بنیادی انسانی حقوق رواں صدی کا سب سے بڑا موضوع بحث ہے۔ ہر سطح پر اس پر بحث جاری رہتی ہے۔ اسمبلیاں ہوں یا اخبارات، الیکٹرانک میڈیا ہو یا سوشل میڈیا، نجی محافل ہوں یا عوامی اجتماعات کسی نہ کسی صورت میں انسانی حقوق پر بحث ہوتی ہے۔ انسانی حقوق کا موضوع کثیر الجہتی ہے۔ اس میں خواتین کے حقوق، بچوں کے حقوق، نوجوانوں کے حقوق، عمر رسیدہ شہریوں کے حقوق سبھی شامل ہیں۔ جب ہم بنیادی انسانی حقوق کی بات کرتے ہیں تو اس میں انسانی زندگی کا تحفظ، انسانی جان کی حرمت، عزت نفس، عزت کی حفاظت، نجی زندگی کا تحفظ، چادر اور چار دیواری کا تقدس، آزادیٔ اظہار کا حق سرفہرست نظر آتے ہیں۔ اگر بنیادی انسانی حقوق کی فہرست پر مزید نگاہ ڈالیں تو اس میں تعلیم، صحت، روزگار، انصاف، بنیادی سہولیات بھی بنیادی حقوق کے زمرے میں آتی ہیں۔ بنیادی انسانی حقوق کا سبجیکٹ قومی اور بین الاقوامی امور و معاملات سے متعلق ہے۔ اس بحث کا کچھ تعلق تو قومی و ریاستی سطح سے ہے اور ایک اس کا پہلو بین الاقوامی ہے۔ دنیا کا کوئی بھی معاشرہ ہو وہاں بطور انسان اس کے کچھ حقوق و فرائض ہیں جو مسلمہ ہیں اور ان حقوق کی گارنٹی اقوام متحدہ کی طرف سے دی گئی ہے۔ اقوام متحدہ نے نسل کشی کو ایک بین الاقوامی جرم قرار دیا ہے۔ خواتین کے سیاسی حقوق کو تسلیم کیا گیا ہے۔ انسانی حقوق کے بین الاقوامی چارٹرز پر کس حد تک عمل ہورہا ہے اور کس طرح اس کی خلاف ورزی ہورہی ہے یہ ایک الگ بحث ہے۔ تاہم ریاستی سطح پر بنیادی انسانی حقوق کے مقامی اور بین الاقوامی قوانین پر عملدرآمد کرنے کے ضمن میں لیت و لعل کا رویہ آج 21ویں صدی میں بھی موجود ہے۔ ہمارا لبرل طبقہ آج انسانی حقوق کے تحفظ کے معاملے میں مغرب کی پذیرائی کرتے ہوئے نظر آتا ہے۔ اس امر میں کوئی شبہ نہیں کہ مغرب نے بنیادی انسانی حقوق کے تحفظ کے لئے کچھ عالمی چارٹرز منظور کئے ہیں اور اس ضمن میں رپورٹس بھی مرتب ہوتی رہتی ہیں لیکن بنیادی انسانی حقوق کا پہلا تصور اسلام نے دیا۔ پیغمبرِ اسلام نے خواتین کی عزت، زندگی کو تحفظ دیا اور دو ٹوک انداز میں اس کی خرید و فروخت اور اسے غلام بنانے والے رویوں کو رد کیا۔ بچوں کی تعلیم و تربیت پر توجہ دی بالخصوص یتیم بچے کے معاشی حقوق کا تحفظ جو اسلام میں نظر آتا ہے وہ اور کہیں نظر نہیں آتا۔ پاکستان اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا ہے جس کا مطلب ہے کہ پاکستان کا آئین و قانون قرآن و سنت کے فراہم کردہ اصولوں اور فرامین و احکامات کے تابع ہو گا،قانون سازی کی حد تک تو اسمبلیوں نے اپنا کردار ادا کیا ہے مگر عملدرآمد کے محاذ پر صورت حال انتہائی مایوس کن ہے۔ آئین کمزوروں کے تحفظ کی بات تو کرتا ہے مگر بدقسمتی سے کمزور طبقہ سب سے زیادہ غیر محفوظ ہے۔ خواتین کے حقوق کی پامالی کی شکایات عام ہیں۔ خواتین کو روزگار، تعلیم اور انصاف کے حصول میں بہت ساری سیاسی، سماجی، معاشی، قانونی مشکلات کا سامنا رہتا ہے۔ پاکستان کو ایک ماڈل اسلامی ریاست بنانے کے لئے اسلام نے جو انسانی حقوق کا تصور دیا ہے اُس پر من و عن عمل کرنے سے ایک پرامن اور خوشحال سوسائٹی کی تشکیل ممکن ہے اس ضمن میں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی ایک شہرہ آفاق کتاب ’’اسلام میں انسانی حقوق‘‘ موجود ہے۔ انسانی حقوق کے موضوع سے دلچسپی رکھنے والے تمام احباب کو اس کتاب کا ضرور مطالعہ کرنا چاہیے بالخصوص وکلاء حضرات کو یہ کتاب ہمہ وقت اپنے زیرمطالعہ رکھنی چاہیے۔ (ایڈیٹر:دختران اسلام)