حضرت شیخ عبد القادرجیلانیؒ کی علمی خدمات

ڈاکٹر شفاقت علی البغدادی الازہری

اسلام کی تاریخ میں بہت سی شخصیات ایسی ہیں جنہوں تصوف کو باقاعدہ منظم طور پر پیش کیا اور اس پر لگی قدغن کو دور کیا ان میں سے اہم شخصیت شیخ عبد القادر جیلانیؓ کی ہے۔ اگر روحانیت و تصوف کی دنیا کو دیکھا جائے چھٹی صدی ہجری میں جب تصوف کی قدریں کمزور ہو رہیں تھیں اور اخلاق و سلوک کے پیروکاروں کے لیے ایک مضبوط مرکز کی ضرورت تھی اللہ رب العزت کے فضل و کرم کی بدولت وہ مرکز سرزمینِ بغداد پر قائم ہوا، جس کے بانی شیخ عبد القادر جیلانیؓ ہیں۔آپؒ حسنی و حسینی گھرانے کے چشم و چراغ تھے۔

حصول علم:

حضرت شیخ عبد القادر جیلانیؒ کی عمر مبارک جب پانچ برس ہوئی (اور بعض روایتوں کے مطابق) سوا چار برس ہوئی تو آپ کی والدہ محترمہ نے آپؒ کو جیلان کے مقامی مکتب میں بیٹھا دیا۔ حضرت کی ابتدائی تعلیم اسی مکتب مبارک میں ہوئی اس مکتب میں آپ کے اساتذہ یا استاد کون تھے کتب تاریخ و سیر اس بارے میں خاموش ہیں دس برس کی عمر تک آپ کو ابتدائی تعلیم پرکافی دسترس ہو گئی اس عمر میں انہیں ایک عجیب مشاہدہ ہوا یعنی جب وہ مکتب جاتے تو اپنے پیچھے عجیب نورانی صورتوں کو چلتا دیکھتے۔

آپ کے صاحبزادے شیخ عبد الرزاقؒ کا بیان ہے: ایک حضرت غوث اعظمؒ سے دریافت کیا کہ آپ کو اپنے ولی ہونے کا علم کب ہوا تو آپؒ نے فرمایا جب میں دس برس کا تھا اور اپنے شہر کے مکتب میں پڑھنے جایا کرتا تھا تو فرشتوں کو اپنے پیچھے چلتے دیکھتا تھا اور جب مکتب میں پہنچ جاتا تو وہ بار بار یہ کہتے اللہ کے ولی کو بیٹھنے کی جگہ دو اللہ کے ولی کو بیٹھنے کی جگہ دو۔

اسی واقعہ کو بار بار دیکھ کر میرے دل میں یہ احساس پیدا ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے درجہ ولایت پر فائز کیا ہے۔

شیخ عبد القادر جیلانی البغدادیؒ لڑکپن ہی میں حصول علم کے لیے بغداد روانہ ہوگئے۔ اور کثیر مشائخ سے تعلیم و تفقہ حاصل کیا۔ آپؒ نے مدرسہ نظامیہ میں تکمیل علوم کی یہ مدرسہ دنیائے اسلام کا مرکزی علوم و فنون تھا اور بڑے نامور اساتذہ اور آئمہ فن اس سے متعلق تھے۔ حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی ؒ نہ صرف اس جوئے علم سے خوب خوب سیراب ہوئے بلکہ مدرسہ کے اوقات سے فراغت پا کر اس دور کے دوسرے مشہور علماء سے بھی استفادہ کیا۔ آپ اپنے زمانہ میں امام الحنابلہ، فقیہ صالح، کثیر الذکر، دائم الفکر اور عظیم المرتبت ہستی کے مالک تھے۔

آپؒ کے دورہ بغداد کے وقت ابو الخیر حماد بن مسلم اور حضرت قاضی ابو سعید مبارک مخرومی علوم طریقت کے رہنما تھے۔ آپ قاضی ابو سعید سے بیعت کر کے ان کے حلقہ ارادت میں شامل ہو گئے۔

عبدالنبی کوکب لکھتے ہیں:

حضرت شیخ نے ان سے ظاہر و باطن پر دو طریق میں استفادہ کیا اور خرقہ طریقت بھی ان کے دست مبارک سے پہنا۔

تحصیل علم کے معاملہ میں آپ نے اپنے طبعی زہد و قناعت سے بالکل کام نہ لیا آپ کے اساتذہ میں ابو الوفاء علی بن عقیل، ابو غالب محمد بن حسن باقلانی، ابو زکریا یحیٰ بن علی تبریزی، ابو سعید بن عبد الکریم، ابو الغنائم محمد بن علی بن محمد ابو الخیر حماد بن مسلم الدباس جیسے نامور علماء وآئمہ فن کا نام نظر آتا ہے علم قراء ت، علم تفسیر، علم حدیث، علم فقہ، علم لغت، علم شریعت، علم طریقت غرض کوئی ایسا علم نہ تھا جو آپ نے اس دور کے باکمال اساتذہ و آئمہ سے حاصل نہ کیا ہو اور صرف حاصل ہی نہیں بلکہ ہر علم میں وہ کمال پیدا کیا ہ تمام علمائے زمانہ سے سبقت لے گئے۔

ایک روایت میں ہے کہ آپ نے قرآن کریم بغداد میں حفظ کیا دوسری روایت میں ہے کہ قرآن کریم آپ نے جیلان میں ہی حفظ کر لیا تھا البتہ علم قرآن یعنی تفسیر و قرآت وغیرہ کی تحصیل و تکمیل آپ نے بغداد میں کی علم و ادب میں آپ کے استاد امام ابو زکریا یحیی بن علی بن محمد بن حسن تبریزی تھے جو اپنے وقت کے یگانہ روزگار عالم تھے اور بے شمار کتابوں کے مصنف تھے۔ان کی تصنیفات میں تفسیر القرآن و الاعراب، الکافی فی علم العروض والقوافی اور شرح دیوان ابی تمام اور شرح الدریدیہ بہت مشہور ہیں۔

علم فقہ اور اصول میں آپ کے خصوصی اساتذہ شیخ ابو الوفا علی ابن عقیل حنبلی، قاضی ابو یعلی، شیخ ابو الخطاب محفوظ الکلوذانی حنبلی اور قاضی ابو سعید مبارک بن علی مخرمی حنبلی تھے۔

اس طرح علم حدیث میں آپ نے جن اساتذہ سے خصوصی استفادہ کیاان میں ابو البرکات طلحہ العاقولی، ابو الغنائم محمد بن علی بن میمون الفرسی، ابو عثمان اسماعیل بن محمد الاصبہانی، ابو طاہر عبد الرحمن بن احمد، ابو غالب محمد بن حسن باقلانی، ابو طالب عبد القادر بن محمد بن یوسف کا تذکرہ ملتا ہے۔

آپؒ کو تیرہ علوم میں دستگاہ حاصل تھی جس میں علم تفسیر، علم حدیث، علم فقہ، علم لغت، علم ادب، علم نحو، علم مناظرہ، علم تاریخ، علم الانساب اور علم فراست میں وہ کمال حاصل کیا کہ علمائے بغداد بلکہ علمائے زمانے سے سبقت لے گئے اور سب کے مرجع بن گئے۔

غرض آٹھ سال کی طویل مدت یں آپ تمام علوم کے امام بن چکے تھے اور جب آپ نے ماہ ذی الحجہ 496ھ کو ان علوم میں تکمیل کی سند حاصل کی تو کرہ ارض پر کوئی ایسا عالم نہ تھا جو آپ کی ہمسری کا دعویٰ کر سکے۔

تصنیفات:

شیخ جیلانی ؒ بنیادی طور پر ایک مؤثر واعظ مبلغ تھے آپ نے اصول و فروع اور اہل احوال و حقائق کے بارے میں کئی تصنیفات چھوڑی ہیں جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ آپ صاحبِ قلم بھی تھے۔

آپ کی تالیفات کی تعداد پندرہ کے لگ بھگ بتائی جاتی ہے جن میں غنیۃ الطالبین آپ کے افکار پر مشتل تالیف ہے۔ یہ کتاب مختلف ابواب وفصول پرمشتمل ہے جن میں ارکان شریعت کی تفصیل متعلقہ مسائل، انفرادی اور جنسی زندگی کے بارے میں شرعی آداب، امر بالمعروف، ایمان کی حقیقت، بدعت وضلالت، کبائر وصغار سے تو بہ، سال کے مختلف ایام وشہور میں آنے والی شری عبادات و تقریبات کے لئے ہدایات درج کی گئی ہیں۔اس کے علاوہ افتح الربانی (آپؒ کے باسٹھ مواعظ مشتمل ہیں)، الفیوضات الربانیہ فی الاوراد القادر یہ، فتوح الغیب، بشائر الخیرات، سرالاسرار اور دیگر نابغہ روزگار تالیفات آپ سے منسوب ہیں۔ مفتی طرابلس (شام) کے کتب خانے میں قرآن مجید کی ایک عمدہ تفسیر کا قلمی نسخہ موجود ہے کہا جاتا ہے کہ یہ تفسیر بھی آپ ؒ کی تالیف ہے۔

اصلاح احوال و تزکیہ نفس:

حضرت شیخ عبد القادرجیلانیؒ علم وفضل کے آفتاب و ماہتاب تھے۔ لوگ آپ سے دینی علوم میں مستفید ہوتے اورتصوف وتزکیہ اوراصلاح قلب کے لیے بھی آپ ؒ کی طرف رجوع کرتے تھے۔

آپ کے ان گنت کمالات اور خوبیوں میں سے سب سے بڑا کما ل یہ ہے کہ آپ نے مردہ دلوں کی مسیحائی کی، اصلاح ِ باطن کا فریضہ انجام دیا اوربے شمار بندگانِ خدا کو خدا سے جوڑا، راہ بھٹکے ہوئوں کو راستہ دکھایا، غفلت اور سرکشی میں مبتلاانسانوں کو بیدار کیا۔ آپ کے مواعظ میں کثیر تعداد میں لوگ شریک ہوتے۔ آپ کے وعظ دل پذیر کی شہرت اور اثر آفرینی کاچرچہ ہونے لگا اور لوگ کشاں کشاں آپ کی مجلس و عظ میں شرکت کرتے اور دل کی دنیا کو بدل لیتے۔ لوگ آپ کی مجالس میں شریک ہوکر توبہ کرتے اور گناہوں کی زندگی کو ترک کا عزم و ارادہ کرتے اور جو بے ایمان ہوتے مشرف باسلام ہوجاتے۔ آپ کی کوئی مجلس ایسی نہ ہوتی تھی کہ جس میں یہود و نصاریٰ اسلام قبول نہ کرتے ہوں یا قطاع الطریق ( ڈاکو) قاتل اور بداعتقاد لوگ آکر توبہ نہ کرتے ہوں۔

مجالس علم و عظ کا قیام :

اللہ رب العزت نے لوگوں کی اصلاح و تربیت کے لیے انبیاء کرام علیہم السلام کو بھیجا، اور حضور نبی اکرم ﷺ خاتم الرسل بنا کر مبعوث فرمایا۔قرآن کریم میں حضور نبی اکرم ﷺ کے فرائض منصبِ نبوت کو بیان کرتے ہوئے اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا:

هُوَ الَّذِی بَعَثَ فِی الْأُمِّیِّینَ رَسُولًا مِّنْهُمْ یَتْلُواْ عَلَیْهِمْ آیَٰتِهِ وَیُزَکِّیهِمْ وَیُعَلِّمُهُمُ الْکِتَٰبَ وَالْحِکْمَةَ وَإِن کَانُواْ مِن قَبْلُ لَفِی ضَلَٰلٍ مُّبِینٍ.

(الجمعۃ: 02)

وہی ہے جس نے اَن پڑھ لوگوں میں انہی میں سے ایک (با عظمت) رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بھیجا وہ اُن پر اُس کی آیتیں پڑھ کر سناتے ہیں اور اُن (کے ظاہر و باطن) کو پاک کرتے ہیں اور انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتے ہیں، بیشک وہ لوگ اِن (کے تشریف لانے) سے پہلے کھلی گمراہی میں تھے۔

آپ ﷺ اپنی بعثت کا مقصد حدیث مبارکہ میں بیان فرمایا جسے عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ رسول ﷺ ایک دن اپنے کسی کمرے سے نکلے اور مسجد میں داخل ہوئے، آپ نے اس میں دو حلقے دیکھے، ایک تلاوت قرآن اور ذکرو دعا میں مشغول تھا، اور دوسرا تعلیم و تعلم میں، نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:

’کل علی خیر هؤلاء یقرء ون القرآن ویدعون الله، فإن شاء اعطاهم، وإن شاء منعهم، وهؤلاء یتعلمون، وإنما بعثت معلما فجلس معهم‘. (ابن ماجه)

دونوں حلقے نیکی کے کام میں ہیں، یہ لوگ قرآن پڑھ رہے ہیں، اور اللہ سے دعا کر رہے ہیں، اگر اللہ تعالیٰ چاہے تو انہیں دے اور چاہے تو نہ دے، اور یہ لوگ علم سیکھنے اور سکھانے میں مشغول ہیں، اور میں تو صرف معلم بنا کر بھیجا گیا ہوں، پھر انہیں کے ساتھ بیٹھ گئے۔

مندرجہ بالانصوص سے یہ واضح ہوتا ہے کہ تعلیم کتاب و حکمت و تزکیہ نفوس انبیاء کی بعثت کے اہم مقاصد میں سے ہے۔انبیاء علیہم السلام کے بعد علمائے اہل حق اور صوفیائے کرام نے اپنے اپنے ادوار میں تعلیم و حکمت اور اصلاح امت کے مشن کو جاری و ساری رکھا۔

انبیاء کرام کے طریق پر چلتے ہوئے حضرت شیخ عبد القادر جیلانیؒ اصلاح احوال امت کے لیے مجالس علم اور ذکرو فکر کا اہتمام فرمایا کرتے تھے۔ آپؒ نے عروق مردہ میں تعلیم و حکمت اور ذکر اور فکر کے ذریعے حیات نو کی رمق پیدا کی اور ایسی مجالس قائم فرمائی جن سے شرق تا غرب فیض یاب ہوئے اور قیامت تک ہوتے رہے گے۔

آپؒ نے تدریس کا آغاز520ھ میں کیا۔ آپؒ نہایت بلند پایہ خطیب بھی تھے۔ یہ وہ دور تھا جب ابوالفتوح اسفرائینی کی بے بنیاد روایات پر مبنی خطابات کی وجہ سے لوگوں میں بے چینی پیدا ہوئی۔ تو جب آپ نے مواعظ کا سلسلہ شروع کیا تو لوگوں نے ذوق و شوق سے شیخ کی مجالس کی طرف رجوع کیا اور ابوالفتوح کی مجالس بے رونق ہوگئیں۔

آپ کی مجالسب بڑی بابرکت اور بارونق ہوتیں صد ہا اہل علم قلم اور کاغذ لے کر بیٹھتے۔ لوگوں کا اس قدر ہجوم ہوتا کہ مدرسہ میں تل رکھنے کی جگہ نہ رہتی، عامتہ الناس کے رجوع کا یہ عالم تھا کہ گویا سارابغدادہی وعظ پرامنڈ آیا ہو۔ اللہ تبارک وتعالی نے آپ کو ایسی وجاہت عطا فرمائی جو بڑے بڑے بادشاہوں کونصیب نہیں۔ آپ کی مجالس وعظ میں لوگوں کی اس قدر شرکت ہوئی کہ مدرسہ کی جگہ ان کے لئے تنگ پر گئی۔ لوگ باہرفصیل کے پاس سٹرک پر بیٹھ جاتے اور یہ سلسلہ بڑھتا چلا گیا تو قرب و جوار کے مکانات شامل کر کے مدرسہ کو وسیع کر دیا گیا۔ یہ مدرسہ ایک وسیع عمارت کی صورت میں تعمیر ہوگیا اور آپ ہی کرطرف منسوب کیا گیا۔ اکثر مؤرخین نے سامعین کی تعداد ستر ہزارسے متجاوز بتائی، آپ کے مواعظ حسنہ تحریر کرنے کے لئے چار سوکاتب بیک وقت مجلس میں موجود ہوتے۔ آپ نے نہایت جدو جہد واجتہاد کے ساتھ درس وافتاء ووعظ کے کام کو آگے بڑھایا دور دراز سے لوگ آپ سے شرف ملاقات حاصل کرنے کے لئے آنے لگے چاروں طرف سے لوگ آ کر آپؒ کے پاس جمع ہو گئے اورعلما وصلحاء کی ایک بڑی جماعت آپ کے پاس تیار ہوگئی اور یوں آپ کا علمی و روحانی فیض پورے عراق میں پھیل گیا۔

مجالس علم وعظ کی خصوصیات:

حضرت کی مجلس وعظ کی خصوصیات میں سے ہے کہ آپ ؒ کی آواز دور ونزدیک تک یکساں پہنچتی تھی۔ گرمی کے موسم میں بادل آپ کی مجلس پر سائبان کیے رہتے۔ دوران وعظ آندھی یا بارش سے واسطہ نہ پڑتا، آپ کے بعض خلفائے کرام دور دراز علاقوں میں مجالس کا اہتمام کرتے اور کرامت کے طور پر وہاں بھی آپ کا وعظ سنائی دیتا۔ تاثیر وعظ کا یہ عالم تھا کہ کوئی مجلس وعظ ایسی نہ ہوتی جس سے ذوق وشوق، تصرف وہیبت اور عظمت وجلال کے باعث کئی جنازے اٹھائے جاتے اور سامعین کی کثیر تعداد کئی کئی دن تک مدہوش رہتی۔ دوران وعظ خشیت، گریہ و زاری اور آہ و فغاں کی صورت میں ایک محشر بپا رہتا، ہزاروں گریباں چاک ہوتے اورسینکڑوں نیم بسمل کی طرح سے تڑپتے اٹھائے جاتے۔ آپ کی مجالس علمی میں اکابر مشائخ عراق، علمائے کرام، مفتیان عظام کے علاوہ ملائکہ، جنات اور رجال الغیب بکثرت موجود ہوتے تھے۔

شیخ موفق الدین ابن قدامہ فرماتے ہیں:

میں نے کسی شخص کی آپ سے بڑھ کر دین کی وجہ سے تعظیم ہوتے نہیں دیکھی، بادشاہ اور وزراء آپ کی مجالس میں نیاز مندانہ حاضر ہوتے اور ادب سے بیٹھ جاتے علماء اور فقہاء کا کچھ شمار نہیں تھا۔

شیخ عبدالقادر جیلانی علیہ الرحمۃ نے پوری ہمت وطاقت اور اخلاص کے ساتھ وعظ وارشاد، دعوت وتربیت، اصلاح نفوس اور تطہیر قلوب کا فریضہ ادا کیا۔ آج ہمارے لیے آپ ؒ کی تعلیمات مشعل راہ کی حیثیت رکھتی ہیں۔کیونکہ موجودہ دور میں دین سے دوری اور مادیت پسندی جیسے مسائل سوہان روح بنتے جارہے ہیں اور ان سب کا حقیقی، پائیدارحل آپ ؒ کی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے سے ہی ممکن ہے۔آج بھی رو بہ زوال اخلاقی اور اسلاقی اقدار کی حیات نو اور اسلام کی نشاۃ ثانیہ کے حصول کے لئے آپ کی پاکیزہ زندگی ہمارے لیے ہدایت کا سامان رکھتی ہے۔ آپ ؒ کی تعلیمات اور ارشادات آج کے اس پرآشوب اور پرفتن دور میں ایک شفیق ومہربان اور راہبرکامل کی طرح ہماری رہنمائی فرماتے ہیں۔

شفا پاتے ہیں صد ہا جاں بَلَب اَمراضِ مُہلک سے
عجب دارُالشِّفاء ہے آستانہ غوثِ اعظم کا