استحکام خاندان میں عورت کا کردار

آمنہ محمود

اللہ رب العزت نے انسان کو اشرف المخلوقات بنایا ہے پھر مرد کو سربراہی عطا فرمائی اور عورت کو گھر کو جوڑنے والی بنایا اور رشتوں کو مضبوطی سے باندھنے کا ہنر عطا فرمایا۔ مرد میں بہت سی خوبیاں رکھیں مثلاً محنت مشقت کرنے کی عادت، قوتِ برداشت، حوصلہ و جرات مندی وغیرہ لیکن عورت میں بے شمار خوبیاں رکھ کر اس کے بعد اسے ماں کے رتبے پر بھی فائز فرمایا۔ اسے اپنی رحمت سے خصوصی حصہ عطا فرمایا۔

للہ تعالیٰ نے مردو عورت دونوں کو الگ الگ ذمہ داریاں دی ہیں مثلاً مرد کو سربراہ بنایا اور اسے اہل خانہ کے نان و نفقہ کا پابند کیا۔ عورت کو بچے اور گھر داری کی ذمہ داری دی گئی۔ جب تک دونوں اپنی ذمہ داری اچھے طریقے سے ادا کرتے رہیں گے ایک صحت مند اور مستحکم خاندان پروان چڑھتا رہے گا

ان تمام خوبیوں کے ساتھ اللہ رب العزت بحیثیت عورت کچھ ذمہ داریاں بھی ڈالی ہیں تاکہ عورت ان کی تکمیل کرکے رب تعالیٰ خوشنودی حاصل کرسکے۔ عورت نے ہمیشہ ایک مستحکم خاندان تشکیل دینے میں خصوصی کردار اداکیا ہے جو کہ اس کا فرض بھی ہے پھر کبھی وہ بیوی بن کر اپنے شوہر کے لیے تسلی و شفی کا سامان کرتی ہے۔ جیسے کہ پہلی وحی کے نزول کے وقت حضورنبی اکرم ﷺ جب گھر تشریف لائے تو حضرت سیدہ خدیجہؓ نے عرض کی یارسول اللہ ﷺ آپ پریشان نہ ہوں آپ ﷺ کا رب آپ کو رسوا نہیں کرے گا کیونکہ آپ ﷺ ہمیشہ دوسروں کی دلجوئی و مدد میں سب سے آگے ہوتے ہیں یعنی ایک بیوی شوہر کی دلجوئی کررہی ہے کہ اگرچہ یہ ذمہ داری بہت بھاری ہے لیکن آپ ﷺ ضرور بالضرور کامیاب ہوں گے۔

کبھی بیٹی بن کر باپ کی آنکھوں کی ٹھنڈک بن جاتی ہے اور اس قدر محنت و خلوص سے پیش آتی ہے کہ ایک باپ یہ کہہ اٹھتے ہیں کہ فاطمہؓ میری آنکھوں کی ٹھنڈک اور نور ہے جو اسے ایذاء دے گا وہ مجھے تکلیف دے گا۔

ایسی بیٹی ہیں جنہیں دیکھ کر خود رسول اللہ ﷺ کھڑے ہوجاتے ہیں ماتھے پہ بوسہ دیتے ہیں۔ اسی طرح عورت بحیثیت ماں سراپا رحمت و شفقت ہے اس رشتے کا کوئی نعم البدل نہیں ہے اس رشتے کا کوئی حق ادا نہیں کرسکتا کہ جس کے بارے میں قرآن مجید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:

وَ قَضٰی رَبُّكَ اَلَّا تَعْبُدُوْۤا اِلَّاۤ اِیَّاهُ وَ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا ؕ اِمَّا یَبْلُغَنَّ عِنْدَكَ الْكِبَرَ اَحَدُهُمَاۤ اَوْ كِلٰهُمَا فَلَا تَقُلْ لَّهُمَاۤ اُفٍّ وَّ لَا تَنْهَرْهُمَا وَ قُلْ لَّهُمَا قَوْلًا كَرِیْمًا

(بنی اسرائیل، 17: 23)

’’اور آپ کے رب نے حکم فرما دیا ہے کہ تم اللہ کے سوا کسی کی عبادت مت کرو اور والدین کے ساتھ حسنِ سلوک کیا کرو، اگر تمہارے سامنے دونوں میں سے کوئی ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو انہیں ”اُف“ بھی نہ کہنا اور انہیں جھڑکنا بھی نہیں اور ان دونوں کے ساتھ بڑے ادب سے بات کیا کرو۔ ‘‘

اسلام نے عورت کو معاشرے میں جو مقام دیا ہے وہ دنیا کی تاریخ میں کسی بھی دوسرے مذہب نے وہ مرتبہ نہیں دیا۔ اس عطاکردہ مقام کے پیچھے یہی حقیقت ہے کہ اس کے کندھوں پر اپنی آنےو الی نسلوں کو سنوارنے کی بھاری ذمہ داری ہے

یعنی اف کہنے کی بھی گنجائش نہیں ماں کا درجہ باپ سے تین گنا زیادہ ہے اور یہ درجہ صرف اسی وجہ سے ہے کہ وہ بچے کو جنم دیتی ہے پالتی پوستی ہے اپنی اس ذمہ داری کو احسن طریقے سے پورا کرتی ہے۔ اور جب ہم عورت کو بہن کی صورت میں دیکھتے ہیں تو ہمیں سب سے اعلیٰ مثال سیدتنا زینب بنت علی کرم اللہ وجہہ رضی اللہ عنہما نظر آتی ہیں کہ کیسے انھوں نے اپنے نانا جان کے دین کو بچانے کے لیے اپنے بھائی کی مدد کی اور نہ صرف مدد کی بلکہ اپنے بھی بیٹے قربان کردیئے اور اپنے نانا جان کے دین کی حفاظت کی اور جانثاری کی ایسی مثال ملنا ناممکن ہے۔

ایک مرد جب اپنے اہل خانہ کے مالی معاملات کو سلجھانے کی تگ و دو کرنے کے لیے گھر سے باہر جاتا ہے تو یہ عورت کی ہی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ اپنے بچوں، خاوند کی آبرو اور اس کے گھر کا خیال کرے حفاظت کرے:

اللہ تعالیٰ نے مردو عورت دونوں کو الگ الگ ذمہ داریاں دی ہیں مثلاً مرد کو سربراہ بنایا اور اسے اہل خانہ کے نان و نفقہ کا پابند کیا۔ عورت کو بچے اور گھر داری کی ذمہ داری دی گئی۔ جب تک دونوں اپنی ذمہ داری اچھے طریقے سے ادا کرتے رہیں گے ایک صحت مند اور مستحکم خاندان پروان چڑھتا رہے گا۔

ہمارے جدید معاشرے میں ہر کوئی زر اکٹھا کرنے کی دوڑ میں لگا ہوا ہے جس کی وجہ سے گھر کے دونوں خاص فرد کمانے کے چکر میں الجھے ہیں اور بچوں کی ذمہ داری آیاؤں پر چھوڑ دی گئی ہے جو کہ نہ تو بچوں کی تربیت کے لیے مناسب ہے اور نہ ہی ان بچوں کی ذہنی اور بعض اوقات جسمانی لحاظ سے بھی خطرناک حد تک چلی ہوجاتی ہے۔

اسلام دین فطرت ہے وہ ہمیں وہی ذمہ داریاں سونپتا ہے جو ہمارے لیے بہترین ہوتی ہیں۔ اسلام عورت کے کام کرنے یا کمانے کے مخالف نہیں ہے بلکہ اسلام کے ابتدائی دور میں صحابیات و امہات المومنین علیہم السلام اپنے گھر کے ساتھ ساتھ نہایت بہترین بزنس بھی چلاتی تھیں اور جنگ و جدل میں مردوں کے شانہ بشانہ لڑائی میں بھی حصہ لیتی تھیں۔

یعنی وہ اپنی ذمہ داریاں بھی پوری کرتی تھیں اور دیگر مشاغل میں بھی حصہ لیتی تھیں۔ ایک عورت کی ہمیشہ پہلی ترجیح اس کا خاندان ہی ہونا چاہیے کہ ایک خوشحالی صحت مند خاندان مل کر ہی ایک صحت مندمعاشرہ تشکیل دیتا ہے۔ بچوں کی دینی و دنیاوی تعلیم کے لیے بھی بچے کی پہلی درسگاہ ماں کی گود ہوتی ہے جب ماں دین اسلام کے مطابق اپنے بچوں کی پرورش کرتی ہے تو وہ بچہ بھی بڑا ہوکر اسلام کے اصولوں پر زندگی گزارتا ہے تو اس طرح ایک پرامن و پرسکون معاشرہ وجود میں آتا ہے۔

اسلام نے عورت کو معاشرے میں جو مقام دیا ہے وہ دنیا کی تاریخ میں کسی بھی دوسرے مذہب نے وہ مرتبہ نہیں دیا۔ اس عطاکردہ مقام کے پیچھے یہی حقیقت ہے کہ اس کے کندھوں پر اپنی آنےو الی نسلوں کو سنوارنے کی بھاری ذمہ داری ہے۔

ایک پڑھی لکھی مہذب اور دین اسلام پر کاربند عورت اپنے بچوں کی بہترین تربیت کے ساتھ اپنے سسرالی رشتہ داروں کے ساتھ بھی حسن سلوک سے پیش آتی ہے اس کے اخلاق سے متاثر ہوکر وہ بھی اپنے رویے میں لچک محسوس کرتے ہیں اور آپس میں پیار محبت سے رہنے کو ترجیح دیتے ہیں۔

اسلام دین فطرت ہے وہ ہمیں وہی ذمہ داریاں سونپتا ہے جو ہمارے لیے بہترین ہوتی ہیں۔ اسلام عورت کے کام کرنے یا کمانے کے مخالف نہیں ہے بلکہ اسلام کے ابتدائی دور میں صحابیات و امہات المومنین علیہم السلام اپنے گھر کے ساتھ ساتھ نہایت بہترین بزنس بھی چلاتی تھیں اور جنگ و جدل میں مردوں کے شانہ بشانہ لڑائی میں بھی حصہ لیتی تھیں

اسی طرح کا ماحول وہ بھی اپنے گھروں میں بنانے کا جذبہ اپنے اندر پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یوں ایک عورت کی وجہ سے پورا خاندان سیدھے راستے پر گامزن ہوجاتاہے۔ ایک عورت پر ہی اپنے بچوں کی تربیت، اچھے اخلاق، بہترین تعلیم کی ذمہ داری ہے جو اس میں کامیاب ہوجائے وہ نہ صرف دنیا میں کامیاب گھرانہ دے سکتی ہے بلکہ آخرت کے لیے بھی صدقہ جاریہ کا سبب بن سکتی ہے۔

یہ بھی حقیقت ہے کہ ایک عورت یہ اپنی ذمہ داریاں تب ہی سرانجام دے سکتی ہے جبکہ اس کا ساتھ دینے والا شوہر بھی میسر ہو جو اسے دوسروں کے سامنے عزت دے اس کی ذہنی اور جسمانی صحت کا خیال رکھے اس کے اچھے کاموں میں مدد فراہم کرے اس کی حوصلہ افزائی کا وسیلہ بنے تو ایسی عورت یقین کریں نہ صرف اچھی بیوی اچھی ماں ثابت ہوگی بلکہ معاشرے کو بہترین خاندان دینے والی اور دنیا کے کسی بھی شعبے میں کامیاب نظر آئے گی کیونکہ وہ ذہنی طور پر ایک مکمل اور پرسکون زندگی گزار رہی ہوگی تو وہ ہر کام خوش اسلوبی سے انجام دے پائے گی۔ ہمارے معاشرے کا یہ بہت بڑا المیہ ہے کہ ہم عورت کو گھر کا چوکیدار تو سمجھتے ہیں مگر اس کی ضروریات اور پرسکون ماحول فراہم کرنے سے قاصر ہیں۔ اس سے ڈیمانڈ تو بہترین کی کرتے ہیں لیکن اسے ذہنی طور پر ایک لامتناہی عذاب میں مبتلا رکھتے ہیں کبھی سسرال کی طرف سے اور کبھی میکے کی طرف سے۔

ہمارا معاشرہ جیسے جیسے مادیت کی طرف بڑھ رہا ہے ہمارے گھر سکون سے خالی ہوتے جارہے ہیں۔ اس سے بہتر ہے کہ اسلام کے مطابق سادہ اور شکر گزاری والی زندگی بسرکی جائے گھر والے مل جل کر رہیں اور ایک دوسرے کے لیے سکون کا باعث بننے والے بن جائیں پھر ہی ہم ایک بہترین خاندان اور معاشرہ تشکیل دے سکتے ہیں۔

اگر آپ عورت کو حوصلہ افزائی، عزت، ذہنی و جسمانی صحت کی ضمانت دیتے ہیں تو یہ نہ صرف خاندان کے لیے بلکہ ہر شعبہ زندگی میں بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کرسکتی ہے کیونکہ اللہ رب العزت نے اسے بیک وقت مختلف کام سرانجام دینے کا ملکہ ودیعت کیا ہے۔

اسلام دین فطرت ہے وہ ہمیں وہی ذمہ داریاں سونپتا ہے جو ہمارے لیے بہترین ہوتی ہیں۔ اسلام عورت کے کام کرنے یا کمانے کے مخالف نہیں ہے بلکہ اسلام کے ابتدائی دور میں صحابیات و امہات المومنین علیہم السلام اپنے گھر کے ساتھ ساتھ نہایت بہترین بزنس بھی چلاتی تھیں اور جنگ و جدل میں مردوں کے شانہ بشانہ لڑائی میں بھی حصہ لیتی تھیں

اسی طرح عورتوں کو بھی اسوہ صحابیات و امہات المومنین اور صالح خواتین کے نقش قدم پر چلتے ہوئے صبرو تحمل سے اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرنا چاہیے تاکہ اللہ کریم کے در پر سرخرو ہوکر پیش ہوسکیں۔