خانقاہی تربیت کے مراحل
قران حکیم اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی آخری کتاب ہے جو نبی آخر الزمان حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر رہتی دنیا تک انسان سے متعلق امور، اصلاح احوال، امن و سلامتی سے جینے کا سلیقہ سکھانے اور دنیاو آخرت میں اللہ کے حضور انسان کی سرخروئی اور انسانی معاشرے کی فوز و فلاح کے لیے نازل ہوئی۔ پیغمبرانہ تربیت سے اس کو عالم انسانیت تک پہنچانا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فریضہ نبوت تھا۔ قرآن کا موضوع بھی ’’انسان‘‘ ہے، متقین کے لیے یہ کتابِ ہدایت اور صحیفہ رحمت ہے، سورۃ الفاتحہ؛ قرآنِ مبین کی پہلی سورت ہے جس کی پہلی آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے اپنا تعارف’’رَبُّ العالمین‘‘ کے صفاتی اسمِ جلالت سے فرمایا ہے۔ رَبّ کے معنی مربیّ اور مالک کے ہیں۔ اللہ سبحانہ تعالیٰ کائنات میں ہر شئے کا رَبّ یعنی ربوبّیت کا مالک و مختار ہے۔ اس کا کوئی شریک اور ہمسر نہیں ہے، وہ رب الارباب اور مالک الملوک ہے۔ لغت میں لفظ ربّ کا اطلاق اللہ کے غیر پر نہیں ہوتا، جب اللہ تعالیٰ کے غیر پر اس لفظ کا اطلاق کیا جائے تو پھر کسی چیز کی طرف اس کی اضافت کی جاتی ہے جیسے رَبّ الدار (مکان کا مالک) یا رَبُّ السفینہ (کشتی کا مالک) وغیرہ۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کائنات ارض و سمٰوات کا خالق ہے، ذات باری تعالیٰ کے امر کن سے تخلیق و ربوبیّت کا آغاز ہُوا سب سے پہلے اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو خلق فرمایا اور پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نور کے پر تو سے کائناتِ آفاق و انفس میں توسیع (expansion in universe) ہونے لگی جو ابد تک جاری رہے گی، کائنات کی ہر شئے (atom) چاہے اس کا تعلق عالم انسان و حیوان، جماد و نبات یاکوئی بھی ایسی مخلوق جو نگاہ انسان سے غائب ہو، سب میں ربوبیت اور رحمت کا عمل یکساں جاری ہے۔ رَبِّ کائنات نے ہر شے کے لیے اپنے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحمت للعالمینی کو لازم قرار دیااس لیے ہر مربوب و مرحوم؛ ربوبیت و رحمت سے برابر فیض یاب ہو رہا ہے، یہی رازِ حیات ہے۔ آفاق و انفس کی نشوونما کو قوانینِ فطرت کے تحت لانے کے لیے اللہ جل شانہ‘ نے صفاتِ ربوبّیت و رحمت کا کچھ حصہ جس قدر اس کی مشیت نے چاہا اپنی مخلوق کو عطا فرمایا اور ہر نوع تخلیق کی تولید و افزائش کا طریقہ الگ رکھا۔ جنات، حیوانات، جمادات، نباتات اور انسان میں عملِ تولید و افزائش اور ان کی نشوونما کا انداز جداگانہ ہے جو قدرت تخلیق کی بو قلمونیوں پر دال ہے۔ سورہ عبس کی آیات اٹھارہ سے بائیس میںاللہ سبحانہ و تعالیٰ تخلیق آدم کے بعد نسلِ انسانی کی پیدائش، افزائش اوراس کے انجام کے بارے میں ارشاد فرماتا ہے: (اللہ جل شانہ‘ نے) انسان کو ایک (حقیر) قطرہ سے (جس میں حس و شعور کچھ نہ تھا) تخلیق فرمایا۔ پھر اس (کے سب اعضاء و قوٰی)کو ایک خاص انداز سے بنایا، پھر اس کے لیے راہ (ہدایت)آسان کر دی (صحیفِہ ربّانی میں انسان کے لیے ہر منزل حیات کا سامان ہدایت جمع کر دیا، موت و آخرت سے اس کو آگاہ کیا تا کہ وہ زندگی کی نیر نگیوں کا شکار ہو کر مغرورو متکبر نہ ہو جائے) پھر اس (انسان) کو موت دی پھر اس کو قبر میں (جہاں سے اس کا خمیر اٹھایا گیا تھا) دفن کر دیا۔ پھر (اللہ)جب چاہے گا اسے دوبارہ زندہ کر دے گا (تا کہ دنیا میں اس نے جو اعمال کئے آخرت میں ان کا جواب دے سکے)
زندگی گزارنے کے لیے آغوش مادر سے لے کر زندگی کے آخری لمحے تک انسان کو ایسی تعلیم اور تربیت کی ضرورت ہوتی ہے جو نہ صرف دنیا میں اس کی کامیابی کی ضمانت ہو بلکہ آخرت میں بھی اس کی سرخروئی کا وسیلہ بنے۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے ہر انسان کی فطرت میں ایسے مثبت احساسات پہلے سے مضمر کیے ہیں کہ خواہ وُہ جہاں اور جس ماحول میں پیدا ہو کسی نہ کسی وقت وُہ اُس کو واحد و یکتا اللہ کی ہستی، خیر و شر میں امتیاز، بصیرت نفس اور امانت کی ذمہ داری کا احساس یاد دلاتے رہیں، ان مثبت احساسات کو ( تحلیل نفسی) ضمیر (conscience) یا فطرۃ بالقوہ کہا جاتا ہے، اس کے برعکس ہر انسان میں خلقی طور پر منفی احساسات یا فطرۃ رذیلہ بھی موجود (inbuilt)ہے۔ جو انسان کو شہوانی خواہشات، نفسانی داعیات، اولاد اور خونی قرابتوں کی محبت، مال و زر، جاہ و منصب اور ہوسِ اقتدار کی طرف مائل کرتی ہے۔ دونوں فطرتیں؛ بالقوہ و بالفعل انسان کے ضروری تخلیقی امور ہیں اور خلقی طور پر انسان میں موجود ہیں۔ یہ لاشعوری (unconsciously) اور شعوری (consciously) طور پر انسان کے افعال و اعمال کی رہنمائی کرتے ہیں۔ یہ فطرتیں (natures) اگر اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے الوہی ہدایت (divine guidance) کے تحت کام کرتی رہیں اور دونوں کے درمیان سازگاری، مطابقت اور ہم آہنگی ہو تو فرد کی شخصیت تضاد (contradiction) اور ذہنی تناؤ (depression) کا شکار نہیں ہوتی اور زندگی اعتدال کی راہ پر گامزن رہتی ہے لیکن جب فطرۃ بالقوہ اور فطرۃ بالفعل کے تقاضے جو جبلّی داعیات اور انسانی خواہشات کے زیر اثر انسانی شعور کو متاثر کرتے رہتے ہیں، آپس میں متصادم اور متضاد ہوں تو دونوں کے تضاد سے نفس انسانی ایک’’اخلاقی کشمکش‘‘ کی صورت حال سے دوچار ہوتا ہے۔ اس وقت انسان کو پیغمبرانہ ہدایت اور تربیت (prophetic guidance and instructions)کی سخت ضرورت ہوتی ہے، اگر یہ انسان کے شامل حال نہ ہو تو نوبت اس کے ذہنی اختلال تک بھی پہنچ سکتی ہے۔ پیغمبرانہ تربیت کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ انسان کی فطرۃ بالقوہ (actual nature) کے خلقی میلانات کو فروغ دے کر اس کی فطرۃ بالفعل (potential nature)کے طبعی داعیات (human instincts)کو ان کے تحت منظّم کر دیا جائے تا کہ دونوں کے اندر تضاد پیدا نہ ہو اور انسانی شخصیت فکری شکست و ریخت سے محفوظ ر ہے۔ خانقاہی نظام کے تحت اسلامی سلوک و تصوّف کے مختلف اسباق، و ظائف، اعمال اور خصوصی تربیت کے ذریعے فطرۃ بالقوہ اور نیکی کے تقاضے انسان کے اندر فروغ پا کر زنددہ قوت بن جاتے ہیں اور انسان کی ان طبعی خواہشات اور نفسانی شہوات کو جو بے لگام ہو کر اس کو اخلاق اور ضمیر کے خلاف ناپسندیدہ حرکات و اعمال پر مجبور کرتے ہیں۔ فطرت صحیحہ کے تحت منظّم اور منضبط صورت میں شرعی اصولوں اور مقررہ قواعدو ضوابط کے مطابق تکمیل پذیر کرایا جائے، تکمیل کے بعد دین اور معاشرہ کے اخلاقی اور روحانی تقاضوں اور شرائط کے تحت سر انجام ہونے والے اعمال’’بدی‘‘ نہیں رہتے بلکہ وہ اخلاقی اعمال بن جاتے ہیں۔ اصولوں کی پابندی سے فطرۃ بالفعل کی ماہیت بھی بدل جاتی ہے اور انسان کا ضمیر مطمئن اور قلب و ذہن آسودہ رہتا ہے۔ اس عمل کو تزکیہ نفس اور تصفیہ باطن کہتے ہیں۔ نفس امارہ بدی سے پاک ہو جاتا ہے اوراس میں نیکی کو نشوونما نصیب ہو جاتی ہے۔ سلوک و تصوّف کے مستند خانقاہی نظام کی بنیاد دین اور شریعت کے تزکیاتی اصولوں پر استوار ہوتی ہے۔
لفظ رَبّ تربیت کا مصدر ہے یعنی کامل تربیت کرنے والا؛ ایک ایسا مربیّ جو خود ہر جہت سے کامل ہو اور دوسرے کی کامل تربیت کا اہل ہو۔ تفسیر ابی سعود میں تربیت کی تعریف کسی چیز کو درجہ بدرجہ اس کے کمال تک پہنچانے کے الفا ظ سے کی گئی ہے۔ ائمہ تفسیر نے رَبّ کے معنی میں بالعموم دو صفات کو شامل کیا ہے۔ تربیت اور ملکیت۔ لفظ تربیت دو شرائط کا تقاضا کرتی ہے۔ تکمیل اور تدریج۔ امام راغب اصفہانی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے المفردات میں تربیت کے مفہوم کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ:’’لفظ رب اصلاً تربیت کے معنی میں ہے اور اس سے مراد کسی چیز کو درجہ بدرجہ مختلف احوال میں سے گزارتے ہوئے آخری کمال کی حد تک پہنچا دینا ہے‘‘ کمال سے مراد کسی چیز کی وہ حالت ہوتی ہے جہاں وہ اپنی جملہ صفات کے اعتبار سے انتہاء کو پہنچ جائے۔ مستند خانقاہی نظام کے تحت سیکھنے اور سکھانے والے نصابِ سلوک و تصوّف کی بنیاد تعلیم و تربیت پر قائم ہوتی ہے۔ گذشتہ دروس میں ہم نے معلم اور متعلم، مربیّ و مربوب اور مرشِد و مُرید کے خصائل اور اوصاف کے ضمن میں تعلیم و تربیت کے موضوع پر بات کرتے ہوئے عرض کیا تھا کہ دونوں کا تعلق باب تفعِیل سے ہے جس کا تقاضا مسلسل محنت، ہمت، برداشت، تحمل، صبر اور استقامت ہوتا ہے۔ مربوب (تربیت پانے والا)جب متعدد تدریجی اور ارتقائی منازل طے کرتا ہوا اپنی صفات یعنی مطلوبہ اوصاف و خصائل کی آخری حد کو پالے تو تربیت کامل ہو تی ہے لیکن تربیت پانے والا (مرید و متعلم)اگر اپنے کمال یعنی صفاتی انتہاء تک نہ پہنچ سکے تو تربیت نامکمل رہی اور اگر اس نے جملہ تدریجی اور ارتقائی مراحل بھی پوری طرح کاملاً طے نہ کیے تب بھی اس کی تربیت مکمل نہ ہوئی۔ قبل ازیں ہم یہ وضاحت کر چکے ہیں کہ تعلیمی اور تربیتی (educational and instructional) مقصد (objective) اور عمل (practice)کی کامیابی اور ناکامی میں معلّم اور متعلم دونوں شریک ہوتے ہیں، حالات کے مطابق دونوں میں سے کسی ایک کا حصہ کم یازیادہ ہو سکتا ہے۔ لیکن ایک لحاظ سے معلّم اور مربیّ کی ذمہ داری اس لیے زیادہ بنتی ہے کہ شاگر استاد سے اللہ کی محبت میں دین کی تعلیم و تربیت حاصل کرنے کے ارادہ سے اس کے در پر امید اور آرزو کی شمع قلب و ذہن میں جلائے آتا ہے اس لیے استاد، معلّم و مربیّ پر امانت کی ذمہ داری کا بوجھ شاگرد، متعلم و مربوب کی نسبت زیادہ ہوتا ہے۔ ربوبّیتِ علمی کا تقاضا بھی ہوتا ہے کہ مربیّ شاگرد اور مربوب کے طلبِ علم کی آرزو کی تکمیل کی ہر ممکن کوشش کرے اور اس کی جملہ ضرورتوں کی کفالت (maintenance) اورمفادات کی حفاظت (security,surety)کرے تا کہ طالب علم پوری یکسوئی سے وصول علم کی جانب متوجہ رہے۔ معلّم کائنات نبی مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حدیث پاک ترمذی شریف میں حضرت سیدنا ابو سعید خُدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ‘ سے یوں روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کہ بہت سے لوگ تمہارے پاس (یعنی صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے تابعین ہونے کے ناطے) علم سیکھنے کے لیے اطرافِ عالم سے آئیں گے لہذاجب وُہ تمہارے پاس آئیں تو ان کے ساتھ بھلائی کرو (یعنی ان کی تعلیم و تربیت کا بخوبی اہتمام کرو)طالب علم کی تعلیم اور تربیت کی کماحقہ‘ تکمیل اس وقت تک ممکن نہیں ہوتی جب تک کہ اس کی کفالت و حفاظت ہر جہت سے مکمل نہ ہو اور کفالت و حفاظت کی جملہ شرائط اس وقت تک پوری نہیں ہو سکتیں جب تک اس کے تمام اسباب کاملاً معلّم و مربیّ کے قبضہ و تصّرف میں نہ ہوں۔ جب معلم و مربیّ کواپنے متعلم اور مربوب کے تمام معاملات میں مکمل تصرف اور قدرت حاصل رہے تو وہ بتمام و کمال اس کی کفالت و حفاظت کی ذمہ داری پوری کرنے کے قابل ہوتا ہے اور ربوبیت کے وصفِ ملکیت کے ساتھ ساتھ اس کا معلّمانہ اور مربیّانہ فریضہ پور ا ہوتا ہے۔ لفظ ’’رب‘‘ باین مفہوم اس الوہی شان کی نشاندہی کرتا ہے کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ ہی کامل مربیّ و مالک ہے۔ وہی قادر مطلق، مقتدر اعلیٰ اور جملہ خزائنِ سماوی و ارضی کا حقیقی مالک و متصّرف ہے، بنا بریں بعض مفسرین نے ربّ کا اطلاق مالک، نگران، مربیّ، مدبّر، منعم، مصلح اور معبود کے معانی پر کیا ہے اور حِفظ اور مِلک کو ربوبّیت کا لازمی حصہ تصور کیا ہے۔
تربیت کے اس معنی و مفہوم کی روشنی میں جب ہم ایک مستند اسلامی خانقاہی نظام کابنظرِ غائر جائزہ لیتے ہیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ اس میں اسلامی سلوک و تصوّف کی تعلیم و تربیت کے علاوہ دینی، دنیوی اور روحانی کفالت و حفاظت کا نظام بھی پوری طرح کارفرما ہے۔ خانقاہوں اور درسگاہوں میں درویشوں اور طلباء کی کفالت و حفاظت کا نظام صدیوںسے جاری و ساری ہے۔ موجودہ دور میں اس کا اندازہ کسی خانقاہ، درگاہ، بارگاہ اور آستانہ میں آنے والے عام زائرین کے قیام و طعام کے بندو بست سے بھی کیا جا سکتا ہے جہاں لوگ بِلا تمیز رنگ، نسل، عقیدہ، مسلک اور مذہب لنگر سے مستفید ہوتے ہیں۔ لنگر اس خیرات خانہ کو کہتے ہیں جہاں فقراء مساکین کو روزانہ کھانا تقسیم ہوتا ہے۔ اصطلاحِ عام میں لنگر فقراء و مساکین کو دئیے جانے والے کھانے کوبھی کہتے ہیں۔ یہ خانقاہی نظام کے انتظامی اعمال میں کا ایک خاص عمل ہوتا ہے۔ مشائخ عظام درویشوںکے قیام و طعام یعنی کفالت و حفاظت کو خانقاہی نظام کا اہم تقاضا سمجھ کر اس کو بہت اہمیت دیتے ہیں اور بہ نفسِ نفیس اس کے انتظام و انصرام میں مصروف رہتے ہیں۔ گذشتہ ادوار میں کفالت و حفاظت کا یہ نظام خانقاہوں میں بنیادی طور پر تعلیم و تربیت حاصل کرنے کے لیے آنے والے طلباء اوردرویشوں کے لیے رائج تھالیکن دریں زمانہ اس نے مزارات پر آنے والے زائرین کے قیام و طعام کے بندوبست کی شکل اختیار کر لی ہے۔ برصغیر میں حضرت خواجہ معین الدین سجزی اجمیری رحمتہ اللہ علیہ کے لنگر کی بڑی اور چھوٹی دیگ آج بھی مشہور ہے۔ جس کے لنگر کا تبرک حاصل کرنے کے لیے بادشاہوں اور بڑے بڑے کجکلاہوں کو بھی مساکین کے ساتھ قطار در قطار کھڑا رہناپڑتا ہے۔ یہ تبرک یا دان قطار میں کھڑا ہونے والا ہر شخص حاصل کر سکتا ہے چاہے اس کا تعلق کسی بھی مذہب وملت سے کیوں نہ ہو۔ بر صغیر کے علاوہ مشرق و سطیٰ اور دیار مغرب (مراکش، تیونس وغیرہ) میں بھی تمام بڑی درگاہوں پر اللہ کی راہ میں صدقہ و خیرات اور انسانی فلاح و بہبود کا یہ سلسلہ قرونِ اولیٰ سے رائج ہے۔ اسلامی درسگاہوں، دارالعلوموں اور دینی مراکز پر بھی طلباء و طالبات کی کفالت و حفاظت کے لیے یہ طریقہ مستعمل ہے۔ اسلامی حکومتوں کے علاوہ دیندار مخیر حضرات اس نظام کو چلانے میں بھر پور تعاون کرتے ہیں۔ شومئے قسمت سے آج کل زیادہ تر مزارات اور خانقاہوں پر لنگر کے لیے جمع ہونے والی آمدن صوفیاء اور سالکین کی تعلیم و تربیت کے لیے استعمال ہونے کی بجائے زیادہ تر مزارات پر قابض موروثی سجادہ نشینوں اور مجاوروںکے اموال و املاک بڑھانے، جائیدادیں بنانے اور ان کی ذاتی تعیشات پر خرچ ہوتی ہے یا اگر کہیں تھوڑا بہت خوف خدا ہو تو اس کا کچھ قلیل حصہ وہ اپنے مریدین اور زائرین پربھی خرچ کردیتے ہیں۔ یہی حال مزارات اور درگاہوں پر قابض ریاستی نظام اوقاف کے کارندوں کا ہے۔ مزارات پر جمع ہونے والی رقوم کا بڑا حصہ ان کی جیبوں میں چلا جاتا ہے اور جو ان کی دستبرد سے بچ جاتا ہے وہ وزارتِ اوقاف اور مذہبی امور کے خزانے میںجانے کے بعد وزیروں مشیروں کے عیش و عشرت کے اخراجات پورا کرنے یا حکومتی صوفیاء کونسل کے محافلِ رقص و سرود کی نذر ہو جاتا ہے۔ صوفیاء، سالکین، فقراء اور مساکین کی تعلیم و تربیت پر چندے اور خیرات کی رقوم کا صرف کرنا خود ساختہ سجادہ نشینوں اوروزارتِ اوقاف و مذہبی امور کے ارباب بست و کشادکے خیال نارسا میں شایدنہ ہی ہو۔ طرفہ تماشا یہ ہے کہ اسی طرح مختلف دارالعلوموں کو ملنے والی خطیر رقوم کا کثیر حصہ بھی نیم مذہبی سیاسی جماعتوں کے قائدین کے اللّوں تلّلوں اور سیاسی معرکہ آرائیوں پر خرچ ہوتا ہے اور بہت کم طلباء پر خرچ کیا جاتا ہے۔
ہم بات کر رہے تھے خانقاہی نظام میں تربیت پذیر متعلمین کی کفالت اور حفاظت کے بارے میں کہ جب تک زیرِ تربیت طلباء، فقراء اور درویشوں کا اس بارے کامل یقین نہ ہو، آلائش زمانہ سے بے فکر ہو کر حقیقی تربیت کا حصول ان کے لیے مشکل ہوتا ہے، یہ حالت مبتدی سالک، مرید اور طالب کی ہوتی ہے پھر جیسے جیسے وہ تربیت کے مدارج اور ارتقائی منازل میں ترقی کرتا ہوا آگے بڑھتا ہے تو توکل، صبر اور شکر کے ان مقامات پر پہنچتا ہے جہاں اس کا ایمان اور ایقان فقط ربّ العالمین کی شانِ ربوبیت اور الوہی کفالت اور حفاظت پر کامل ہو جاتا ہے۔
عرف عام میں خانقاہی نظام؛ کسی مدرسہ، آستانہ اور خانقاہ کے انتظام و انصرام، تنظیم، نگرانی اور تعلیم و تربیت کے اس تنظیمی اور انتظامی طریقہ کار (management) کو کہتے ہیں کہ جہاں متلاشیانِ حق، طریقت اور معرفت کی تعلیم اور تربیت حاصل کرنے کے لیے داخل ہوتے ہیں اور تربیّت یافتہ معلمین سے سلوک و تصوّف سیکھنے اور اس پر عمل کرنے کا نصاب مکمل کرتے ہیں، اسلام میں نظام تربیت کی وسعت کے پیش نظر صالح افراد پر مشتمل گھرانے کو سلوک و تصوف کی پہلی خانقاہ کا درجہ حاصل ہوتا ہے۔ اسلامی ذہن رکھنے والے رضائے الہی کے جو یا والدین اپنی اولاد کی اخلاقی اور روحانی اصلاح، تعلیم اور تربیت کے لیے بذات خود معلم اور مربیّ ہوتے ہیں۔ نیک، متقی، پرہیز گار اور دیندار والدین کی خواہش ہوتی ہے کہ مہد سے لے کر لحد تک ان کے گھر کا ماحول بچوں کے لیے اس درجہ مناسب اور سازگار ہوکہ اس کے اندران کو ایسی اخلاقی اور روحانی تعلیم اور تربیت کے مواقع نصیب ہوں کہ ان کی زندگی کی بنیاد شروع سے ہی اسلامی معاشرہ میں رہنے کے لیے درکار تقاضوں کے مطابق استوار ہو سکے اور بڑے ہو کر وُہ خود اس قابل ہوں کہ ایک اجتماعی روحانی الذہن افراد پر مشتمل معاشرہ کی تشکیل و تکمیل میں حصہ لے سکیں۔
گذشتہ درس میں ماحول کی تاثیر کے بارے میں ہم نے لکھا تھا کہ ماحول (environment) انسانی فطرۃ بالقوہ اور فطرۃ بالفعل پر اثر انداز ہونے کی زبردست صلاحیت رکھتا ہے۔ ایک متفق علیہ حدیث میں نبی مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے:۔ ’’مَا مِنْ مَوْلُوْدٍ یُوْ لِدُ اِلََّا عَلَی الْفِطْرَۃِ فَاَبَواہُ یَھْوْ دَانَہ‘ اَوْ یُنْصَرَاَ نَہ‘ او یُمْجَّسَا نَہ‘ (کوئی بچہ ایسا نہیں جو فطرۃ صحیحہ اور سلیمہ (potential nature) پر پیدا نہ ہوتاہو، بعد میں اس کے والدین (اپنے گھریلو اور خاندانی ماحول کے زیر اثر) اسے یہودی یا نصرانی یا مجوسی وغیرہ بناتے ہیں) عرفاء فرماتے ہیں کہ نیک ماحول اور صحبت انسان کو نیک اور صالح بناتا ہے اور برا ماحول اور بری صحبت انسان کو برا اور بد خصال کر دیتا ہے۔
صحبتِ صالح ترا صالح کند
صحبتِ طالع ترا طالع کند
بچے کی تعلیم و تربیت سے متعلق مسائل آج انسانی معاشرے کے اہم ترین امور میں گردانے جاتے ہیں۔ انسانی زندگی کے اس اہم پہلو سے متعلق علم و فن میں اب اعلیٰ تحقیقی کام ہو رہا ہے۔ بچوں کی نفسیات کے ماہرین کا متفقہ فیصلہ ہے کہ زندگی کی حقیقی بنیاد بچپن میں ہی رکھی جاتی ہے۔ یہی بات قرآن حکیم نے ساڑھے چودہ سو سال پہلے بتا دی ہے۔ بچے کی پوری زندگی پر ماں کی آغوش سے ملنے والی تربیت اور گھر کے ماحول کا گہرا اثر ہوتا ہے۔ یہ ایک طے شدہ امر ہے کہ جس قسم کی تربیت بچے کو اوائل زندگی میں نصیب ہوتی ہے مستقبل میں اسی نسبت سے سعادت یا شقاوت اس کا مقدر ہوتی ہے۔ بچے کا قلب وذہن ایک کورے کاغذ کی مانند ہوتا ہے جواس کے والدین اور اساتذہ کے ہاتھ میں ہوتا ہے۔ اس پر وہ جو کچھ چاہیں لکھ دیں۔ ابتدائی دروس سلوک و تصوّف میں تعلیم و تربیت کے ضمن میں گفتگو کرتے ہوئے ہم نے مدرسہ اور خانقاہ کے بارے عرض کیا تھا کہ اس کی مثال جواہرات بنانے کے اس کارخانہ جیسی ہوتی ہے کہ جس کے اندر پہاڑوں سے ایسے پتھرکاٹ کرلائے جاتے ہیں کہ جن کے اندر جواہرات موجود ہوتے ہیں لیکن ایسے پوشیدہ کہ عام لوگوں کی نگاہیںان کو ڈھونڈ سکتی ہیں اور نہ ہی ان کو پہچان پاتی ہیں۔ قیمتی پتھروںکے علوم کے ماہرین ان پتھروں کو ڈھونڈ کر ان کے اندر پوشیدہ جواہرات کو باہر نکالنے کے لیے مخصوص کارخانوں میںلاتے ہیں۔ پھران پتھروں کی بڑی مہارت سے کاٹ چھانٹ کر کے جواہرات کو باہر (extract) لایا جاتا ہے۔
بڑے بڑے پتھروںکے بطن سے جواہراتی پتھروں (precious stones)کو خاص قسم کے اوزار کے ذریعے بڑی توجہ اور کمال مہارت سے جد ا کیا جاتا ہے۔ یہ ایک صبر آزما مرحلہ ہوتا ہے۔ خطرہ یہ ہوتا ہے کہ پتھروں کے اندر پنہاں قیمتی جواہر ٹوٹ نہ جائیں یا ان میں دراڑیں (cracks) پیدا نہ ہوں۔ ایسا ہو جائے تو لعل، پکھراج، یاقوت، زمرد، فیروزہ جیسے قیمتی جواہرات کی قیمت بھی کم ہو جاتی ہے۔ بہت احتیاط کے ساتھ جواہرات کو الگ کر کے پانی اور خاص ادویاتی محلول (chemicals) سے اُ ن کو مشینوں کے ذریعے دھویا اور صاف کیا جاتا ہے۔ پھر خاص اوزار (special tools and instruments) کے ذریعے بلوریات کے ماہرین (crystographers) خام جواہرات کی تراش خراش کر کے ان کو مختلف بلوری اشکال (crystal formations) میں تبدیل کرتے ہیںاور خاص بھٹیوں (furnances) میں تاپ کرپکایا جاتا ہے۔ جواہرات کی ایک نرالی دنیا ہے دیکھنے میں یہ ایک پتھر (stone) ہوتا ہے لیکن جب اس کوتادیب و ترتیب کے مختلف مراحل سے گزار کراس کی پوشیدہ خوبیوں کو باہرلا کر دنیا پر منکشف کیاجاتا ہے تو ایک عالم اس کا شیدائی ہو جاتا ہے۔ پھر اس کو پتھر کوئی نہیںکہتا بلکہ اس کو مختلف جوہری ناموں سے یاد کیا جاتا ہے۔ نہ صرف اس کے باریک باریک ذرے نگینوں کی صورت میں زیورات میں لگائے جاتے ہیں بلکہ یہ بادشاہوں کے سروں پر سجنے والے تاج (crowns)کی زینت بن کر ان کی تونگری اور شان و شوکت کا مظہر ہوجاتے ہیں۔ پتھر کو جوہر میں تبدیل کرنے کا یہ عمل جواہرات بنانے والے کا رخانہ میں ہوتا ہے، ایک ماہر جو ہر ساز (jewel-maker) اس کے جوہری حسن (essence)کو خاص مہارت اور ہنر مندی سے طشت ازبام کرتا ہے۔ جو ہر ساز سے یہ صراف (jeweller) کی دوکان پر پہنچتا ہے اور بادشاہ اس کی قدر و قیمت پہچاننے کے بعد خریدار بن کر اس کو اپنے تاجِ شاہی کی زینت بنا تا ہے۔ جس وقت یہ کسی پہاڑ کے شکم و باطن یا اس کے کسی غار، کھوہ، گھاٹی، کان یا معدن (mine) میں پنہاں تھا کوئی اس سے واقف تھااورنہ کسی کو اس کی پہچان تھی۔ اس کی کوئی قدر و قیمت نہ تھی۔ اس وقت یہ پہاڑوں پر چڑھنے اترنے والے ہزاروں انسانوں، چرواہوں، لکڑہاروں اور اس پر چرنے والے حیوانات اور جانوروں کے پاؤں تلے روندا جاتا تھا۔ کسی کو اس کی کچھ پرواہ نہ تھی لیکن جب کسی ماہر کی نگاہ نے پہاڑ میں پوشیدہ جواہرات کی موجودگی کو محسوس کیا تو وُہ گم نام پہاڑ ایک خاص پہاڑ بن گیا۔ پوری ریاست اس پہاڑ کی حفاظت کے لیے کمر بستہ ہو گئی وہاں خاص چوکیدار مقرر کئے گئے۔ عام افراد اور چرنے والے جانوروں کی آمد و ر فت اس پر ممنوع قرار دی گئی۔ اب وُہ پہاڑ عام لوگوں کا نہ رہا۔ خواص کے ہاتھوں میں آگیا۔ وہاں بڑی بڑی مشینیں لائی گئیں، جیالوجی اور کان کنی کے ماہرین آئے۔ پہاڑ کی کھدائی اور کان کنی اب بم بلاسٹ اور بارود کے دھماکوں کی بجائے خاص سائنسی طریقوں سے ہونے لگی۔ کس لیے یہ سب اہتمام ہو رہا ہے۔ وجہ صاف ظاہر ہے یہ پہاڑ اب عام پتھروں والا پہاڑ نہیں رہا ہے۔ اب یہ جواہرات والا پہاڑ بن گیا ہے، جواہرات کے تحفظ کا عمل خاص تعلیم، تربیت، تہذیب، تادیب اور ترتیب کا متقاضی ہے۔ قیمتی اشیاء، اموال اور جانوں کی حفاظت کے لیے خاص طریقوں کا استعمال لازم ہوتا ہے۔
ہم بات کر رہے تھے خاص پتھروں کی پہچان اور معرفت کی۔ بہت احتیاط سے کان کنی کے بعد ان کو خاص قسم کے کارخانہ میں پہنچایا گیا۔ جہاں خاص علمی اور فنیّ تراش خراش کے بعدان کو ہیرا، پکھراج، زمرد اور فیروزہ جیسے جواہرات میں تبدیل کیاگیا۔ ماہر کاریگروں نے اس کی تادیب و تہذیب کر کے اس کے جوہری شان کو ظاہرکیا تو اس کی اصلیت پہچاننے کے بعدایک دنیا اس کے حسن و جمال، رنگ اور روپ کی دیوانی ہو گئی۔ جس نے اس کی قدروقیمت کو پہچان لیا اس نے منہ مانگی قیمت دے کر اس کو اپنے سر پر رکھے تاج کی زینت بنا دیا۔
جب تک بکے نہ تھے کوئی پوچھتا نہ تھا
تونے خرید کر ہمیں انمول کر دیا
یہ ایک مثال تھی جو سلوک و تصوّف کے خانقاہی نظام اور خانقاہ کے حوالے سے بیان ہوئی۔ ہم خانقاہ میں ملنے والی تربیت اور تہذیب کے موضوع پر بات کر رہے ہیں۔ علوم تصوّف کے ماہر اساتذہ، مشائخ عظام اور اولیاء کرام بطور معلّم و مربیّ؛ خانقاہ میں آنے والے مبتدی سالکین، صوفیا، درویشوں اور مریدوں کے اندر انسانیت کے جوہر کو آشکار کرنے کے لئے ان کو تہذیب سکھاکر مہذب کرتے ہیں، ان کی تربیت کرتے ہیں، ان کے اندر پنہاں جوہر قابل کو ظاہر کرنے کے لیے خاص روحانی اسباب و ذرائع استعمال کرتے ہیں اور ایسا مناسب ماحول فراہم کرتے ہیں کہ جس کے اندر رہ کر مناسب تعلیم و تربیت کے بعد وہ اس قابل ہو جاتے ہیں کہ انسانی معاشرے کی اصلاح کا فریضہ سنبھال لیں۔ ان میں زیادہ خوش قسمت لوگ وہ ہوتے ہیں کہ خانقاہی نظام میں آنے سے قبل جن کو بچپن سے ہی ایسے گھرانے کاماحول نصیب ہوا ہوکہ جس کی سربراہ ایک نیک پارسا، متقی پرہیز گار ماں ہو، جس کی آغوش میں اس کو ایام فطام اور بچپن سے ہی ایسی تربیت میسر ہو کہ بڑے ہو کر ان کے لیے روحانیت کے فیض سے مستفید ہونے کے راستے آسان معلوم ہوں۔
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی