔ باری تعالیٰ پوچھیں گے کہ ہر ایک خوش ہے۔ تم کیوں چپ چپ ہو؟ تم کیا چاہتے ہو؟ وہ کہے گا، باری تعالیٰ جو میں چاہتا ہوں وہ تیری جنت میں نہیں ہے۔ تیری جنت میں شراب طہور ہے۔ تیری جنت میں حور و قصور ہے۔ محلات ہیں۔ نہریں ہیں۔ سب کچھ ہے یہ تیرے جنتیوں کے لئے سلامت، تیری جنت کی خیر۔ تیری نعمتوں کی خیر، مگر میں تو کسی اور شے کا طالب ہوں۔ باری تعالیٰ فرمائے گا کیا چاہتے ہو؟ وہ عرض کرے گا مولا واپس جانا چاہتا ہوں۔ جنت سے نکلنا چاہتا ہوں۔ فرمائے گا ساری دنیا جنت میں آنا چاہتی ہے اور تم جنت سے نکلنا چاہتے ہو۔ کیوں؟ شہید عرض کرے گا باری تعالیٰ واپس دنیا میں بھیج۔ اس لئے کہ جو لذت گلہ کٹتے وقت آئی تھی وہ تیری جنت میں نظر نہیں آتی۔ وہ جب تلوار چلی تھی گلے پر، وہ جب گولی لگی تھی سینے پر اور شہادت کا جام پیا تھا، اس لمحے جس شان کے ساتھ تیرا دیدار نصیب ہوا تھا۔ وہ تیری جنت میں نظر نہیں آتا۔ دل چاہتا ہے بار بار دنیا میں بھیج اور بار بار یہ گردن کٹتی رہے اور تیرا دیدار ہوتا رہے۔ نکتہ یہ سمجھ میں آیا کہ تکلیف جتنی بڑھ جائے مزہ اتنا بڑھ جاتا ہے۔ مصیبت جتنی بڑھ جائے کرم اتنااور زیادہ ہو جاتا ہے۔ یہ راز ہے اللہ کے بندوں کے لئے۔ ایک اور اہم نکتہ کہ اس کا مطلب یہ نہ سمجھ لیاجائے کہ اللہ کے بندے کے پاس تصرف نہیں ہوتا۔ جسے (معاذاللہ) کوئی یہ سمجھے کہ اللہ کے بنی حضرت یوسف علیہ السلام کے پاس طاقت ہوتی تو نو سال جیل میں پڑے رہتے۔ طاقت ہوتی تو حضرت یعقوب علیہ السلام رو رو کریوں آنکھیں سفید کر بیٹھتے۔ طاقت ہوتی تو یوں حضرت ایوب علیہ السلام کے جسم میں کیڑے پڑ جاتے۔ یہ بھی سوچ کا ایک رخ ہے۔ ارے نہ یہ طاقت کی بات ہے، نہ کسی اور شے کی۔ یہ تو راز ہی کچھ اور ہے اور آپ نے کیا سے کیا بنا دیا۔
اس بات کو اچھی طرح سمجھ لیں کہ تصرف اوروں کے لئے ہوتا ہے اپنی ذات کے لئے نہیں۔ اپنی ذات اپنے محبوب کے سپرد کر دی جاتی ہے۔ یہ طاقتیں اللہ عطا کرتا ہے۔ ہاتھ اُٹھایا تقدیر بدل گئی۔ توجہ کیا حال بدل گیا۔ زبان سے کلمہ کہا احوال بدل گئے۔ یہ سب حال قائم ہوتے ہی اوروں کیلئے ہیں۔ اگر اپنی خاطر استعمال کرنے لگیں تو دوستی تو نہ رہی۔ اپنے لئے صبر ہوتا ہے۔ تصرف کے اس عالم کے بارے میں حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ فرماتے ہیں کہ ہم حضرتِ بابا فرید الدین گنج شکر رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کی خدمت میں تھے۔ آپ درویش کے مقا م پر گفتگو فرمارہے تھے کہ درویش کیا ہوتا ہے؟ فرمایا: درویش وہ ہے جو اپنے آپ کو ہر اعتبار سے محبوب کے سپرد کردے۔ یہ گفتگو ہورہی تھی کہ ایک بڑھیا مائی روتی پیٹتی اندر آئی۔ حضرت بابا فرید الدین گنج شکر رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے فرمایا: مائی کیا بات ہے؟ عرض کیا کہ بیس برس ہوگئے میرا بیٹامجھ سے جدا ہوگیا۔ چھوٹا بچہ تھا اب معلوم نہیں کہ زندہ ہے یا مر گیا؟ دعا کر دیں کہ اللہ اپنا کرم کر دے وہ مل جائے۔ خواجہ نظام الدین اولیاء رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ فرماتے ہیں کہ حضور بابا صاحب رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے مراقبہ کیا، آنکھیں بند کیں اور فرمانے لگے مائی جا۔ بچہ تیرا زندہ ہے آجائے گا۔ مائی اپنے گھر چلی گئی اور ابھی تھوڑا ہی وقت ہوا تھا کہ دروازے پر دستک ہوئی۔ اس نے پوچھا کون؟ دستک والے نے کہا اماں تمہارا بیٹا ہوں۔ وہ دوڑ کر باہر نکلی، بچے کو پہچانا سینے سے لگایا، پیار کیا اور پوچھا کہ تم کہاں تھے؟ اور بیس سال کے بعدکس طرح آگئے؟ اس نے کہا: اماں جان میں ابھی تھوڑی دیر پہلے ڈیڑھ ہزار میل کے فاصلے پر تھا۔ میں دریا کے کنارے نہانے کے لئے گیا تھا۔ جہاں مجھے آپ کی یاد آگئی اور رونے تڑپنے لگ گیا۔ زار و قطار رو رہا تھا کہ اچانک دریا کے کنارے ایک سفید ریش بزرگ نمودار ہوئے۔ انہوں نے مجھ سے پوچھا بیٹا کیوں روتاہے؟ میں نے عرض کی حضور! بیس سال ہو گئے ماں سے جدا ہوئے۔ آج بڑی یاد آرہی ہے۔ انہوںنے فرمایا کہ اپنا بازو میرے ہاتھ میں دو۔ میں نے بازو ان کے ہاتھ میں پکڑایا۔ انہوں نے فرمایا کہ آنکھیں بند کر لو میں نے آنکھیں بند کیں، ایک جھٹکا دیا۔ آنکھیں کھولیں تو دروازے پر کھڑا تھا۔ مائی سمجھ گئی کہ یہ حضرت بابا فریدالدین گنج شکر رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ تھے جنہوں نے مراقبہ کر کے یہاں پر پہنچا دیا۔ یہ تصرف ہے مگر جب اپنا معاملہ آئے تو سب کچھ مولا کے سپرد کردیتے ہیں تاکہ صبرمیں درجے ملیں۔
حضرتِ شیخ ابو الحسن خرقانی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ جو اکابر اولیا ء اللہ میں سے ہو گزرے ہیں۔ ان کی زوجہ محترمہ درشت مزاج، تلخ گو، سخت خلق کی خاتون تھی، ہر وقت آپ سے لڑائی جھگڑا کرتی۔ سخت تلخ کلمات ادا کرتی۔ ہر وقت شکایت کرتی۔ آپ رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ پریشان ہوتے مگر صبر کرتے۔ ایک روز آپ جنگل میں تشریف لے گئے۔ پیچھے سے ایک مرید انہیں ملنے کے لئے گھر آگیا۔ دروازہ کھٹکھٹایا تو حضرتِ شیخ خرقانی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کی زوجہ محترمہ نے اندر سے پوچھا کون ہے؟ کیسے آیا ہے؟ مرید تھا عرض کیا کہ حضرت کی زیارت کے لئے آیا ہوں۔ وہ اندر سے بولی تمہارے حضرت کو مجھ سے بہتر کون جانتا ہے؟ کیوں زندگی بر باد کر رہے ہو؟ جاؤ کسی اور کے پاس۔ وہ مرید بھی ہمارے اور آپ جیسا نہیں تھا اگر ہم اور آپ میں سے کوئی ہو تا تو شیخ کی بیوی کی زبان سے یہ سن لیتا تو فوراً یہ نتیجہ اخذ کرتا کہ جس کی بیوی اس کی عقیدت مند نہیں اس سے ہم کیا خاک عقیدت مندی اختیار کریں اور چھوڑ کے وہیں سے واپس گھر چلے جاتے۔ مگر وہ اصل مرید تھا اور پکی ریاضت والا تھا۔ وہ واپس گھر نہیں مڑا بلکہ رونے لگا اور شیخ کے پیچھے چل پڑا۔ جنگل میں پہنچا جہاں شیخ گئے تھے۔ جیسے ہی حضرت شیخ ابو الحسن خرقانی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ سامنے نظر آئے تو دیکھتا ہے کہ وہ شیر پر سوار چلے آرہے ہیں اور سانپ کا کوڑا بنا کر ہاتھ میں رکھا ہوا ہے جسے لہرا رہے ہیں۔ حضرت شیخ اسے دیکھ کر مسکرائے اور فرمایا: روتا کیوں ہے؟ عرض کی حضرت آپ کی زوجہ محترمہ کی زبان سے ایسی ایسی باتیں سن کر آیا ہوں۔ فرمایا: یہ جو درجہ اور مقام دیکھ رہے ہو یہ اسی صبر کا نتیجہ اللہ تعالیٰ نے عطا فرمایا ہے۔ (یعنی شیر کو جو تابع بنا دیا اور سانپ کو چابک بنا دیا یہ اس دائمی صبر کا نتیجہ ہے) کہ بعضوں پر مصیبت ایک دن کے لئے آتی ہے۔ بعضوں پر دو دن آتی ہے۔ بعضوں پر ہفتے اور مہینے کے لئے آتی ہے۔ لیکن میرے اوپر یہ امتحان پوری زندگی کا طاری کر دیا۔ ایک ایسی خاتون سے شادی ہوئی جس کو ایسا مزاج دیا کہ ساری زندگی کا امتحان کردیا۔ اگر صبر کا دامن ہاتھ سے چھوڑبیٹھتا تواس درجے سے محروم ہوجاتا۔
معلوم ہوا اللہ کے بندوں اور ایمان والوں پر مصیبت آتی ہے اور اللہ کی خاطربندہ صبر کرتا ہے تو اللہ پاک اس کے درجے بلند کردیتا ہے۔ اپنی بارگاہ میں محبوبیت اور مقربیت عطاکرتا ہے۔ اور اگر انسان صبر کے دامن کو چھوڑ دیتا ہے تو انسان ڈگمگا جاتا ہے۔ اس لئے آپ نے اگر ایمان کی لذت و حلاوت اور ایمان کے لطف کا مزہ چکھنا ہے تو اللہ کے ساتھ بندگی کا ایسا ہی رشتہ اختیار کرنا ہوگا۔ ہم مصائب میں صبر کے قابل نہیں مگر اللہ کی طرف سے کوئی صورت ہوجائے تو دوستو! بندگی کا حق یہ ہے کہ کبھی شکوہ زبان و دل پر نہ آئے۔ دوستی یہ ہے کہ سلامت رکھے تو سلامت رہو، بیمار رکھے تو بیماری میں خوش رہو، تندرست رکھے تو تندرستی میں خوش رہو، ہنسا کے رکھے تو ہنستے رہو، رولا دے تو رو کے خوش رہو، کھلائے تو کھا کے خوش رہو، بھوکا رکھے تو فاقے میں خوش رہو، جینا دے تو جی کر خوش رہو، مار دے تو مرنے میں خوش رہو، عزت دے تو عزت میں خوش رہو، ظاہراً ذلت دے تو ظاہری ذلت میں خوش رہو، اس لئے کہ خوشیاں دنیاوی احوال میں نہیں ہیں۔ خوشی تو وہ ہے جو مولا کی خوشی میں ہے۔ محبوب خوش ہے تو ساری خوشیاں ہیں۔ بندگی اور دوستی یہ ہے کہ بندہ ہر حال میں اللہ کا صابر و شاکر بندہ بن کر رہے اور اگر صابر و شاکر بندہ رہنا ہم نے سکھ لیا تو یقینا پھر سب اللہ کی نوازشیں اور اُس پر احسانات و انعامات کی اتنی بارشیں ہونگی کہ زندگی کے رخ بدل جائیں گے۔
اللہ تبارک و تعالیٰ ہمیں اپنی بندگی اور دوستی کی یہ معرفت عطا فرمائے۔ (آمین)