ارشاد اقبال

قرآن مجید میں ارشاد ہے:

وَ اِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلٰٓىِٕكَةِ اِنِّیْ جَاعِلٌ فِی الْاَرْضِ خَلِیْفَةً ؕ

(الْبَقَرَة, 2 : 30)

’’ اور (وہ وقت یاد کریں) جب آپ کے رب نے فرشتوں سے فرمایا کہ میں زمین میں اپنا نائب بنانے والا ہوں۔‘‘

اللہ نے انسان کو بطور نائب بھیج کر اسے کائنات کے تمام اختیارات عطا کردیئے کہ وہ حقیقت کی تلاش ہر ذرے میں کرے اور بالآخر کائنات ہست و بود میں اپنے رب کا عارف ہوکر امر ہوجائے۔

یعنی انسان کا مقصدِ تخلیق اللہ کی بندگی اور معرفت الہی ہے۔ہر دور میں اولیاء اللہ نے بندوں کو اس مقصد کی یاد دہانی کرائی۔

اللہ رب العزت نے انسان کو اپنی معرفت اور قرب کے لیے پیدا کیا۔ اس نے فرمایا:

وَ مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَ الْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ۝

’’ اور میں نے جنّات اور انسانوں کو صرف اسی لیے پیدا کیا کہ وہ میری بندگی اختیار کریں۔‘‘(الذَّارِيَات, 51 : 56)

عبادت دراصل بندگی ہے اور بندگی کا کمال قربِ الٰہی اور دوستیِ الٰہی میں ظاہر ہوتا ہے۔ اسی راز کو اجاگر کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ اپنے برگزیدہ بندوں کو بھیجتا رہا۔ زندگی کا اصل حاصل یہ ہے کہ انسان اپنے رب کو پہچان لے اور اس کی دوستی اور رضا حاصل کرے۔ دنیا کے رنگ و نور، مال و دولت اور عہدے و منصب سب فانی ہیں، مگر اللہ کی رضا اور اس کی قربت ہمیشہ باقی رہنے والی حقیقت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اولیاء کرام نے اپنی زندگیاں اسی مقصد کے لیے وقف کر دیں۔ ان اولیاء میں سب سے نمایاں اور درخشاں نام سیدنا غوث الاعظم شیخ عبد القادر جیلانیؒ کا ہے، جنہیں محبوب سبحانی اور قطبِ ربانی کے القابات سے یاد کیا جاتا ہے۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ کی حیاتِ طیبہ اور تعلیمات کا مرکزی پیغام یہی ہے کہ انسان تقویٰ، اخلاص، صبر اور خدمت کے ذریعے اپنے رب کا قرب حاصل کرے ۔ آپ کی تعلیمات میں رب کے بندوں کو اللہ سے دوستی اور قرب کے راز ملتے ہیں۔

اللہ سے دوستی کا راز: اخلاص و اطاعت

حضرت غوث الاعظمؒ فرماتے ہے ا للہ سے دوستی اخلاصِ نیت اور کامل اطاعت کے بغیر ممکن نہیں۔"

دوستی کا مطلب صرف زبان سے دعویٰ کرنا نہیں بلکہ دل، عمل اور نیت سب اللہ کی رضا کے تابع کر دینا ہے۔ جب بندہ اپنے اعمال کو دکھاوے، ریا اور خواہشاتِ نفس سے پاک کر دیتا ہے تو وہ اللہ کا دوست بن جاتا ہے۔ قرآن کہتا ہے

اَلَاۤ اِنَّ اَوْلِیَآءَ اللّٰهِ لَا خَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَ لَا هُمْ یَحْزَنُوْنَۚۖ۝

’’ خبردار! بے شک اولیاء اللہ پر نہ کوئی خوف ہے اورنہ وہ رنجیدہ و غمگین ہوں گے۔‘‘(يُوْنـُس, 10 : 62)

قربِ الٰہی کی راہیں

ذکر اور محبتِ رسول ﷺ حضور غوث الاعظمؒ کے نزدیک قربِ الٰہی صرف عبادات کے ذریعے نہیں بلکہ ذکرِ الٰہی اور محبتِ رسولﷺ کے ذریعے مکمل ہوتا ہے۔ آپ فرماتے ہیں۔ ذکرِ الٰہی دل کا نور ہے اور محبتِ مصطفیٰ ﷺ قربِ الٰہی کا دروازہ ہے یعنی جو بندہ زبان کو ذکر سے اور دل کو عشقِ مصطفیٰ ﷺ سے منور کر لیتا ہے، اس پر قربِ الٰہی کے دروازے کھل جاتے ہیں

ایمان و عقیدہ کی حفاظت

آپ رحمۃ اللہ علیہ نے قرآن و سنت کی اصل تعلیمات کو عام کیا اور لوگوں کے دلوں سے شرک، بدعات اور غلط عقائد کو دور کیا۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ نے توحید باری تعالیٰ اور عشقِ رسول ﷺ کو مرکز بنایا۔ حضرت غوث الاعظم شیخ عبدالقادر جیلانیؒ نے اپنے عہد میں ایمان و عقیدہ کی حفاظت کو اپنی دعوت کا محور بنایا۔ اس دور میں امت مختلف باطل نظریات، شرک، بدعات اور خرافات کا شکار ہو چکی تھی۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ نے قرآن و سنت کی اصل اور خالص تعلیمات کو عام کیا اور لوگوں کے دلوں سے شرک کے اندھیروں کو مٹا دیا۔ آپ نے توحید باری تعالیٰ کو ایمان کی بنیاد اور عشقِ رسول ﷺ کو اس کی روح قرار دیا۔ اپنے وعظ و نصائح اور تصانیف جیسے الفتح الربانی اور فتوح الغیب میں بارہا تاکید فرمائی کہ دین کی اصل دو چیزوں میں ہے: اللہ کی وحدانیت پر خالص یقین اور حضور نبی اکرم ﷺ کی سچی محبت و اتباع۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ نے نہ صرف بدعات اور غلط عقائد کی بیخ کنی کی بلکہ دلوں کی اصلاح، اخلاص، تزکیہ اور اتباعِ سنت کی عملی تعلیم دی۔ یوں آپ رحمۃ اللہ علیہ نے ایمان و عقیدہ کو باطل رجحانات کے حملوں سے محفوظ کیا اور امت کو ایک بار پھر قرآن و سنت کے روشن راستے پر گامزن کیا۔

آپ رحمۃ اللہ علیہ نے علمِ فقہ، تفسیر، حدیث اور تصوف کو ایک جامع شکل میں پیش کیااور خانقاہی نظام کی بنیاد رکھی۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی خانقاہ کو ایک مرکز بنایا جہاں تعلیم، تربیت، خدمتِ خلق اور روحانیت سب جمع تھے۔ یہی خانقاہی نظام بعد میں برصغیر، وسط ایشیا اور افریقہ تک پھیلا اور اسلام کی نشر و اشاعت کا ذریعہ بنا آپ کی خانقاہ اور مدرسہ ایک علمی و روحانی یونیورسٹی بن گئے جہاں سے ہزاروں علماء اور صلحاء نکلے۔

علم دین کی تجدید

حضرت غوث الاعظم سیدنا عبدالقادر جیلانیؒ نے اپنے دور میں علمِ دین کی تجدید اور احیاء کی عظیم خدمت انجام دی۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ نے فقہ، تفسیر، حدیث اور تصوف کو ایک جامع اور متوازن شکل میں پیش کیا اور دین کے ظاہری و باطنی پہلوؤں کو یکجا کر کے امت کو کامل راہنمائی عطا فرمائی۔ بغداد میں آپ رحمۃ اللہ علیہ کی خانقاہ اور مدرسہ ایک ایسی علمی و روحانی یونیورسٹی کی حیثیت اختیار کر گئے جہاں سے ہزاروں علماء، صلحاء اور مبلغین تیار ہوئے جنہوں نے دین کی روشنی کو دنیا کے گوشے گوشے میں عام کیا۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ نے ہمیشہ اس بات پر زور دیا کہ شریعت اور طریقت ایک دوسرے سے جدا نہیں بلکہ لازم و ملزوم ہیں؛ چنانچہ آپ رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ میری ہر بات شریعت کے مطابق ہے، اگر کوئی بات شریعت کے خلاف ہو تو اسے رد کر دو۔ اس طرح آپ رحمۃ اللہ علیہ نے ظاہر کے علم (شریعت) اور باطن کی حقیقت (تصوف) کو ملا کر دین کی حقیقی روح کو اجاگر کیا، اور اسی تجدیدی خدمت کی وجہ سے تاریخ نے آپ کو ’’ محی الدین اور ’’امام الاولیاء‘‘ کے خطاب سے نوازا ۔ آپ نے دین کے ظاہری (شریعت) اور باطنی (تصوف) پہلو کو ایک دوسرے کے ساتھ جوڑ دیا۔

اصلاحِ اخلاق و باطن

آپ رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے خطبات اور مجالس میں نفس کے تزکیہ اور دل کی صفائی کو لازمی قرار دیا۔ آپ ؒکی تعلیمات نے انسان کو ریا، تکبر، حسد، حرص اور دنیا پرستی سے پاک ہو کر اللہ کی رضا کے راستے پر چلنا سکھایا۔حضرت غوث الاعظم سیدنا عبدالقادر جیلانیؒ نے اپنی تعلیمات اور خطبات میں سب سے زیادہ زور انسان کی باطنی اصلاح اور اخلاقی تزکیے پر دیا۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ ریا، تکبر، حسد، حرص اور دنیا پرستی دل کو مردہ کر دیتے ہیں، اس لیے بندہ اپنے ظاہر کو شریعت کے مطابق اور باطن کو اخلاص، تواضع اور زہد سے آراستہ کرے تاکہ اللہ کی رضا اور قرب حاصل ہو (الفتح الربانی، مجلس 20)۔ آپ کی خانقاہ اور مجالس ایسی درسگاہیں تھیں جہاں صرف فقہی و علمی تعلیم نہیں بلکہ دلوں کی صفائی اور کردار کی تعمیر کو بھی بنیادی حیثیت حاصل تھی۔ مزید یہ کہ آپ رحمۃ اللہ علیہ نے حکمرانوں کو بھی اصلاح کی دعوت دی اور خلفاء وقت کو وعظ و نصیحت کرتے ہوئے سختی سے منع فرمایا کہ وہ عوام پر ناجائز ٹیکس اور مالی بوجھ نہ ڈالیں، بلکہ عدل و انصاف کو اپنا شیوہ بنائیں (تاریخ بغداد، خطیب بغدادی؛ المنتظم، ابن الجوزی)۔ یوں آپ رحمۃ اللہ علیہ نے دینِ اسلام کے ظاہر و باطن دونوں پہلوؤں کی اصلاح کے ساتھ ساتھ معاشرتی عدل و انصاف اور حکمرانی کی اصلاح کا بھی عملی نمونہ پیش کیا۔

نفس کی مخالفت اور ریاضت

آپ رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے مریدوں کو سب سے زیادہ تزکیۂ نفس کی تلقین کی۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:

"اللہ کا قرب اُس وقت ملتا ہے جب بندہ اپنے نفس کو مارے اور خواہشات کو اللہ کے حکم کے تابع کرے۔"

یہی وجہ ہے کہ آپ رحمۃ اللہ علیہ کی خانقاہ میں سب سے پہلا سبق مجاہدہ اور ریاضت ہوتا تھا تاکہ طالبِ حق کا دل ہر قسم کی دنیاوی آلائش سے پاک ہو جائے۔

خدمتِ خلق — اللہ کی دوستی کی نشانی

حضرت غوث الاعظم رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا:

"اللہ کا دوست وہی ہے جو اللہ کی مخلوق کے ساتھ محبت کرے اور ان کی خدمت کرے۔

قربِ الٰہی کا حقیقی مظہر صرف نماز، روزہ اور ذکر نہیں بلکہ انسانوں کے دکھ درد کو بانٹنا بھی ہے۔ جو بندہ اللہ کے بندوں کو خوش کرتا ہے، اللہ تعالیٰ اسے اپنی دوستی میں جگہ دیتا ہے۔

یقین اور توکل کی دولت

حضور غوث الاعظم رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے ماننے والوں کو ہمیشہ یقین اور توکل کی دولت اپنانے کی نصیحت کی۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا:

"جب بندہ اللہ پر مکمل بھروسہ کر لیتا ہے تو اللہ اسے ایسا دوست بنا لیتا ہے کہ وہ جس طرف بھی جاتا ہے، اللہ کی مدد اس کے ساتھ ہوتی ہے۔"

یہی وجہ ہے کہ آپ رحمۃ اللہ علیہ کی زندگی میں اللہ کی مدد و نصرت کے عجائب و کرامات کثرت سے ظاہر ہوئے۔

غوث الاعظمؒ کی تعلیمات ہمیں یہ سکھاتی ہیں کہ:

• اللہ کی دوستی اخلاص اور اطاعت کے بغیر ممکن نہیں۔

• قربِ الٰہی کا دروازہ ذکرِ الٰہی اور عشقِ مصطفیٰ ﷺ سے کھلتا ہے۔

• تزکیہ نفس، خدمتِ خلق اور توکل کی راہیں انسان کو اللہ کے قریب لے جاتی ہیں۔

حضرت غوث الاعظم سیدنا عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کی تعلیمات کا نچوڑ یہی ہے کہ اللہ سے دوستی اور قربِ الٰہی کی کنجی دل کی پاکیزگی، نفس کی اصلاح اور اخلاق کی درستگی میں پوشیدہ ہے۔ آپ نے ہمیں سکھایا کہ جب بندہ ریا، تکبر، حسد اور حرص جیسے امراضِ قلب سے اپنے آپ کو پاک کر لیتا ہے، اخلاص و تقویٰ اختیار کرتا ہے اور عدل و انصاف کو اپنا شعار بناتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کا دوست بن جاتا ہے اور اپنے قرب کے دروازے اس پر کھول دیتا ہے۔ یہی وہ راز ہے جو حضرت غوث الاعظمؒ نے امت کو عطا فرمایا کہ شریعت پر عمل اور طریقت کے نور کو یکجا کر کے بندہ حقیقی معنوں میں اللہ کا محبوب اور ولی بن سکتا ہے۔ آج ہمارے لیے سب سے بڑا سبق یہ ہے کہ اگر ہم بھی اللہ سے دوستی اور قربِ الٰہی کی تمنا رکھتے ہیں تو اپنی زندگی کو ان تعلیمات کے مطابق ڈھالیں، اپنے باطن کو سنواریں اور اپنے اعمال کو اخلاص کے رنگ میں رنگ لیں۔ یہی فیضانِ غوث الاعظمؒ کا اصل پیغام اور قربِ الٰہی کی کنجی ہے۔

اللہ سے دوستی کا راز یہ ہے کہ بندہ اپنے دل کو دنیا کی محبت سے خالی کرے، ذکر و فکر سے بھرے اور حضور نبی کریم ﷺ کی غلامی میں زندگی بسر کرے۔ یہی وہ پیغام ہے جو غوث الاعظمؒ نے دیا اور جس پر چل کر بندہ قربِ الٰہی کی منزل پا سکتا ہے۔