انیسہ بی بی

نعت کا لفظ مستقل ایک موضوع یا مضمون کا احاطہ کرتا ہے اور جب یہ لفظ استعمال کیا جاتا ہے تو وہ تمام خزائن اور ذخائر مراد ہوتے ہیں جو حضور رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ و سلم کے فضائل و مناقب، شمائل و خصائل، اخلاق و کردار، تعریف و توصیف اور مدح و ثنا پر مشتمل ہوتے ہیں۔ چاہے وہ نظمی ہوں یا نثری ۔نعت کا لفظ ہر اس انسان کے لئے بھی استعمال ہوسکتا ہے جو نہایت خوبرو، نہایت عمدہ، حسین و جمیل، معزز اور سبقت لے جانے والا ہو لیکن اصطلاحاً ’’نعت‘‘ اس نظم کو کہتے ہیں جس میں شاعر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنی عقیدت و محبت کا اظہار کرتاہے۔امام راغب اصفہانی اپنی کتاب" المفردات فی غریب القرآن" میں نعت کی تعریف بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ نعت وہ کلام ہے جس میں رسول اللہ ﷺ کی مدح و ثناء، اخلاقِ حمیدہ، شمائل، معجزات اور آپ کی سیرت کے پہلو بیان ہوں۔ نعت گوئی کا مقصد صرف اور صرف محبتِ رسول ﷺ کا اظہار اور اُمت کے دلوں میں یہ محبت بیدار کرنا ہے۔ قرآن پاک میں اللہ تعالی رسول ﷺ کے بارے میں فرماتا ہے۔

وَرَفَعْنَا لَکَ ذِکْرَکَ۔

(الانشرح: 4)

’’ اور ہم نے آپ کی خاطر آپ کا ذکر (اپنے ذکر کے ساتھ ملا کر دنیا و آخرت میں ہر جگہ) بلند فرما دیا۔‘‘

ایک اور مقام پر فرمایا:

وَ اِنَّکَ لَعَلٰی خُلُقٍ عَظِیْمٍ

(القلم: 4)

’’ اور بے شک آپ عظیم الشان خلق پر قائم ہیں (یعنی آدابِ قرآنی سے مزّین اور اَخلاقِ اِلٰہیہ سے متّصف ہیں)۔‘‘

یہ آیات نبی کریم ﷺ کے مقام اور تعریف کی صریح دلیل ہیں، اور یہی نعت کا اصل مفہوم ہے۔نعت ‘کا لفظ احادیث میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعریف و توصیف، محامد و محاسن میں مستعمل نظر آتا ہے۔ مثلاً حضرت انس سے مروی بیہقی کی روایت ہے کہ ایک یہودی لڑکا نبی کی خدمت کیا کرتا تھا۔ وہ ایک مرتبہ بیمار پڑگیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی عیادت کے لئے تشریف لے گئے۔ اس کا باپ سرہانے بیٹھا ’’تورات‘‘ پڑھ رہا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ’’ اے یہودی ! کیا تم تورات میں میری نعت کو پاتے ہو؟اس نے جھوٹ بولتے ہوئے کہا: ’’نہیں‘‘۔ لڑکے نے فوراً سچ بولا:ہاں ! اللہ کی قسم! اے اللہ کے رسول ! ہم تورات میں آپ کی نعت (تعریف و توصیف) پاتے ہیں۔

رسول اللہ ﷺ کے زمانے ہی میں نعت گوئی کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا۔صحابہ کرامؓ حضور ﷺ سے بے پناہ محبت کرتے تھے اور جب دل میں جذبات موجزن ہوتے تو وہ اشعار میں ڈھل کر نعت کی صورت اختیار کر لیتے۔حضور ﷺ نہ صرف ان نعتوں کو سنتے تھے بلکہ بعض موقع پر تعریف بھی فرماتے اور نعت گو شعرا کو دعائیں دیتے۔حضرت حسان بن ثابتؓ انصاری صحابی تھے اور اسلام قبول کرنے سے پہلے بھی شاعر کی حیثیت رکھتے تھے۔ جب مسلمان ہوئے تو اپنی شاعری کو اسلام اور رسول اللہ ﷺ کے دفاع کے لیے وقف کر دیا۔ حضرت حسان بن ثابتؓ کو شاعرِ رسول ﷺ کا لقب دیا گیا۔ رسول اللہ ﷺ نےحضرت حسان بن ثابت سے فرمایا "اهجهم وروح القدس معك "یعنی کفار کی ہجو کرو اور روح القدس (جبریلؑ) تمہارے ساتھ ہیں۔ اسی طرح حضرت حسان نے رسول ﷺ کی شان میں قصیدہ لکھا جس کے چند اشعار درج ذیل ہیں۔

وأحسن منك لم تر قط عيني

وأجمل منك لم تلد النساء

خلقت مبرءاً من كل عيب

كأنك قد خلقت كما تشاء

حضرت حسانؓ کے اشعار بعض اوقات بڑے پُرجوش اور جذباتی ہوتے تھے۔ چونکہ دین میں احتیاط لازم ہے، اس لیے رسول اللہ ﷺ نے حضرت ابوبکر صدیقؓ کو یہ ذمہ داری دی کہ وہ حسانؓ کے اشعار کو دیکھیں تاکہ کہیں غلو یا شرعی حد سے تجاوز نہ ہو۔ امام ابن حجر عسقلانی لکھتے ہیں وكان أبو بكر يُعرض شعر حسان على النبي ﷺ یعنی حضرت ابوبکرؓ، حضرت حسانؓ کے اشعار رسول اللہ ﷺ کے سامنے پیش کیا کرتے تھے ۔ایک موقع پر رسول اللہ ﷺ نے حضرت ابوبکرؓ سے حسانؓ کے اشعار کے بارے میں پوچھا: كيف ترى شعره؟ یعنی ابو بکر! تمہیں اس کا شعر کیسا لگتا ہے؟ حضرت ابوبکرؓ نے عرض کیا إنه جيد يا رسول الله یعنی یا رسول اللہ! یہ بہترین ہے۔ (طبری، تاریخ الامم والملوک)اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ نعت گوئی صرف جذبے کا نام نہیں، بلکہ اسے علمی اور دینی معیار پر پرکھا جاتا تھا۔ حضرت ابوبکرؓ نہ صرف صدیق تھے بلکہ فہمِ قرآن اور دین کے گہرے عالم بھی تھے۔ اس لیے وہ دیکھتے کہ کہیں اشعار میں ایسے الفاظ تو نہیں جو شرعی اعتبار سے درست نہ ہوں۔گویا وہ نعت گوئی کے "ناقد" اور "راہنما" تھے۔ حضرت کعب بن زہیرؓ نے قصیدہ بانت سعاد پیش کیا، جس پر رسول اللہ ﷺ نے اپنی چادر عطا فرمائی۔

شاعری میں نعت گوئی کا فن دیگر اصناف سخن کے بالمقابل کئی ایک وجوہ سے خصوصیات کا حامل اور کافی اہمیت و فوقیت رکھتا ہے۔ کیوں کہ نعت کا موضوع آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی ہے جس میں نعت گو آپ کے اوصاف سے بحث کرتا ہے اگر وہ خدا اور رسول کے اوصاف کے درمیان باہمی فرق کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا یا رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے اوصاف بیان کرنے میں تجاوز سے کام لیتا ہے تو وہ شرک کامرتکب ہوسکتا ہے جو ظاہر ہے انتہائی نازک مرحلہ اور کٹھن منزل ہے۔ اصناف سخن میں موضوع کے اعتبار سے ’’حمد ‘‘ کو اوّلیت حاصل ہے اس کے بعد ’’نعتِ نبی صلی اللہ علیہ وسلم‘‘ ہے۔

نعت گوئی یوں تو بہت آسان لگتی ہے لیکن غور سے چشم دل واکر کے دیکھئے تو بہت مشکل کام ہے۔چوں کہ شاعرکو نعت کہتے وقت اس کا پاس و لحاظ رکھنا از حد ضروری ہے کہ آداب شریعت بھی اس کے ہاتھ سے نہ چھوٹیں اور آدا ب عشق رسالت صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی اس کے دل و دماغ معمور ہوں۔اسی لئے مشہور فارسی شاعر عرفی نعت گوئی کے متعلق کہتے ہیں:

عُرفیؔ مشتاب ایں رہِ نعت است نہ صحرا است

آہستہ کہ رہ بروم تیغ است قلم ر

اے عرفی ! اتنی تیزی نہ دکھا ! یہ نعت کا راستہ ہے، کوئی صحرا نہیں ہے کہ آنکھیں بند کرکے دوڑتا چلاجائے گا۔ یہ راستہ بہت کٹھن ہے اور اس کی کیفیت تلوار کی دھار پر چلنے کا نام ہے۔

نعت گوئی یقیناًتلوار کی دھار پر چلنے جیسا ہے۔ یہ بہت اہم مقام ہے یہاں بہت سنبھل سنبھل کر قدم رکھنا پڑٹا ہے۔ مشہور مداح رسول شاعر ڈاکٹر تابش مہدی کے بقول :

یہ ارض نعت ہے تابش سنبھل سنبھل کے چلو

وفورِ شوق میں کوئی نہ بھول ہوجائے

بہ قول مولانا احمد رضاخان بریلویؒ : ’’حقیقتاً نعت شریف لکھنا بہت مشکل کام ہے، جس کولوگ آسان سمجھتے ہیں اس میں تلوار کی دھار پرچلنا ہے۔ اگر شاعر بڑھتا ہے تو الوہیت میں پہنچ جاتا ہے اور کمی کرتا ہے تو تنقیص ہے۔ البتہ حمد آسان ہے کہ اس میں راستہ صاف ہے، جتنا چاہے بڑھ سکتا ہے، غرض حمد میں یک جانب کوئی حد نہیں اور نعت شریف میں دونوں جانب سخت حد بندی ہے۔‘‘ (الملفوظ، حصہ دوم۔ص ۳)

نعت کے انتخاب کے اصول

مدحتِ نبوی اور نعتِ رسول فنی اعتبار سے ایک نازک مقام ہے۔ اس کی نزاکت کو پیشِ نظر نہ رکھا جائے تو عبدیت، الوہیت میں بدل جاتی ہے۔ مضمون کا انتخاب، لفظوں کی موزونیت، لب و لہجے کی پاکیزگی، ادب و احترام کی فضا، عبد و معبود میں رشتے کا تعین، بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر کا ادراک، رحمت و شفاعت کی حدود، توسل، استغاثہ اور استمداد کی شرعی نوعیت، غلو آمیز ضلالت اور عجز آمیز اہانت کا احساس، حفظِ مراتب کا خیال، منصبِ نبوت کا تقدس، ادب و احترام کے تقاضے، مضامین کی پاکیزگی اور اندازِ بیان کی نفاست و لطافت، یہ سب تقاضے مل کر نعت گوئی اور مدحت نگاری کو شاعر کے لیے پل صراط بنادیتے ہیں۔ نعت کے انتخاب کے وقت چند شرائط اور اصولوں کا خیال رکھنا ضروری ہےجو کہ مندرجہ ذیل ہیں۔

شرعی حدود کا لحاظ

نعت میں ایسے الفاظ نہ ہوں جو صرف اللہ کے لئے مخصوص ہیں۔ قرآن و حدیث کے مطابق بات کہی جائے، ایسی بات نہ ہو جو غلو (حد سے بڑھا ہوا مبالغہ) یا شرک کے قریب لے جائے۔ آپﷺ کو الوہیت یا خدائی صفات دینا منع ہے۔جیسا کہ قرآن پاک میں اللہ تعا لٰی فرماتا ہے۔

قُلْ اِنَّمَآ اَنَا بَشَرٌ مِّثْلُکُمْ یُوْحٰٓی ۔(الکہف: 110)

’’ فرما دیجیے: میں تو صرف (بخلقتِ ظاہری) بشر ہونے میں تمہاری مثل ہوں (اس کے سوا اور تمہاری مجھ سے کیا مناسبت ہے! ذرا غور کرو)۔‘‘

صدق اور حقیقت

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

لَا تُطْرُونِي كَمَا أَطْرَتِ النَّصَارَى ابْنَ مَرْيَمَ، إِنَّمَا أَنَا عَبْدٌ، فَقُولُوا: عَبْدُ اللَّهِ وَرَسُولُهُ ۔(صحیح بخاری، حدیث: 3445)

یعنی "میری تعریف میں اتنا غلو نہ کرو جتنا نصاریٰ نے عیسیٰ ابن مریم کے بارے میں کیا۔ میں اللہ کا بندہ ہوں، مجھے اللہ کا بندہ اور رسول کہو۔" نعت کے اشعار جھوٹ یا غیر حقیقی باتوں پر مبنی نہ ہوں۔

پیغامِ نبوت

نعت صرف حضور اکرم ﷺ کی ظاہری تعریف و توصیف تک محدود نہ ہو بلکہ اس میں آپ ﷺ کے اصل پیغام کو بھی بیان کیا جانا چاہیے۔ نعت میں توحید کو اجاگر کیا جائے تاکہ سننے والے کو معلوم ہو کہ آپ ﷺ کا پہلا اور سب سے بڑا پیغام "لا إله إلا الله" تھا۔ اس میں آپ ﷺ کی بندگی اور رسالت کو واضح کیا جائے جیسا کہ آپ ﷺ نے خود فرمایا: "قولوا عبد الله ورسوله" یعنی کہو کہ میں اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہوں۔ اسی طرح قرآن و سنت کی رہنمائی اور آپ ﷺ کی اخلاقی و عملی تعلیمات کا ذکر ہو تاکہ نعت سننے والا محض جذبات میں نہ بہے بلکہ دین پر عمل کے لیے بھی تیار ہو۔ یوں نعت محض مدح سرائی نہیں بلکہ عملی رہنمائی کا ذریعہ بنے گی اور سننے والوں کو حضور اکرم ﷺ کے لائے ہوئے دین کی طرف راغب کرے گی۔

ادب و تعظیم

ایسے الفاظ استعمال ہوں جو رسول اللہ ﷺ کے شایانِ شان ہوں۔ نبی کریم ﷺ کے ذکر میں ادب انتہائی ضروری ہے۔ جیسا کہ قرآن پاک میں اللہ تعا لٰی فرماتاہے

یٰـٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْٓا اَصْوَاتَکُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ۔(الحجرات: 2)

’’ اے ایمان والو! تم اپنی آوازوں کو نبئ مکرّم (ﷺ) کی آواز سے بلند مت کیا کرو۔‘‘

پاکیزہ الفاظ اور مستند مواد

نعت کے اشعار میں اعلیٰ اور باادب الفاظ استعمال ہوں۔غیر مستند قصے یا موضوع احادیث پر مبنی اشعار نہ ہوں۔ نعت گو شاعر کے لئے ضروری ہے کہ وہ آپ سے والہانہ محبت ، عقیدت اور شیفتگی رکھتا ہو۔شاعر جس قدر آپ کی محبت میں سرشار ہوگا، اسی قدر اس کے کلام میں کیف اور اثرپیدا ہوگا۔ نعت کی دل آویزی ، دل کشی اور خوبی کے لئے محبت رسول شرط و لازم ہے۔نعت کے موضوع کی مناسبت سے الفاظ کے انتخاب میں بھی ایک پاکیزگی اور شائستگی ہونی چاہئے۔نعت کے لوازمات میں ادب و احترام کے بہت سے پہلو ہیں جن کا تعلق موزوں زبان و بیان، انتخاب الفاظ ، تشبیہ و استعارہ اور انداز تخاطب سے ہے۔نعت کی مجموعی فضا کو ادب و احترام کے ان جذبات عالیہ سے سرشار ہونا چاہئے جن کی نعت متقاضی ہے۔

بعض نعتوں میں مبالغہ اتنا زیادہ ہوتا ہے کہ توحید اور رسالت کے حدود دھندلے ہوجاتے ہیں۔ لیکن آج کل کچھ نعتوں میں غیر مستند قصے کہانیاں اور تاریخی طور پر کمزور واقعات بیان کیے جاتے ہیں۔ بعض شعرا غیرضروری رومانوی استعارات یا مبالغہ آرائی کرتے ہیں، جو علمی اور شرعی نقطہ نظر سے درست نہیں۔ بہت سی نعتیں محبت و عقیدت پر مشتمل ہیں، سیرتِ رسول ﷺ بیان ہوتی ہے، دعا کی کیفیت، توقعِ شفاعت، اور امید باندھنے والی باتیں شامل ہیں۔ مگر بعض نعتیں غیر مستند قصص، مبالغہ آرائی یا تشبیہات جو بعض علما کے نزدیک حدود سے باہر ہیں، استعمال کرتی ہیں۔

مدحت سرائی کے آداب

ذکرِ رسول ﷺ کا ادب اختیار کرن

اے ایمان والو! تم اپنی آوازوں کو نبئ مکرّم (ﷺ) کی آواز سے بلند مت کیا کرو ۔( الحجرات: 2)

مفسرین لکھتے ہیں کہ اس آیت کا تقاضا ہے کہ رسول اللہﷺ کا ذکر کرتے وقت آواز میں بھی ادب ہو۔ لہٰذا نعت پڑھتے وقت نرم، مؤدبانہ اور باوقار انداز اپنانا چاہیے۔ نعت پڑھتے وقت ادب، خشوع اور باوقار انداز اپنایا جائے۔ آواز نہ بہت بلند ہو نہ بہت دھیمی، بلکہ مؤدبانہ اور سنجیدہ ہو۔ مجلس میں بیٹھنے والوں کو بھی خاموشی اور درود و سلام کا اہتمام کرنا چاہیے۔

محبت اور خلوص نیت

نعت پڑھنے کا مقصد خالص محبتِ رسول ﷺ ہونا چاہیے، نہ کہ شہرت یا دنیاوی فائدہ۔ نیت صرف محبتِ رسولﷺ اور ان کی مدح سرائی ہو، نہ کہ مقابلہ، شہرت یا انعام۔

نعت میں صحیح اور مستند کلمات کا انتخاب

علماء نے لکھا ہے کہ نعت میں ایسے اشعار پڑھے جائیں جو عقیدے کے لحاظ سے درست ہوں۔امام احمد رضا خان بریلوی فرماتے نعت خوان کو چاہیے کہ جو اشعار پڑھے وہ قرآن و حدیث اور صحیح عقائد کے مطابق ہوں، مبالغہ ایسا نہ ہو جو الوہیت کے درجہ تک لے جائے غلط تلفظ بعض اوقات معنی کو بدل دیتا ہے، جو ادب کے خلاف ہے۔ لہٰذا نعت پڑھنے والے کو چاہیے کہ اپنے کلام کو قرآن و سنت کی روشنی میں پرکھے، درست کلمات اور تلفظ اختیار کرے اور ایسی نعت پڑھے جو ایمان کو مضبوط کرے اور عقیدۂ توحید کو مزید پختہ بنائے۔

مجلس کا ادب اور خاموشی

حدیث میں ہے" اذا ذكرت فصلوا علي" ۔( جامع ترمذی)

جب میرا ذکر کیا جائے تو مجھ پر درود بھیجو۔

اس لیے نعت سننے والوں کو چاہیے کہ خاموشی سے سنیں اور جہاں درود کا موقع آئے وہاں دل یا زبان سے درود پڑھیں۔ نعت خوانی کی محفل میں اختلاطِ مرد و زن، بے ہنگم موسیقی یا کھیل تماشہ نہ ہو۔علماء نے لکھا ہے کہ نعت خوانی ذکر و عبادت کے مشابہ ہے، لہٰذا اس میں احترامِ دین ضروری ہے۔

درود و سلام کا اہتمام

نعت کے شروع اور آخر میں درودِ پاک پڑھنا مستحب ہے کیونکہ حدیث میں آیا ہے "کنجوس وہ ہے جس کے سامنے میرا ذکر کیا جائے اور وہ درود نہ بھیجے"۔( جامع ترمذی)

دھن میں اعتدال اور شریعت کی پاسداری

نشید یا نعت ایسی ہو کہ وہ ممنوعہ موسیقی والے آلات سے پاک ہو۔ یعنی آواز میں وہ دھن نہ ہو جو موسیقی جیسی ہو جو سامع کو محض لذتِ آواز میں مبتلا کرے۔ آواز نرم، مؤدبانہ اور واضح ہونی چاہیے، نہ کہ بہت بلند یا شور مچانے والی، یا ایسی کہ سامعین کا مقصد الفاظ کا مفہوم نہ رہ جائے، محض سرسری لذت ہو جائے۔ شیخ عبدالعزیز ابن باز رحمہ اللہ کا موقف ہے کہ نعت و نشید ایسی ہو کہ اس کا مقصد اللہ اور رسول ﷺ کی محبت اور ذکر ہو، نہ کہ محض تفریح یا عوام کی پذیرائی حاصل کرنے کا۔ آواز اور دھن کا استعمال جائز ہے بشرطیکہ وہ غیر شرعی موسیقی اور ساز و آلہ جات سے پاک ہوں، اور مبالغہ نہ ہو۔ شیخ الالبانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں آواز یا دھن ایسا نہ ہو کہ نعت گانے کی طرز اختیار کر لے، یا وہ لحن ایسا ہو کہ سامع محض لذتِ دھن کا مقصود ہو جائے، الفاظ کے معنی پسِ پردہ رہ جائیں۔

نعت کی مبارک راہ پر چلتے ہوئے لکھنے، پڑھنے اور سننے والوں کو ہر قدم نہایت احتیاط سے اٹھانا چاہیے کیونکہ یہ آقائے دوجہاںؑ کی بارگاہ بے کس پناہ میں حاضری و موجودگی کا شرف ہے۔