یہ کائنات ابھی ناتمام ہے شاید
کہ آرہی ہے دما دم صدائے کُن فیکون
قبل اس کے کہ قرآن کریم کی روشنی میں قصص الانبیاء رقم کیے جائیں اور لفظ کُن کی سحر انگیزی آشکار کی جائے۔ اولین ذکر کریں اس عظیم متین فہیم ہستی کا جس کا ذاکر اول خالق کائنات ہے۔ یاد رکھیں محبوب خدا، حبیب کبریا، نوراً علی نور محمد مصطفی ﷺ کی وجہ تسمیہ اور وجہ موجہ یعنی کہ کامل اور اکمل دلیل فقط لفظ کُن ہے۔ اس لیے کہ جب خالق عظیم نے روح اقدس محمد کریم ﷺ تخلیق کرنا چاہی تو نظریہ ضرورت کے تحت لفظ کُن تخلیق کیا اور ثابت یہ ہوا کہ دل یزداں میں اپنا محبوب محمد ﷺ پہلے ہی سے موجود تھا۔ فقط اپنے ظاہر ہونے کے بعد لفظ کن کے ذریعے روح محمد تخلیق کرنے کا اعلان کیا۔
قارئین گرامی قدر! یہ امر اظہر من الشمس ہے کہ معجزات الہٰیہ پر مبنی قصص الانبیاء کم و بیش ہر نبی اور رسول پر رونما ہوئے، کسی پر ایک اور کسی پر دو دو تین تین معجزات رونما ہوئے اور بشر پر وحی الہٰی کا نزول بھی جبرائیل امین علیہ الاسلام کے ذریعے ہوا۔ تاہم جب امام الانبیاء محمد مصطفی ﷺ کی باری آئی تو آپ کو مرقع معجزات الہٰیہ بنادیا اور یہ نص، قرآنی سے ثابت ہوچکا ہے کہ معجزات الہٰیہ کا رونما ہونا فقط حکم کُن فیکون کی بدولت ہے۔ تاہم نبی آخرالزمان محمد مصطفی ﷺ کریم پر ظاہر ہونے والے حیران کُن معجزات سے معلوم ہوتا ہے کہ حکم کُن کی فیوضات برکات کا منبع اور سرچشمہ بھی خالق عظیم نے اپنے محبوب محمد مصطفی ﷺ کو ہی بنادیا تھا۔ حقیقت اللہ اور اس کے رسول ﷺ ہی جانتے ہیں۔ عالم ہائے ہفت اور کائنات کا آغاز اور انجام حکمِ کُن فیکون کا ہی عملی مظاہرہ ہے۔ جس طرح قرآن مجید فرقان حمید کا لوح محفوظ سے آسمان دنیا یعنی کہ بیت العزۃ پر اتارنا اور پھر دھیرے دھیرے قلبِ محمد مصطفی ﷺ پر نازل فرمانا فقط حکم کن کا ہی کرشمہ ہے۔ میری نظر میں حکم کن عالم ہائے ہفت اور کائنات ارض و سماوات کی روح ہے، جس طرح روح کے بغیر جسم کی کوئی حیثیت اور وقعت نہ ہے۔ اسی طرح حکم کن کے بغیر نہ بقا ہے اور نہ ہی فنا۔
قرآن مجید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ
اِنَّمَا قَوْلُنَا لِشَیْءٍ اِذَآ اَرَدْنٰهُ اَنْ نَّقُوْلَ لَهٗ کُنْ فَیَکُوْنُ.
(النحل، 16: 40)
’’ہمارا فرمان تو کسی چیز کے لیے صرف اِسی قدر ہوتا ہے کہ جب ہم اُس (کو وجود میں لانے) کا ارادہ کرتے ہیں تو ہم اُسے فرماتے ہیں: ’ہو جا‘ پس وہ ہو جاتی ہے۔‘‘
قارئین محتشم! قرآن عظیم سے ثابت ہے کہ انسانی زندگی کا آغاز اور اختتام دونوں امر الہٰی کے حکم کن فیکون پر موقوف ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
ھُوَ الَّذِیْ یُحْیٖ وَیُمِیْتُ ج فَـاِذَا قَضٰٓی اَمْرًا فَـاِنَّمَا یَقُوْلُ لَهٗ کُنْ فَیَکُوْنُ.
(المؤمن، 40: 68)
’’وہی ہے جو زندگی دیتا ہے اور موت دیتا ہے پھر جب وہ کسی کام کا فیصلہ فرماتا ہے تو صرف اسے فرما دیتا ہے: ہو جا۔ پس وہ ہو جاتا ہے۔‘‘
قارئین گرامی قدر! خصوصی توجہ مبذول کروانا چاہتا ہوں کہ جب رب محمد ﷺ نے چاہا میں ظاہر ہوجاؤں تو پس ہوگیا۔ قابل غور بات یہ ہے کہ خالق ارض سماوات کی منشا تو تھی ہی مگر میری نظر میں ارادہ الہٰیہ میں کچھ اور بھی مخفی تھا۔ جس کے لیے نظریہ ضرورت کے تحت حکم کن تخلیق کرنا پڑا تاکہ اس مخف خزانے کا اظہار و اعلان کیا جاسکے۔ میری دانست میں وہ فقط روح محمد کریم ﷺ تھی جو حکم کُن سے ظاہر پذیر ہوئی۔ کیونکہ خالق عظیم تو کسی کُن فیکون کا محتاج نہ ہے وہ تو کن بھی خالق اور مالک تھا۔ یاد رہے کہ حکم کن قرآن مجید میں کم و بیش سات مرتبہ آیا ہے۔
معراج کُن فیکون:
وجدانی فلسفہ معراج مصطفی ﷺ یہ ٹھہرا کہ شبِ معراج لفظ کُن کا بھی معراج تھا کیونکہ یوں تو حکم کُن کی دسترس میں عالم ہائے ہفت تحت الثریٰ تاعرش بریں تک ہیں اور خالقِ ربِ عظیم کے حکمِ کُن کے منتظر ہیں۔ تاہم مجھے یوں لگتا ہے کہ شبِ معراج حکمِ کُن فیکون رب محمد ﷺ نے مطلوب قاب قوسین محبوب خدا، حبیب کبریا کے اشارے کے تابع اور دسترس محمد ﷺ میں دے دیا تھا۔ قرآن عظیم کا نقطہ معراج معجزہ معراج النبی ﷺ کُن فیکون کا ہی تسلسل تھا۔ پس خالق نے چاہا تو چشمِ زدن میں ایک رات کے لیے زمانے کی رفتار تھم گئی۔ لگتا ہے کہ اس رات عالم ہائے ہفت کی رفتار دستِ محمد ﷺ میں دے دی گئی تھی اور اپنے محبوب محمدمصطفی ﷺ کو معراج عطا کردیا۔ دیدار الہٰی بے حد و بے حساب اور بے نقاب کروایا۔
قارئین گرامی قدر! حکمِ کُن روح کی طرح رب کائنات کی ایک لطیف حقیقت اور امرِ الہٰی ہے اور سرِ پنہاں ہے جس کی حقیقت بھی خدا ہی کو معلوم ہے۔ قارئین کرام، کُن فیکون کا عملی مظاہرہ قدرت ازل سے تھا اور ابد تک جاری ہے۔ تائید میں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری اپنی مایہ ناز تصنیف انسان اور کائنات کی تخلیق کے صفحہ نمبر68 پر فرماتے ہیں کہ یہ حقیقت ہے کہ توسیع کائنات کا عمل رب کائنات کے حکمِ کُن کے نتیجے میں لمحہ بہ لمحہ جاری ہے اور کائناتیں اور مخلوقات معرض وجود میں آتی رہتی ہیں جن کی فقط خداوند عظیم کو خبر ہے۔ قرآن پاک میں ارشاد فرمایا:
’’اور وہ کائنات کی تخلیق میں اضافہ فرماتا رہتا ہے جس قدر وہ پسند فرمائے۔‘‘
(فاطر، 35: 10)
اس کی تشریح میں جناب علامہ محمد اقبالؒ نے فرمایا:
یہ کائنات ابھی ناتمام ہے شاید
کہ آرہی ہے دما دم صدائے کُن فیکون
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری مزید فرماتے ہیں کہ قرآن کے مطابق فتق Explosion کا واقعہ آج سے تقریباً 15 ارب سال پہلے کا ہے جبکہ اس کے بعد سائنس بھی خاموش ہے۔ اسی تناظر میں ذہن نشین رہے کہ تخلیق روح محمد جو کہ اس مذکورہ مدت سے بھی پہلے تخلیق پذیر ہوئی، اس کے بعد بشری تخلیق آدم علیہ السلام خالق عظیم کا تخلیقِ انسانی میں پہلا حکم کُن فیکون تھا۔
اِنَّ مَثَلَ عِیْسٰی عِنْدَ اللهِ کَمَثَلِ اٰدَمَ ط خَلَقَهٗ مِنْ تُرَابٍ ثُمَّ قَالَ لَهٗ کُنْ فَیَکُوْنُ.
(آل عمران، 3: 59)
’’بے شک عیسیٰ ( علیہ السلام ) کی مثال الله کے نزدیک آدم ( علیہ السلام ) کی سی ہے، جسے اس نے مٹی سے بنایا پھر (اسے) فرمایا ’ہو جا‘ وہ ہوگیا۔‘‘
قارئین ذی وقار! عنوان تخلیق کائنات امرور حکمِ کُن فیکون کی سحر انگیزی ہے تاہم یہ علمی حقیقت ہے کہ معجزات انبیاء اور رسل سے رونما ہوتے ہیں جبکہ کرامات اولیاء اور صالحین امت محمدیہ سے رونما ہوتی ہیں۔ تاہم میری دانست میں یہ امر مشترک ہے کہ معجزہ اور کرامت میں اگر منشاء الہٰی اور حکمِ کُن نہ ہو تو نہ معجزہ رونما ہوتا ہے اور نہ ہی کرامت رونماہوتی ہے یہ ایک اٹل حقیقت ہے۔ جیسے کہ ہزاروں سال قبل دورِ دقیانوس واقعہ اصحاب کہف رونما ہوا جو قرآنی شہادت پر مبنی ہے۔ مطابق قرآن عظیم سورہ کہف کی روشنی میں واقعہ اصحاب کہف چند اولیائے صالحین نوجوانوں کے ساتھ رونما ہوا جو ظالم حکمران کے ساتھ بھی صراط مستقیم پر گامزن رہے۔ دیکھنے میں یہ واقع معمولاتِ زندگی سے ہٹ کر مافوق الفطرت ہے تاہم فوقیت قرآنی کے باعث عظیم الشان قدرت الہٰیہ کا آئینہ دار ہے جو غیر نبی تھے مگر معجزاتی کرشمہ گری کے نتیجے میں حکمِ کُن فیکون کے تحت 309 برس بعد زندہ کردیئے گئے جو بعد از موت روز قیامت دوبارہ زندہ ہونے پر دلیل عظیم ہے۔ رب تعالیٰ نے دو مختلف آیات قرآنی میں موت کے بعد دوبارہ زندگی کا حکم ارشاد فرمایا ہے:
وَهُوَ الَّذِیْ یَبْدَؤُ الْخَلْقَ ثُمَّ یُعِیْدُهٗ وَهُوَ اَهْوَنُ عَلَیْهِ.
(الروم، 30: 27)
’’اور وہی ہے جو پہلی بار تخلیق کرتا ہے پھر اس کا اِعادہ فرمائے گا اور یہ (دوبارہ پیدا کرنا) اُس پر بہت آسان ہے۔ ‘‘
اِنَّهٗ هُوَ یُبْدِئُ وَیُعِیْدُ.
(البروج، 85: 13)
’’بے شک وہی پہلی بار پیدا فرماتا ہے اور وہی دوبارہ پیدا فرمائے گا۔‘‘
قارئین گرامی قدر! حکم کُن فیکون کی سحر انگیزی کے تحت قصص الانبیاء کی روشنی میں چند قرآنی واقعات ملاحظہ ہوں جو فقط حکم کُن فیکون پر دلالت کرتے ہیں:
قارئین گرامی! قبل ازیں یہ بات واضح کرچکا ہوں کہ رب کائنات نے جملہ انبیاء اور رسل کو بے شمار معجزات سے نوازا ہے مگر آقائے دوجہاں حبیب خدا محمد مصطفی کریم ﷺ کی ذات مقدسہ اور عمر عظیم جس کی رب کائنات نے قسم کھائی:
لَعَمْرُکَ اِنَّهُمْ لَفِیْ سَکْرَتِهِمْ یَعْمَهُوْنَ.
(الحجر، 15: 72)
’’(اے حبیبِ مکرّم!) آپ کی عمرِ مبارک کی قَسم، بے شک یہ لوگ (بھی قومِ لوط کی طرح) اپنی بدمستی میں سرگرداں پھر رہے ہیں۔‘‘
کیونکہ خالق عظیم نے محبوب خدا کو سراسر مرقع کُن فیکون بنادیا تھا۔ سب سے بڑا معجزہ کُن فیکون اور اعجاز محمد مصطفی ﷺ قرآن عظیم کا آپؐ کے قلبِ اطہر پر نازل ہوتاہے۔ معروف معجزات میں کنکریوں کا حضور اقدس کی مٹھی مبارک میں کلمہ پڑھنا، درختوں کا جڑ سے اکھڑ کر حاضر ہونا اور سجدہ کرنا، یوم بدر فرشتوں کے ذریعے محمد رسول اللہ کے جانثاروں کی مدد کرنا اور بڑے بڑے کفار کے سرداروں کی گردنیں مسلمانوں کی تلواروں سے کٹوادینا اور فرشتوں کی یلغار کا میدان بدر میں فتح یابی تک موجود رہنا اور جب محمد رسول اللہ ﷺ نے کفار کے لشکر پر کنکریاں پھینکیں اور کفار کی موت واقع ہوئی تو اس منظر پر کفار بھی حیران اور دنگ رہ گئے۔ خدا کی عزت کی قسم! محمد رسول اللہ ﷺ پر اس معجزہ عظیم کا ظاہر ہونا بھی حکمِ کُن فیکون ہی کا ایک عظیم عملی مظاہرہ تھا۔ قرآن عظیم مخاطب ہوا:
وَمَا رَمَیْتَ اِذْ رَمَیْتَ وَلٰـکِنَّ اللهَ رَمٰی.
(الانفال، 8: 17)
’’اور (اے حبیبِ محتشم!) جب آپ نے (ان پر سنگ ریزے) مارے تھے (وہ) آپ نے نہیں مارے تھے بلکہ (وہ تو) اللہ نے مارے تھے۔‘‘
ظاہر ہے کہ رب عظیم کا حضور کے عمل کو اپنا عمل قرار دینا حکمِ کُن ہے۔ قارئین گرامی قدر! یوں تو حکمِ کُن فیکون کا ظاہری اطلاق عملی طور پر آغاز تخلیق کائنات سے ہوا اور انجام بھی حکمِ کُن فیکون کے ذریعے حشر بپا کرکے ہوگا۔ آغاز تخلیق کائنات کے لیے حکم خالق کائنات ارشاد حق تعالیٰ ہوا:
بَدِیْعُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ط وَاِذَا قَضٰٓی اَمْرًا فَاِنَّمَا یَقُوْلُ لَهٗ کُنْ فَیَکُوْنُ.
(البقرة، 2: 117)
’’وہی آسمانوں اور زمین کو وجود میں لانے والا ہے، اور جب کسی چیز (کے ایجاد) کا فیصلہ فرما لیتا ہے تو پھر اس کو صرف یہی فرماتا ہے کہ ’تو ہو جا‘ پس وہ ہو جاتی ہے۔‘‘
اختتام کائنات کے زمرے میں ارشاد حق تعالیٰ ہوا:
وَیَوْمَ یَقُوْلُ کُنْ فَیَکُوْنُ ط قَوْلُهُ الْحَقُّ.
(الانعام، 6: 73)
’’اور جس دن وہ فرمائے گا ہوجا تو وہ (روزِ محشر بپا) ہوجائے گا۔ ‘‘
ملاحظہ ہوں چند قرآنی قصص الانبیاء جن کا اطلاق کُلی فقط حکمِ کُن فیکون کی حقانیت پر موقوف ہے۔
1۔ منطقی لفظ کُن فیکون دیدارِ الہٰی اور ہم کلامی موسیٰؑ:
جب منشاء ایزدی کار فرما ہوئی شوق الہٰی میں مست الست موسیٰ کلیم اللہؑ سے ہم کلامی کرے اور دیدار نور الہٰیہ سے نوازے جس کے لیے وہ مدت سے دشت و بیاباں میں پھر رہے ہیں۔ مشیت ایزدی حضرت موسیٰؑ کو اپنی زوجہ مکرمہ کے ہمراہ وادی ایمن (طور) میں لے گئی۔ گھٹا ٹوپ اندھیری رات تھی اور جنگل میں سخت سردی تھی، زوجہ مکرمہ نے آگ کی تپش کی تمنا کی، حضرت موسیٰؑ نے اہلیہ ؑ کو کہا میں نے دور آگ کا ایک شعلہ مچلتا ہوا دیکھا ہے میں تمہارے لیے کچھ بندوبست کرتا ہوں۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام آگ کی جگہ پہنچے تو کیا دیکھتے ہیں کہ مطلوبہ جگہ جھاڑیوں اور درختوں میں سے ایک ندائے غیب آئی۔ الوہی جلوؤں کے پرتُو سے صدا گونجی موسیٰ یہ آگ میں ہی تیرا رب اللہ ہوں جو سارے جہانوں کا رب ہے تیرے ساتھ ہم کلام ہوں۔ قرآن ارشاد فرماتا ہے:
فَلَمَّا جَآئَهَا نُوْدِیَ اَنْ م بُوْرِکَ مَنْ فِی النَّارِ وَمَنْ حَوْلَهَا.
(النمل، 27: 8)
پھر جب وہ اس کے پاس آپہنچے تو آواز دی گئی کہ بابرکت ہے جو اس آگ میں (اپنے حجاب نور کی تجلی فرما رہا) ہے اور وہ (بھی) جو اس کے آس پاس (اُلوہی جلووں کے پر تو میں) ہے۔‘‘
ابھی حضرت موسیٰؑ ہم کلامی میں محو حیرت اور گم تھے کہ مزید حکم باری تعالیٰ ہوا:
یٰمُوْسٰٓی اِنَّهٗٓ اَنَا اللهُ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ.
(النمل، 27: 9)
’’اے موسیٰ! بے شک وہ (جلوہ فرمانے والا) میں ہی اللہ ہوں جو نہایت غالب حکمت والا ہے۔‘‘
قارئین گرامی قدر! الوہی جلوؤں کے پرتُو میں خالق عظیم کا حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اپنا جلوہ دکھانا اور ہم کلامی کرنا کیا حکمِ کُن فیکون کے جلوے نہ تھے؟ بے شک حکمِ کُن کی جلوہ گری تھی۔ جس نے پورے جنگل کو بقعہ نور بنادیا تھا پھر اسی طرح جب فرعون نے اپنی فوج کے ساتھ حضرت موسیٰؑ کا اور اس کی امت کے جانثاروں کا تعاقب کیا تو سمندر میں حضرت موسیٰؑ کے لیے راستہ بن گیا اور بدبخت فرعون اپنے انجام بد کو پہنچا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
فَلَمَّآ اٰسَفُوْنَا انْتَقَمْنَا مِنْهُمْ فَاَغْرَقْنٰهُمْ اَجْمَعِیْنَ.
(الزخرف، 43: 55)
’’پھر جب انہوں نے (موسیٰ علیہ السلام کی شان میں گستاخی کر کے) ہمیں شدید غضبناک کر دیا (تو) ہم نے اُن سے بدلہ لے لیا اور ہم نے اُن سب کو غرق کر دیا۔‘‘
رب العزت کی حقانیت کی قسم یہ حکم کُن کی ہی کرشمہ سازی تھی۔ پھر اسی طرح جب قوم موسیٰؑ نے خدا تعالیٰ کو اپنی آنکھوں سے دیکھے کا اسرار کیا تو حضرت موسیٰؑ نے خالق عظیم کو التجا کی کہ قوم تجھے دیکھنے کی ضد کررہی ہے تو رب کائنات نے کڑک بجلی کے ذریعے سب کو موت دے دی اور دعائے موسیٰؑ پر سب کو زندہ کردیا۔
وَاِذْ قُلْتُمْ یٰـمُوْسٰی لَنْ نُّؤْمِنَ لَکَ حَتّٰی نَرَی اللهَ جَهْرَۃً فَاَخَذَتْکُمُ الصّٰعِقَةُ وَاَنْتُمْ تَنْظُرُوْنَ.
(البقرة، 2: 55)
’’اور جب تم نے کہا: اے موسیٰ! ہم آپ پر ہرگز ایمان نہ لائیں گے یہاں تک کہ ہم اللہ کو (آنکھوں کے سامنے) بالکل آشکارا دیکھ لیں پس (اس پر) تمہیں کڑک نے آ لیا (جو تمہاری موت کا باعث بن گئی) اور تم (خود یہ منظر) دیکھتے رہے۔‘‘
ثُمَّ بَعَثْنٰـکُمْ مِّنْ م بَعْدِ مَوْتِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَ.
(البقرة، 2: 56)
’’پھر ہم نے تمہارے مرنے کے بعد تمہیں (دوبارہ) زندہ کیا تاکہ تم (ہمارا) شکر ادا کرو۔‘‘
کیا یہ حکم کُن فیکون کا عملی نمونہ نہ تھا کہ قوم موسیٰؑ کے مرنے والوں کو حکمِ کُن سے دوبارہ زندہ کیا۔
2۔ قرآنی حکم کُن فیکون آدم ثانی اور حضرت نوحؑ:
جب قوم نوح علیہ السلام نے حضرت نوحؑ کی نافرمانی کی جن میں حضرت نوحؑ کا بیٹا بھی شامل تھا۔ حضرت نوحؑ حکم الہٰی سے 40 افراد کے ساتھ ہر جانور کا جوڑ ایسے حکم الہٰی سے بنائی گئی کشتی میں سوار ہوئے منشاء ایزدی سے آسمان سے پانی برسا اور پہاڑ سے اونچی طوفانی لہروں نے نافرمانوں کو آلیا اور وہ سب ڈوب گئے۔ حکم خداوندی صادر ہوا:
وَ قِیْلَ یٰٓـاَرْضُ ابْلَعِیْ مَآئَکِ وَیٰـسَمَآءُ اَقْلِعِیْ وَغِیْضَ الْمَآءُ.
(ھود، 11: 44)
’’اور (جب سفینۂ نوح کے سوا سب ڈوب کر ہلاک ہو چکے تو) حکم دیا گیا: اے زمین! اپنا پانی نگل جا اور اے آسمان! تو تھم جا، اور پانی خشک کر دیا گیا۔‘‘
قارئین گرامی قدر! یہ حکم قرآنی درحقیقت حکمِ کُن فیکون کا عملی نمونہ ہی تو تھا۔
3۔ قرآنی حکم کُن فیکون اور آتشِ نمرود:
جب حضرت ابراہیمؑ خلیل اللہ نے کفار کے بت پاش پاش کردیئے اور خدا تعالیٰ کی وحدانیت کا پرچار کیا تو ائمہ کفر اور نمرود نے ایک مہینہ کی مدت میں لکڑیاں اکٹھی کرکے بہت بڑی آگ کا انتظام کیا اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کو خدا کی وحدانیت کے پرچار اور بت پرستی سے منع کرنے پر آگ کے چِلے میں ڈال دیا جس کی اونچائی اتنی تھی کہ آسمان دنیا پر کوئی پرندہ آگ کے اوپر اڑ نہ سکتا تھا اور حضرت ابراہیمؑ کی زبان پر یہ الفاظ تھے:
حَسْبُنَا اللهُ وَنِعْمَ الْوَکِیْلُ.
(آل عمران، 3: 173)
’’ہمیں اللہ کافی ہے اور وہ کیا اچھا کارساز ہے۔‘‘
آتش نمرود خالق عظیم کے حکمِ کُن فیکون سے گلزار بن گئی۔ جبرائیل علیہ السلام نے آسمان سے باتیں کرتی آگ میں اپنے پَر بچھادیئے اور حضرت ابراہیمؑ کو آتش نمرود سے محفوظ کرلیا۔ جس حکمِ کُن فیکون سے آگ پھول بنی وہ قرآنی حکم تھا۔
قُلْنَا یٰـنَارُ کُوْنِیْ بَرْدًا وَّسَلٰـمًا عَلٰٓی اِبْرٰهِیْمَ.
’’ہم نے فرمایا: اے آگ! تو ابراہیم پر ٹھنڈی اور سراپا سلامتی ہو جا۔‘‘
(الانبیاء، 21: 69)
اسی طرح جب رب تعالیٰ کے حضور حضرت ابراہیمؑ نے موت اور زندگی کا عین الیقین چاہا تو رب کائنات نے حضرت ابراہیم کو حکم دیا کہ آپ چار مختلف پرندے لو اور انہیں مانوس کرنے کے بعد ذبح کرکے ان کے ٹکڑے دور پہاڑوں پر پھینک دو اور پھر میرے اذن سے ان کو اپنی طرف بلاؤ اسی طرح ہوا حضرت ابراہیمؑ نے پرندوں کے کٹے ہوئے بکھرے ہوئے ٹکڑوں کو اذن اللہ سے اشارہ کیا تو وہ چاروں پرندے صحیح حالت میں حضرت ابراہیمؑ کے پاس حاضر ہوگئے۔
وَاِذْ قَالَ اِبْرٰھٖمُ رَبِّ اَرِنِیْ کَیْفَ تُحْیِ الْمَوْتٰی ط قَالَ اَوَلَمْ تُؤْمِنْ ط قَالَ بَلٰی وَلٰـکِنْ لِّیَطْمَئِنَّ قَلْبِیْ ط قَالَ فَخُذْ اَرْبَعۃً مِّنَ الطَّیْرِ فَصُرْھُنَّ اِلَیْکَ ثُمَّ اجْعَلْ عَلٰی کُلِّ جَبَلٍ مِّنْھُنَّ جُزْئًا ثُمَّ ادْعُھُنَّ یَاْتِیْنَکَ سَعْیًا ط وَاعْلَمْ اَنَّ اللهَ عَزِیْزٌ حَکِیْمٌ.
(البقرة، 2: 260)
’’اور (وہ واقعہ بھی یاد کریں) جب ابراہیم ( علیہ السلام ) نے عرض کیا: میرے رب! مجھے دکھا دے کہ تُو مُردوں کو کس طرح زندہ فرماتا ہے؟ ارشاد ہوا: کیا تم یقین نہیں رکھتے؟ اس نے عرض کیا: کیوں نہیں (یقین رکھتا ہوں) لیکن (چاہتا ہوں کہ) میرے دل کو بھی خوب سکون نصیب ہو جائے، ارشاد فرمایا: سو تم چار پرندے پکڑ لو پھر انہیں اپنی طرف مانوس کر لو پھر (انہیں ذبح کر کے) ان کا ایک ایک ٹکڑا ایک ایک پہاڑ پر رکھ دو پھر انہیں بلاؤ وہ تمہارے پاس دوڑتے ہوئے آ جائیں گے، اور جان لو کہ یقینا الله بڑا غالب بڑی حکمت والا ہے۔‘‘
بے شک یہ عمل حکمِ کُن فیکون ہی تھا لیکن یہ معجزہ حضرت ابراہیم پر ظاہر ہوا۔
4۔ قرآنی حکم کُن فیکون اور حضرت عیسیٰؑ:
قارئین محتشم! یاد کریں جب حضرت جبرائیل علیہ السلام ہوبہو آدمی کی صورت میں حضرت بی بی مریم سلام اللہ علیہا کے پاس حاضر ہوئے اور خاتون پاک دامن کو ایک بیٹے کی بشارت عطا فرمائی۔ جس کا تذکرہ خالق عظیم نے سورہ مریم آیت نمبر16 تا 26 میں کیا ہے۔ تاہم رب کائنات نے حکمِ کُن کے استدلال میں فرمایا ہے:
وَالَّتِیْٓ اَحْصَنَتْ فَرْجَهَا فَنَفَخْنَا فِیْهَا مِنْ رُّوْحِنَا وَجَعَلْنٰهَا وَابْنَهَآ اٰیَةً لِّلْعٰلَمِیْنَ.
(الانبیاء، 21: 91)
’’اور اُس (پاکیزہ) خاتون (مریم علیہا السلام ) کو بھی (یاد کریں) جس نے اپنی عفت کی حفاظت کی پھر ہم نے اس میں اپنی روح پھونک دی اور ہم نے اسے اور اس کے بیٹے (عیسیٰ علیہ السلام ) کو جہان والوں کے لیے (اپنی قدرت کی) نشانی بنا دیا۔‘‘
بے شک یہ امر بذتہی کُن فیکون ہی تھا کہ رب تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو بن باپ کے اپنی قدرت کاملہ کے مافوق الفطرت انداز میں تخلیق کیا۔ جیساکہ اللہ نے سورہ آل عمران آیت نمبر59 میں فرمادیا ہے کہ
عیسیٰ علیہ السلام کی شان کے نزدیک آدمؑ کی سی ہے مٹی سے بنایا کہا ہو جا تو ہوگیا اور پھر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا مٹی کے پرندے بناکر ان میں باذن اللہ روح پھونکنا بھی حکم کُن فیکون ہی ہے جس کے لیے قرآن ارشاد فرماتا ہے:
وَ رَسُوْلًا اِلٰی بَنِیْٓ اِسْرَآئِیْلَ اَنِّیْ قَدْ جِئْتُکُمْ بِاٰیَةٍ مِّنْ رَّبِّکُمْ اَنِّیْٓ اَخْلُقُ لَکُمْ مِّنَ الطِّیْنِ کَهَیْئَۃِ الطَّیْرِ فَاَنْفُخُ فِیْهِ فَیَکُوْنُ طَیْرًام بِاِذْنِ اللهِ.
(آل عمران، 3: 49)
’’اور وہ بنی اسرائیل کی طرف رسول ہوگا (ان سے کہے گا) کہ بے شک میں تمہارے پاس تمہارے رب کی جانب سے ایک نشانی لے کر آیا ہوں میں تمہارے لیے مٹی سے پرندے کی شکل جیسا (ایک پُتلا) بناتا ہوںپھر میں اس میں پھونک مارتا ہوں سو وہ الله کے حکم سے فوراً اڑنے والا پرندہ ہو جاتا ہے اور میں مادرزاد اندھے اور سفید داغ والے کو شفایاب کرتا ہوں اور میں الله کے حکم سے مُردے کو زندہ کر دیتا ہوں۔‘‘
اِذَا قَضٰٓی اَمْرًا فَاِنَّمَا یَقُوْلُ لَهٗ کُنْ فَیَکُوْنُ.
(آل عمران، 3: 47)
’’جب کسی کام (کے کرنے) کا فیصلہ فرما لیتا ہے تو اس سے فقط اتنا فرماتا ہے کہ ’ہو جا‘ وہ ہو جاتا ہے۔‘‘
اسی طرح سورہ المائدہ آیت نمبر110 بھی رب تعالیٰ کے حکمِ کُن فیکون کی ترجمان ہے اور حکمِ کُن فیکون کی بدولت آسمان پر اٹھا لیے گئے۔
5۔ قرآنی حکم کُن فیکون اور حضرت یوسفؑ:
حضرت یوسف علیہ السلام کو جب ان کے بھائیوں نے اندھے کنوئیں میں ڈالا تو ان کے کنوئیں میں پہنچنے سے بھی پہلے حضرت جبرائیل امینؑ خدا کے حکم سے پہنچ گئے اور اپنے پروں پر اٹھالیا اور وحی نازل کی۔
فَلَمَّا ذَهَبُوْا بِهٖ وَاَجْمَعُوْٓا اَنْ یَّجْعَلُوْهُ فِیْ غَیٰـبَتِ الجُبِّ.
(یوسف، 12: 15)
’’پھر جب وہ اسے لے گئے اور سب اس پر متفق ہوگئے کہ اسے تاریک کنویں کی گہرائی میں ڈال دیں تب ہم نے اس کی طرف وحی بھیجی۔‘‘
قارئین گرامی قدر! حفاظت یوسف علیہ السلام کرتا اور قافلے کے ذریعے کنوئیں میں سے نکال کر بالآخر نبوت اور بادشاہت سے نوازنا حکم کُن فیکون ہی تھا۔
6۔ قرآنی حکم کُن فیکون اور حضرت یونسؑ:
حضرت یونس علیہ السلام کو جب مچھلی نے زندہ نگل لیا اور اپنے پیٹ میں 40 دن محفوظ اور سلامت رکھنے کے بعد اُگل دینا بھی حکمِ کُن فیکون کا عملی مظاہرہ قدرت تھا۔ قرآن نے ارشاد فرمایا:
فَالْتَقَمَهُ الْحُوْتُ وَ هُوَ مُلِیْمٌ.
(الصافات، 37: 142)
’’پھر مچھلی نے ان کو نگل لیا اور وہ (اپنے آپ پر) نادم رہنے والے تھے۔‘‘
اور پھر جب حکمِ کُن کی کرشمہ سازی ہوئی تو خالقِ ارض و سماوات کے حکم سے جب مچھلی نے حضرت یونسؑ کو صحیح حالت میں زندہ و سلامت اُگل دیا تو قرآن مخاطب ہوا:
فَنَبَذْنٰـهُ بِالْعَرَآءِ وَهُوَ سَقِیْمٌ.
(الصافات، 37: 145)
’’پھر ہم نے انہیں (ساحلِ دریا پر) کھلے میدان میں ڈال دیا حالاں کہ وہ بیمار تھے۔‘‘
7۔ قرآنی حکم کُن فیکون اور حضرت سلیمانؑ:
حضرت سلیمان علیہ السلام نے درباریوں کو حکم دیا کہ کون ہے؟ جو ملکہ سبا سے ملکہ سبا کا تحت میرے پاس حاضر کرے۔ جنات میں سے ایک قوی ھیکل جن نے عرض کیا میں آپ کے اٹھنے سے پہلے تخت آپ کے حضور حاضر کرسکتا ہوں لیکن کتاب اللہ کا علم رکھنے والے ایک شخص آصف برخیا نے کہا حضور! میں ان شاء اللہ فضل ربی سے آنکھ جھپکنے سے بھی پہلے تخت لاسکتاہوں۔ پھر ایسا ہی ہوا چشمِ زدن میں خواہش سلیمانؑ پر تخت حاضر کریا گیا۔ خدا کی قسم یہ حکمِ کُن فیکون تھا۔
قَالَ الَّذِیْ عِنْدَهٗ عِلْمٌ مِّنَ الْکِتٰبِ اَنَا اٰتِیْکَ بِهٖ قَبْلَ اَنْ یَّرْتَدَّ اِلَیْکَ طَرْفُکَ ط فَلَمَّا رَاٰهُ مُسْتَقِرًّا عِنْدَهٗ قَالَ هٰذَا مِنْ فَضْلِ رَبِّیْ.
(النمل، 27: 40)
’’(پھر) ایک ایسے شخص نے عرض کیا جس کے پاس (آسمانی) کتاب کاکچھ علم تھا کہ میں اسے آپ کے پاس لا سکتا ہوں قبل اس کے کہ آپ کی نگاہ آپ کی طرف پلٹے (یعنی پلک جھپکنے سے بھی پہلے)، پھر جب (سلیمان علیہ السلام نے) اس (تخت) کو اپنے پاس رکھا ہوا دیکھا (تو) کہا: یہ میرے رب کا فضل ہے۔‘‘
8۔ قرآنی حکم کُن فیکون اور واقعہ قوم ثمود حضرت صالحؑ:
جب قوم ثمود نے حکمِ الہٰی اور حضرت صالح علیہ السلام کے حکم کی نافرمانی کی اور اللہ کی خاص طریقہ پر تخلیق کردہ اونٹنی کی کونچیں کاٹ کر ذبح کر ڈالا تو حکمِ الہٰی سے قوم ثمود کو عذاب نے آلیا، قرآن مخاطب ہوا:
وَ اَخَذَ الَّذِیْنَ ظَلَمُوا الصَّیْحَۃُ فَاَصْبَحُوْا فِیْ دِیَارِھِمْ جٰثِمِیْنَ.
(ھود، 11: 67)
’’اور ظالم لوگوں کو ہولناک آواز نے آپکڑا سو انہوں نے صبح اس طرح کی کہ اپنے گھروں میں (مُردہ حالت میں) اوندھے پڑے رہ گئے۔‘‘
قارئین ذی وقار! یہ حکمِ کُن ہی تھا جس پر وہ انجام پذیر ہوئے کیونکہ قرآن نے فرمادیا ہے جو اٹل حقیقت ہے۔
هُوَ الَّذِیْ یُحْیٖ وَیُمِیْتُ ج فَـاِذَا قَضٰٓی اَمْرًا فَـاِنَّمَا یَقُوْلُ لَهٗ کُنْ فَیَکُوْنُ.
(المؤمن، 40: 68)
’’وہی ہے جو زندگی دیتا ہے اور موت دیتا ہے پھر جب وہ کسی کام کا فیصلہ فرماتا ہے تو صرف اسے فرما دیتا ہے: ہو جا۔ پس وہ ہو جاتا ہے۔‘‘
9۔ قرآنی حکم کُن فیکون اور شکست جالوت:
فوج جالوت کا نیست و نابود اور جالوت کا حضرت داؤد علیہ السلام کے ہاتھوں قتل ہوجانا اور حضرت داؤد علیہ السلام کو اللہ نے اپنے فضل سے بڑی فتح و نصرت سے نوازا یقینا امر ربی ہے اور خداوند عظیم کے حکمِ کُن فیکون کا عملی مظاہرہ تھا۔
فَھَزَمُوْھُمْ بِاِذْنِ اللهِ قف وَقَتَلَ دَاوٗدُ جَالُوْتَ.
(البقرة، 2: 251)
’’پھر انہوں نے ان (جالوتی فوجوں) کو اللہ کے امر سے شکست دی، اور داؤد (علیہ السلام) نے جالوت کو قتل کر دیا۔‘‘
10۔ قرآنی حکم کُن اور حضرت عزیرؑ کا معجزہ:
جب حضرت عزیرؑ ایک بستی پر سے گزرے جو اپنی چھتوں پر گری پڑی تھی تو انہوں نے کہا اللہ اس کی موت کے بعد کیسے زندہ فرمائے گا۔ سو رب کائنات اپنی قدرت کا مشاہدہ کروانے کے لیے اسے سو برس تک مردہ رکھا اور پھر اسے ان کی سواری گدھے سمیت زندہ کیا اور نیست و نابود ہوا کھانا بھی اسی تازہ حالت میں کردیا تو حضرت عزیرؑ فوری کانپ اٹھے اور عرض کیا میں مشاہداتی یقین سے جان گیا ہوں کہ بے شک اللہ ہر چیز پر کامل دسترس اور قدرت رکھتا ہے۔ بے شک یہ حضرت عزیرؑ اور گدھے کو سو برس بعد دوبارہ زندہ سلامت اٹھانا خالق عظیم کا حکمِ کُن فیکون ہی تھا۔
اِذَآ اَرَادَ شَیْئًا اَنْ یَّقُوْلَ لَهٗ کُنْ فَیَکُوْنُ.
’’جب وہ کسی شے کو (پیدا فرمانا) چاہتا ہے تو اسے فرماتا ہے ہو جا، پس وہ فوراً (موجود یا ظاہر) ہو جاتی ہے (اور ہوتی چلی جاتی ہے)۔‘‘
(یٰسن، 36: 82)
11۔ حکم کُن فیکون اور واقعہ ذبح اسماعیلؑ:
حضرت ابراہیم علیہ السلام نے خالق کائنات کے حضور دعا مانگی کہ صالحین میں سے مجھے ایک (فرزند) عطا فرما اور رب عظیم نے اپنے خلیل اللہ کی دعا کو مستجابی بخشی اور ایک خوبصورت بردبار بیٹا (اسماعیلؑ) عطا کردیا۔ جب حضرت اسماعیل علیہ السلام تھوڑا چلنے کے قابل ہوئے تو حضرت ابراہیمؑ نے اپنے فرزند ارجمند کو فرمایا: میرے بیٹے! میں نے خواب دیکھا ہے کہ میں تجھے ذبح کررہا ہوں۔ تمہاری کیا رائے ہے نبی کا فرزند اورنبی تھا فوری عرض کیا: ابا جان! یہ کام فوری کر ڈالیں جس کا رب تعالیٰ نے حکم دیا ہے۔ اللہ نے چاہا تومجھے آپ صبر کرنے والوں میں پائیںگے۔ بالآخر دونوں انبیاء حکم ربی کے آگے جھک گئے اور پھر حضرت ابراہیمؑ نے تعمیل حکم الہٰی میں اپنے بیٹے اسماعیلؑ کو ذبح کرنے کے لیے پیشانی کے بل اوندھا لٹالیا اور چھری گردن اسماعیل پر پھیردی جبکہ آنکھوں پر پٹی بندھی تھی۔ پھر خالق عظیم نے بہت بڑی قربانی کے ساتھ اس کا فدیہ کردیا حتی کہ جبرائیل امین علیہ السلام کو حکم دیا کہ جنت سے مینڈھا لے آؤ حضرت جبرائیل علیہ السلام آناً فاناً مینڈھا لے آئے جب اللہ اکبر کے بعد حضرت ابراہیم نے آنکھوں سے پٹی کھولی تو اسماعیلؑ کی جگہ یہ مینڈھا ذبح ہوا پڑا تھا۔ قارئین گرامی قدر! کیا یہ حکمِ کُن فیکون نہ تھا یقینا تھا۔
(الصافات، 37: 100 تا 107)
12۔ حکمِ کُن فیکون اور خزانہ قارون:
یہ بات درست ہے کہ بے شک قارون حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قوم میں سے تھا اور بعض مفسرین نے لکھا ہے کہ آپ کے عزہ میں سے تھا تاہم آئمہ کفر میں شمار تھا جس نے حضرت موسیٰؑ کی تعلیمات اور احکامات الہٰیہ کو بھی نہ مانا۔ اسے اللہ تعالیٰ نے بے شمار خزانے عطا کررکھے تھے۔ تاہم غرور کرنے والوں میں تھا اور خزانے کے بل بوتے پر اترانے لگا تھا وہ یہ بھول گیا تھا کہ اللہ اترانے والوں کو پسند نہیں فرماتا۔ کثرتِ دولت کے باعث فساد فی الارض کا مرتکب ہوگیا تھا اور کہنے لگا میں نے یہ مال و دولت اپنی دانائی اور دانش سے حاصل کی ہے۔ بالآخر قدرت کاملہ جوش میں آگئی۔ خدا کی زمین پر اترانے والے فحاش متکبر اور گناہ کی دلدل میں اترے ہوئے قارون کو اللہ نے عبرت ناک انجام سے دوچار کردیا۔ رب کائنات اور مالک یوم الدین نے خزانے سمیت چشم زدن میں زمین میں غرق کردیا۔
فَخَسَفْنَا بِهٖ وَبِدَارِهِ الْاَرْضَ.
(القصص، 28: 81)
’’پھرہم نے اس (قارون) کو اور اس کے گھر کو زمین میں دھنسا دیا۔‘‘
13۔ حکمِ کُن اور ہاتھی والے ابراہہ کا نجام:
ائمہ کفر میں سے طاقت کے نشہ میں بدمست ابراہہ جو کہ ائمہ کفر میں سے ایک بدبخت تھا۔ اس نے ہاتھیوں کے ساتھ خانہ کعبہ پر چڑھائی کردی اور مظلوم مسلمانوں پر حملہ آور ہوگیا۔ رب ذوالجلال کی ہیبت خدائی جوش میں آگئی اور اس نے ننھے پرندے ابابیل کے جھنڈ کے جھنڈ ہر سمت سے نازل فرمائے جو ہاتھیوں اور ہاتھی والوں پر کنکریلے پتھر پھینکتے تھے۔ اللہ نے اپنی قدرت کاملہ کے باعث اس بدمست ابراہہ کو انجام بد تک پہنچایا۔ ہاتھیوں سمیت کھائے ہوئے بھوسے کی مانند کردیا۔ قارئین گرامی قدر! بے شک یہ خانہ کعبہ کی بے حرمتی اور مظلوم مسلمانوں کو قلع قمع کرنے پر عبرت ناک انجام سے دوچار کرنا اور حکمِ کُن فیکون کا عملی مظاہرہ تھا۔