حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ واقعہ فیل کے تیرہ سال بعد پیدا ہوئے۔ آپ کی والدہ ختمہ بنت ہاشم بن مغیرہ اور والد خطاب بن نفیل تھے۔
بچپن، جوانی، تعلیم:
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا بچپن نسب دانی، سپہ گری، پہلوانی اور خطابت سیکھنے میں گزرا۔ اس کے علاوہ اپنے والد کے اونٹ چرایا کرتے تھے۔ آپ نے اپنا بچپن اور جوانی قبل از اسلام بھی نہایت پاکیزگی سے گزاری۔ آپ نہایت مدبر اور عزت و غیرت کی حفاظت کرنے والے تھے نہایت طاقتور اور جلالت والے تھے۔ آپ کی بہادری اور جوانمردی کا شہرہ تھا۔
مردا رسول ﷺ:
احادیث صحیحہ سے معلوم ہوتا ہے کہ آپؓ دعائے مصطفی اور مرادِ مصطفی ﷺ تھے۔ حضور ﷺ نے بارگاہ خداوندی میں دعا فرمائی تھی کہ مجھے ابوجہل ابن ہشام یا عمر ابن خطاب میں سے کوئی ایک شخص عطا فرما تاکہ دین کو تقویت ملے۔ عبداللہ عمرؓ سے مروی ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا:
’’اے میرے اللہ تو اسلام کو عزت و قوت دے ان دو شخصوں میں سے جسے تو پسند کرے، ابوجہل یا عمر بن خطاب۔‘‘
قبول اسلام کی مختلف روایات:
حضرت عمرؓ کے اسلام لانے کے بارے میں دو روایات ہیں۔ ابن اسحاق کہتے ہیں کہ حضرت عمرؓ کے اسلام لانے کے بارے میں حضرت عمرؓ خود فرماتے تھے کہ میں زمانہ جاہلیت میں اسلام کا سخت دشمن تھا اور کثرت سے شراب نوشی کرتا تھا اور اس کام کے لیے مقام حزدرہ میں ایک مکان مختص کررکھا تھا۔ ایک شب میں حسب دستور وہاں پہنچا تو میرے ساتھی وہاں موجود نہ تھے۔ میں وہاں سے کعبہ کی طرف چل پڑا تاکہ طواف کرسکوں جب میں کعبہ میں داخل ہوا تو وہاں حضور ﷺ نماز پڑھ رہے تھے۔ میں نے سوچا کہ سنتا ہوں یہ کیا پڑھ رہے ہیں چنانچہ میں کعبہ کے غلاف میں چھپ گیا۔ پھر میں نے آپ ﷺ کی تلاوت سنی تو میرے دل میں عجیب سا اثر ہوا۔ جب آپ ﷺ نماز سے فارغ ہوچکے اور کعبہ سے باہر نکلے تو میں بھی آپ ﷺ کے پیچھے چل پڑا۔ آپؐ کا راستہ دار ابن ابی الحسر کی طرف سے تھا پھر وہاں سے آپ حضرت عباسؓ کے گھر کی طرف آئے۔ پھر اخنس بن شریق کے گھر کے پاس سے نکل کر اپنے دولت خانہ میں داخل ہوئے۔ عمرؓ کہتے جب رسول اکرم ﷺ حضرت عباس اور ابن ازہر کے گھروں کے درمیان پہنچے تو میں آپؐ کے قریب ہوا۔ آپ ﷺ نے میری آہٹ سن کر مجھے پہچانا اور خیال فرمایا کہ میں آپ کی ایذا رسانی کے خیال سے آیا ہوں۔ چنانچہ مجھے آواز دی کہ اے ابن خطاب اس وقت کیوں آیا ہے؟ میں نے عرض کیا میں خدا اور رسول ﷺ پر اور اس کتاب پر جو رسول، خدا کے پاس سے لائے ہیں ایمان لایا ہوں۔ حضور ﷺ نے یہ سن کر خوشی سے الحمدللہ کہا اور فرمایا کہ اے عمرؓ تجھ کو خدا نے ہدایت عطا فرمائی ہے۔ پھر آپ ﷺ نے میرے سینے پر ہاتھ پھیرا اور ثابت قدمی کی دعا کی۔
ابن اسحاق کہتے ہیں کہ حضرت عمرؓ کے قبول اسلام کے اس واقعہ کو زیادہ شہرت حاصل نہیں ہوئی۔ مشہور دوسرا واقعہ ہوا جس میں انھوں نے اپنی بہن کی تلاوت قرآن سن کر اسلام قبول کیا۔
عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ جمیل بن معمر جحمی نے قریش میں اعلان کردیا کہ عمر بن خطابؓ نے اسلام قبول کرلیا۔ یہ سنتے ہی قریش عمر کو مارنے کو دوڑے۔ اتنے میں ایک بوڑھا شخص آیا اور قریش کو سمجھاتے ہوئے بولا کہ تم کیا سمجھتے ہو کہ عمرؓ کی قوم عمر کے قتل ہونے سے تم سے کچھ باز پرس نہ کرے گی۔ خدا کی قسم وہ ہرگز تمہیں نہیں چھوڑیں گے۔ یہ بات سنتے ہی سب لوگ پیچھے ہٹ گئے۔
پھر حضرت عمرؓ نے اپنے اسلام لانے کی خبر ابوجہل کو دی جو ان کا ماموں تھا۔ ابوجہل نے یہ خبر سنتے ہی اپنے گھر کا دروازہ حضرت عمرؓ پر بند کردیا اور کہا کہ خدا تجھے خراب کرے اور اس دین کو بھی جسے تو نے اختیار کیا ہے۔ (سیرت ابن ہشام)
حضرت عمرؓ کے حق میں قرآنی آیات کا نزول:
ابن مردویہ نے حضرت مجاہد سے روایت کیا ہے کہ حضرت عمر فاروقؓ جس رائے کا اظہار کرتے۔ قرآن کریم اسی کے موافق نازل ہوجاتا۔ ابن عساکر لکھتے ہیں کہ حضرت علی المرتضیٰؓ فرماتے تھے کہ
’’قرآن کریم میں حضرت عمر فاروقؓ کی آراء موجود ہیں۔‘‘
عبداللہ ابن عمرؓ سے مرفوعاً مروی ہے کہ اگر بعض امور میں لوگوں کی رائے کچھ اور ہوتی اور حضرت عمرؓ کی اس کے برعکس ہوتی تو قرآن حضرت عمرؓ کے قول کے موافق نازل ہوتا تھا۔ بخاری و مسلم میں روایت ہے کہ ایک مرتبہ حضرت عمرؓ نے بارگاہ رسالت مآب میں عرض کیا یارسول اللہ ﷺ کاش ہم مقام ابراہیم علیہ السلام کو نماز کی جگہ بناتے تو قرآن کی یہ آیت نازل ہوئی۔
وَاتَّخِذُوْا مِنْ مَّقَامِ اِبْرٰهٖیمَ مُصَلًّی ط وَعَهِدْنَآ اِلٰٓی اِبْرٰهٖمَ وَاِسْمٰعِیْلَ اَنْ طَهِرَا بَیْتِیَ...
(البقرة، 2: 125)
’’اور ابراہیم کے کھڑے ہونے کی جگہ کو نماز کا مقام بناؤ اور ہم نے تاکید فرمائی ابراہیم و اسماعیل کو کہ میرا گھر خوب ستھرا کرو۔‘‘
اسی طرح بخاری و مسلم میں موجود ہے کہ حضرت عمر فاروقؓ نے عرض کیا یارسول اللہ ﷺ آپ کے پاس ہر قسم کے لوگ آتے جاتے ہیں کیا ہی اچھا ہو کہ ازواج مطہرات کے لیے پردہ کا خاص حکم ہو۔ اس کے بعد یہ آیت قرآنی نازل ہوئی کہ
وَاِذَا سَاَلْتُمُوْهُنَّ مَتَاعًا فَسْئَلُوْهُنَّ مِنْ وَّرَآءِ حِجَابٍ ط ذٰلِکُمَ اَطْهَرُ لِقُلُوْبِکُمْ وَقُلُوْبِهِنَّ.
(الاحزاب، 33: 53)
’’اور جب تم ان سے برتنے کی کوئی چیز مانگو تو پردے کے باہر سے مانگو اس میں زیادہ پاکیزگی ہے تمہارے دلوں اور ان کے دلوں کے لیے۔‘‘
بخاری و مسلم میں یہ روایت بھی ہے کہ جب ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن حضور ﷺ کی غیرت میں شریک ہوگئیں تو حضرت عمرؓ نے فرمایا کہ اگر رسول اللہ ﷺ تمہیں طلاق دے دیں تو اللہ تعالیٰ تم سے بہتر بیویاں اپنے نبی کو عطا فرمادے گا۔ اس کے بعد یہ آیت مبارکہ نازل ہوئی کہ
عَسٰی رَبُّهٗٓ اِنْ طَلَّقَکُنَّ اَنْ یُّبْدِلَهٗٓ اَزْوَاجًا خَیْرًا مِّنْکُنَّ مُسْلِمٰتٍ مُّؤْمِنٰتٍ قٰنِتٰتٍ تٰٓئِبٰتٍ عٰبِدٰتٍ سٰٓئِحٰتٍ ثٰـیِّبٰتٍ وَّاَبْکَارًا.
(التحریم، 66: 5)
’’ان کا رب قریب ہے اگر وہ تمھیں طلاق دے دیں کہ انھیں تم سے بہتر بیبیاں عطا فرمادے، اطاعت گزار، ایمان والی، ادب والی، توجہ والی، بندگی والی، روزہ دار، بیاہیاں اور کنواریاں۔‘‘
مستدرک الحاکم میں ہے کہ حضرت عمرؓ نے بارگاہ خدا میں التجا کی کہ مسلمانوں پر شراب حرام کردی جائے ورنہ مسلمان تجھ سے غافل ہوجائیں گے تو آپ کی دعا قبول ہوئی اور حرمت شراب کی آیت نازل ہوگئی:
یَسْئَلُوْنَکَ عَنِ الْخَمْرِ وَالْمَیْسِرِ ط قُلْ فِیْھِمَآ اِثْمٌ کَبِیْرٌ وَّمَنَافِعُ لِلنَّاسِ وَاِثْمُھُمَآ اَکْبَرُ مِنْ نَّفْعِهِمَا.
(البقرة، 2: 219)
’’تم سے شراب اور جوئے کا حکم پوچھتے ہیں فرمادیجئے کہ ان دونوں میں بڑا گناہ ہے اور لوگوں کے لیے کچھ دنیوی نفع بھی اور ان کا گناہ ان کے نفع سے بڑا ہے۔‘‘
اسدالغابہ میں ہے کہ چھٹے پارے میں سورہ المائدہ کی شراب کی حرمت والی آیات بھی اس کے بعد نازل ہوگئیں۔
حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ جب قرآن کی وہ آیت نازل ہوئی جس میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ہم نے انسان کو چنی ہوئی مٹی سے پیدا فرمایا ہے تو حضر ت عمر فاروقؓ کی زبان سے بے اختیار نکلا فتبارک اللہ احسن الخالقین اس کے فوراً بعدنبی کریم ﷺ پر یہ آیت نازل ہوئی کہ
فَتَبٰـرَکَ اللهُ اَحْسَنُ الْخٰلِقِیْنَ.
(المومنون، 23: 14)
’’تو بڑی برکت والا ہے اللہ سب سے بہتر بنانے والا۔‘‘
اسی طرح عبداللہ بن ابی بن خلف کے نماز جنازہ پڑھانے پر حضرت عمرؓ نے حضور ﷺ سے فرمایا کہ یہ منافق ساری زندگی آپ کی توہین کرتا رہا تو آپ اس کی نماز جنازہ کیوں پڑھاتے ہیں۔ جب حضور ﷺ نماز جنازہ سے فارغ ہوئے تو آپ ﷺ پر وہ آیات نازل ہوگئیں جن میں آپؐ کو ہمیشہ کے لیے منافقین کی نماز جنازہ پڑھانے اور ان کی قبر پر کھڑا ہونے سے منع کردیا گیا۔
وَلَا تُصَلِّ عَلٰٓی اَحَدٍ مِّنْھُمْ مَّاتَ اَبَدًا وَّلَا تَقُمْ عَلٰی قَبْرِہٖ ط اِنَّھُمْ کَفَرُوْا بِاللهِ وَرَسُوْلِہٖ.
(التوبة، 9: 84)
’’اور ان میں سے کسی کی میت پر کبھی نماز نہ پڑھنا اور نہ اس کی قبر پر کھڑے ہونا بے شک وہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کے منکر ہوئے۔‘‘
واقعہ افک کے موقع پر حضور ﷺ کو تسلی دیتے ہوئے حضرت عمرؓ نے فرمایاکہ یارسول اللہ ﷺ آپ کا حضرت عائشہؓ سے نکاح کس نے کیا تھا۔ فرمایا اللہ تعالیٰ نے تو حضرت عمرؓ نے عرض کیا کہ آپ گمان کیسے کرسکتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ آپ ﷺ کے لیے عیب دار چیز منتخب کرے گا۔ اس وقت یہ آیت نازل ہوئی:
سُبْحٰنَکَ هٰذَا بُهْتَانٌ عَظِیْمٌ.
(النور: 16)
’’الہٰی تو پاک ہے یہ بڑا بہتان ہے۔‘‘
ابتدائے اسلام میں رمضان میں بیویوں کے پاس جانے کی ممانعت تھی۔ حضرت عمرؓ نے دیکھا کہ لوگ اس پابندی کو اختیار نہیں کرسکتے تو حضور ﷺ سے فرمایا کہ کیا ہی اچھا ہو کہ رمضان کی راتوں میں یہ اجازت دے دی جائے تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیات نازل فرمادیں کہ
اُحِلَّ لَکُمْ لَیْلَةَ الصِّیَامِ الرَّفَثُ اِلٰی نِسَآئِکُمْ ط ھُنَّ لِبَاسٌ لَّکُمْ وَاَنْتُمْ لِبَاسٌ لَّھُنَّ.
(البقرة، 2: 187 )
’’روزوں کی راتوں میں اپنی عورتوں کے پاس جانا تمہارے لیے حلال ہوا۔ وہ تمہارا لباس ہیں اور تم ان کا لباس۔‘‘
ایک دفعہ حضرت عمرؓ آرام فرمارہے تھے کہ اچانک آپ کا غلام آگیا اور آرام میں محل ہوا تو آپؓ نے دعا فرمائی کہ اے اللہ کیا ہی اچھا ہو کہ بغیر اجازت داخل ہونے کی ممانعت ہوجائے تو یہ آیت نازل ہوئی:
2. یٰٓـاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَدْخُلُوْا بُیُوْتًا غَیْرَ بُیُوْتِکُمْ حَتّٰی تَسْتَاْنِسُوْا وَتُسَلِّمُوْا عَلٰٓی اَھْلِھَا.
(النور، 24: 27)
’’اے ایمان والو اپنے گھروں کے سوا اور گھروں میں نہ جاؤ جب تک اجازت نہ لے لو اور ان کے رہنے والوں پر سلام نہ کرلو۔‘‘
ان تمام آیات قرآنی کے نزول سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ حضرت عمرؓ کا مقام و مرتبہ اللہ کے ہاں بہت بلند تھا۔ آپ کی خواہش پر قرآن کریم کی 40 کے قریب آیات نازل ہوئیں۔ اسی طرح حضرت عثمان بن عفانؓ سے روایت ہے کہ سب سے پہلے مساجد میں قندیلیں روشن کرنے والے حضرت عمرؓ تھے۔
حضرت علی المرتضیٰؓ فرماتے تھے کہ:
’’ہم میں سے سب سے پہلے عمر ابن الخطابؓ نے مسجد میں روشنی کی۔ پس جب لوگ نماز تراویح کے لیے جمع ہوئے تو مسجد روشن تھی۔ حضرت علیؓ نے فرمایا کہ اے ابن خطاب ہماری مسجدوں کو آپ نے منورکیا اللہ تعالیٰ آپ کی قبر کو منور فرمائے۔‘‘
حاصل کلام:
حضرت عمر فاروقؓ اسلام کے دوسرے خلیفہ تھے۔ان کا زمانہ خلافت تقریباً 11 سال کے عرصے پر محیط ہے۔ آپ نے عہدہ خلافت پر فائز ہوتے ہی بے شمار فتوحات فرمائیں۔ آپ کے دور حکومت میں مفتوحہ علاقہ 2251030 رقبہ پر محیط تھا۔ آپ نے بے شمار نئی اختراعات بھی متعارف کروائیں۔ عدل و انصاف کا نظام قائم فرمایا۔ آپ نے اپنے دور خلافت میں ایسی مشکلات کو حل کیا جو انسانی طاقت سے بالاتر ہے۔ ایسے علاقوں کو فتح کیا جہاں بتوں کو خدامانا جاتا تھا۔ وہاں کی آبادی کو درس توحید و رسالت دے کر ایمان و اسلام کی دولت عنایت فرمائی۔ چار ہزار مساجد تعمیر کروائیں۔ ضلالت کے شہروں میں ہدایت کی شمعیں روشن کیں۔ تاریکی کفر کی تمام چٹانیں ہٹادیں اور رسول اللہ ﷺ نے جو دعا فرمائی تھی کہ اے اللہ اسلام کو عمر بن خطابؓ کے ساتھ عزت دے کر دنیا کے سامنے عملی شان و شوکت سے ظاہر کیا۔