اللہ رب العزت نے کائنات ہست و بود میں انسان کو جمیع مخلوقات میں سب سے اشرف و افضل پیدا فرمایا ہے۔ انسان کو سوچنے، سمجھنے، کلام کرنے اور عمل کرنے کی صلاحیتوں سے نوازا ہے۔ انسان کی رشد و ہدایت اور اسے خالق کائنات کی پہچان و معرفت کے لئے انبیائے کرام علیہم السلام کو بھیجا اور انہیں مختلف آسمانی صحائف اور معجزات بھی عطا کیں۔ اس سلسلہ نبوت و رسالت کی آخری کڑی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ہیں اور تاقیامت آپ کی ہی نبوت و رسالت کا سکہ چلے گا جبکہ قیامت تک انسانیت کی رشد و ہدایت کے لئے قرآن مجید اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی رہبر و رہنما ہیں۔ سلسلہ نبوت و رسالت کی تکمیل کے بعد دنیا میں جتنے بھی لوگ اسلامی تعلیمات سے بہرور ہو کر بھولی بھٹکی انسانیت کی رشد و ہدایت کا فریضہ سرانجام دیں گے ان کی تعلیمات کا مرکز و محور اور بنیادی مآخذ شریعت محمدی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی ہوگا۔ کوئی بھی انسان چاہے ولایت کے جتنے بھی بلند مقام پر رسائی حاصل کر لے اگر وہ شریعت کی پیروی نہیں کرے گا تو یقیناً خود بھی گمراہ ہوگا اور دوسروں کی گمراہی کا بھی باعث بنے گا۔
قرآن مجید کی آیات بنیات اپنے انداز تکلم اور اسلوب بیان میں اپنے اندر جامعیت، موعظت اور حکمت و دانائی کے انمول گوہر لئے ہوئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ قرآنی آیات کا براہِ راست مخاطب کبھی رسالت مآب صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ذات مقدسہ ہوتی ہے تو کبھی آپ کی وساطت سے جمیع امت کو حکم دینا منشا و مقصود باری تعالیٰ ہوتا ہے۔
قرآن مجید میں اللہ رب العزت کا فرمان عالی شان ہے:
وَاصْبِرْ نَفْسَکَ مَعَ الَّذِینَ یَدْعُونَ رَبَّهُم بِالْغَدَاةِ وَالْعَشِیِّ یُرِیدُونَ وَجْهَهُ وَلاَ تَعْدُ عَیْنَاکَ عَنْهُمْ تُرِیدُ زِینَةَ الْحَیَاةِ الدُّنْیَا وَلاَ تُطِعْ مَنْ أَغْفَلْنَا قَلْبَهُ عَن ذِکْرِنَا وَاتَّبَعَ هَوَاهُ وَکَانَ أَمْرُهُ فُرُطًاO
(الکهف، 18: 2)
(اے میرے بندے!) تو اپنے آپ کو ان لوگوں کی سنگت میں جمائے رکھا کر جو صبح و شام اپنے رب کو یاد کرتے ہیں اس کی رضا کے طلب گار رہتے ہیں (اس کی دید کے متمنی اور اس کا مکھڑا تکنے کے آرزو مند ہیں) تیری (محبت اور توجہ کی) نگاہیں ان سے نہ ہٹیں، کیا تو (ان فقیروں سے دھیان ہٹا کر) دنیوی زندگی کی آرائش چاہتا ہے، اور تو اس شخص کی اطاعت (بھی) نہ کر جس کے دل کو ہم نے اپنے ذکر سے غافل کردیا ہے اور وہ اپنی ہوائے نفس کی پیروی کرتا ہے اور اس کا حال حد سے گزر گیا ہے ۔
اس آیت مبارکہ میں اللہ رب العزت نے اپنے حبیب مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے توسط سے جمیع امت کو یہ حکم دیا ہے کہ وہ ان لوگوں کی صحبت و سنگت خوش دلی، خوش اسلوبی اور دل جمعی سے اختیار کریں جو صبح و شام اللہ رب العزت کے ذکر سے سرشار رہتے ہیں۔ ان کی عبادت و ریاضیت، دنیاوی یا اُخروی شہرت و منصب کے لئے نہیں، لوگوں کی نظروں میں پاکباز نظر آنے کی نہیں، جنت میں بلند مقامات کا حصول نہیں بلکہ ان کا مقصد و منتہیٰ خالصتاً اللہ رب العزت کی رضا اور خوشنودی ہے۔ ایسے لوگوں کو اللہ رب العزت نے اپنا دوست کہا ہے،پس ایسے لوگوں کی صحبت و معیت اختیار کرنا قرآن مجید سے ثابت ہے۔
مولانا روم رحمۃ اللہ علیہ نے یہی قرآنی نکتہ اپنے اِس خوبصورت شعر میں یوں بیان کیا ہے :
ہر کہ خواہی ہم نشینی
باخدا اُو نشیند صحبت با اولیاء
ترجمہ: جو کوئی اللہ تعالی کی قربت چاہتا ہے اُسے چاہئے کہ وہ اللہ والوں کی صحبت اختیار کرے۔
اسی قرآنی فلسفہ کی معرفت اور عملی نظیر کے لئے سرور کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بذات خود اصحاب صفہ کی جماعت تشکیل دی، ان کی تربیت خاص اسی نہج پہ کی اور امت مسلمہ کے لئے نمونہ حیات بناکر دکھا دیا کہ قرآنی آیات کا مصداق یہ وہ خاص طبقہ ہے جو ہر چیز سے بے نیاز ہو کر فقط اللہ رب العزت کے ذکر و فکر میں مگن ہے اور اپنے نفس کے خلاف جہاد کر نے والے صوفی ودرویش صفت انسانوں کی عملی شکل و صورت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اسوہ حسنہ سے فیضیاب ہوتے ہوئے، آپ کے نقوش سیرت کو تلاش کرتے ہوئے اصحابہ صفہ کی طرز پر خالصتاً اللہ رب العزت کی رضا پانے اور رب کے بندوں کو اپنے حقیقی مولیٰ کی طرف متوجہ کرنے کے لئے امت محمدیہ میں مختلف ادوار میں اولیاء کرام نے خدمات سرانجام دی ہیں اور تاقیامت یہ سلسلہ ہدایت جاری و ساری رہے گا۔
سلسلہ ولایت و طریقت کی یہ کڑی اعلان غدیر خم پہ مولیٰ علی شیر خدا رضی اللہ عنہ سے شروع ہوتی ہے اور براہ راست تاجدار کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے جڑتی ہے جبکہ امام الاولیاء سیدنا علی المرتضیٰ کرم اللہ و جہہ الکریم سے یہ سلسلہ فیض و نسبت امت کی طرف چلتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے یہ دوست اور ولی اپنے مقام و مراتب اور منزلت کے اعتبار سے ہر زمانہ میں موجود رہے ہیں۔
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری بیان کرتے ہیں کہ کائنات نبوت میں اللہ تعالیٰ کی مثل اعلیٰ حضور نبی اکرم ﷺ اور کائنات ولایت میں حضور ﷺ کی مثل اعلیٰ حضور غوث الاعظم سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانیؓ ہیں، جبکہ اس دور میں پورے زمانے میں حضور غوث پاک کی مثل اعلیٰ قدوۃ الاولیاء سیدنا طاہر علاؤ الدین القادری الگیلانی البغدادی رضی اللہ عنہ ہیں۔
سید السادات، شیخ المشائخ قدوۃ الاولیاء سیدنا طاہر علاؤ الدین القادری الگیلانی 11 جولائی 1933ء بمطابق 18 ربیع الاول 1352ھ کو عراق کے دارالحکومت اور فیوضات و تجلیات غوث صمدانی کے مرکز بغداد میں پیدا ہوئے۔ آپ کی ولادت جس گھر میں ہوئی وہ حرم دیوان خانہ قادریہ سے موسوم ہے۔ آپ نجیب الطرفین سید ہیں۔ آپ کا سلسلہ نسب 16 واسطوں سے سیدنا غوث الاعظم شیخ عبدالقادر جیلانی سے اور 28 واسطوں سے حضور نبی اکرم ﷺ سے جا ملتا ہے۔
آپ نے ابتدائی دینی تعلیم مدرسہ غوثیہ اور مسجد سلطان میں حاصل کی جس میں تفسیر، حدیث اور فقہ کے مضامین شامل تھے، جبکہ روحانی تعلیم و تربیت اور اکتساب فیض اپنے جد امجد مرکز فیضان و ولایت سیدنا محمود حسام الدین القادری الگیلانیؒ سے کیا اور انہی کے دست حق پرست پر بیعت ہوئے۔ علاوہ ازیں بغداد شریف کے دیگر جید مشائخ سے بھی اکتساب فیض کیا۔ آپ کے والد گرامی نے آپ کی خصوصی تعلیم و تربیت کی اور خرقہ خلافت عطا کیا۔
برصغیر میں مسلمانان پاک و ہند کی روحانی تعلیم و تربیت، اخلاق و تصوف اور زُہد و وراء کی منازل طے کروانے کے لئے غوث الاعظم شیخ عبدالقادر جیلانی ؓ کی ایما پر قدوۃ الاولیاء پاکستان میں آفتاب ولایت سراج الاولیاء سید علی بن عثمان المعروف داتا علی ہجویری رضی اللہ عنہ کے مزار پرانوار پر ٹھیک اسی جگہ چلہ کش ہوئے جہاں پر خواجہ معین الدین چشتی اجمیری ؒ چلہ کش ہوئے تھے۔ احاطہ مزار پہ چند روز بعد آپ کو ازن ملا کہ کوئٹہ (بلوچستان) کو اپنا روحانی مسکن بناتے ہوئے تبلیغ و اشاعت دین کا فریضہ سرانجام دیں۔ روز بروز آپ کے حلقہ ارادت میں اضافہ ہوتا چلا گیا اور ایک زمانہ آپ کے روحانی فیض سے سیراب ہوتے ہوئے دین متین کی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے لگے۔
اگر آپ کے سوانح مبارک کا ذکر کریں تو یہ امر روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ آپ نہایت خوش مزاج، خوش طبع، خوش اخلاق اور پیکر شفقت و محبت تھے۔ آپ کے چہرہ انور پہ ہمیشہ تبسم رہتا اور آپ کے ہونٹوں پہ آنے والی مسکراہٹ جمال آفریں کیفیت کی آئینہ دار تھی۔ آپ کی پوری زندگی حسن خلق اور خدمت انسانیت پر مشتمل ہے۔ آپ نے تصوف و روحانیت کے باب میں گرانقدر خدمات سرانجام دی ہیں۔
آپ شریعت کے پابند، صوفی منش، عارف باللہ اور فنا فی الرسول تھے۔ آپ سے کبھی کوئی خلاف شریعت عمل سرزد نہ ہوا۔ آپ کا طرز حیات ایسا تھا کہ سنت نبوی ﷺ اور سنت غوثیہ کی پیروی میں مجالس کے دوران زیادہ دیر خاموش ہی رہتے اور کم کلام کرتے جبکہ دیگر کا کلام زیادہ سماعت کرتے تھے۔ آپ ہمیشہ سامعین کے حسب حال، حسب طبع و مزاج، حسب ضرورت اور علمی استعداد کے مطابق کلام فرماتے۔ مگر جس موضوع پر بھی کلام فرماتے کوئی پہلو تشنہ نہ چھوڑتے۔ آپ مختصر مگر نہایت جامع الکلام شخصیت کے حامل تھے۔ آپ نے سرکاری و غیر سرکاری طور پر ملکی و بین الاقوامی بیشمار سیمینارز، کانفرنس اور مجالس کی صدارت فرمائی۔ صداقت، حلم اور بردباری آپ کی فطرت ثانیہ تھی۔ آپ نہایت صاف گو تھے کبھی ذومعنی کلام نہ فرماتے تھے۔ آپ صداقت اور راست بازی کا پیکر تھے اور جھوٹ اور غلط بیانی کو سخت ناپسند فرماتے تھے۔ ایفائے عہد اور پابندی وقت کا خاص خیال فرماتے تھے۔ آپ نے زندگی میں کبھی وعدہ خلافی نہیں فرمائی۔ اپنے خانوادے کی طرز پر آپ بھی نہایت مہمان نواز، سخی اور فیاض تھے۔ کبھی کسی سائل کو خالی ہاتھ نہ بھیجتے، کبھی کسی مہمان کو خالی پیٹ نہ جانے دیتے اور سائلین کو نوازنے میں نہایت سخاوت کا مظاہرہ فرماتے تھے۔ آپ ہمیشہ وسیع القلبی کا مظاہرہ فرماتے، آپ کی سوچ و فکر، حکمت و تدبر، فہم و فراست اور بصیرت درجہ کمال پر تھی۔
دنیوی مال و دولت، جاہ و حشمت، مقام و منصب کا آپ کے ہاں دور سے بھی گزر نہ تھا۔ آپ نے کبھی کسی سے کچھ طلب نہ کیا بلکہ آپ تو خود فیاض تھے۔ ایک بار کوئٹہ میں قیام کے دوران ایوب خان نے اپنا خصوصی ایلچی آپ کی خدمت میں بھیجا کہ آپ پاکستان تشریف لائے ہیں ہمارے مہمان ہیں، حکم کریں آپ کے لئے حاضر ہے۔ آپ نے فرمایا کہ ہم اللہ کا فقیر ہے، اللہ تعالیٰ کا خیرات بہت ہے۔ جب وہ ختم ہو جائے گا تو آپ سے مانگ لے گا۔
آپ کے مرید صادق، مرید بامراد شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری آپ کی ایک کرامت کا ذکر کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں کہ آپ کے دورہ لندن کے دوران کسی شخص نے آپ سے یہ کہہ کر کھانے کے بل کی ادائیگی کرنا چاہی کہ آپ حالت سفر میں ہیں اور سفر کے دوران کرنسی محدود ہوتی ہے۔ یہ سن کر آپ نے اپنی عبا میں ہاتھ ڈالا اور بارہ سے چودہ ملکوں کی مختلف کرنسیوں کے انبار لگا دئیے۔
جو لوگ بھی آپ کے حلقہ ارادت میں آنے کی خواہش کرتے اور آپ سے اکتساب فیض کے لئے آپ کے دست حق پر بیعت ہوتے تو آپ بیعت فرمانے کے بعد خصوصی اوراد و وظائف عطا کرتے اور ساتھ ہی فرماتے کہ اب تم غوث الاعظمؓ کا مرید ہو گیا ہے۔یہ جملہ از خود اس امر پر دلالت کرتا ہے کہ آپ کا اپنے روحانی پیشوا حضور غوث الاعظم ؓ کے ساتھ نسبت و قربت کا کتنا گہرا اور مضبوط تعلق تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اکثر محافل و مجالس میں منقبت حضور غوث الاعظم ؓ سننے پرجذب و شوق کی کیفیت میں آپ المدد یا غوث الاعظمؓ دستگیر کا ورد فرمایا کرتے تھے۔
قدوۃ الاولیاء سیدنا طاہرعلاؤ الدین القادری الگیلانی نے ساری زندگی سلسلہ قادریہ کی سرپرستی فرمائی۔ آپ تحریک منہاج القرآن کے روحانی سرپرست اور سنگ بنیاد رکھنے والے ہیں۔ آپ نے تحریک منہاج القرآن کو عالم اسلام میں احیائے اسلام، خدمت دین اور امن و سلامتی کی نوید قرار دیا ہے۔ آپ تحریک منہاج القرآن کے ہر کارکن سے خصوصی پیار اور شفقت پدری فرماتے تھے۔ آپ نے تحریک منہاج القرآن کی مخالفت کرنے والوں کو سخت تنبیہ فرمائی ہے کہ وہ خود کو اس کام سے باز رکھیں۔ آپ کے مریدین کا حلقہ شرق سے غرب تک پھیلا ہوا ہے۔ دنیا کے بیشتر ممالک میں آپ کے مریدین، محبین اور ارادتمند کثیر تعداد میں موجود ہیں۔
آپ نے داعی اجل کے پیغام پرلبیک کہتے ہوئے 7 جون 1991ء کو جرمنی میں وصال فرمایا۔ آپ کا مزارپرانوار منہاج یونیورسٹی لاہور اور جامع المنہاج کے قریب بغداد ٹاؤن ٹاؤن شپ لاہور میں واقع ہے۔ آپ نے جو علم و معرفت اور فیضان ولایت کی جو مشعلیں روشن کی ہیں ان کی ضوفشانیاں تاقیامت عالم اسلام کو روشن و منور کرتی رہیں گی۔ آپ نے سلسلہ قادریہ میں جو عظیم الشان، فقید المثال اور گرانقدر خدمات سرانجام دی ہیں ان کے نقوش جریدہ عالم سے کبھی محو نہیں ہو سکتے۔ آپ کے حسن اخلاق اور اوصاف حسنہ کے جوہر ابدالآباد تک رشد و ہدایت کا سرچشمہ ہیں۔