فاطمتہ الزہراء

سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:

"آدمی اپنے دوست کے دین پر ہوتا ہے پس تم میں سے ہر ایک کو غور کرنا چاہیے کہ تم کس سے دوستی کر رہے ہو"

لفظ انسان کا مادہ اشتقاق 'انس ' ہے جس کا معنی ہے محبت کرنا یا مانوس ہونا۔ دوستی اور محبت انسان کی سرشت میں رکھی گئی ہے اور انسانی فطرت کا تقاضا ہے کہ وہ تنہا نہیں رہ سکتا لہذا اپنی پیدائش سے لے کر موت تک انسان زندگی کے ہر مرحلے میں تعلقات اور دوستیاں قائم کرتا ہے جو اس کی فطری تسکین کا باعث ہوتے ہیں اور زندگی گزارنے میں ممدو معاون ثابت ہوتے ہیں۔ دوستی نہ صرف وقت گزارنے کا ذریعہ ہے بلکہ زندگی کے نشیب و فراز میں سہارا، رہنمائی اور اصلاح کا بھی وسیلہ بن سکتی ہے۔ لہذا یہ طے کر لینا ضروری ہے کہ ہمارے تعلقات اور دوستی کا معیار کیا ہونا چاہیے۔

قرآنِ مجید میں کئی مقامات پر دوستوں اور ساتھیوں کے بارے میں ارشاد ہوا ہے۔ سورۃ الزخرف میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’قیامت کے دن سب دوست ایک دوسرے کے دشمن ہو جائیں گے سوائے ان کے جو تقویٰ والے ہوں گے۔ ‘‘ یہ آیت واضح کرتی ہے کہ وہی دوستی دائمی اور کامیاب ہے جو تقویٰ پر قائم ہو۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَى وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ.

یعنی نیکی اور پرہیزگاری میں ایک دوسرے کا ساتھ دو اور گناہ و زیادتی میں مدد نہ کرنا۔

یہ ہدایات واضح کرتی ہیں کہ حقیقی دوستی وہ ہے جو انسان کو نیکی کی طرف لے جائے، نہ کہ برائی میں دھکیل دے۔

یک زمانہ صحبت با اولیا
بہتر از صد سالہ طاعتِ بے ریا

احادیثِ نبوی ﷺ میں بھی بار بار دوستی کے انتخاب میں احتیاط پر زور دیا گیا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا"آدمی اپنے دوست کے دین پر ہوتا ہے پس تم میں سے ہر ایک کو غور کرنا چاہیے کہ تم کس سے دوستی کر رہے ہو"۔ ایک اور حدیث میں ہے:

’’نیک دوست کی مثال عطر والے کی طرح ہے جو خوشبو دے گا، اور برا دوست بھٹی جھونکنے والے کی طرح ہے جو یا تو کپڑے جلا دے گا یا کم از کم بدبو پہنچائے گا۔ ‘‘

اسلام نے اس رشتے کو محض ایک سماجی میل ملاپ نہیں بلکہ ایک ایسی ذمہ داری قرار دیا ہے جس کا معیار دینِ حق اور اللہ کی رضا ہے۔ اگر دوستی اسی معیار پر قائم ہو تو وہ انسان کی روح، کردار اور عمل دونوں کو سنوارتی ہے؛ ورنہ وہ انسان کو برائی اور گمراہی کی طرف دھکیل سکتی ہے

ان احادیث سے یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ دوستی انسان کے اخلاق، عادات اور دین پر گہرے اثرات مرتب کرتی ہے۔ یہاں دین سے مراد انسان کا طور طریقہ اور رہنے سہنے کا انداز ہے۔ انسان کا کردار اس کی دوستی اور تعلقات کا آئینہ دار ہوتا ہے۔ انسان تعلق بناتا ہے اور وہ تعلق انسان کی شخصیت بناتے ہیں۔ انسان دوستوں کے ساتھ وقت گزارتا ہے اور وہ وقت اس کی سوچ بدل دیتا ہے۔ انسان دوستوں کو اپنے مشورے میں شامل کرتا ہے اور وہ مشورے اس کی زندگی کا رخ بدل دیتے ہیں۔ لہذا دوستی کا معیار دین، نیکی اور اچھا کردار ہونا چاہیے۔

اسلام میں دوستی کا بہترین عملی نمونہ حضور نبی اکرم ﷺ اور حضرت ابوبکر صدیقؓ کی رفاقت ہے۔ ہجرت کے وقت غارِ ثور میں حضرت ابوبکرؓ کا حضور ﷺ کے ساتھ وفادارانہ ساتھ، خطرات میں شراکتِ کرب اور ہر حال میں ثابت قدمی اس حقیقت کی عکاس ہے کہ سچی دوستی قربانی اور دین کی راہ میں ایک دوسرے کے سہارا بننے کا نام ہے۔ مدینہ میں مواخات کا واقعہ بھی اس بات کا روشن ثبوت ہے کہ اسلامی دوستی محض جذباتی وابستگی نہیں بلکہ مادی و معنوی اشتراک، امداد اور ایک دوسرے کے حقوق کے تحفظ پر مبنی تھی۔ صحابہ کرامؓ کے درمیان جو بھائی چارہ قائم ہوا، اس میں ایک دوسرے کے لیے مالی مدد، اخلاقی رہنمائی اور ہمدردی شامل تھی، یہی اس رشتے کو مضبوط اور بامعنی بناتا ہے۔ اسی طرح حضرت علیؓ اور حضرت مقدادؓ، حضرت عمرؓ اور حضرت ابو عبیدہؓ جیسے رشتے ہمیں یہ سکھاتے ہیں کہ دوستی کا مقصد محض دنیاوی لذت نہیں بلکہ دین کے کام میں ایک دوسرے کا ہاتھ بٹانا ہے۔ حضرت عمر فاروقؓ اور حضرت ابو عبیدہؓ کے درمیان دوستی ایسی تھی جس میں اخلاص اور دین کی خدمت نمایاں تھی۔ حضرت عمرؓ ان پر اعتماد کرتے تھے اور اہم مشوروں میں ان کو شامل کرتے تھے۔ حضرت علیؓ کے قریبی ساتھیوں میں حضرت مقدادؓ شامل تھے۔ دونوں کا تعلق صرف ذاتی تعلقات پر نہیں بلکہ دین کی خدمت پر مبنی تھا۔ جنگوں اور مشکل مواقع پر حضرت مقدادؓ نے ہمیشہ حضرت علیؓ کا ساتھ دیا۔ یہ رفاقت ثابت کرتی ہے کہ اسلامی دوستی مشکل وقت میں عزم و حوصلہ بڑھانے کا ذریعہ بنتی ہے۔

دوستی کے اسلامی معیار میں چند نمایاں خصوصیات ہیں جنہیں عملی زندگی میں مدنظر رکھنا ضروری ہے۔ پہلا معیار ایمان اور تقویٰ ہے۔ دوستی کا اصل مقصد اللہ کی رضا ہونا چاہیے، دنیاوی مفاد یا وقتی فائدے کی بنیاد پر قائم رشتہ پائیدار نہیں ہوتا۔ دوسرا معیار اخلاص اور خیرخواہی ہے، ایک مسلمان اپنے دوست کے لیے وہی پسند کرے جو اپنے لیے پسند کرتا ہے۔ تیسرا معیار عدل اور دیانت ہے، اچھا دوست اندھی تقلید یا غلطی پر خاموشی اختیار نہیں کرتا بلکہ انصاف اور سچائی کا ساتھ دیتا ہے۔ چوتھا معیار یہ ہے کہ دوست مشکل وقت میں ساتھ دے۔ پانچواں معیار عیب چھپانا اور اصلاح کرنا ہے۔ اسلامی دوستی میں عیبوں پر پردہ ڈالنا اور نرمی کے ساتھ اصلاح کرنا شامل ہے۔

اسلام نے جہاں نیک اور صالح دوست بنانے کی ترغیب دی ہے، وہیں برے دوست اور بری صحبت سے بچنے کی بھی سخت تاکید فرمائی ہے۔ قرآن کریم میں ارشاد ہے:

’’اور اس دن ظالم اپنے ہاتھ کاٹے گا اور کہے گا کہ کاش! میں نے فلاں کو دوست نہ بنایا ہوتا، اس نے تو مجھے نصیحت آنے کے بعد گمراہ کر دیا تھا۔ ‘‘ (الفرقان 29: 27)

اس آیت سے ظاہر ہے کہ برے دوست آخرت میں حسرت و ندامت کا سبب بنیں گے۔

دوست انسان کے اخلاق، عادات اور سوچ پر منفی اثر ڈالتے ہیں۔ ابتدا میں یہ اثرات چھوٹے دکھائی دیتے ہیں لیکن وقت کے ساتھ یہ انسان کی شخصیت کو بگاڑ کر اسے گناہ، غفلت اور برائیوں کی طرف لے جاتے ہیں۔

صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بھی بری صحبت سے بچنے کی سخت تاکید فرماتے تھے۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا فرمان ہے:

تمہارے بہترین دوست وہ ہیں جو تمہیں اللہ کی یاد دلائیں اور تمہارے برے دوست وہ ہیں جو تمہیں اللہ سے غافل کریں۔

یہ بات واضح کرتی ہے کہ صحبت انسان کی دینداری اور کردار کو براہِ راست متاثر کرتی ہے۔ بری دوستی کا نقصان یہ ہے کہ وہ نیکی کو کمزور کرتی ہے، گناہ کو معمولی بنا دیتی ہے اور رفتہ رفتہ انسان کو ہلاکت کی طرف دھکیل دیتی ہے۔

ابو جہل قریش کا بڑا سردار تھا لیکن اس کے گرد ایسے دوست اور ساتھی موجود تھے جو اسے ضد اور تکبر پر اکساتے تھے۔ انہی برے ساتھیوں کے اثر کی وجہ سے وہ حق کو پہچاننے کے باوجود ضد پر قائم رہا اور بدترین انجام کو پہنچا۔ قرآنِ مجید میں ابو لہب اور اس کی بیوی کا ذکر آتا ہے کہ دونوں نے نبی کریم ﷺ کی مخالفت میں ایک دوسرے کا ساتھ دیا اور دشمنی میں برابر کے شریک بنے۔ ان کی یہ بری رفاقت اس حد تک پہنچی کہ اللہ تعالیٰ نے سورۃ المسد میں دونوں کی ہلاکت بیان کی۔ یہ مثال واضح کرتی ہے کہ اگر میاں بیوی بھی برائی پر متفق ہو جائیں تو وہ ایک دوسرے کو خیر کے بجائے بدبختی کی طرف دھکیلتے ہیں۔

مزید یہ کہ لڑکے اور لڑکیوں کے درمیان ایسی دوستی معاشرے میں بے حیائی اور اخلاقی بگاڑ کو جنم دیتی ہے۔ یہ صرف فرد کا مسئلہ نہیں رہتا بلکہ خاندان کی عزت اور معاشرے کی اقدار بھی متاثر ہوتی ہیں۔ ایسے تعلقات انسان کو اپنی اصل ذمہ داریوں، جیسے تعلیم، والدین کی خدمت اور کردار سازی سے دور کر دیتے ہیں

بنی اسرائیل میں سامری وہ برا شخص تھا جس نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی غیر موجودگی میں لوگوں کو بچھڑے کی پرستش پر لگا دیا۔ اس ایک برے دوست نے ساری قوم کو گمراہی میں ڈال دیا۔ اس سے یہ سبق ملتا ہے کہ برا ساتھی صرف ایک فرد نہیں بلکہ پوری جماعت کو تباہی کی طرف لے جا سکتا ہے۔ اسی طرح مکہ کے بڑے سرداروں میں ولید بن مغیرہ وہ شخص تھا جس نے قرآن کو سچ مانا لیکن اپنے دوستوں کے دباؤ اور مذاق اڑانے کے خوف سے ایمان نہ لایا۔ اس کا یہ کمزور قدم اس کے برے ساتھیوں کی وجہ سے تھا جنہوں نے حق کو پہچاننے کے باوجود اسے گمراہی پر جما دیا۔ لہذا بری صحبت انسان کے دل کو حق سے دور کر دیتی ہے، برائی کو خوشنما بنا کر دکھاتی ہے اور انجام کار انسان کو حسرت و ندامت میں مبتلا کر دیتی ہے۔

صحبتِ صالح تُرا صالح کند
صحبتِ طالح تُرا طالح کند

آج کا نوجوان اپنی زندگی کی تعمیر کے نازک مرحلے سے گزر رہا ہوتاہے۔ یہ عمر جذبات اور خواہشات سے بھری ہوتی ہے، اسی لیے اکثر نوجوان وقتی فائدے، لذت یا وقتی خوشی کے لیے غلط دوستیاں قائم کر لیتے ہیں۔ یہ دوستیاں بظاہر سہارا، خوشی یا تفریح کا ذریعہ لگتی ہیں مگر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ تعلقات نقصان دہ ثابت ہوتے ہیں۔

یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ آج کا نوجوان اکثر دوست کو اس بنیاد پر چنتا ہے کہ وہ کتنا وقت گزارنے کے قابل ہے یا وہ اسے کتنا فائدہ دے سکتا ہے۔ لیکن یہ وقتی فائدہ ایک طرح کا دھوکہ ہوتا ہے۔

اسلام نے دوستی کو ایک مقدس رشتہ قرار دیا ہے جس کا معیار دنیاوی مفاد یا وقتی خوشی نہیں بلکہ اللہ کی رضا، ایمان و تقویٰ، اخلاص اور خیرخواہی ہیں

اس کے ساتھ ساتھ ایک اور بڑا چیلنج لڑکوں اور لڑکیوں کے درمیان بڑھتی ہوئی آزادانہ دوستی ہے۔ میڈیا، سوشل پلیٹ فارمز اور جدید ذرائع نے اس رجحان کو بڑھا دیا ہے۔ اکثر یہ تعلقات وقتی کشش اور جذبات پر مبنی ہوتے ہیں، ان میں نہ اخلاص ہوتا ہے اور نہ پائیداری۔ نوجوان ان رشتوں کو محبت اور وفاداری سمجھ لیتے ہیں، مگر انجام عموماً بد اعتمادی، دل شکستگی، عزت کے نقصان یا گناہ کی صورت میں نکلتا ہے۔ یہ دوستیاں اکثر اس وقت بوجھ بن جاتی ہیں جب عملی زندگی کی ذمہ داریاں شروع ہوتی ہیں۔

مزید یہ کہ لڑکے اور لڑکیوں کے درمیان ایسی دوستی معاشرے میں بے حیائی اور اخلاقی بگاڑ کو جنم دیتی ہے۔ یہ صرف فرد کا مسئلہ نہیں رہتا بلکہ خاندان کی عزت اور معاشرے کی اقدار بھی متاثر ہوتی ہیں۔ ایسے تعلقات انسان کو اپنی اصل ذمہ داریوں، جیسے تعلیم، والدین کی خدمت اور کردار سازی سے دور کر دیتے ہیں۔

اسی لیے ضروری ہے کہ نوجوان وقتی فائدے کے دھوکے میں آ کر اپنی زندگی کو برباد نہ کریں بلکہ دوستی کے انتخاب میں سنجیدگی، تقویٰ اور مستقبل بینی کو مدنظر رکھیں۔ اچھے دوست ہی انسان کے اصل سرمایہ ہوتے ہیں، جو مشکل وقت میں سہارا بنتے ہیں اور انسان کو اخلاقی طور پر مضبوط کرتے ہیں۔

آج کے دور میں جب سوشل میڈیا، تیز رفتار زندگی اور ثقافتی تغیرات نے دوستی کے انداز بدل دیے ہیں، تو اسلامی معیار کی اہمیت اور بھی بڑھ گئی ہے۔ ایسے میں قرآن و سنت کی رہنمائی کے مطابق دوستوں کا انتخاب نوجوانوں کو صحیح سمت میں لگا سکتا ہے: نماز، اخلاق، محنت اور علمی سرگرمیوں کی طرف۔ عملی طور پر یہ ممکن ہے کہ ہم دوستوں کا چناؤ ان کی مستقل عادتوں، بات چیت کے طریقہ، نیکیوں میں ایک دوسرے کی مدد اور برائی سے اجتناب کے معیار سے کریں۔ دوستوں کے ساتھ مل کر علمِ دین کے حلقوں میں شرکت، نیکی کے عمل میں شریک ہونا، اور ایک دوسرے کے اچھے کاموں کی حوصلہ افزائی کرنا تعلقات کو مضبوط اور بابرکت بناتا ہے۔

دوستی کو صحت مند رکھنے کے لیے چند عملی مشورے بھی مفید ہیں: اپنے دوست کی خامیوں کو احترام سے چھپائیں مگر ضروری اصلاح کو ٹالیں نہیں؛ مشورہ دینے میں نرمی اور حکمت اختیار کریں؛ اگر دوست آپ سے غلط عمل کا مطالبہ کرے تو واضح انکار کریں اور نرمی سے حق دکھائیں؛ مالی معاملات کو شفاف رکھیں اور وعدوں کی پابندی کریں؛ اختلافِ رائے میں تحمل اور سفارشی گفتگو اپنائیں؛ اخلاص کے ساتھ خیرخواہی کا اظہار جاری رکھیں۔ یہ اصول نہ صرف ذاتی سطح پر دوستی کو پائیدار بناتے ہیں بلکہ معاشرتی سطح پر اعتماد اور تعاون کی فضا قائم کرتے ہیں۔

آخر میں یہ کہنا درست ہوگا کہ اسلام نے دوستی کو ایک مقدس رشتہ قرار دیا ہے جس کا معیار دنیاوی مفاد یا وقتی خوشی نہیں بلکہ اللہ کی رضا، ایمان و تقویٰ، اخلاص اور خیرخواہی ہیں۔ اگر ہم ان اصولوں کو اپنی زندگی کا حصہ بنائیں تو ہماری دوستی نہ صرف ذاتی سکون کا باعث بنے گی بلکہ یہ معاشرہ کو بھی بہتر اور مضبوط بنائے گی۔ ﷺ