نبی آخر الزماں، آقائے دوجہاں، فخر کون و مکاں، باعث تخلیق انساں، سائر لامکاں حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جو تمام جہانوں کے لئے رحمت بن کر آئے اور جن کو اﷲ تعالیٰ نے تمام بنی نوع انسان کی طرف قیامت تک اپنا رسول اور محبوب بنا کر بھیجا۔ جن کی رحمت بے پایا ں سے اپنے ماننے والوں کے علاوہ غیروں (نہ ماننے والوں )نے بھی فائدہ اٹھا یا جبکہ گزشتہ انبیاء و رسل کی امتیں اپنی نافرمانی، ہٹ دھرمی اور کفرو شرک کے باعث مختلف قسم کے عذابوں سے دوچار ہوئیں، کسی قوم کی صورت کو مسخ کردیا گیا، کسی قوم پر طوفان کا عذاب امڈ آیا، کسی قوم کی بستی کو الٹ دیا گیا، کسی قوم کو دریا برد کر دیاگیا، کوئی قوم کسی مہلک بیماری میں مبتلاء ہو کر ہلاک ہوگئی، مگر رسول رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے وجود مسعود کی برکت سے مکہ کے کفارو مشرکین اپنی نافرمانی، سرکشی، بغاوت، مخالفت و مخاصمت اسلام اور دشمنی رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے باوجود دنیامیں مذکورہ بالا قسم کے عذاب سے محفوظ و مامون رہے کیونکہ محبوب خدا نے ان کے لئے کبھی بد دعا نہیں فرمائی۔ حالانکہ کفار و مشرکین نے خود عذاب الٰہی کو دعوت بھی دی تھی، جسکا ذکر قرآن حکیم فرقان مجید کی سورۃ الانفال کی آیت نمبر 32ور 33 میں اس طرح کیا گیا ہے:
’’اور جب انہوں نے (طعناً)کہا : اے اﷲ ! اگر یہی (قرآن )تیری طرف سے حق ہے تو (اس کی نافرمانی کے باعث ) ہم پر آسمان سے پتھر برسا دے یا ہم پر کوئی درد ناک عذاب بھیج دے Oاور (درحقیقت بات یہ ہے کہ ) اﷲ کو یہ زیب نہیں دیتا کہ ان پر عذاب فرمائے درآنحالیکہ (اے حبیب مکرم !) آپ بھی ان میں (موجود) ہوں اور نہ ہی اﷲ ایسی حالت میں ان پر عذاب فرمانے والا ہے کہ وہ ( اس سے ) مغفرت طلب کر رہے ہوں ‘‘ (عرفان القرآن)
ایک مرتبہ پیغمبر امن و سلامتی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے صحابہ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہ نے عرض کیا کہ یا رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ مشرکین کے خاتمے کے لئے بد دعا کریں جس پر رسول رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جوارشاد فرمایا وہ الفاظ سنہرے حروف سے لکھے جانے کے قابل ہیں : فرمایا ’’میں لعنت کرنے والا نہیں بلکہ میں توصرف رحمت بنا کر بھیجا گیا ہوں۔ ‘‘ اسی طرح پیغمبر اعظم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے جانثار صحابی حضرت طفیل بن عمرودوسی رضی اللہ تعالٰی عنہ کو قبیلہ دوس کی طرف دعوت اسلام کے لئے بھیجا۔ انہوں نے واپسی پر بارگاہ مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں رپورٹ پیش کی کہ قبیلہ دوس ہلاک ہوجائے کہ انہوں نے نافرمانی کرتے ہوئے دین اسلام قبول کرنے سے انکار کردیا ہے۔ یہ سن کر دیگر صحابہ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہ جو مجلس میں موجود تھے گمان کرنے لگے کہ شاید رسول محتشم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کے لئے بد ددعا کریںگے مگر پیغمبر اسلام کے دہن مبارک سے جو الفاظ موتی بن کر نکلے وہ آج بھی ہمارے لئے مشعل راہ ہیں۔ فرمایا: باری تعالیٰ قبیلہ دوس کو ہدایت عطافرما اور اس کو دائرہ اسلام میں داخل ہونے کی توفیق عطا فرما ‘‘۔
اس طرح کے کئی واقعات ہیں جن سے تاریخ، حدیث اور سیرت کی کتب بھری پڑی ہیں۔ یہاں قرآن و حدیث کو کوٹ کرنے کا مقصد یہ ہے کہ وہ عظیم ذات، ہستی اور شخصیت جو محسن انسانیت ہیں جن کی رحمت سے یہودونصاریٰ اور ان کے آباؤ اجداد بھی مستفید ہوئے۔ ان کے خلاف ہرزہ سرائی کرتے ہوئے بیہودہ، فرسودہ اور دلخراش فلم بنانے سے یہودو نصاریٰ اسلام دشمنی، بغض و عداوت، حسد و عناد اورمسلمانوں کے خاتمے کی عالمی سازش بے نقاب ہوگئی ہے۔ یہ عمل انتہائی انسانیت کش، ضلالت، انتہا پسندی، دہشت گردی پر مشتمل ہے۔ اورامن و سلامتی کا جنازہ نکالنے کے مترادف ہے جسکی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔
اس پر مستزادیہ کہ اسے آزادی اظہار رائے کانام دیکر اپنے گستاخ فلم ساز کے گناہ عظیم پر پردہ ڈالا جارہا ہے۔ لیکن انکی روشن خیالی اور آزادی اس وقت منافقت میں تبدیل ہوجاتی ہے جب انکا یہ قانون سامنے آتا ہے کہ ہو لوکاسٹ کے واقعے کی نفی یا تردید جسمیں پچاس یا ساٹھ ہزار سے زائد یہودی مارے گئے کی یا ہلاک شدگان کی تعداد کو کم ظاہر کرنا اس نہ کوئی کتاب لکھی جاسکتی ہے نہ کوئی فلم بن سکتی ہے نہ اظہار رائے کیا جاسکتا ہے۔ ایسا کرنے والا مجرم ہوگا اور اسے سزا دی جائے گی۔ یہ دوغلہ پالیسی، دوہرا پن، منافقت اورکھلی دہشت گردی نہیں تو اور کیا ہے کہ اپنے لئے ایک قانون اور اہل اسلام کے لئے دوسرا۔
غیر مسلموں کی طرف سے توہین رسالت اور توہین انبیاء کا سلسلہ کوئی نیا نہیں ہے۔ کبھی گستاخ پادری ٹیری جونز قرآن پاک کو جلانے کی جسارت کرتا ہے، کبھی ملعون رشدی توہین آمیز کتاب لکھتا، کبھی گستاخانہ خاکے بنائے جاتے ہیں اور اب ’’ انوسنس آف مسلمز ‘‘ کے نام سے جو گستاخانہ فلم بنائی گئی ہے۔ ایک خبرکے مطابق ایک یہودی نے اپنی لابی سے چند ہ اور مالی امداد اکٹھی کرکے بنائی ہے۔ امریکہ میں فلمائی گئی اس قبیح فلم میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کردار کشی کرتے ہوئے حقیقت کے بالکل بر عکس انہیں قتل و غارت کا شوقین ظاہر کیا گیا ہے۔ یہ فلم جون کے آخر میں بنی اوراسے امریکہ کے ایک چھوٹے سے سینما گھر میں دکھایا گیا۔ جب اسے پذیرائی نہ ملی تو اس کے ٹریلرکو یو ٹیوب پر چلایا گیا اور اسکا ترجمہ عربی میں کیا گیا جس کی وجہ سے یہ فلم عام ہوگئی۔ اس فلم کے بارے میں کئی تضاد ات اوراصل حقائق سامنے آئے ہیں۔ جس سے اس کی اصل حقیقت روز روشن کی طرح عیاں ہوجاتی ہے یہ تضادات اور حقائق کچھ اس طرح ہیں:۔
-
اس نام نہاد فلم کی ایک اداکارہ جسکا تعلق کیلی فورنیا سے ہے اور اس کا نام ’’سنڈی لی گارسیا‘‘ہے نے ایک ویب سائٹ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اسے اس فلم کے بارے میں کہا گیا تھا کہ اس کا نام’’صحرائی جنگجو‘‘ ہوگا اور یہ آج سے دو سال قبل کے مصر کے بارے میں ہوگی مگر اب معاملہ بالکل الٹ ہے لہٰذا وہ اس کے ڈائریکٹر کے خلاف قانونی چارہ جوئی کریں گی۔
-
میڈیاکے کئی اداروں کے مطابق انہیں فون کرکے کہا گیا کہ فلم کے ہدایت کار کانام ’’ سیم بیسائل ‘‘ ہے جنکی عمر چھپن سال ہے اور وہ اسرائیل سے تعلق رکھنے والے یہودی ہیں اور انہوں نے اس فلم کو تیار کرنے کے لئے مالدار یہودیوں سے کئی بلین ڈالر اکٹھے کئے تھے۔
-
یہ بھی کہا گیاہے کہ فلم کی تشہیر کرنے والے کا نام ’’سٹیو کلائن(Steve Klein)ہے جسکا تعلق امریکہ سے ہے جو انتہاء پسند عیسائی ہے اور اسلام مخالف ہے۔ وہ کہتا ہے کہ ہم نے اس فلم کے ذریعے لوگوں کو خبر دار کیا ہے کہ اگر مسلمانوں کی آبادی امریکہ میں دس فیصد تک پہنچ گئی تو ہم خطرے میں گھر جائیں گے۔ یہ شخص امریکی ٹیلی ویژن کے پروگرام ’’ جاگو امریکہ جاگو ‘‘ کا میزبان ہے۔ جس میں وہ اسلام کے خلاف ہرزہ سرائی کرتا رہتا ہے۔
-
قرآن پاک کو( نعوذ باﷲ )نذر آتش کرنے والے ملعون پادری ٹیری جونز کا کہنا ہے کہ فلم کی تشہیر کے سلسلے میں انکا سیم بیسائل سے رابطہ ضرور تھا مگر وہ ان سے کبھی نہیں ملے۔ اس لئے وہ ان کی شناخت بھی نہیں کرسکتے۔
-
ایک اور اسلام دشمن امریکن نیشنل اسمبلی سے تعلق رکھنے والے’’ مورس صادق‘‘ جو مصری نژاد اور امریکی ہیں کا کہنا ہے کہ اس فلم کی تشہیر میں قبطی عیسائی فرقہ شامل ہے۔
-
ایسوسی اینڈ پریس خبر ایجنسی کے نامہ نگاروں کے مطابق انہوں نے سیم بیسائل کا فون پر انٹر ویو کیا اور اس کے ذریعے کیلی فورنیا کے ایک 56سالہ شخص ’’ہیسلی نکولا ‘‘کا علم ہو ا جس نے اس فلم میں کام کیا تھا وہ قبطی عیسائی ہے اس سے رابطہ کیا گیا تو اس نے فلم کے لئے سازو سامان کی فراہمی اور پروڈکشن میں شامل ہونیکا اقرار کیا۔ مگر ساتھ ہی سیم بیسائل سے لا تعلقی کا بھی اظہار کیا۔ جس سے اس نام کا فرضی ہونا بھی ظاہر ہوتا ہے۔
-
یہ بات بھی منظر عام پر آئی ہے کہ یہ شرمناک فلم بنانے والا امریکی نژاد اسرائیلی باشندہ ہے۔ اس فلم کو بنانے کے لئے اس نے ایک سو یہودیوں سے 5ملین ڈالر چندہ جمع کیا اور اس فلم میں اس نے اداکاروں کے علاوہ دیگر 45افرادکو شامل کیا اور تین ماہ میں کیلی فورنیا میں اس فلم کو مکمل کیا گیا اور تین ماہ پہلے اسے ہالی ووڈ کے ایک تھیٹر پر دکھایا گیا اس کے بعد اس کی عربی زبان میں ڈبنگ کی گئی اور یوٹیوب پر چڑھنے کی وجہ سے منظر عام پر آئی۔
-
میڈیا کی اطلاع کے مطابق یہ گستاخانہ اور توہین آمیز فلم جس کانام ’’Innocence of Muslims‘‘ہے جس ادارے نے بنائی ہے اس کا نام''Media for christ'' ہے جس کے مالک کا نام جوزف نصر اﷲ عبد المسیح ہے اور یہ مصری قبطی ہے۔ یہ شخص طویل عرصہ سے اسلام دشمن سرگرمیوں میں مصروف ہے اور اس کا دوسرا ساتھی جسکا نام ’’مارس صادق‘‘ ہے وہ بھی قبطی ہے اور عرصہ دراز سے مسلمانوں کے خلاف سرگرم عمل ہے۔ اس شخص نے فلم کا انگریزی سے عربی میں ترجمہ کیا اور مصری صحافیوں کو بھی اس کا لنک بھیجا۔ اس بد بخت نے کئی بار اسرائیل سے کہا کہ وہ مصر پر حملہ کر کے وہاں کے باشندوں کو آزادی دلائے اور ملک کو قبطیوں کے حوالے کیا جائے یہی وجہ ہے کہ مصری حکومت نے اسے 2011ء سے مصر سے نکال کر اس کی شہریت منسوخ کردی ہے۔
دوسری طرف مصر میں عیسائی تنظیموں نے اس شرمناک فلم کی مذمت کرتے ہوئے مسلمانوں کے ساتھ مل کر احتجاج کیا۔ قبطی چرچ سے بھی اس کی بھرپور مذمت کی گئی ہے۔ لیبیا کے شہر بن غازی میں مشتعل مظاہر ین نے امریکی سفارتخانے کو نذر آتش کر دیا اورا مریکی سفیر Stevensکوقتل کر دیا گیا جبکہ تین مزید امریکی بھی جھلس کرہلاک ہوگئے اور دس لیبیا کے شہری بھی مارے گئے۔ جس پر امریکی صدر باراک اوباما نے لیبیا کے ساحلوں پر میزائل بردار بحری جہاز بھجواکر فوج کشی کردی جائے۔ غور طلب بات یہ ہے کہ امریکی صدرکواپنے چار افراد کے قتل کا افسوس ہے مگر اسے یہ تو فیق نہیں کہ پوری اسلامی دنیا میں جس شخص نے آگ لگائی اور اشتعال انگیزی کی اس کے خلاف بھی کاروائی کا حکم کرے اور اس اسرائیلی فلم میکر کو کیفر کردار تک پہنچانے کے علاوہ اس فلم پر بھی پابندی لگائے۔ دوسری طرف اس ملعون فلم میکر کو بھی اس قتل و غارت گری اور فسادات پر کوئی افسوس نہیں ہو ابلکہ اس کا کہنا تھا کہ امریکی سفارتخانوں میں سیکیورٹی کے انتظامات کو سخت کیا جائے۔ یہ امریکی یہودی صرف اپنی نہیں بلکہ پوری امریکی قوم کے خبث باطن کا آئینہ دار ہے۔ جس نے فلم میںا س عظیم ہستی کو موضوع بحث بنا یا ہے جو جان کائنات ہے اور جو دنیا بھر کے مسلمانوں کا ملجاوماویٰ ہے۔
ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ اس اشتعال انگیز اور گستاخی رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر مبنی فلم کو 9/11 کے واقعہ کی گیارھویں برسی پر آن ایئر کیا گیا جسکے بعد امت مسلمہ میں غیظ و غضب کی لہر دوڑ گئی اور مصر، یمن، تیونس، مراکش، سوڈان، افغانستان، بنگلہ دیش، اور پاکستان میں اس فلم کے خلاف احتجاجی جلسے جلوس اور ریلیوں کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ کہیں امریکی پرچم نذر آتش کیا گیا تو کہیں سفارت خانہ اور امریکی صدر کے پتلے بھی جلائے گئے۔ پاکستان میں میڈیا پر ٹیبل ٹاک کی گئی۔ اخباروں میں اداریے لکھے گئے اور حکومتی سطح پر گزشتہ جمعۃ المبارک کے دن عام تعطیل کی گئی اور یوم عشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منایا گیا۔ علماء کرام نے جمعۃ المبارک میں تحفظ ناموس رسالت کے حوالے سے جوشیلے خطابات کئے گئے اور جمعہ کے بعد عوام الناس نے سڑکوں پر آکر اپنے جذبہء ایمانی کا مظاہرہ کیا۔ اس حد تک تو درست تھا مگر جو اپنی ہی املاک کو نقصان پہنچایا گیا، اپنی ہی پولیس کے سپاہیوں اور عوام الناس کو مارا گیا۔ انکا کیا قصور تھا ؟ انکے خون کا حساب کون دے گا ؟ بعض شر پسند عناصر کی وجہ سے اس مقدس دن کو خونی دن میں بدل دیا گیا جس کی وجہ سے غیروں کو جگ ہنسائی کا موقع دیا گیا۔ یہی گستاخ فلم ساز کا مقصد تھا۔ اپنے ہی ملک کے پولیس سٹیشنز، پٹرول پمپس اور گاڑیوں کو تبا ہ کیا گیا۔ اس بھیانک عمل کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔ علماء کرام نے اپنے خطابات میںبھی اورحکومت کی سطح پر بھی پر امن مظاہر ے کرنے کا اعلان کیا گیا تھا جس پر اگر عمل در آمد کیا جاتا تو پاکستان کے عوام کے جان و مال کا اتنا نقصان نہ ہو تا۔ ایسا طرز عمل طاغوتی ایجنڈے کو مکمل کرنے کے مترادف ہے۔
اس سے ایک دن قبل ہونے والی تحریک منہا ج القرآن لاہور کی پر امن عظمت مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ریلی اپنے ڈسپلن اور نظم و ضبط کے اعتبار سے مثالی اور قابل تقلید تھی جس میں ہزار ہامردوں کے علاوہ ہزار ہا خواتین بھی شریک ہوئیں اور چھوٹے بچے بھی جنہوں نے انتہائی پر امن اور محتاط انداز میں اپنے جذبات کا اظہار کیا۔ شرکاء نے اسم محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بینرز اٹھا رکھے تھے اور عظمت مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ترانے الاپ رہے تھے یہ ریلی ریلوے اسٹیشن لاہور سے 2 بجے دن شروع ہو کر 5 بجے جی پی او چوک پر اختتام پذیر ہوئی اور آخر میںتحریک کے ناظم اعلیٰ ڈاکٹر رحیق احمد عباسی نے بجا فرمایا کہ لاہور کی سب سے بڑی احتجاجی ریلی کے باجود نہ کسی کی دل آزاری ہوئی نہ املاک کی تباہی اور پھر شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے اس موقع پر خصوصی خطاب کرتے ہوئے جس انداز سے شرکاء اور بالخصوص میڈیا اور عالمی برادری کو امن کا پیغام دیا وہ بھی اپنی مثال آپ ہے ریلی کے آخر میں دورو یا سڑک پر نماز عصر کا باجماعت پڑھا جانا اور ملک وقوم اور عالم اسلام کی سلامتی کی دعاپر ریلی کا اختتام بھی منہاج القرآن کے اسم با مسمی ہونیکی غمازی کرتا تھا مگر جو کچھ اگلے دن جمعۃ المبارک کویوم عشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مناتے ہوئے سیرت مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بھلا کر انہی سڑکوں پر نمازوں سے بے پرواہ ہو کر جس طرح توڑ پھوڑ کی گئی اور جس بے حسی کا مظاہرہ کیا گیا اس پر دل خون کے آنسو روتا ہے جس سے عالمی میڈیا میں اہل اسلام کے بارے میں غلط تاثر قائم ہوا۔
اگر اس بیہودہ، فلم کے پس منظر اور مقاصد کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ دنیا کے امن کو تباہ کرنے کی عالمی سازش ہے کیونکہ دشمنان اسلام پہلے خود مسلمانوں کے جذبات سے کھیلنے کا واقعہ رونماکرواتے ہیں پھر اس کی تشہیر کرتے ہیں اور پھر اس کے رد عمل کے نتیجے میں اپنے سیاسی مقاصد حاصل کرتے ہیں۔ یہی معاملہ دیکھ لیں اس فلم کو پہلے صہیونیوں نے فنانس کرواکر مکمل کروا یا پھر اسے چپکے سے ریلیز کروایا پھر بھی مقاصد پورے نہ ہوئے تو اسکا عربی میں ترجمہ کروا کر بعض ممالک کے TVچینلز پر چلوایا اور پھر اس کے کچھ حصے یوٹیوب اور بعض ویب سائٹ پر بھی ڈاؤن لوڈ کروادئیے گئے جس کی وجہ سے آج پورا عالم اسلام سراپا احتجاج بن چکا ہے۔ لہٰذا اس کا اصل مقصد بین المذاہب تصادم کے علاوہ عالمی جنگ کو دعوت دینا ہے یہی وہ گھناؤنی سازش ہے جسے دنیا کی سپر پاور امریکہ سمیت عالم مغرب نے تیار کیا ہے۔ اگر امریکہ اور عالم مغرب ایک اور جنگ عظیم سے بچنا چاہتا ہے اور ثابت کرنا چاہتا ہے کہ اس طرح کی سازش تیار نہیں کی جارہی تو پھر اسے فوری طور پر اس اشتعال انگیز فلم پر پابندی عائد کرنا ہوگی اور اس کے تیار کرنے والے تمام افراد اور ان کو فنانس کرنے والے تمام لوگوں پر فوری مقدمہ دائر کرنا ہوگا۔ ہر مسلمان کے دل کی آوازیہی ہے اور عالمی سطح پر ویب سائٹ اور یوٹیوب سے اس فلم کے حصے خارج کئے جائیں اور آئندہ بھی اس کی تشہیر پر پابندی لگا دی جائے۔
عالم اسلام کے حکمرانوں کو چاہیے کہ وہ فوری طور پر او آئی سی کا اجلاس بلا کر مشترکہ لائحہ عمل اختیار کریں اور تمام اسلامی ممالک کو ساتھ ملا کر سفارتی سطح پر مذاکرات کے ذریعے عالمی عدالت میں مقدمہ دائر کریں اور مطالبات منوائیں۔ بالخصوص UNOمیں ایک ایسا قانون بنا یا جائے جس کی رو سے کسی بھی نبی اور رسول کی گستاخی کرنا بین الاقوامی جرم قرار پایا جائے اور مجرم کو فوری کیفر کردار تک پہنچایا جائے۔
حیرت کی بات یہ ہے کہ اس شر انگیز فلم کے خلاف دنیا بھر میں مسلمان احتجاج کر رہے ہیں۔ پچاس اسلامی ممالک ہیں اور تقریبا سوا ارب مسلمان ہیں جو سب مل کر ابھی تک فلم ساز، اس کے معاونین اور تشہیر کرنے والوں کو سزا نہیں دلوا سکے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ جونہی یہ دلخراش واقعہ رونماہوا تو تمام اسلامی ممالک ایک مشترکہ کانفرنس بلاتے اور امریکہ سے اس فلم پر پابندی لگانے اور اسمیں ملوث افراد خواہ وہ اسرائیلی ہیں یا امریکی انکو گرفتار کرکے عدالت میں مقدمہ چلانے اور اسلامی شریعت کے مطابق سزا دینے کا بھر پور مطالبہ کرتے اورمسلمانان عالم کے جوجذبات مجروح ہوئے ہیں انکا ازالہ کیا جاتا مگر اسلامی حکومتیں، او آئی سی اور تمام حکمران اس میں ناکام رہے جسکی وجہ سے عوام الناس کو سڑکوں پر نکلے اور شر پسندوں کو اپنی ہی جان و مال کوضائع کرنے کا موقع ملا اور وہ دلخراش اور روح فرسا واقعات بھی پیش آئے جسکا اوپر ذکر ہو چکا ہے۔
ایک اور اہم بات یہ بھی ہے کہ گورنمنٹ آف پاکستان کو بالخصوص اپنے اندورنی اور داخلی معاملات پر گہری نظر رکھنا ہوگی کیونکہ امریکی انتظامیہ ڈرون حملوںکے باوجود کافی عرصہ سے پاکستان کے شمالی علاقہ وزیرستان میں فوجی آپریشن کے حوالے سے دباؤ ڈال رہی ہے۔ اب اس اشتعال انگیز امریکی فلم کے رد عمل سے فائدہ اٹھاتے ہوئے امریکہ اپنے مذموم مقاصد پورے کرے گا کیونکہ ماضی میں بھی ایسا ہوتا رہا ہے۔ سلمان رشدی سے لیکر ٹیری جونزتک سب کو امریکی اشیر باد حاصل رہی ہے۔ انہیں مسلمانوں کے جذبات سے کھیلنے کی کھلی چھٹی دے دی گئی اور دوسری طرف مسلمانوں پر ڈرون اٹیک اور افغانستان کو اپنی کالونی بنانے کی مذموم کوشش کی گئی۔ اب یہودی لابی، ملعون پرو ڈیوسر اور فلم ساز یہی چاہتے ہیں کہ اس فلم کے ذریعے مسلم ملکوں میں انتشار پھیلے، انارکی کو ہواملے اور مسلم ملکوں کے عوام سڑکوں پر آکرامن و امان لاء اینڈآرڈر کا مسئلہ پیدا کر دیں اور امریکہ اس بہانے سے مسلم ممالک میں اپنی فوجیں داخل کر دے جیسے اس نے لیبیامیں اپنے لڑاکا بحری جہاز بھجوائے اور دیگر ملکوں میں بھی اعلان کیا ہے کہ مظاہرین کو کنٹرول کرنے کے لئے اپنے فوجی دستے بھیجے گا۔
ان حالات میں ضرورت اس امر کی ہے جب تک ہم یہودی لابی کازور نہیں توڑتے اور دانش اورحکمت سے کام لیکر معاشی طور پر امریکہ اور یورپ کو کمزور نہیں کرتے اس وقت تک کامیابی ممکن نہیں۔ جس کا طریقہ یہ ہے کہ انکے سرمایہ دارانہ نظام پرکاری ضرب لگائی جائے اور امریکی اور یورپی مصنوعات کا مکمل بائیکاٹ کیا جائے۔ دنیا کے سوا ارب مسلمان اور 57ملک ہیں اگر تمام ملکر یورپی اور امریکی مال کا معاشی بائیکاٹ کر لیں تو انکے معاشی نظام کو جھٹکا لگے گا اور اربوں کھربوں ڈالر ان کے بینکوں میں جانے سے رک جائیں گے۔ پھر انکی حکومتیں اور سرمایہ دار سوچنے پر مجبور ہونگے کہ مسلم ممالک کی کتنی اہمیت ہے۔ وہاں کا تاجر طبقہ، ملٹی نیشنل کمپنیاں اپنے درمیان ان گستاخ عناصر کو جو انکا معاشی نقصان کرنے والے ہونگے کب برداشت کریں گے؟ ہمیں تو ان لوگوں کو واصل جہنم کرنے کی کوشش کرنی چاہیے جو گستاخان رسول اور دشمنان اسلام ہیں جو انہیںمالی نقصان پہنچا ئے بغیر ممکن نہیں۔ شومئی قسمت سے ہم احتجاج تو گستاخانہ فلم کے خلاف کر رہے ہیں مگر املاک اپنے ہی مسلمان بھائیوں کی تباہ کر رہے ہیں اور اپنے ہی ملک کے پٹرول پمپ، گاڑیاں اور بسیں جلا رہے ہیں۔ پولیس چوکیوںاور پولیس اہل کاروں کو نشانہ بنا رہے ہیں جو ہمارے مسلمان بھائی اور محافظ ہیں۔ اس طرح دوسرے ملک کے سفارت خانے جلاکر ہم شاید یہ سمجھتے ہیں کہ ہم نے ایک دشمن ملک کی عمارت کو نقصان پہنچایا لیکن ایسا ہر گز نہیں ہے کیونکہ ماضی میں جب بھی غیر ملکی سفارت خانوں، قونصل خانوں کو مسلمان مظاہرین کی طرف سے نقصان پہنچایا گیاتو اس کی مرمت کا مکمل خرچ گورنمنٹ آف پاکستان کوہی ادا کرنا پڑا لہٰذا یہ نقصان ہمارا ہی ہوا کیونکہ بالواسطہ طور پر یہ سارا حکومتی خرچ پاکستان کے ٹیکس اداکرنے والوں پر ہی پڑتا ہے لہٰذا جو لوگ غیر ملکی دفاتر اور املاک کو نقصان پہنچا کر اپنا غصہ نکال لیتے ہیں وہ کسی کا نہیں اپنا ہی نقصان کرتے ہیں لہٰذا احتجاج میں بھی جوش کی بجائے ہوش سے کام لیا جائے۔ ہمارے جوش کا انداز مولانا ظفر علی خان کے الفاظ میں یوں ہونا چاہیے۔
نماز اچھی، حج اچھا، روزہ اچھا، زکوٰۃ اچھی
مگر میں باوجود اسکے مسلماں ہو نہیں سکتا
نہ جب تک کٹ مروں میں خواجہ یثر ب کی حرمت پر
خدا شاہدہے کامل میرا ایمان ہو نہیں سکتا
یہ جذبہ ایمانی اور عشق مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے مگر سیرت مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ ہے جنکی محبت و عشق اور ادب وتعظیم کا ہم دم بھرتے ہیں انہوں نے تو کسی بے گناہ کو قتل کرنے سے سختی سے منع فرمایا ہے لہٰذا تشدد اور قتل غارت کا راستہ اپنانے کی بجائے ہمیں حکومتی اور سفارتی سطح پر او آئی سی کے ذریعے جسمیں ساری مسلم حکومتوں کی نمائندگی ہے کے ذریعے UNO سے یہ مطالبہ تسلیم کرواناچاہیے کہ جس طرح ہولوکاسٹ سے انکار مغربی ملکوں کے نزدیک جرم ہے اسی طرح پیغمبر اسلام اور کسی نبی و رسول کی شان میں گستاخی کو بھی جرم عظیم قرار دیا جائے اور اس کے مرتکب کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے۔ اب مسلمان ممالک کے حکمرانوں کی غیرت کا امتحان ہے۔