ارشاد اقبال

جب کائنات کی تاریکیوں میں شرک و باطل کا اندھیرا چھایا ہوا تھا، جب انسانیت ظلم و جبر کے بوجھ تلے دبی ہوئی تھی، تب اللہ ربّ العزت نے اپنے محبوب رسول محمد مصطفیٰ ﷺ کو اس دنیا میں رحمت و نور بنا کر بھیجا۔ آپ ﷺ کی ولادت باسعادت محض ایک شخصیت کی آمد نہیں تھی بلکہ یہ تاریخِ انسانی کا سب سے بڑا انقلاب اور کائنات کے نصیب بدلنے کا ظہور تھا یہی وجہ ہے کہ آپ ﷺ کی ولادت کے وقت زمین و آسمان پر ایسے معجزات ظاہر ہوئے جنہوں نے اعلان کردیا کہ اب باطل کے اندھیروں کا خاتمہ اور نور حق کا ظہور ہونے والا ہے۔ لیکن دوسری طرف کچھ لوگ "اِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ" کو بنیاد بنا کر حضور ﷺ کی عظمت اور حقیقت کو عام انسانوں پر قیاس کرتے ہیں۔ یہ ایک ایسا مغالطہ ہے جسے قرآن و حدیث کے دلائل سے دور کرنے کی ضرورت ہے تاکہ امت محمدیہ ﷺ اپنے نبی مکرم ﷺ کی شان و مقام کو صحیح طور پر سمجھ سکے۔

تاریخِ انسانی کے اوراق پر نگاہ ڈالی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ تاریخ انسانی میں ایسا عظیم الشان واقعہ کبھی رونما نہیں ہوا، جیسا کہ ولادتِ مصطفیٰ ﷺ کے بابرکت لمحے میں پیش آیا۔ یہ وہ ساعت تھی جس کے انتظار میں کائنات کے ذرے ذرے نے صدیوں سانسیں گنی تھیں۔ جب یہ گھڑی آئی تو گویا زمین و آسمان میں خوشی اور مسرت کی ایک بے مثال لہر دوڑ گئی۔ فضائے آسمان رحمت کے انوار و تجلیات سے جگمگا اٹھی، اور زمین نے اپنے دامن کو بہار کی رنگینیوں اور خوشبوؤں سے آراستہ کر لیا۔ سمندروں کی موجیں ترنم میں جھوم اٹھیں، ہوائیں خوشبو بن کر بہنے لگیں، اور مخلوقاتِ ارض و سما نے اپنے اپنے انداز میں اس نورانی آمد کا استقبال کیا۔

یہ کوئی عام ولادت نہ تھی، بلکہ یہ ربِ کائنات کے حبیب مکرم و رسول محتشمﷺ کی تشریف آوری تھی، جنہیں خالقِ حقیقی نے صرف ایک قوم یا ایک زمانے کے لیے نہیں بلکہ تمام جہانوں کے لیے رحمت بنا کر بھیجا۔

ولادتِ مصطفی ﷺ کی رات کے غیر معمولی واقعات تفصیل و پس منظر

نور کا ظہور

حضرت آمنہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں:

"جب رسول اللہ ﷺ پیدا ہوئے تو میرے جسم سے ایک نور نکلا جس سے شام کے شہر بصریٰ کے محلات روشن ہو گئے۔"

(دلائل النبوۃ للبیہقی، ج 1، ص 109؛ البدایہ والنہایہ، ج 2، ص 265)

یہ واقعہ اس بات کی علامت تھا کہ جس ہستی کی آمد ہو رہی ہے، وہ محض عرب کے لیے نہیں بلکہ پوری دنیا کے لیے ہدایت و رحمت کا سرچشمہ بنیں گے۔ شام کا ذکر خاص اس لیے ہوا کہ مستقبل میں وہاں بڑے علمی مراکز، جہاد کے محاذ اور اسلامی حکومت کے اہم دارالحکومت قائم ہوئے۔

یہ نور ظاہری بھی تھا اور باطنی بھی؛ ظاہری طور پر معجزہ تھا اور باطنی طور پر ایمان، علم، عدل اور ہدایت کا نور تھا جو آنے والے زمانوں میں مشرق و مغرب کو منور کرنے والا تھا۔

کسریٰ کے محل کے کنگروں کا گرنا— فارس کی سلطنت کے زوال کی علامت

فارس کا بادشاہ کسریٰ اس وقت دنیا کی دو بڑی سلطنتوں میں سے ایک کا حکمران تھا۔ اس کے محل کے چودہ بلند و بالا کنگرے اس رات اچانک گر گئے۔

فارس کے آتش کدہ کا بجھ جان

ایک ہزار سال سے جلتی آگ کا ایک لمحے میں ختم ہو جانا، گویا باطل کی شکست کا اعلان تھا۔ ایران کے شہر فارس میں ایک عظیم آتش کدہ تھا جو زرتشتی مذہب کے پیروکاروں کے لیے قبلہ و مرکز کی حیثیت رکھتا تھا۔ اس کی حفاظت پر مستقل پہرے ہوتے اور یہ ان کے مذہب کی روحانی علامت تھا۔ ولادتِ مصطفیﷺ کی رات وہ آگ یک دم بجھ گئی۔ یہ منظر محض ایک عجیب اتفاق نہیں بلکہ الٰہی اشارہ تھا کہ باطل کے بڑے بڑے قلعے ایک لمحے میں زمین بوس ہو سکتے ہیں، اور توحید کا پیغام تمام باطل معبودوں کو مٹا دے گا۔(البدایہ والنہایہ، ج 2، ص 273)

آتش کدہ فارس بجھ گیا جو ہزاروں برس سے مسلسل جل رہا تھا، یہ باطل پرست نظام کے خاتمے کا اعلان تھا۔

گویا آتش کدہ کے بجھنے نے اعلان کر دیا کہ باطل کی آگ ٹھنڈی ہوگئی اور حق کا آفتاب طلوع ہونے والا ہے۔اب دنیا کی ظالم و جابر حکومتوں کے زوال اور عدل و انصاف پر مبنی مصطفوی نظام کے قیام کا وقت آنے والا ہے۔

بحیرہ ساوہ کا خشک ہون

ایک تاریخی جھیل کا اچانک ختم ہو جانا، جو ایک عظیم تغیر کا اشارہ تھا۔ ساوہ (ایران) کے قریب ایک جھیل تھی جسے عوام تقدس کی نظر سے دیکھتے، اس کے پانی کو شفاء اور برکت کا ذریعہ سمجھتے اور بعض اسے پوجتے بھی تھے۔ یہ جھیل صدیوں سے موجود تھی مگر ولادتِ مصطفی ﷺ کی رات اچانک خشک ہو گئی۔ یہ واقعہ اس بات کا واضح اعلان تھا کہ اب انسانوں کے تراشے ہوئے بتوں اور باطل معبودوں کی حکمرانی کا باب ہمیشہ کے لیے بند ہو رہا ہے۔ فطرت نے اپنی زبان میں گواہی دی کہ اب وہ دور آغاز پا رہا ہے جس میں بندگی صرف اور صرف خالقِ کائنات کے لیے مخصوص ہوگی۔

یہ سب نشانیاں اس حقیقت کو آشکار کر رہی تھیں کہ دنیا اب ایک نئے عہدِ نور ہدایت میں داخل ہو رہی ہے، جہاں قیادت و رہنمائی کا تاج صرف نبی رحمت محمدﷺ کے سرِ انور پر سجنے والا ہے اور انسانیت کو ظلمت سے نکال کر ہدایت و توحید کے آفاقی سفر پر گامزن کیا جانا ہے۔ (البدایہ والنہایہ، ج 2، ص 273)

یہ تمام واقعات مل کر اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ حضور ﷺ کی آمد محض ایک عام انسانی پیدائش نہیں تھی، بلکہ یہ مجموعی طور پر ایک نئے دور کا آغاز تھا۔

قرآنِ مجید نے آپ ﷺ کی حقیقت اور مقام کے بارے میں فرمایا:

مَا كَانَ مُحَمَّدٌ اَبَاۤ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِكُمْ وَ لٰكِنْ رَّسُوْلَ اللّٰهِ وَ خَاتَمَ النَّبِیّٖنَ ؕ وَ كَانَ اللّٰهُ بِكُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمًا۠۝

(الْأَحْزَاب, 33 : 40)

’’ محمد (ﷺ) تمہارے مَردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں لیکن وہ اللہ کے رسول ہیں اور سب انبیاء کے آخر میں (سلسلۂِ نبوت ختم کرنے والے) ہیں، اور اللہ ہر چیز کا خوب علم رکھنے والا ہے۔‘‘

اسی طرح فرمایا:

یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ اِنَّاۤ اَرْسَلْنٰكَ شَاهِدًا وَّ مُبَشِّرًا وَّ نَذِیْرًاۙ۝ وَّ دَاعِیًا اِلَی اللّٰهِ بِاِذْنِهٖ وَ سِرَاجًا مُّنِیْرًا۝

(الْأَحْزَاب, 33 : 45-46)

’’ اے نبِیّ (مکرّم!) بے شک ہم نے آپ کو (حق اور خَلق کا) مشاہدہ کرنے والا اور (حُسنِ آخرت کی) خوشخبری دینے والا اور (عذابِ آخرت کا) ڈر سنانے والا بنا کر بھیجا ہے۔ اور اس کے اِذن سے اللہ کی طرف دعوت دینے والا اور منوّر کرنے والا آفتاب (بنا کر بھیجا ہے)۔‘‘

یہ آیات بتاتی ہیں کہ اگرچہ آپ ﷺ ظاہری جسم میں انسان ہیں، مگر آپ کی حقیقت، نورانیت اور مرتبہ عام انسانوں کی سمجھ سے بالا تر ہے۔

"اِنَّمَا اَنَا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ" کا صحیح مفہوم

اس آیت مبارکہ (الکہف: 110) کو سیاق و سباق سے دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ کفارِ مکہ آپ ﷺ سے کسی فرشتے کے آنے یا آسمان سے خزانے اترنے کا مطالبہ کر رہے تھے۔ جواب میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ آپ ﷺ جسمانی اعتبار سے بشر ہیں، تاکہ امت آپ سے انس و قرب محسوس کرے، لیکن ساتھ یہ بھی فرمایا:

يُوحَى إِلَيَّ"مجھ پر وحی کی جاتی ہے"

یعنی جسمانی بشریت میں مشابہت ہے، لیکن وحی، علمِ لدنی، عصمت، معجزات اور نورانیت میں کوئی انسان آپ ﷺ کا ہم پلہ نہیں۔

اکابرینِ امت کے حوالہ جات

1۔ امام فخر الدین رازی (تفسیر کبیر، تحت آیت الکہف: 110):

"مثلکم" کا مطلب جسمانی ساخت میں مشابہت ہے، نہ کہ فضائل و کمالات میں۔ آپ ﷺ کی حقیقت عام انسان سے ماورا ہے۔

2۔ امام قرطبی (الجامع لأحکام القرآن):

"بشری لباس اس لئے بھیجا تاکہ امت آپ سے مانوس ہو، ورنہ آپ کے مقام کو کوئی بشر نہیں پہنچ سکتا۔

نور و بشریت کا حسین امتزاج

حضور ﷺ کی شخصیت ایک ایسا حسین امتزاج ہے جس میں بشریت اور نورانیت دونوں پہلو جلوہ گر ہیں۔ بشریت کا پہلو امت کے لیے عملی نمونہ ہے جبکہ نورانیت کا پہلو آپ ﷺ کی الوہیت سے قربت اور اللہ تعالیٰ کی خاص عطا کا مظہر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ ﷺ کو دیکھ کر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم فرماتے تھے: "ما رأيت شيئًا أحسن منه ﷺ" (ہم نے آپ ﷺ سے حسین تر کوئی شے نہیں دیکھی)۔

3۔ قاضی عیاض اپنی الشفاءمیں لکھتے ہیں:

"آپ ﷺ کی بشریت عام بشریت کی طرح نہیں، بلکہ آپ نور اور بشر دونوں کا جامع کمال ہیں، جیسا کہ حدیث میں آیا 'اَوَّلُ مَا خَلَقَ اللَّهُ نُورِي'

4۔ امام آلوسی

آپ ﷺ کی حقیقت نورانی ہے، بشریت کا عنصر صرف ظاہر میں ہے، باطن میں آپ سراسر نور اور رحمت ہیں۔

(روح المعانی)

حاصل کلام

لہٰذا، ولادتِ مصطفیٰ ﷺ کا موقع محض ایک انسانی پیدائش نہیں بلکہ ایک عظیم ربانی معجزہ ہے، جس کی گواہی تاریخ، قرآن اور محدثین نے دی۔ "اِنَّمَا اَنَا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ" کا مطلب یہ نہیں کہ آپ ﷺ محض ہمارے جیسے انسان ہیں، بلکہ یہ کہ آپ ﷺ ظاہری بشری صورت میں ہماری طرح ہیں، مگر مرتبہ، فضائل، علم، عصمت اور نورانیت میں لا محدود فرق رکھتے ہیں۔ یہی عقیدہ اکابرین اورسلف و صالحین کا اجماعی موقف ہے اور تقاضہ ایمان ہے. یوں ولادتِ مصطفیٰ ﷺ کے وقت ظاہر ہونے والے معجزات نے یہ اعلان کردیا کہ اب ظلم و باطل کی سیاہ رات کا خاتمہ ہونے کو ہے اور حق و ہدایت کا سورج اپنی پوری آب و تاب سے مطلع کائنات پر چمکے گا۔ قرآن و حدیث کی روشنی میں یہ حقیقت روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ حضور نبی کریم ﷺ عام انسان نہیں بلکہ اللہ کے برگزیدہ، نورِ مجسم اور تمام جہانوں کے لیے رحمت ہیں۔ "اِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ" کا مطلب آپﷺ کی بشریت کو عام انسانوں پر قیاس کرنا نہیں بلکہ آپ کی نبوت، رسالت اور انفرادیت کو اجاگر کرنا ہے۔

آج بطورِ امت ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم ولادتِ مصطفیٰﷺ کے پیغام کو صرف جشن و خوشی تک محدود نہ رکھیں، بلکہ اسے تجدیدِ دین اور اقامتِ دین کی جدوجہد سے جوڑیں۔ جب باطل کے ایوان لرز گئے اور آتش کدے بجھ گئے تو یہ اعلان تھا کہ اب دنیا میں نظامِ مصطفوی قائم ہونا ہے۔ لہٰذا آج ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم حضور ﷺ کے لائے ہوئے دین کو اپنی انفرادی و اجتماعی زندگی میں نافذ کریں، اس کی تجدید اور احیاء کی تحریک کا حصہ بنیں، اور اپنی فکر، کردار اور جدوجہد کے ذریعے دنیا کو پھر سے نورِ محمدی ﷺ سے منور کریں۔