سوال: استحاضہ کسے کہتے ہیں اور اس کے کیا احکام ہیں؟
جواب: اگر عورت کو تین دن سے کم یا دس دن سے زیادہ خون آئے تو اسے استحاضہ کہتے ہیں۔ اسی طرح اگر نفاس میں چالیس دن سے زیادہ خون آئے تو وہ بھی استحاضہ ہے۔ اگر کسی عورت کو اپنی عادت سے زیادہ خون آئے تو وہ بھی استحاضہ ہے۔
اگر کسی عورت کو پانچ دن خون آتا ہےاور یہ پانچ دن عادت بن گئی اب اگر اسے بعد میں کبھی دس دن آیا تو پانچ دن حیض اور پانچ دن استحاضہ ہے۔
استحاضہ کے احکام
o استحاضہ میں عورت نماز پڑھ سکتی ہے لیکن ہر نماز کے لئے الگ وضو کرے گی۔
o حالت استحاضہ میں عورت روزہ رکھ سکتی ہے۔
o حالت حیض اور نفاس میں عورت سے جتنی نمازیں قضاء ہو گئیں ان کی کوئی قضاء نہیں اور اگر روزے قضاء ہو گئے توان کی قضاء بعد میں لازم ہے۔
o حالت استحاضہ میں عورت تمام کام کر سکتی ہے بخلاف حیض و نفاس کے۔
سوال: حائضہ عورت کا لباس پاک ہوتا ہے یا ناپاک؟
جواب: ایامِ حیض میں عورت کے ہاتھ، پاؤں، منہ اور پہنے ہوئے کپڑے پاک ہوتے ہیں بشرطیکہ خشک ہوں۔ البتہ جس جگہ، بدن یا کپڑے پر خون لگ جائے وہ جگہ ناپاک ہو جاتی ہے۔ اس کو دھو کر پاک کرنا ضروری ہے۔ حائضہ عورت کے ساتھ دوسری عورتوں کا، اس کی اولاد کا، اس کے محرموں کا اٹھنا بیٹھنا منع نہیں یہ یہودیوں اور ہندوؤں میں دستور ہے کہ حیض والی عورت کو اچھوت بنا کر چھوڑ دیتے ہیں کہ نہ وہ کسی برتن کو ہاتھ لگائے نہ وہ کسی کپڑے کو چھوئے۔ شریعت اسلامیہ میں ایسا نہیں ہے۔ اسلام نے عورت کو بلند مقام دیا ہے۔
حضرت فاطمہ بنت منذر رضی اللہ عنہا سے حدیث مبارکہ مروی ہے:
عَنْ أَسْمَآءَ بِنْتِ اَبِي بَکْرٍ إنَّهَا قَالَتْ: سَأَلَتْ رَّسُوْلَ اللهِ ﷺ فَقَالَتْ: يَا رَسُوْلَ اللهِ، اَرَاَيْتَ إِحْدَانَا إِذَا أَصَابَ ثَوْبَهَا الدَّمُ مِنَ الْحَيْضَةِ کَيْفَ تَصْنَعُ؟ قَالَ: إِذَا أَصَابَ إِحْدَاکُنَّ الدَّمُ مِنَ الْحَيْضِ فَلْتَقْرِصْه ثُمَّ لِتَنْضَحْهُ بِالْمَاءِ ثُمَّ لِتُصَلِّ.
(ابوداؤد، السنن، کتاب الطهارة، باب المراة تغسل ثوبها الذی تلبسه فی حيضها، 1: 150، رقم: 361)
’’حضرت اسماء بنت ابوبکر رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ ایک عورت حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض گذار ہوئیں: یا رسول اللہ! جب ہم میں سے کسی کے کپڑے کو حیض کا خون لگ جائے تو کیا کرے؟ فرمایا: جب تم میں سے کسی کے کپڑے پر حیض کا خون لگ جائے تو اسے کھرچ دے پھر اسے پانی سے دھو دے اور پھر نماز پڑھ لے۔ ‘‘
امام ابن عابدین شامی بیان کرتے ہیں:
’’حیض والی عورت کا کھانا پکانا، اس کے چھوئے ہوئے آٹے اور پانی وغیرہ کو استعمال کرنا مکروہ نہیں ہے۔ اس کے بستر کو علیحدہ نہ کیا جائے کیونکہ یہ یہودیوں کے فعل کے مشابہ ہے، حیض والی عورت کو علیحدہ کر دینا کہ جہاں وہ ہو وہاں کوئی نہ جائے، ایسا کرنا درست نہیں۔ ‘‘
(شامی، رد المحتار علی در المختار، 1: 194)
سوال: جادو اور تعویذات سے بچنے کے لیے عورت حیض کے دنوں میں کوئی وظیفہ کر سکتی ہے؟
جواب: ایامِ حیض میں خواتین کے لیے دعا کرنا، وظائف پڑھنا، ذکر اذکار کرنا اور دُرود شریف پڑھنا جائز ہے۔ امام حصفکی الدر المختار شرح تنویر الابصار میں فرماتے ہیں:
وَلَوْطُهْرًا مُتَخَلِّلًا فِيهَا حَيْضٌ يَمْنَعُ صَلَاةً وَصَوْمًا وَتَقْضِيهِ (لزوما دونھا للحرج) وَدُخُولِ مَسْجِدٍ وَالطَّوَافُ وَقُرْبَانُ مَا تَحْتَ إزَارٍ وَقِرَاءَةُ قُرْآنٍ وَمَسُّهُ وَإِلَّا بِغِلَافِهِ وَكَذَا حَمْلُهُ، وَلَا بَأْسَ بِقِرَاءَةِ أَدْعِيَةٍ وَمَسِّهَا وَحَمْلِهَا وَذِكْرِ اللَّهِ تَعَالَى، وَتَسْبِيحٍ وَأَكْلٍ وَشُرْبٍ بَعْدَ مَضْمَضَةٍ وَغَسْلِ يَدٍ، وَلَا يُكْرَهُ مَسُّ قُرْآنٍ بِكُمٍّ وَيَحِلُّ وَطْؤُهَا إذَا انْقَطَعَ حَيْضُهَا لِأَكْثَرِهِ وَإِنْ لِأَقَلِّهِ لَا حَتَّى تَغْتَسِلَ.
اگر طہر متخلل (ایام حیض کے درمیان میں وقفہ) ہو تو وہ بھی حیض ہی شمار ہوگا جو کہ نماز و روزہ کے مانع ہے البتہ روزوں کی قضاء کی جائےگی جبکہ مسجد میں داخل ہونے، طواف کعبہ کرنے، قربت کرنے، تلاوتِ قرآن اور بغیر غلاف قرآن چھونے اور اس کو اٹھانے کے بھی مانع ہے۔ دعائیں پڑھنے، اُنہیں چھونے اور ان کو اٹھانے، اللہ کا ذکر کرنے، تسبیح پڑھنےاورہاتھ دھو کر کلی کر کے کھانے پینےمیں کوئی حرج نہیں اور آستین کے ساتھ قرآن پاک کو چھونے کی ممانعت بھی نہیں ہے۔ عورت کے حیض کا زیادہ وقت گذرنے پر اس سے دخول خون بند ہونے کے بعد جائز ہے اور اگر کم وقت گزرا ہے تو پھر جائز نہیں یہاں تک کہ وہ غسل کرلے۔
(حصفکي، الدرالمختار، 1: 290تا 294، دار الفکر، بيروت)
حائضہ کے لیے احادیث میں مذکور دُعاؤں اور قرآنی آیات کو تلاوت کی بجائے وظائف یا دُعا کی نیت اور ارادے سے پڑھنا جائز ہے۔
بیوی کو اپنے شوہر کے لئے ہر وقت بن سنور کر رہنا چاہئے، اور خاص طور پراپنے بناؤ سنگھار کا اظہار اس وقت کرنا چاہیے جب شوہر کسی جگہ سے واپس آئے۔ مثلاً بیرون ملک سے، اپنے آفس سے، جب بھی شوہر گھر سے باہر ہو اور جب واپس آئے تو عورت کو بہت ہی پیار بھرے، مشفقانہ اور والہانہ انداز میں استقبال کرنا چاہیے، اچھا لباس پہن کر، بناؤ سنگھار، میک اپ کر کے، خوشبو لگا کر اچھی طرح بن سنور کر اپنے شوہر کا استقبال کرے تاکہ اس کا شوہر اس سے خوش ہو
سوال: کیا بیوی کو اپنے شوہر کے لیے میک اپ کرنا اور اچھے لباس پہننے چاہیں؟ اور جب شوہر دفتر سے گھر آئے تو بیوی کو کیسے اس کا استقبال کرنا چاہیے؟
جواب: جی ہاں بیوی کو اپنے شوہر کے لئے میک اپ کرنا اور اچھے لباس پہننے چاہیے۔ شریعت میں بیوی کو بننے سنورنے کا حکم تو اپنے شوہر کے لئے ہی ہے۔ اگر وہ اپنے شوہر کے لیے ایسا نہیں کرے گی تو پھر کس لئے بنے سنورے گی؟ قرآن مجید نے واضح طور پر حکم دیا ہے کہ بیوی اپنے شوہر کے لئے میک اپ کرے گی اور اس کے علاوہ بیوی اپنے محرم رشتے داروں کے لئے بھی بن سنور سکتی ہے۔ جیسا کہ ارشاد باری تعالی ہے۔
وَ قُلْ لِّلْمُؤْمِنٰتِ یَغْضُضْنَ مِنْ اَبْصَارِهِنَّ وَ یَحْفَظْنَ فُرُوْجَهُنَّ وَ لَا یُبْدِیْنَ زِیْنَتَهُنَّ اِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا وَ لْیَضْرِبْنَ بِخُمُرِهِنَّ عَلٰی جُیُوْبِهِنَّ ۪ وَ لَا یُبْدِیْنَ زِیْنَتَهُنَّ اِلَّا لِبُعُوْلَتِهِنَّ اَوْ اٰبَآىِٕهِنَّ اَوْ اٰبَآءِ بُعُوْلَتِهِنَّ اَوْ اَبْنَآىِٕهِنَّ اَوْ اَبْنَآءِ بُعُوْلَتِهِنَّ اَوْ اِخْوَانِهِنَّ اَوْ بَنِیْۤ اِخْوَانِهِنَّ اَوْ بَنِیْۤ اَخَوٰتِهِنَّ اَوْ نِسَآىِٕهِنَّ اَوْ مَا مَلَكَتْ اَیْمَانُهُنَّ اَوِ التّٰبِعِیْنَ غَیْرِ اُولِی الْاِرْبَةِ مِنَ الرِّجَالِ اَوِ الطِّفْلِ الَّذِیْنَ لَمْ یَظْهَرُوْا عَلٰی عَوْرٰتِ النِّسَآءِ ۪ وَ لَا یَضْرِبْنَ بِاَرْجُلِهِنَّ لِیُعْلَمَ مَا یُخْفِیْنَ مِنْ زِیْنَتِهِنَّ ؕ وَ تُوْبُوْۤا اِلَی اللّٰهِ جَمِیْعًا اَیُّهَ الْمُؤْمِنُوْنَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ
(سورة النور، 24: 31)
"اور آپ مومن عورتوں سے فرما دیں کہ وہ (بھی) اپنی نگاہیں نیچی رکھا کریں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کیا کریں اور اپنی آرائش و زیبائش کو ظاہر نہ کیا کریں سوائے (اسی حصہ) کے جو اس میں سے خود ظاہر ہوتا ہے اور وہ اپنے سروں پر اوڑھے ہوئے دوپٹے (اور چادریں) اپنے گریبانوں اور سینوں پر (بھی) ڈالے رہا کریں اور وہ اپنے بناؤ سنگھار کو (کسی پر) ظاہر نہ کیا کریں سوائے اپنے شوہروں کے یا اپنے باپ دادا یا اپنے شوہروں کے باپ دادا کے یا اپنے بیٹوں یا اپنے شوہروں کے بیٹوں کے یا اپنے بھائیوں یا اپنے بھتیجوں یا اپنے بھانجوں کے یا اپنی (ہم مذہب، مسلمان) عورتوں یا اپنی مملوکہ باندیوں کے یا مردوں میں سے وہ خدمت گار جو خواہش و شہوت سے خالی ہوں یا وہ بچے جو (کم سِنی کے باعث ابھی) عورتوں کی پردہ والی چیزوں سے آگاہ نہیں ہوئے (یہ بھی مستثنٰی ہیں) اور نہ (چلتے ہوئے) اپنے پاؤں (زمین پر اس طرح) مارا کریں کہ (پیروں کی جھنکار سے) ان کا وہ سنگھار معلوم ہو جائے جسے وہ (حکمِ شریعت سے) پوشیدہ کئے ہوئے ہیں، اور تم سب کے سب اللہ کے حضور توبہ کرو اے مومنو! تاکہ تم (ان احکام پر عمل پیرا ہو کر) فلاح پا جاؤ"
تو درج بالا آیت کی روشنی میں پتہ چلا کہ بیوی کو اپنے شوہر کے لئے ہر وقت بن سنور کر رہنا چاہئے، اور خاص طور پراپنے بناؤ سنگھار کا اظہار اس وقت کرنا چاہیے جب شوہر کسی جگہ سے واپس آئے۔ مثلاً بیرون ملک سے، اپنے آفس سے، جب بھی شوہر گھر سے باہر ہو اور جب واپس آئے تو عورت کو بہت ہی پیار بھرے، مشفقانہ اور والہانہ انداز میں استقبال کرنا چاہیے، اچھا لباس پہن کر، بناؤ سنگھار، میک اپ کر کے، خوشبو لگا کر اچھی طرح بن سنور کر اپنے شوہر کا استقبال کرے تاکہ اس کا شوہر اس سے خوش ہو۔
جب بیوی ایسا کرے گی تو شوہر اس سے ہمیشہ خوش رہے گا اور کسی دوسری عورت کی طرف مائل نہیں ہو گا، اگر معاملہ اس کے برعکس ہو تو پھر دونوں کے تعلقات خراب ہو جاتے ہیں، فتنہ فساد ہوتا ہے، مگر افسوس یہ ہے کہ آج کے معاشرے میں عورت جب باہر جانے لگتی ہے تو خوب بناؤ سنگھار کرتی ہے، میک اپ کرتی ہے، اور گھر کے اندر شوہر کے سامنے صحیح لباس بھی نہیں پہنتی ہیں جو کہ حرام ہے، شریعت نے عورت کو اپنے خاوند کے لئے میک اپ کی اجازت دی ہے، دوسروں کے لئے نہیں۔ مگر اسلامی تعلیمات سے دوری کی وجہ سے ہمارے معاشرے کی خواتین اس کے برعکس چل رہی ہیں جو کہ ناجائز اور حرام ہے۔
سوال: کیا شاور کے ذریعے غسل کرنے سے اس کے واجبات ادا ہو جاتے ہیں؟
جواب: غسل کے فرائض تین ہیں:
وفرض الغسل: المضمضة والاستنشاق وغسل سائر البدن.
(فتح القدير، فصل فی الغسل، 1: 50)
’’غسل کے فرائض یہ ہیں: (1) کلی کرنا، (2) ناک میں پانی ڈالنا، (3) پورے بدن پر پانی بہانا۔ ‘‘
شاور، ٹوٹی، نل اور ٹب وغیرہ کے ذریعے غسل کرنے کے لیے اگر اچھی طرح کلی کر لی گئی اور ناک میں نرم ہڈی تک پانی ڈال لیا گیا اور پھر پورے بدن پر کم از کم ایک مرتبہ اس طرح پانی بہا لیا گیا کہ بدن کا کوئی حصہ بال برابر بھی خشک نہ رہا تو غسل کے واجبات ادا ہو جائیں گے۔ غسلِ واجب کی صورت میں جسم پر لگی ہوئی نجاست کو پہلے دھونا سنت ہے جیسا کہ ’نور الایضاح (ص: 23) ‘ میں ہے:
وغسل نجاسة لوکانت بانفرادها.
’’اگر جسم پر نجاست ہو تو اُسے الگ سے دھوئے۔ ‘‘
سوال: غسل کا مسنون اور مستحب طریقہ کیا ہے؟
جواب: اُم المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا حضورِ اکرم صلیٰ اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کے غسل کرنے کا طریقہ بیان کرتے ہوئے فرماتی ہیں:
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب غسل جنابت کرتے تو پہلے دونوں ہاتھ دھوتے، پھر دائیں ہاتھ سے بائیں ہاتھ پر پانی ڈال کر استنجاء کرتے، اس کے بعد مکمل وضو کرتے، پھر پانی لے کر سر پر ڈالتے اور انگلیوں کی مدد سے بالوں کی جڑوں تک پانی پہنچاتے، پھر جب دیکھتے کہ سر صاف ہو گیا ہے تو تین مرتبہ سر پر پانی ڈالتے، پھر تمام بدن پر پانی ڈالتے اور پھر پاؤں دھو لیتے۔
(مسلم، الصحيح، کتاب الحيض، باب صفة غسل الجنابة، 1: 253، رقم: 316)
مندرجہ بالا حدیث مبارکہ کی روشنی میں غسل کا مسنون و مستحب طریقہ یہ ہے:
o نیت کرے۔
o بسم اللہ سے ابتداء کرے۔
o دونوں ہاتھوں کو کلائیوں تک دھوئے۔
o استنجاء کرے خواہ نجاست لگی ہو یا نہ لگی ہو۔
o پھر وضو کرے جس طرح نماز کے لیے کیا جاتا ہے اگر ایسی جگہ کھڑا ہے۔ جہاں پانی جمع ہو جاتا ہے تو پاؤں کو آخر میں غسل کے بعد دھوئے۔
o تین بار سارے جسم پر پانی بہائے۔
o پانی بہانے کی ابتداء سر سے کرے۔
o اس کے بعد دائیں کندھے کی طرف سے پانی بہائے۔
o پھر بائیں کندھے کی طرف پانی بہانے کے بعد پورے بدن پر تین بار پانی ڈالے۔
o وضو کرتے وقت اگر پاؤں نہیں دھوئے تھے تو اب دھو لے۔
سوال: کیا بڑھے ہوئے ناخنوں کے ساتھ وضو ہو جاتا ہے؟
جواب: جی نہیں! اگر ناخن اتنے بڑھے ہوئے ہوں کہ ان کی جڑ تک پانی نہ پہنچ سکے تو وضو نہیں ہوتا کیونکہ پانی ناخنوں کی جڑ تک پہنچانا ضروری ہے۔ ناخنوں کی جڑ سے مراد وہ حصہ ہے جو انگلیوں کے گوشت سے جڑا ہوا ہو، اگر ناخن اتنا بڑھا ہوا ہے کہ ناخن کے نیچے میل کچیل جمع ہو تو ناخنوں کا کاٹنا ضروری ہے تاکہ پانی جڑ تک پہنچ جائے بصورتِ دیگر وضو نہ ہوگا۔