امام ابو حامد غزالیؒ کا تعارف

عائشہ صدیقہ

امام ابو حامد غزالیؒ تاریخ کا وہ درخشاں ستارہ ہیں جس کی کرنیں چو تھی صدی کے وسط میں دنیائے اسلام میں نمو دار ہوئیں امام غزالیؒ نے اپنے فکر انگیز نظریات کے سبب مسلم دنیا پر وہ گہرے نقوش چھوڑے ہیں جو آج بھی اسلامی فلسفہ وعلم، حکمت وتصوف، روحانیت، معاشرتی اقدار اور اخلاقیات کی اصلاح کے لیے اساسی حدیث رکھتے ہیں۔ امام غزالی نے اپنے دور میں مو جودہ علمی مکاتب کے نظریات کے ابطال اور اسلام کی جامعیت کو دنیاکے سامنے پیش کیا۔

ولادت و نام و نسب

امام غزالی کا نام محمد کنيت ابو حامد اور لقب حجۃالاسلام تھا۔ والد کا نام بھی محمد تھا اور دادا کا نام بھی محمد تھا۔ عوام و خواص ميں جس نام سے شہرت پائی وه "غزالی"ہے۔ آپ شافعی المسلک تھے، اس طرح آپ کا پورا نام 'ابو حامد محمد بن محمد الطّوسی الشافعی الغزالی ہے۔ (الغزالی، ابو حامد محمد بن محمد، (2016ء) المنْقذ من الضلال (مترجم محمد حنيف ندوى) ، لاہور، اداره ثقافت، ص: 21)

خراسان کے اضلاع میں سے ایک ضلع طوس کے دو شہر تھے طاہران اور توقان، امام غزالیؒ شہر طاہران میں 450 ھ میں پیدا ہوئے۔ (شبلی نعمانی، (1956ء)، الغزالی، لاہور، مکتبہ ثناء اللہ، ص: 56)

معاشرتی حالات و واقعات

کسی بھی شخصیت کی معرفت کاایک بڑا ذریعہ وہ ماحول اور سوسائٹی ہوتی ہے جس میں اس نے زندگی بسر کی ہو یا جہاں اس نے کسب فیض کیا ہو۔ امام صاحب کی علمی کاوشوں کوجاننے کے لئے ضروری ہے کہ ان کے معاشرتی پس منظر پر ایک نگاہ ڈالی جائے تاکہ امام صاحب کی محنت اور تگ و دو کھل کرسامنے آئے۔

نظام ملک کا اصل نام حسن بن علی ہے وہ امام غزالیؒ کے ہم وطن یعنی طوس کے ایک گاؤں رازکان کا رہنے والاتھا۔ اس کے باپ دادا دہقان تھے۔ اس نے حدیث و فقہ کی تحصیل کی اور فراغت کے بعد دنیاوی اشغال میں مشغول ہوا۔ یہاں تک کے حاکم بلخ کا میر منشی مقرر ہوا اور رفتہ رفتہ اس قدر ترتی کی کہ الپ ارسلان کاوزیربن گیا۔

الپ ارسلان نے 465ھ میں وفات پائی اس کے مرنے کے بعد الپ ارسلان کے بیٹوں نے سلطنت کے لئے معرکہ آرائیوں کے سامان کئے لیکن نظام الملک کی حسن تدبر سے ملک شاہ و تاج و تخت نصیب ہوا اور وہ ہی سب بھائیوں میں ترجیح کا حق بھی رکھتاتھا۔ ملک شاہ تخت نشین ہو کر سلنطت کو وہ رونق اور وسعت بخشی کہ خلفاء راشدین کے بعد کبھی دیکھنے میں نہیں آئی۔

تعلیم و تدریس کو یہ ترقی دی کہ تمام ممالک اسلامیہ میں چپہ چپہ پر مکاتب اور مدارس قائم کئے کوئی شہر ایسانہ رہا تھاجہاں اس کا تعمیر کردہ مدرسہ نہ تھا یہاں تک کہ جزیرہ ابن عمر میں بھی بالکل ایک گوشہ میں واقع ہے اور کسی کاوہاں گزر نہیں ہوتا لیکن پھر بھی ایک بڑا مدرسہ موجود ہے۔ اس کے زمانے میں مدارس کاسالانہ خر چ6لاکھ اشرافیاں تھی اس کے سوا اپنی کل جاگیر کادسواں حصہ تعلیم کے مصارف پر وقت کردیا تھا۔

نظام الملک خودصاحب علم و فضل تھا اور اہل فضل و کمال کا بہت قدر دان تھا۔ ابو علی فارمدیؒ جب اس کے دربار میں آتے تھے تو ہمیشہ ان کے لئے مسند خالی کردیا کرتے۔

امام غزالیؒ کا مزاج ابتدا ء میں جاہ پسند تھا۔ (سبکی، تاج الدین ابی نصر عبد الوھاب بن علی، (2011ء)، طبقات الشافعیہ، ج: 4، بیروت لبنان، دار الکتب علمیہ، ص: 76)

امام الحرمینؒ جنہیں دربار میں بے حد عزت سے نوازا جاتا تھا کی صحبت میں انہوں نے علماء کی قدر و منزلت کاجو سماں دیکھا اس نے ان کی طبیعت میں اس ولولے کو اور زیادہ بڑھا دیا تھا ان کے سامنے یہ واقعہ گزراتھا کہ جب علامہ ابو اسحٰق شیرازی عباسیوں کی طرف سے سفیر ہو کر بغداد سے نیشا پور کو چلے تو جس جس شہر میں ان گا گزر ہوتاتھا۔ شہر کاشہر مشایعت کونکلتا اور تمام ددوکاندار اپنی اپنی دوکانوں کااسباب و سامان ان کے قدموں پرنثار کرتے جاتے یہاں تک کے روپے اور اشرافیاں لٹاتے نیشا پور پہنچے تو خود امام الحرمین ان کا غاشیہ اپنے کندھوں پر رکھ کران کے رکاب میں چلے۔ (ابن اثیر، عز الدین ابی الحسن علی بن ابی الکرم محمد بن محمد بن عبد الکریم بن عبدالواحد، (1356ھ) ، الکامل فی التاریخ، لاهور، مکتبه رحمانيه، ص: 44)

غرض جاہ منصب کی امید میں امام غزالیؒ نے درسگاہ سے نکل کر نظام الملک کے دربار کارخ کیا چونکہ ان کی علمی شہرت دور دور پہنچ چکی تھی۔ نظام الملک نے نہایت تعظیم و تکریم سے ان کا استقبال کیا اس وقت فضیلت اور کمال کے اظہار کاجوطریقہ تھا۔

علمی مناظرات تھے رؤسا ء وامراء کے دربار میں علماء و فضلاء کامجمع ہوتاتھا اور مسائل علمی پر مناظرانہ گفتگو ہوتی تھی جو شخص زور تقریر سے حریفوں کوبند کردیتا تھا۔ وہی سب سے ممتاز سمجھا جاتاتھا اس طریقہ کو اس طریقہ کو اس وسعت ہوئی کہ بڑے شہروں میں بطور خود مناظرہ کی مجلس قائم ہوتی تھیں اور لوگ اپنے شوق سے ان مجلسوں میں شریک ہوتے تھے یہاں تک کہ رفتہ رفتہ مناظر ہ خود ایک فن بن گیا اور آج اس فن پر سینکڑوں کتابیں موجود ہیں۔

امام غزالیؒ نظام الملک کےدربار میں پہنچے تو سینکڑوں اہل کمال کا مجمع تھا نظام الملک نے مناظرہ کی مجلسیں منعقد کیں۔ متعدد جلسے ہوئے اور مختلف مضامین پر بحثیں رہیں۔ ہرمعرکہ میں امام صاحب ہی غالب رہے اس کامیابی نے امام صاحب کی شہرت کو چمکا دیا اور تمام اطراف ودیار میں چرچے پھیل گئے۔

نظام الملک نے ان کونظامیہ کی مسند درس کے لئے انتخاب کیا امام صاحب کی عمر اس وقت 34برس سے زیادہ تھی اس عمر میں نظامیہ کی مسند کاحاصل کرنا ایک ایسا فخر تھا جو امام صاحب کے سوا کبھی کسی کو حاصل نہیں ہوا۔

امام صاحب نے جمادی الاولی 484ھ میں بڑی عظمت وشان و جاہ وحشم کی ساتھ بغداد میں نظامیہ کی مسند درس کو زینت دی اور کچھ ہی دنوں میں اپنے علم و فضل کی بنا پر ارکان سلطنت کے ہمسر بن گئے۔ سبکی نے طبقات میں لکھا ہے:

"ان کے جاہ و جلال نے وزراء امرا کو بھی دبالیا یہاں تک کہ سلطنت کے اہم اور مہتمم بالشان معاملات ان کی شرکت کےبغیر انجام نہیں پاسکتے تھے "۔

اس زمانے میں اسلام کے جاہ جلال کے دومرکز تھے خاندان سلجوقی اور آل عباس امام صاحب دونوں درباروں میں نہایت محترم تھے۔

عہد مسافرت

488ھ غزالی کے انقلاب و تحول روحانی کاسال آغاز ہے وہ ایک نئے دور میں جانے کی شروعات تھی ان کی زندگی کایہ دور عہد سابق سے یکسر ممتاز اور جداگانہ حیثیت کاحامل ہےاور اس مسافرت و ریاضت کے بعد جس غزالی سے دنیا روشناس ہوئی اس کی نظیر ملنا مشکل ہے۔

امام غزالی اپنی تصنیف میں خود رقم طراز ہیں:

1۔ "میں بغداد میں جو دنیا بھر کے عقائد اور خیالات کادنگل تھا، شیعہ، سنی، معتزلی، زندیقی، ملحد، مجوسی اور عیسائی بغداد میں ایک دوسرے سے مناظرے کرتے اور دست و گریبان ہوتے، میں ہر ایک باطنی ظاہر ی، فلسفی، متکلم اور زندیق سے ملتاتھااور ہر ایک کے خیالات معلوم کرتاتھا، میری طبیعت ابتداء ہی سے چونکہ مائل بہ تحقیق تھی، ان ملاقاتوں سے رفتہ رفتہ میری "تقلید "کی بندش ٹوٹ گئی اور جن عقائد پر پہلے سے گامزن تھا ان کی وقعت میرے دل میں جاتی رہی۔ "

میں نے خیال کیاکہ اس قسم کے تقلیدی عقائد، تو یہودی، عیسائی سبھی رکھتے ہیں۔ حقیقی علم اس کا نام ہے کہ کسی قسم کے شہبہ کااحتمال نہ ہو۔ مثلا یہ امر یقینی ہے کہ دس کا عدد تین سے زائد ہے اب اگر کوئی شخص کہے کہ نہیں تین زائد ہے اور اس کے ثبوت میں وہ شخص یہ کہے کہ میرا دعوی حق ہے کیونکہ میں عصا ء کو سانپ بنا سکتا ہوں اور بنا کر دکھا بھی دے تو میں کہوں گا کہ بلاشبہ عصاء کا سانپ بن جانا سخت حیرت انگیز ہے لیکن اس سے اس یقین میں فرق نہیں آسکتا کہ دس تین سے زائد ہے۔ "

غزالیؒ کا سفر سیاحت و ریاضت دس سال کی مدت پر محیط ہے اس دوران انہوں نے تصنیف و تالیف کاکام بھی جاری رکھا اور متعدد کتب و رسائل بھی تصنیف کئے ان میں احیا ء العلوم سرفہرست ہے۔

امام غزالیؒ کی دو مرحلوں پر مشتمل زندگی

امام غزالیؒ کی زندگی دو مرحلوں پر مشتمل تھی۔ پہلے مرحلے میں یونانی فلسفے کی تعلیم حاصل کی اور مذہب کے بارے میں تشکیک کا شکار ہو گئے۔ دوسرے مرحلے میں انہوں نے تصوف کی طرف توجہ کی، چنانچہ توحید و رسالت اور یوم حساب کو تسلیم کرنے لگ گئے۔ خدا نے حقائق میں ان کا ایمان از سر نو تازہ کر دیا تھا۔ چنانچہ قیامت کی ہولناکیاں ان کے دل و دماغ پر اس طرح چھا گئیں کہ ماہ رجب تا ذوالقعدہ 488ھ کے عرصہ میں دہشت اور خشیت الٰہی نے ان کے اندر انقلاب برپا کر دیا۔ اسی وجہ سے پھر فلسفہ کے منکر ہوگئے تھے۔ مشاہدات اور قلبی واردات کو ہی اہمیت دینے لگے۔ اسی طرح انہوں نے عملی طور پر ہی تصوف کو اپنا لیا تھا۔ کیونکہ فلسفہ شک اور تصوف یقین پیدا کرتاہے اس انقلاب کی وجہ سے وہ تصوف کی طرف مکمل طور پر مائل ہو گئے، اور صوفیانہ نقطہ نظر ان کے اسلوب حیات پر غالب آ گیا۔ اگلے دس سال تک اس حالت کا ان پر اتنا غلبہ رہا کی وہ معمول کی زندگی بھی بسر نہ کر سکے۔ جب عائلی زندگی اور تدریس کی طرف لوٹے بھی تو ان کا طرز فکر اور طرز زندگی یکسر بدل چکا تھا۔ وہ عملی صوفی بن چکے تھے۔

امام غزالیؒ کی زندگی میں انقلاب کے بنیادی اسباب

امام غزالیؒ کی زندگی میں آنے والے اس تغیر پر اگر مختصر تبصرہ کیا جائے توکیا جا سکتا ہے کہ اس کے دو بنیادی اسبا ب تھے۔ ایک تو یہ کہ اللہ تعالیٰ نے امام غزالیؒ کو ذہن رسا عطاء فرمایا۔

دوسرا یہ کہ ان کی زندگی پر تصوف کے اثرات خفیہ طور پر موجود تھے جیسا کہ ذکر ہوا کہ ان کے والد خود درویش منش اور صوفی تھے جب وہ فوت ہونے لگے تو پھر بھی اما م غزالیؒ کو صوفی دوست کے سپرد کیا اس طرح ابتدائی زندگی ہی میں ان پر تصوف کے اثرات پڑے۔

امام غزالی کا ترک تعلقات کا واقعہ دنیا کے عجیب و غریب واقعات کی فہرست میں درج کیا جا سکتا ہے دنیاوی تعلقات اور بہت سے بزرگوں نےبھی ترک کئے لیکن اما م صاحب کی بے تعلقی کے اسبا ب بالکل نئے قسم کے ہیں۔

بے خودی کی حالت میں بغداد سے نکلنا

ابن خلکان کی روایت کے مطابق ذوالقعدہ 488ھ میں بغداد سے نکلے۔ امام صاحب جس حالت میں بغداد سے نکلے عجیب ذوق اور وارفتگی کی حالت تھی۔ پرتکلف اور قیمتی لباس کی بجائے بدن پر کمبل تھا اور لذیذ غذاؤں کے بدلے ساگ پات پر گزارہ کرتے تھے۔

دمشق کا قیام اور مراقبہ و مجاہدہ

غرض بغداد سے نکل کر شام کا رخ کیا اور پھر دمشق پہنچ کر مجاہدہ و ریاضت میں مشغول ہوئے۔ روزانہ یہ شغل تھا کہ جامع اموی کے غربی مینار پر چڑھ کر دروازہ بند کر لیتے اور تمام تمام دن مراقبہ اور ذکر و شغل کیا کرتے۔ متصل دو برس دمشق میں قیام رہا۔ اگرچہ زیادہ اوقات مراقبہ و مجاہدہ میں گزرتے تاہم علمی اشغال بھی ترک نہیں ہوئے۔ جامع اموی دمشق کی گویا ایک یونیورسٹی تھی اس میں غربی جانب زاویہ میں بیٹھ کر درس دیا کرتے تھے۔

شیخ ابو علی فارمدی سے بیعت

تمام مؤرخین بالاتفاق لکھتے ہیں کہ

1۔ " امام غزالی نے شیخ ابو علی فارمدی ( افضل بن محمد بن علی) سے بیعت کی تھی۔ شیخ موصوف بہت عالی مرتبہ صوفی تھے۔ نظام الملک ان کا اس قدر احترام کرتا تھا کہ جب وہ دربار تشریف لے جاتےتو تعظیم کے لئے کھڑے ہو جاتا اور ان کو اپنی مسند پر بٹھا کر خود مؤدب سامنے بیٹھتا۔ حالانکہ امام الحرمین اور امام ابو القاسم قشیری کے لئے وہ صرف قیام پر اکتفاء کرتا اور اپنی مسند سے الگ نہ ہوتا۔ لوگوں نے اس کی وجہ پوچھی تو کہا " امام الحرمین وغیرہ آتے ہیں تو میرے منہ پر میری تعریف کرتے ہیں جس سے میرا نفس اور زیادہ نحوت پرست ہو جاتا ہے بخلاف اس کے شیخ ابو علی فارمدی میرے عیوب سے مجھ کو مطلع کرتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ رعایا پر میرے ہاتھ سے کیا ظلم ہورہا ہے۔ "

امام غزالیؒ کے حاسدین

امام صاحب کی مقبولیت جس قدر روز بروز بڑھتی جا رہی تھی ان کے حاسدوں کا گروہ بھی بڑھتا جا رہا تھا۔ خصوصا امام صاحب نے احیا ء العلوم میں جس طرح تمام علماء و مشائخ کی ریاکاریوں کی قلعی کھولی تھی۔ اس نے ایک زمانے کو ان کا دشمن بنا دیا تھا۔ نوبت یہاں تک پہنچی کہ ایک گروہ کثیر نے مخالفت کی کمر باندھی۔ اس زمانے میں خراساں کا فرمانروا سنجر بن ملک شاہ سلجوکی تھا اس خاندان کو اما م ابو حنیفہؒ کے ساتھ نہایت حسن عقیدت تھا۔ امام ابو حنیفہ ؒکے مزار پر اول اسی خاندان نے گنبد اور روضہ تعمیر کروایا تھا۔

امام غزالیؒ کی مخالفت

امام غزالیؒ نے آغاز شباب میں ایک منخول نام کی کتاب اصول فقہ میں تصنیف کی تھی۔ جس میں ایک موقع پر امام ابو حنیفہؒ پر نہایت سختی کے ساتھ نقطہ چینی کی تھی۔ اما صاحب کے مخالفین کے لئے یہ ایک عمدہ دستاویز تھی۔ یہ لوگ سنجر کے دربار میں یہ کتاب لے کر گئےاور اس پر زیادتی کے ساتھ آب و رنگ چڑھا کر پیش کیا۔

سنجر کا امام غزالیؒ کو طلب کرنا

سنجر خود صاحب علم نہ تھاکہ ندگوئیوں کی شکایتوں کا خود فیصلہ کرتا۔ جبہ و دستار والوں نے جو کچھ کہا اس کو یقین آ گیا اور امام غزالی کی حاضری کا حکم دیا۔ امام غزالی عہد کر چکے تھے کہ کسی بادشاہ کے دربار میں نہ جائیں گئے ادھر فرمانِ شاہی کا بھی لحاظ تھا اس لئے مشہد رضا تک گئے اور وہاں ٹھہر گئے۔ سلطان کو فارسی زبان میں ایک خط لکھا۔ اس خط کو پڑھ کر سلطان امام صاحبؒ کی زیارت کا مشتاق ہوا اور درباریوں سے کہا کہ میں چاہتا ہوں کہ روبرو باتیں کر کے ان کے عقائد و خیالات سے واقف ہوں۔ مخالفین کو یہ حال معلوم ہوا تو وہ ڈر گئےکہ کہیں بادشاہ پر امام غزالیؒ کا جادو نہ چل جائےاس لئے یہ کوشش کی کہ امام غزالیؒ لشکر گاہ تک آئیں لیکن دربار تک نہ جانے پائیں۔ بلکہ باہر ہی مناظرہ کی مجلس میں امام غزالیؒ کو زچ کیا جائے۔ طوس کے علماء و فضلاء نے جب یہ خبر سنی تو لشکر گاہ میں پہنچ گئے اور مخالفین سے کہا کہ ہم امام غزالی کے شاگرد ہیں مسائل ِ بحث ہمارے سامنے پیش کئے جائیں جب ہم عہدہ بر آنہ ہو سکیں تو امام صاحب کو تکلیف دی جائے۔ ان تمام حالات میں سنجر یہ مصلحت سمجھی کہ اما صاحب کو سامنے بٹھا کر فیصلہ کر لیا جائے۔ معین الملک وزیر اعظم جب امام غزالی کو لے کر سنجر کے دربار تک گیا تو سنجر تعظیم کے لئے اٹھا اور امام صاحب کو معانقے کے بعد سریر شاہی پر جگہ دی۔

امام غزالیؒ نے سنجر کی طرف خطاب کیا اور آخرمیں یہی کہا کہ میری نسبت جو یہ مشہور کیا جاتا ہے کہ میں نے امام ابو حنیفہؒ پر طعن کیے ہیں محض غلط ہیں، امام ابو حنیفہؒ کی نسبت میرا وہی اعتقاد ہے جو میں نے کتاب احیاء العلوم میں لکھا ہے کہ ان کو فنِ فقہ میں انتخابِ روزگار سمجھتا ہوں۔

فنِ حدیث کی تکمیل

امام غزالیؒ نے حدیث کا فن اثنائے تحصیل میں نہیں سیکھا تھا۔ آپ نے یہ زمانہ علمی و دینی اشتغال میں گزارا۔ ان میں بھی طالب علمانہ روح تھی، وہ حدیث کی طرف ایسی توجہ نہیں کر سکے تھےجیسی انہیں علومِ عقلیہ اور بعض نقلیہ کی طرف تھی اس زمانہ میں ان کو حدیث کی تکمیل کا خیال آیا تا کہ اس کمی کو بھی پورا کر سکیں۔ چنانچہ ایک محدث حافظ عمر بن ابی الحسن الرواسی کو اپنے ہاں مہمان رکھ کر ان سے صحیح بخاری اور صحیح مسلم کا درس لیا اور اس کی سند حاصل کی۔

امام غزالیؒ کی دو ممتاز خصوصیات

امام غزالیؒ کی دو خصوصیات بڑی ممتاز ہیں۔

 (1) اخلاص (2) علوِّہمت

ان کے اخلاص کا اعتراف موافق و مخالف سب کو ہےاور وہ ان کی تصنیفات کے لفظ لفظ سے ٹپکتا ہے۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہؒ اگرچہ ان کے ناقد ہیں اور ان کی بہت سی چیزوں سے ان کو اختلاف ہے، لیکن اس کے باوجود وہ ان کو کبار مخلصین مین شمار کرتے ہیں۔ ان کی کتابوں کی مقبولیت کی اصل وجہ ان کا یہی اخلاص ہے۔ اسی اخلاص نے ان سے اقلیمِ علم کی مسندِ شاہی ترک کروائی تھی۔

علوہمت ان کی زندگی کا طغرائے امتیاز ہے انہوں نے علم اور عمل کے دائرے میں اپنے زمانہ کی سطح اور اپنے ہمعصروں کی کسی منزل پر قناعت نہیں کی، وہ علم و عمل کے انتہائی اعلیٰ مقام تک پہنچے۔

اما م غزالیؒ کا وصال

ابن جوزیؒ نے کتاب "الثبات عند الحمات "میں امام صاحبؒ کی وفات کا قصہ ان کے بھائی احمد غزالیؒ کی روایت سے یہ لکھا ہے کہ:

"پیر کے دن امام صاحبؒ نے صبح کے وقت وضو کرکے نماز پڑھی پھر کفن منگوایا اور اس کو چوم کر آنکھوں سے لگایا اور کہا کہ "آقا کا حکم سرآنکھوں پر یہ کہہ کر قبلہ رخ ہو کر پاؤں پھیلا دیئے اور دن نکلنے سے بیشتر ہی روح قفس عنصری سے پرواز کرگئی۔ "

امام صاحبؒ نے 14جمادی الثانی 505ھ بمطابق 1111ء میں طاہران کے مقام پر انتقال کیا اور وہیں مدفون ہوئے۔ امام صاحب کی سن ولادت و وفات میں کسی قسم کا کوئی اختلاف نہیں پایا جاتا۔

علمی کاوشیں/ تصنیفات

امام صاحب کاکام تصنیف و تالیف کے لحاظ سے نہایت حیرت انگیز ہے۔ انہوں نے کل 54۔55 برس کی عمر پائی۔ تقریبا بیس برس کی عمر سے تصنیف کا مشغلہ شروع ہوا۔ گیارہ سال صحرا نوردی اور بادیہ پیمائی میں گزرے درس و تدریس کا شغل ہمیشہ قائم رہا۔ اور کبھی کسی زمانے میں ان شاگردوں کی تعداد ڈیڑھ سو سے کم نہ ہوئی۔

فکر و تصوف کے مشغلے جدا، دور دور سے جو فتاویٰ آتے رہے ان کا جواب لکھنا الگ باآیں ہمہ سینکڑوں کتابیں تصنیف کیں جن میں سے بعض کئی کئی جلدوں میں گونا گوں مضامین سے پر ہیں اور جو بھی تصنیف ہے اپنے باب بے نظیر ہے سچ ہے:

این سعادت بزور بازو نیست

امام صاحب کی تصنیفات درج ذیل ہیں جو طبقات سبکی اور شرح احیاء اور کشف الظنون سے ماخوذ ہے:

احیاء العلوم، املاء علی مشکل الاحیاء، اربعین، الاسماء الحسنیٰ، الاقتصاد فی الاعتقاد، الجام العوام، اسرار معاملات الدین، اسرار الانوار الالہہۃ بالآیات المتلوۃ، اخلاق الابرار والنجاۃ من الاشراراسرار اتباع السنتہ، بدائع الصنع، حقیقۃ الروح، خلاصۃ الرسائل الی علم المسائل فی المذہب، الرسالۃ القدسیہ، غایۃ الغور فی مسائل الدورفی مسئلہ الطلاق، کیمیائے سعادت، اللباب المنتحل فی علم الجد ل، المستصفی فی اصول الفقہ، منخول، وجیز، وسیط، یاقوت التاویل فی التفسیر (40جلد)

یہ تمام علمی کاوشیں امام صاحبؒ کے اعلی مقام و مرتبہ کی شاہد ہیں ان کے علاوہ بھی بہت سی تصانیف ہیں جو معدوم ہوچکی ہیں۔