مصائب و آلام اور پریشانیوں پر شکوہ و شکایات کو ترک کر دینا صبرکہلاتا ہے۔ کامیابی کے بے شمار تقاضے ہیں لیکن صبر و تحمل اور برداشت کامیاب اور پروقار زندگی کیلئے نہایت ضروری ہے۔ صبرکے لغوی معنیٰ ہیں روکنا، برداشت کرنا، ثابت قدم رہنا یا باندھ دینا۔ صبر ایسی عظیم نعمت خداوندی ہے جو اہل قدر کو نصیب ہوتی ہے۔ مقاماتِ دین میں صبرکو ایک اہم مقام حاصل ہے۔ صبر و تحمل اور برداشت و رواداری اللہ تعالیٰ کے انعام یافتہ بندوں کی منازل میں سے ایک منزل اور اولوالعزم کی خصلت ہے۔ صبر اخلاق فاضلہ میں سے ہے۔ وہ شخص خوش نصیب ہے جس نے تقویٰ کے ذریعے ہوائے نفس پر اور صبر کے ذریعے شہواتِ نفس پر قابو پا لیا اور نیک عمل کرتے رہے ایسے لوگوں کیلئے مغفرت کی بشارت ہے۔ اللہ رب العزت نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا:
اِلَّا الَّذِیْنَ صَبَرُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ اُولٰٓئِکَ لَهُمْ مَّغْفِرَةٌ وَّ اَجْرٌ کَبِیْرٌ.
سوائے ان لوگوں کے جنہوں نے صبر کیا اور نیک عمل کرتے رہے، (تو) ایسے لوگوں کے لئے مغفرت اور بڑا اجر ہے۔
صابر کی اقسام سے متعلق حضرت ابن سالم رحمۃ اللہ علیہ سے صبر کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا: صابر تین طرح کے ہوتے ہیں متصبر، صابر اور صبار۔ متعبر وہ ہوتا ہے جو اللہ کے بارے میں صبر کرتا ہے یہ کبھی تو صبر کرلیتا ہے اور کبھی نہیں کرسکتا، اس کا صبر تو ویسے ہی ہوتا ہے جسے حضرت قناد رحمۃ اللہ علیہ سے صبر کے بارے میں سوال ہوا تو انہوں نے بتایا:اللہ کی روکی ہوئی چیزوں سے ہر صورت منہ موڑ لینا اور جن کا اس نے حکم دیا ہے ان پر ہمیشہ عمل کرنا۔صابر وہ ہوتا ہے جو اللہ کے بارے میں اور اللہ کے لیے صبر کرے مگر بے چینی نہ دکھائے۔صبار وہ بندہ ہوتا ہے جو بہت زیادہ صبرکرنے والا ہو۔
صبر دو طرح کا ہوتا ہے ایک تو ایسے معاملات میں صبر کرنا جس کا بندے کے پاس اختیار نہیں ہوتا اور وہ اس سے متعلق کچھ نہیں کر سکتا ہوتا ایسے حالات و معاملات کو صبر سے برداشت کرنا اور دوسرا ایسے کاموں اور معاملات میں صبر کرنا جو کہ انسان کے بس میں ہوتا ہے لیکن اس کو رضائے الٰہی کیلئے چھوڑ دینا صبر ہے۔صبر میں اگر خلوص موجود ہو تو انسان کی روح کو شفافیت نصیب ہوتی ہے۔
صبر کی اہمیت و افادیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اللہ رب العزت نے صاحب اجر کا اپنے ہاں بے حساب اجر وثواب رکھا ہے۔ دور حاضر میں انسان دین دوری کے باعث رب تعالیٰ کی حضوری اور ایمان بالغیب سے متعلق بے یقینی کا شکار ہے۔ انسان اپنا سب کچھ اسی دنیا میں ہی پورا کرنا چاہتا ہے۔ اگر ہم اللہ رب العزت کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق اپنے معاملات میں صبر و تحمل اور برداشت سے کام لیں تو ہمارے زیادہ تر مسائل خود بخود ہی حل ہو جائیں گے۔ کیونکہ معاشرے میں انسان کسی بھی مقام پر کام کر رہا ہو یا اس کی کوئی بھی حیثیت ہو جب کوئی کام انسان کے خلاف منشاء ہو جاتا تو انسان غصے میں آجاتا ہے اور بعض اوقات برداشت نہ ہونے کی بناء پر انسان سے ایسی حرکات سرزرد ہو جای ہیں جو کہ اس کی شخصیت کو داغ دار بنا دیتی ہیں۔ جس طرح خوشیاں اور آسانیاں اللہ رب العزت کی طرف سے ہوتی ہیں اسی طرح آزمائش اور مشکلات بھی اسی بارگاہ کی طرف سے ہی ہوتی ہیں۔ مشکلات انسانی زندگی کا ایک اہم حصہ ہیں ہر شخص کو اپنی زندگی کے کسی نہ کسی فیز میں مشکلات اور آزمائشوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے لیکن کامیاب شخص وہی ہے جو مشکلات میں صبرو تحمل کا مظاہرہ کرتا ہے۔ اور کامیاب بھی وہی شخص ہے جو حالات کا صبر و تحمل سے سامنا کرتا ہے۔ اللہ رب العزت نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا ہے:
وَلَنَبْلُوَنَّکُمْ بِشَیْءٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَالْجُوْعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الْاَمْوَالِ وَالْاَنْفُسِ وَالثَّمَرٰتِ وَبَشِّرِ الصّٰبِرِیْنَo الَّذِیْنَ اِذَآ اَصَابَتْهُمْ مُّصِیْبَةٌ قَالُوْآ اِنَّا ِللّٰهِ وَاِنَّآ اِلَیْهِ رٰجِعُوْنَo
(البقرة، 2، 155-156)
اور ہم ضرور بالضرور تمہیں آزمائیں گے کچھ خوف اور بھوک سے اور کچھ مالوں اور جانوں اور پھلوں کے نقصان سے، اور (اے حبیب!) آپ (ان) صبر کرنے والوں کو خوشخبری سنا دیں۔ جن پر کوئی مصیبت پڑتی ہے تو کہتے ہیں: بے شک ہم بھی اللہ ہی کا (مال) ہیں اور ہم بھی اسی کی طرف پلٹ کر جانے والے ہیں۔
صبرکی اہمیت و افادیت پر اس قدر زور دیا گیا ہے کہ قرآن پاک میں اس کاذکر 70 بار آیا ہے۔ صبر ہمیں بہت سے مہلک امراض سے بچاتا ہے۔ صبر و تحمل اور برداشت کی کمی کی وجہ سے ہمیں بہت سی بیماریوں اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ہم فرسٹریشن، ڈیپریشن یا ٹینشن جیسی مہلک امراض عموماً عدم برداشت کی وجہ سے ہی ہوتی ہیں۔
صبر اور برداشت کا اس کائنات کے نظام سے بڑا گہرا تعلق ہے۔ کائنات کے ہر کام میں صبر کی آمیزش ہے۔ مثلاً چاند، ستارے اور سیارے سب اپنے مدار میں ہی گردش کر رہے ہیں رات کے بعد دن آتا ہے اور دن کے بعد رات ۔ سب اپنے اپنے مدار میں گردش کرہے ہیں اور صبر سے اپنے وقت کا انتظار کر رہے ہیں کسی کی یہ مجال نہیں ہے کہ وہ کسی اور کا وقت آ لے۔ ایک بیج ایک ہی لمحے میں درخت نہیں بن جاتا اسے انتظار کرنا پڑتا بیج سے پودا اور پھر اس سے پھلدار درخت بننے تک کا صبر سے انتظار کرنا پڑتا ہے۔ کائنات کے نظام میں ہر عمل میں صبر کی آمیزش ہمیں ربط بھی سکھاتی ہے۔ کسی بھی منزل کو پانے کیلئے ہر انسان کو حالات و واقعات کی سیڑھی سے گزرنا پڑتا ہے۔ اگر انسان صبر نہیں کرتا تو وہ مایوسی کا شکارہو جاتا ہے۔ صبر کرنا نہایت مشکل عمل بھی ہے کیونکہ اس میں مشقت و کرواہٹ پائی جاتی ہے۔ مشقت و کرواہٹ صبر کے راستے میں ایک بہت بڑی تلخی ہے جس کو برداشت کرنے کیلئے صبر کرنا پڑتا ہے جسے مصابرہ کہتے ہیں۔ جب بندہ مصابرہ کے درجے پر پہنچے تب ہی صبر کی لذت پہنچتی ہے۔ اور یہ لذت اہل نصیب کو ہی پہنچتی ہے۔ اور اہل نصیب اور اہل قدر لوگ کو ہی اللہ تعالیٰ اپنی آزمائشوں میں ڈالتا ہے۔ اس کی سب سے بڑی مثال حضرت ایوبؑ کا صبر اور حضرت ابراہیم ؑ کی آزمائش اور ان کا صبر ہے۔ حدیث پاک میں ہے: حضرت سعد رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! لوگوں میں سب سے زیادہ سخت آزمائش کس کی ہوتی ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا : انبیاء کرام علیہم السلام کی، پھر درجہ بدرجہ مقربین کی۔ آدمی کی آزمائش اس کے دینی مقام کے مطابق ہوتی ہے۔ اگر دین میں مضبوط ہو تو سخت آزمائش ہوتی ہے۔ اگر دین میں کمزور ہو تو حسبِ دین آزمائش کی جاتی ہے۔ بندے کے ساتھ یہ آزمائشیں ہمیشہ رہتی ہیں حتیٰ کہ (مصائب پرصبر کی وجہ سے) وہ زمین پر اس طرح چلتا ہے کہ اس پر کوئی گناہ نہیں ہوتا۔ اس حدیث کو امام ترمذی اور ابن ماجہ نے روایت کیا ہے اور امام بخاری نے ترجمۃ الباب میں مختصرًا روایت کیا ہے۔ امام ابو عیسیٰ فرماتے ہیں کہ یہ حدیث حسن ہے۔اور امام احمد کی ایک روایت میں ہے: لوگوں میں سب سے زیادہ سخت آزمائے جانے والے انبیاء کرام علیہم السلام ہوتے ہیں پھر جو ان سے قریب ہوتے ہیں پھر جو ان سے قریب ہوتے ہیں پھر جو ان سے قریب ہوتے ہیں۔ امام حاکم کی ایک روایت میں ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے(درج بالا سوال کے جواب میں) فرمایا : انبیاء کرام علیہم السلام، پوچھا گیا ان کے بعد، تو آپ نے فرمایا :علماء، عرض کیا گیا کہ پھر کون تو حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا :صالحین۔
صبرہزارعبادتوں کی ایک عبادت ہے۔ صبر سے انسان کو روحانی ترقی نصیب ہوتی ہے۔ صبر ایک ایسا راستہ ہے جو انسان کو منزل کے قریب کردیتا ہے حدیث پاک میں حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : صبر نصف ایمان ہے۔ اس حدیث کو امام بیہقی اور قضاعی نے روایت کیا ہے۔
صحابہ کرام اور اور سلف صالحین نے بھی صبر کی اہمیت پر زور دیا ہے اور ان سب کی زندگیا ں تو صبر و برداشت اور رواداری کا مرقع تھیں۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ہم نے اپنی بہترین زندگی صبر کے ساتھ پائی ہے۔ صبر کی انسانی زندگی اور ایمان میں بہت اہم حیثیت ہے۔ حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے فرمایا: صبر کا ایمان میں وہی مقام ہے جو سر کا بدن میں ہے۔ اسی طرح صبر کی افادیت بیان کرتے ہوئے ایک اور مقام پرحضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے فرمایا: صبر ایسی سواری ہے جو کبھی ٹھوکر نہیں کھاتی۔
حضرت سری سقطی رحمۃ اللہ علیہ سے صبر کے متعلق دریافت کیا گیا تو آپ صبر پر گفتگو فرمانے لگے۔ اسی دوران ایک بچھو ان کی ٹانگ پر چڑھ گیا اور کئی ایک ڈنگ مارے مگر آپ نے قطعاً حرکت نہ کی۔ آپ سے کسی نے کہا کہ آپ نے اسے ہٹا کیوں نہیں دیا؟ فرمایا : مجھے اللہ سے شرم آ گئی کہ میں صبر کے متعلق گفتگو تو کروں مگر خود صبر نہ کروں۔
اسی طرح دیگر آئمہ کرام نے بھی صبر کی بہت زیادہ اہمیت و افادیت بیان کی ہے۔
حضرت حارث محاسبی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا : ہر شے کا جوہر ہوتا ہے۔ انسان کا جوہر عقل ہے اور عقل کا جوہر صبر ہے۔
حضرت خواص رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا: کتاب و سنت کے احکام پر ثابت قدم رہنا صبر ہے۔
امام قشیری رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں کہ جس طرح انسان عافیت کے ہوتے ہوئے اپنی حالت پر ثابت قدم رہتا ہے، اسی طرح اچھے آداب کے ساتھ مصیبت پر ثابت قدم رہنا صبر کہلاتا ہے۔
حضرت شقیق بلخی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا: صبر اور رضا دو صورتیں ہیں۔ جب تو عمل کرنا شروع کرے تو اس کا آغاز صبر ہے اور اس کا انجام رضا ہے۔
حضرت ابو علی الدقاق رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا: صابرین دونوں جہانوں کی عزت کے ساتھ کامیاب ہوئے، کیونکہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کی معیت حاصل کی۔ پس اللہ تعالیٰ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔
حضرت ذو النون رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا: اللہ کے احکام کی مخالفت سے دور رہنے، مصائب کے گھونٹ پینے پر سکون و اطمینان، اور زندگی کے میدان میں محتاجی کے باوجود اپنے آپ کو مالدار ظاہر کرنے کا نام صبر ہے۔
حضرت عمرو بن عثمان رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کے احکام پر ثابت قدم رہنا اور اس کی آزمائش کو خندہ پیشانی اور سکون کے ساتھ قبول کرنا صبر ہے۔
حضرت یحییٰ بن معاذ رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا: بلاؤں کے نزول سے صبر کی حقیقتیں سامنے آتی ہیں اور تقدیر کے ظاہر ہونے سے رضا کی حقیقتیں سامنے آتی ہیں۔
حضرت خیر النساج رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا: صبر مردوں کے اخلاق میں سے ہے اور رضا کریم لوگوں کے اخلاق میں سے ہے۔
حضرت ابو حامد بلخی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا: جس نے صبر پر صبر کیا وہی صابر ہے نہ کہ وہ جس نے صبر کیا اور شکوہ کیا۔
امام قسطلانی رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ کی محبت کی ایک علامت یہ بھی ہے کہ مصائب پر صبر کرے کیونکہ اس محبت سے محب کو ایسی لذت حاصل ہوتی ہے کہ وہ مصائب کو بھلا دیتی ہے اور ان مصائب سے دوسروں کو جو تکلیف پہنچتی ہے وہ اسے نہیں پہنچتی۔
صبر و تحمل اور براشت حضور نبی اکرم ﷺ سے ملاقات کی نوید بھی ہے۔ ابو یحییٰ اسید بن حضیر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انصار میں سے ایک شخص نے کہا: یارسول اللہ صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم! جس طرح آپ نے فلاں فلاں کو عامل بنایا ہے کیا اسی طرح آپ مجھے بھی عامل نہیں بنائیں گے؟ تو آپ نے فرمایا: تم میرے بعد ترجیحات دیکھو گے (یعنی حق دار کو حق سے محروم کیا جائے گا) پس ایسے میں تم صبر کرو حتی کہ حوض (کوثر) پر تم مجھ سے ملو۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)