فکر شیخ الاسلام: حضرت علیؓ کی حسنین کریمینؓ کے نام وصیت

شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری

مرتبہ: نازیہ عبدالستار

دلوں کی اور باطن کی امراض کیا ہیں اور ان کا علاج کیا ہے۔ اس موضوع پر سیدنا علی المرتضی کرم اللہ وجہ الکریم کی دو وصیتوں کے کلمات درج ذیل ہیں۔

پہلی وصیت:

سیدنا علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ الکریم نے اپنے بڑے صاحبزادے سیدنا امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام کو وصیت فرمائی یا یہ وصیت ہے اس والد کی طرف سے جو فانی ہے۔ جو اپنی زندگی گزار چکا ہے۔ اس بیٹے کے لئے جس نے اپنی زندگی کے اگلے ایام گزارنے ہیں۔

اے بیٹے میں تمہیں وصیت کرتا ہوں کہ اللہ سے ڈرتے رہنا اور اس کے اوامر نواہی یعنی احکام کی پختگی کے ساتھ پابندی کرنا اور اللہ کے ذکر کے ساتھ اپنے دل کو زندہ رکھنا اللہ کی یاد کے ساتھ اپنے دل کو زندہ و آباد رکھنا اور اللہ ہی کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رکھنا۔

جو رشتہ تمہارے اور اللہ کے مابین ہے کہ وہ تمہارا خالق ہے اور تم اس کے بندے ہو یہ جو رشتہ عبد یت و عبودیت ہے۔ اس سے بہتر نفع مند کوئی اور رشتہ نہیں ہو سکتا بشرط یہ کہ بیٹے اس رشتہ عبودیت اور عبدیت کو تم مضبوطی سے تھامے رکھو۔ اس رشتے کو نہ ٹوٹنے دو اور نہ کمزور ہونے دو پھر آپ ﷺ نے فرمایا جو مواعظ آپ کو نصیحتیں تذکیر اللہ کی طرف سے ملی ہیں اللہ کے رسول ﷺ کی طرف سے ملی ہیں اللہ کی وحی اور اس کے قرآن کی شکل میں تم تک اللہ کی نصیحتیں تعلیمات اللہ کے احکام ومواعظ پہنچے ہیں ان کے ذریعے اپنے دل کو زندہ رکھ کیونکہ مواعظ الہیہ دلوں کو زندگی دیتے ہیں۔ دنیا کی طلب، حرص، لالچ اور رغبت سے بے نیاز ہو کر دل کی خواہشوں کو مردہ کر دے یعنی جن چیزوں کی طرف اللہ نے تمہیں ترغیب دی ہے ان کے ذریعے اپنے دل کو زندہ رکھنا اور جو چیزیں دنیا کی تمہیں اللہ سے دور کرتی ہیں ان سے بے رغبت رہنا۔

یہ دل بے قابو ہو جانے والا ہے اس کو موت کی یاد کے ذریعے قابو میں رکھنا یعنی ہر وقت موت اگر تمہاری آنکھوں کے سامنے رہے گی اور موت کو بھولیں گے نہیں تو موت کے ذریعے دل قابو میں رہے گا۔

جو لوگ تم سے پہلے ہو گزرے ہیں ان پر جو جو بیتا انہوں نے نافرمانیاں کیں تو کیسے عذاب آئے وہ اللہ کی نعمتوں کو بھول گئے تو کس طرح گرفت میں لائے گئے۔ انہوں نے حق کو کس طرح ٹکرایا تو کیسے سزا پائی۔ کس طرح بدمست تھے اپنی سلطنت اور حکومت کے نشے میں کیسے اوندھے گرے پلٹ دیے گئے۔ ایک و قت ان کا نام گونجتا تھا پھر ان کا نشان بھی نہ بچا۔ ان کے محلات تھے پھر وہ کھنڈرات بن گئے۔ فرمایا یہ جو کچھ ان پر بیتا وہ یاد دلاتے رہنا۔

حضور مولا علی المرتضی کرم اللہ وجہ الکریم اپنے بیٹے سیدنا امام حسن مجتبیٰ سے فرما رہے ہیں۔ بیٹے اپنے نسب پر فخر نہ کرنا تم میرے بیٹے ہو، سیدہ کائنات کے بیٹے ہو، سرورکائنات کے شہزادے ہو۔

فرمایا یہ بھی دل کو دکھانا کہ جو کوچ کر گئے تو کہاں جا کے اترے یعنی آخرت میں ان کی منزل کیا ہے؟ آخرت میں منزل کیا ہے؟ اور کہاں ٹھہرے ہیں اور پھر آپ فرماتے ہیں بیٹے حسن جب یہ سارے کام کرو گے تو تمہیں صاف صاف دکھائی دے گا کہ وہ اپنے دوستوں سے منہ موڑ کے چلے گئے اور پردیس کی گھروں میں جاکے اتر گئے اور پھر فرماتے ہیں بیٹے یاد کرو وہ وقت دور نہیں کہ تمہارا شمار بھی ان میں ہونے لگے گا یعنی تمھارابھی کوچ کا وقت آئے گا سمجھانا چاہتے ہیں کہ یہاں جس جگہ آج ہو یہ منزل نہیں یہ راستہ ہے منزل وہ ہے جہاں کوچ کرنے والے کوچ کرنے کے بعد جا اترے وہیں آپ نے بھی کوچ کر کے جانا ہے۔ دیکھو جہاں کوچ کرنے کے بعداترنا اور ٹھہرنا ہے وہ منزل اچھی ہو اس منزل کو اچھا بنانے کی فکر کرو اسی زندگی میں۔

لہذا بیٹے اپنی اصل منزل کا انتظام کرو جبکہ ہم راستہ سنوارنے میں گم ہیں۔ مگر منزل اجڑی پڑی ہے اس کی فکر نہیں ہے۔ اپنے صاحبزادے حسن مجتبیٰ سے فرماتے ہیں اپنی آخرت کا دنیا سے سودا نہ کرنا، ایسا نہ ہو کہ دنیا کے عوض آخرت بک جائے۔ دنیا سنوارتے سنوارتے آخرت کی اصل منزل خراب ہوجائے۔

اور پھر فرمایا جو چیز جانتے نہیں ہو اس کے متعلق بات نہ کیا کرو۔ یعنی جس کا علم، فہم، یقین اور پختگی سے معلومات نہ ہو اس کے متعلق بات نہ کیا کرو۔ اس کے بارے میں زبان کو نہ ہلایا کرو زبان نہ کھولو جس راہ میں بھٹک جانے کا اندیشہ ہو اس راہ میں قدم نہ اٹھایا کرو۔ تم آخرت کے لیے پیدا ہوئے ہو نہ کہ دنیا کے لئے۔

یہ دنیا امتحان گاہ ہے آرام گاہ نہیں ہے اور مجھے بڑی حیرت ہوگی اور بڑا تعجب ہوگا اس شخص پر جو اپنی امتحان گاہ کو آرام گاہ بنا لے۔ جیسے جو لوگ امتحان دیتے ہیں جو بچے بچیاں ایگزامینیشن ہال میں کبھی آرام سے نہیں بیٹھتے، بے چین اور بے تاب رہتے ہیں۔ بس یہ پوری زندگی امتحان گاہ ہے آرام گاہ اگلی منزل آخرت کی ہے۔ جو شخص اپنی بقائے حیات میں فنائے حیات کو یاد رکھے وہ امتحان میں کامیاب ہوتا ہے۔

اے بیٹے! یادرکھوتم موت کے لیے بنے ہو حیات کے لیے نہیں۔ سوزندگی کو اپنی موت کی خدمت میں گزارو۔

پھر آپ نے فرمایا بیٹے نیک لوگوں سے میل جول رکھنا تم بھی نیک ہو جاؤ گے۔ ایک جملے میں نیک بننے کا پورا راز سمجھا دیا۔

نیک لوگوں سے مراد وہ لوگ ہیں جو اللہ کو یاد رکھتے ہیں۔ ان لوگوں سے جو آخرت کو نہیں بھولے۔ ان لوگوں سے جن کی زندگی کا ڈائریکشن، جن کی زندگی کی سمت صحیح ہے ان لوگوں سے جو دنیا کو آخرت کی گزرگاہ سمجھتے ہیں۔ ان لوگوں سے جو اس امتحان گاہ میں آخرت کی فکر کر رہے ہیں۔ جنہوں نے اپنے اعمال درست کرلیے ہیں۔ جنہوں نے اپنے احوال سنوار لیے ہیں۔

صحبت کے اثرات:

صحبت کے اثرات ہوتے ہیں اور پھر فرمایا: برے لوگوں سے بچے رہنا، بروں کی سنگت سے، بروں کی دوستی سے، بروں کی کمپنی سے، برے لوگوں کی مجلس سے، برے لوگوں کی صحبت سے، برے لوگوں کے ساتھ وقت گزارنے سے بچے رہنا۔

برے کون لوگ ہیں سارے ہی انسان ہیں ہمارے پاس کوئی پیمانہ نہیں کسی کو اچھا برا کہنے کا۔ نہ حق ہے کسی کو اچھاکہیں کسی کو برا کہیں ہاں یہ حق صرف اللہ کے پاس ہے، پیمانہ بھی اللہ نے دیا ہے۔ اچھے اور برے ہونے کا وہ پیمانہ کیا ہے؟

إِنَّ أَکْرَمَکُمْ عِندَ اللہِ أَتْقَاکُمْ.

(الحجرات، 49: 13)

بیشک اللہ کے نزدیک تم میں زیادہ باعزت وہ ہے جو تم میں زیادہ پرہیزگار ہو۔

اللہ کے ہاںبڑا اچھا وہ ہے جو بڑامتقی ہے، جو اللہ سے بہت ڈرنے والا ہے،جو آخرت کی زیادہ فکر کرنے والا ہے، جو اپنے اعمال اور احوال کی اصلاح کرنے والا ہے، جو باتیں پہلے گزر چکی ہیں۔ اس پر عمل کرتا ہے وہ نیک ہے اور جو اللہ کو بھول گیا ہے جس کا دل غا فل ہو گیا ہے۔ جسے آخرت یاد نہیں رہی۔ جس نے دنیا کو منزل بنا لیا ہے اور دنیا کی آرائش کو، آرام کو، آسودگی کو، دنیا کی لذتوں کو، شہو توں کو، دنیا کی عزتوں کو، نام و نمود کو، جان و مال کو، طاقت کو، سلطنت کو، رعب کو، دبدبہ کو، دنیا میں نام کو، دنیا ہی کو یہ دنیا اور اس میں جو کچھ ہے اس کے لوازمات جس نے اسی کو مقصود حیات بنالیا ہے اور آخرت اس کی نظر سے اوجھل ہوگئی ہے وہ برا ہے یہ اللہ رب العزت اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دیا ہوا پیمانہ ہے۔

فرماتے ہیں: بیٹے! یہ بھی یاد رکھنا کہ زندگی میں بدترین کھانا وہ ہے جو حرام ہے۔ اوربدترین ظلم وہ ہے جو کسی کمزور اور ناتواں پہ کیا جائے۔

دوسری وصیت:

21 شب رمضان کو جب آپ رضی اللہ تعالی پر حملہ کردیا گیا آپ زخمی ہوگئے۔ آپ شہید ہونے و الے تھے۔ شہادت سے قبل آپ نے دونوں شہزادوں سے گفتگو کی۔

فرمایا: اے میرے بیٹے حسن اور حسین! دونوں کو وصیت کی ہے۔ زندگی میں ہر لمحہ میں اللہ سے ڈرتے رہنا۔ اپنی زندگی کو تقوی کے ساتھ مامور رکھنا اور اپنے معاملات کو درست رکھنا۔

معاملات دو طرح کے ہوتے ہیں۔ بیٹے کچھ معاملات اللہ کے ساتھ ہوتے ہیں کچھ مخلوق کے ساتھ ہوتے ہیں معاملات پانچ قسم کے ہیں۔

معاملات:

1۔ اللہ کے ساتھ تعلق کو درست رکھنا یہ معاملات کا ایک شعبہ ہے اللہ کے ساتھ اپنے معاملات کو بندگی، عبدیت، عبودیت کے معاملات کو درست رکھنا۔ عقیدے میں، عمل میں، عبادت میں، اطاعت میں، توکل میں، یقین میں، بھروسے میں، نیاز مندی میں، تواضح میں، خشو ع وخضو ع میں، اخلاص میں، تابعداری میں، فرمانبرداری میں، تقوی میں، سارے معاملات اللہ کے ساتھ درست رکھنا یہ ایک پہلو ہے۔

2۔ دوسرا حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ معاملات کو درست رکھنا۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی محبت میں، حضور علیہ الصلاۃ والسلام کی اطاعت میں، آقا علیہ الصلاۃ والسلام کی متابعت میں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم و تکریم میں، آپ کے دین کی خدمت میں اور نصرت میں، آپ کے دین کو لوگوں تک پہنچانے میں، آپ کی تعلیمات کو قبول کرنے میں دل و جان سے، آقا علیہ الصلاۃ والسلام کی تعلیمات پر عمل کرنے میں، معاشرے تک پہنچانے میں، آپ کا پیغام قبول کرنے میں اور پیغام آگے پہنچانے میں، یہ آقا علیہ صلاۃ و سلام کے ساتھ معاملات ہیں۔

3۔ پھر صحابہ کرام اور اہل بیت اطہار کے ساتھ معاملات ہیں۔ یہ عقیدے کے معاملے میں بھی اور ان کی اتباع کے کہ انہوں نے یہ اسوہ دیا ہے۔ اس کی پیروی کرنا اس سے بہتر کوئی اسوہ اور طرز زندگی نہیں ہے۔

4۔ پھر اولیاء و صالحین آ جاتے ہیں۔ اولیاء و صالحین ان کے ساتھ معاملات درست رکھنا۔ ان کی تعظیم و تکریم بھی ہے اور سب سے بڑھ کر ان کا دیا ہوا طریقہ زندگی، اسوہ زندگی، ان کی تعلیمات کو اپنانا، قبول کرنا، عمل کرنا تب ان کے ساتھ تعلق صحیح بنتا ہے۔ عقیدت اور متابعت دو کو جمع کریں یعنی اعتقاد اور اتباع۔ عقیدہ درست رکھیں اور عمل ان کی متابعت، ان کی پیروی میں رکھیں۔

پھر اس کے بعد معاملات آپکے اپنے والدین کے ساتھ، مشائخ کے ساتھ، بزرگوں کے ساتھ، عزیز و اقارب کے ساتھ، بھائیوں کے ساتھ، بہنوں کے ساتھ، دوستوں کے ساتھ، کو لیگز کے ساتھ پھر ان میں حقوق آتے ہیں، واجبات ہیں ان معاملات کو درست رکھنا۔

5۔ پانچواں درجہ جمیع مخلوق کے ساتھ۔ جہاں بھی آپ کا واسطہ ہے کسی کے ساتھ، جان پہچان والا ہے یا اجنبی ہے۔ دوست ہے یا دشمن، اپنا ہے یا پرایا ہے، غریب ہے یا امیر ہے، قریب کا ہے یا بعید کا ہے۔ آپ کی اپنی تنظیم و تحریک سے وابستہ ہے یا نہیں ہے کسی اور جگہ وا بستہ ہے، اللہ کی مخلوق ہے، انسان ہے، آقا علیہ الصلاۃ والسلام کا امتی ہے حتیٰ کہ اگر امتی نہیں مسلمان بھی نہیں تو انسان ہے اللہ کی خلق تو ہے، اس سے بھی معاملات کو درست رکھنا۔ اس کے حقوق کی ادائیگی کرنا۔

6۔ مولا علی المرتضی رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں میرے بیٹے حسن اور حسین یہ جو اصلاح ذات بینکم آپس کے تعلقات کو ہمیشہ درست رکھنا، سنوارنا تاکہ آپ کی زبان سے، آپ کے عمل سے، آپ کے جسم سے آپ کے دل سے، آپ کے دماغ سے، سوچ سے کسی کو نقصان نہ پہنچے، کسی سے نفرت نہ کرو، کسی سے ظلم نہ کرو، کسی کو دکھ نہ دو کسی کو تکلیف نہ دو کسی کو حقیر نہ جانو، کسی کی حق تلفی نہ ہو، کسی کا دل نہ ٹوٹے آپ سے، کسی کا کوئی حق ادا ہونے سے نہ رہ جائے، ضرورت مند ہے تو حاجت روائی ہو۔ دکھی ہے تو آپ سے مل کے اسے سکون ملے، پریشان حال ہے تو راحت پائے۔ ہر ایک کا حق ادا کریں۔ یہ فرمایا اپنے باہمی تعلقات سنوارے رکھنا کیونکہ مولا علی المرتضی رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں میںنے تمہارے نانا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے فرمایا:

صلاح ذات البین افضل من عامة الصلاة و الصیام.

فرض روزے اور فرض نمازوں کو چھوڑ کر کوئی آدمی ساری زندگی نفلی عبادت کرے، پوری زندگی ساری رات قیام اللیل کرے، نوافل پڑھے، سجدہ ریزیاں کرے اور زندگی بھر روزے رکھے، فرمایا کوئی شخص نفلی اتنی عبادت کرے کہ ساری زندگی روزے سے رہے اور ساری زندگی شب بیداری کرے، تسبیح و تحلیل کرے اللہ اللہ کرے، فرمایا اس ساری عبادت سے کئی گنا زیادہ افضل اور اعلی عمل اور عبادت آپس کے تعلقات کو بہتر کرنا، آپس کے تعلقات کی اصلاح کرنا۔

آپس کی کشیدگیوں کو مٹانا آپس کی کشیدگی کو مٹانا آپس کی رنجشوں کو مٹانا، آپس کی ناراضگی کو ختم کرنا اور دلوں کو کھولنا وسعت دینا تاکہ رشتے، تعلقات اچھے ہو جائیں فرمایا نفلی نمازوں اور روزوں سے افضل ہے۔

پھر فرمایا یہ تیموں کے بارے میں ڈرتے رہنا، تمہارے زندہ ہوتے ہوئے یتیم بھوکے نہ رہیں ایسا نہ ہو کہ تم زندہ ہو اور تمہارے ہوتے ہوئے یتیم ہلاک ہوجائیں، یتیموں کا سہارا بننا اور پھر فرمایا ہمسایوں کے بارے میں ڈرتے رہنا۔ آقا علیہ الصلاۃ والسلام نے ہمسائیگی کے اتنے حقوق بیان کئے کہ صحابہ کرام نے سمجھا کہ شاید انہیں وارث بنا رہے ہیں۔

قرآن مجید کی تعلیمات پر ہمیشہ عمل کرتے رہنا، ہر ایک سے آگے بڑھنا، سبقت لے جانا، دین تمہارا ستون ہے اس کو مضبوطی سے تھامے رکھنا، تم پر لازم ہے کہ آپس میں میل ملاپ رکھنا، آپس کے رشتوں کو کٹنے نہ دینا۔

اور فرمایا اور کسی شخص کے پیچھے خبردار خیانت نہ کرنا۔ کسی کو نظرانداز نہیں کرنا۔ نہ اس کے پیٹھ پیچھے کوئی برائی کرنا اور اگر کسی سے پیٹھ پھیر لو گے یعنی نظرانداز کر دو گے تو تعلقات ختم ہو جائیں گے۔ تو تعلقات توڑنے سے پرہیز کرنا۔ کوئی ایسا عمل نہ کریں جس سے باہمی انسانوں کے تعلق ٹوٹ جائیں اور پھر آپ نے فرمایا کہ ہمیشہ پرہیزگار بنے رہیں، نیکی کا حکم دینے والا بنے رہیں، برائی سے منع کرتے رہیں۔

جو نیکی کا حکم دیتے رہنا برائی سے منع کرتے رہنا اگر تم نے اس عمل سے ہاتھ اٹھا لیا یعنی امربالمعروف نیکی پھیلانے سے رک گئے اور برائی کو روکنے کی جو کاوش ہے۔ اپنی ذات تک محدود ہوگئے آگے یہ فیض نہ پہنچایا تو فرمایا پھر تم پر بدکردار لوگوں کو حکمران بنا کر مسلط کر دیا جائے گا۔ ان قوموں پر بدکردار لوگ حکمران بنا کر مسلط ہوجاتے ہیں۔ ان لوگوں پر کرپٹ لوگ مسلط ہو جاتے ہیں، ان لوگوں پر ظالم اور خائن لوگ مسلط ہو جاتے ہیں، حکمران بنا دیے جاتے ہیں جو قومیں نہ خود نیکی کرتی ہیں نہ نیکی کا آگے حکم دیتی ہیں اور نیکی کو پھیلاتی ہیں نہ خود برائی سے روکتی ہیں اور نہ اور لوگوں کو برائی سے روکنے کی کوشش کرتی ہیں۔

فرمایا اگراس کام سے ہاتھ اٹھا لیے تو پھر تمہارے اوپر بد کار اور خائن لوگ حکمران کے طور پر مسلط کر دیے جائیں گے اور پھر تم جیسے لوگ بھی اگر دعا مانگو گے تو قبول نہیں کی جائے گی۔ اسے محفوظ رکھ لیا جائے گا دعا سے مراد دعا مانگو گے معاشرے کے لئے، لوگوں کے لئے باری تعالیٰ ہماری قوم پر رحم فرما، ظالموں سے نجات عطا فرما پھر وہ نجات دعاؤں سے نہیں ہوتی۔ مولا علی المرتضی رضی اللہ تعالی عنہ فرمارہے ہیں تم بھی دعا مانگو گے تو روک دی جائے گی۔

یعنی اس قوم کے حق میں قبول نہیں ہوگی مولا علی المرتضی نے نصیحت اور حسنین کریمین کے لیے فرمائی اور ان کے ذریعے امت کے ہر اس فرد تک پہنچائی فرمایا جو میری اس وصیت کو سنے گا اس سے مخاطب ہوں۔ اللہ پاک ہمیں زندگی کا صحیح شعور اور اس کی حقیقت کے لئے صحیح معرفت عطا فرمائے۔ حقیقت سمجھنے کے لئے اور اسے سنوارنے کی توفیق عطا فرمائے۔