ترتیب و تدوین: محمد یوسف منہاجین
اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا:
ذٰلِکَ الْکِتٰـبُ لاَ رَیْبَ فِیْهِ هُدًی لِّلْمُتَّقِیْنَo
’’(یہ) وہ عظیم کتاب ہے جس میں کسی شک کی گنجائش نہیں، (یہ) پرہیزگاروں کے لیے ہدایت ہے۔‘‘
(البقرة، 2: 2)
تقویٰ ایک ایسا موضوع ہے جس کی بہت سی جہات ہیں اور اس کی ہر ہر جہت دوسری سے بڑھ کر اپنے اندر ایک اہمیت، فضیلت اور قدر و منزلت رکھتی ہے۔
مذکورہ آیت مبارکہ قرآن مجید کا وہ مقام ہے جہاں پہلی مرتبہ تقویٰ کا ذکر آیا ہے۔ قرآن مجید جب پہلی مرتبہ تقویٰ کا ذکر کرتا ہے تو اُس کی کچھ شرائط، تقاضے، اثرات اور نتائج بیان کرتا ہے، جنہیں سمجھنے کی ضرورت ہے تاکہ قرآن مجید کے اس پہلے بیانِ تقویٰ سے ہم کچھ چیزیں اپنی نصیحت اور اپنی تربیت کے لیے اخذ کر سکیں۔
قرآن مجید میں اللہ رب العزت نے تقویٰ کا بیان کرتے ہوئے کچھ چیزوں کو باہم مربوط اور لازم و ملزوم کر دیا ہے یعنی ان کو آپس میں اس طرح جوڑ دیا ہے کہ وہ ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوسکتیں۔ اگر اُس کا کوئی ایک جزو یا شرط بھی جدا ہو جائے تو کُلیّت (totality) نہیں رہے گی۔ اس صورت میں تقویٰ یا تو بالکل ہی نہیں رہے گا یا کامل تقویٰ نہیں رہے گا اور جب تقویٰ ہی نہیں رہے گا، تو نتیجتاً اُس پر اللہ رب العزت کے وعدے اور جو اجر بیان کیے گئے ہیں اُن کے پورا ہونے کی صورت نہیں رہے گی، کیونکہ جب شرط ہی پوری نہیں ہوگی تو صلہ کیا ملے گا۔ لہٰذا تقویٰ کو سمجھنا ضروری ہے۔
ترجیحات میں اختلاط اور اس کے نتائج
ہم نے اپنی زندگیوں میں تقویٰ اور اس جیسے بہت سارے دیگر ایمانی حقائق، ضروریات اور ایمانی واجبات کو عملاً نظرانداز کر رکھا ہے۔ ہم نے اور طرح کی ترجیحات بنا لی ہیں جن میں کچھ اچھی اور ضروری بھی ہیں، کچھ غیر ضروری، ناروا، ناپسندیدہ اور ناجائز بھی ہیں۔ ہم نے اپنی پوری زندگی میں ترجیحات کے اندر ایک ایسا اختلاط (mixture) کر دیا ہے کہ کسی چیز کی بھی خالصیت ہماری زندگی میں نہیں رہی۔ ہم نے اپنے اپنے خیالات (thoughts) اور اعتقادی و ترجیحات کو خلط ملط کررکھا ہے۔ لامحالہ اس کے اثرات ہماری شخصیت اور زندگی پر پڑتے ہیں اور تربیت و اصلاح مفقود ہو جاتی ہے۔
ہم عمر بھر جدوجہد (struggle) کرتے رہتے ہیں، سفر میں رہتے ہیں، نیکی کے کام کرتے رہتے ہیں مگر بعض ضروری امور اور شرائط کو پورا نہ کرنے کی وجہ سے بہت سارے نیک کام سراب کی طرح دھوکہ بن جاتے ہیں۔ جس طرح سخت گرمیوں کے موسم میں ہمیں دور میدان پر پانی نظر آتا ہے مگر پانی ہوتا نہیں بلکہ وہ ایک سراب و دکھلاوا ہوتا ہے۔ زندگی کے اس سفر میں اہلِ علم بھی (الا ماشاءاللہ) اس سراب میں مبتلا ہیں اور علم نہ رکھنے والے بھی مبتلا ہیں۔ علماء، مشائخ، اساتذہ، والدین، بزرگ، بڑے، مقتدیٰ یعنی وہ لوگ جن کی پیروی کی جاتی ہے، جنہیں دیکھ کر ہم اپنا عمل درست کرتے اور انہیں follow کرتے ہیں، وہ بھی ان چیزوں میں مبتلا ہیں اور مقتدی (followers)، متبعین اور علم نہ رکھنے والے بھی مبتلا ہیں۔ لہذٰا اس تصور کو بخوبی سمجھیں اور اس سے سبق حاصل کریں تاکہ ہماری زندگیوں میں جہاں جہاں خرابیاں، کمزوریاں اور بیماریاں ہیں، ختم ہوسکیں۔
تقویٰ اور دین کے دیگر ایمانی تقاضوں کے متعلق ہمارا اجتماعی رویہ اور مزاج یہ ہے کہ ہم اپنی مرضی سے انتخاب (pick and choose) کرتے ہیں حالانکہ ہر ایک تصورِ دین اور ہر ایک عبادت ایک پورا کُل ہے، جو اللہ تعالیٰ نے عطا فرمایا ہے۔ اُس کُل کے تمام اجزا ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم (reciprocal) ہیں، interdependent ہیں، indispensable ہیں اور باہم جڑے ہوئے (insepartable) ہیں۔ اگر اُس میں سے کوئی ایک چیز نکال دی جائے تو وہ ایمانی حقیقت کمزوری کا شکار ہوجاتی ہے یا بالکل ختم ہوجاتی ہے۔
اس کی ایک مثال کسی چھوٹی بڑی مشین یا گاڑی اور ہوائی جہاز کے انجن کی سی ہے کہ اس مشین اور انجن کا ہر پرزہ آپس میں جڑا ہوتا ہے اور سارے پرزے مل کر ایک انجن بنتا ہے، جس سے گاڑی چلتی ہے۔ ان پرزوں میں سے اگر ایک یا دو پرزے بھی نکال لیں تو وہ گاڑی نہیں چلے گی۔ اس گاڑی کا نظام تب ہی چلے گا، اگر وہ پورا کا پورا ’کُل‘ working position میں ہو اور اُس کا function totality میں ہو۔ کسی مشین میں سے صرف دو، تین پرزے نکال لیں اور توقع کریں کہ نتائج وہ آ جائیں جن کا وعدہ کیا گیا ہے تو یہ خام خیالی ہے۔ اس لیے کہ اس انجن کے انجینئر نے اس کو استعمال کرنے کے کچھ لازمی تقاضے اور شرائط بنائی ہیں جن کی عدم موجودگی میں اس مشین سے فوائد حاصل نہیں کیے جاسکتے۔
اسی طرح اللہ رب العزت ہمارے بھی نظامِ زندگی کا خالق و صانع (manufacturer) ہے۔ اس نے بھی ایک مکمل روحانی نظام دیا ہے جس کے بہت سارے اجزاء ہیں۔ یہ سارا کُل (totality) پورا ہوگا تو نتائج آئیں گے۔ اس لیے کہ یہ کئی اجزا اور شرائط مل کر ایک پورا concept بنتا ہے۔ بے شک اُن میں سے ہر ایک جزو کا ایک الگ عنوان (title) ہے، ہر ایک کے لیے الگ اصطلاحات اور ہر ایک کے اپنے معانی ہیں مگر وہ سارے الفاظ، اُن کے معانی، شرائط اور تقاضے جڑیں گے تو وہ concept پورا ہوگا جس کے اجر کا وعدہ کیا گیا ہے۔
ہم اپنی مرضی یا اپنی غفلت کی وجہ سے یا اپنے حالات، ترجیحات اور اپنی نفسانی شہوات کے باعث اس پورے تصور میں سے کچھ جزو نکال دیتے ہیں اور اُن پر عمل نہیں کرتے یا انہیں نظرانداز کر دیتے ہیں اور بہت کم اہمیت دیتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اُنہیں کم اہم سمجھ کر ان پر عمل نہ کرنے کا فیصلہ کون کر رہا ہے؟ ہمارے خالق نے تو یہ فیصلہ نہیں کیا۔ ہمارا مالک و صانع جس نے ہمیں تخلیق کیا ہے اور رزلٹ کی گارنٹی دی ہے، اُس نے تو ہمیں یہ نہیں کہا کہ فلاں ضروری ہے اور فلاں غیر ضروری ہے، یہ نکال دو تو حرج نہیں ہوگا اور یہ برقرار رہنے دو، کام چل جائے گا۔ اُس نے تو ایسی کوئی بات نہیں کی۔ یہ تو ہماری اپنی غفلت، شہوت، کمزوریاں، ضروریات، خودساختہ ترجیحات، جہالت اور نفسانی خواہشات ہیں، جن کی وجہ سے ہم نے رد و بدل کر دیا ہے۔
ہم نے اللہ رب العزت کے بنائے ہوئے نسخے، اُس طبیب کی دی ہوئی prescription (نسخہ) میں رد و بدل کر دیا ہے، اس کے باوجود رزلٹ بھی دیکھنا چاہ رہے ہیں کہ بالکل صحت یابی اور شفا بھی ہوجائے۔ اُس نے تو ساری چیزوں کا combination دیا تھا۔ وہ جانتا ہے کہ اس دوائی (عمل/ عبادات) کا دوسری دوائی (عمل/ عبادات) کے ساتھ کیا ملاپ ہے۔ وہ جانتا ہے کہ یہ دو دوائیاں (عمل/ عبادات) مل کر ہی نتائج دیں گی۔ اگر ایک لے لیں اور ایک کو چھوڑ دیں تو نتائج پیدا نہیں ہوں گے۔ لہذٰا وہ نسخہ ہمیں مکمل (as a whole) لینا ہوگا، اس لیے کہ ایک دوائی (عمل/ عبادات) کا اثر دوسری پر منحصر ہے اور دوسری دوائی پہلی دوائی کے اثر کو بڑھاتی ہے۔ ایک دوائی (عمل/ عبادات) سے غلط چیز کا ازالہ ہوتا ہے اور دوسری دوائی کوئی فائدہ (benefit) دیتی ہے۔ کسی کا اثر فعلی ہے اور کسی کا اثر سلبی ہے، کسی کا کام اضافہ کرنا اور کسی کا کام کسی خرابی کو دور کرنا ہے۔ یہ Combination کیسے کام کرتا ہے، یہ سب خالق و مالک جانتا ہے۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم اپنی مرضی سے نسخے کو تبدیل کر دیتے ہیں، کچھ دوائیاں (اعمال) لیتے ہیں اور کچھ نہیں لیتے، کمی بیشی کر دیتے ہیں اور بعد میں بیٹھے سوچتے ہیں کہ نتائج پیدا نہیں ہوئے۔ نتائج تب پید اہوں گے جب ہم دوائی دینے والی کی نصیحت پر پورا پورا عمل کریں گے۔
قرآنی ہدایت کے حقدار متقین ہیں
اس تصور کو سمجھ لینے کے بعد اب ایک چیز ذہن نشین کر لیں کہ ہم میں سے ہر کوئی سمجھتا ہے کہ قرآن ہدایت ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ قرآن ہدایت ہے، ہدایت ہی کے لیے آیا ہے لیکن اس پہلے مقام پر قرآن نے خود اپنی بابت جو اعلان کیا ہے کہ میں کیا ہوں؟ کس کے لیے ہوں؟ اُس پر اعتماد کرنا چاہیے۔ قرآن مجید نے اعلان یہ کیا ہے:
هُدًی لِّلْمُتَّقِیْنَo
(یہ) پرہیزگاروں کے لیے ہدایت ہے۔
اس آیت مبارکہ سے معلوم ہوا کہ یہ متقین یعنی تقویٰ والوں کے لیے ہدایت ہے۔ گویا بات واضح ہوگئی اور اس میں کوئی شبہ نہ رہا کہ ہدایت کی توقع صرف وہ رکھیں جو متقین ہیں اور جنہوں نے اپنی زندگی سے تقویٰ خارج کر دیا ہے اور اصحابِ تقویٰ نہیں رہے وہ اس قرآن مجید سے ہدایت کی توقع نہ رکھیں۔
هُدًی لِّلنَّاس اور هُدًی لِّلْمُتَّقِیْن میں فرق
بعض ذہنوں میں یہ خیال آئے گا کہ قرآن مجید میں ایک اور مقام پر یہ بھی آیا ہے کہ:
هُدًی لِّلنَّاسِ
’’یہ لوگوں کے لیے ہدایت ہے۔‘‘
(البقرة، 2: 185)
یعنی تقویٰ اور متقین کی شرط کے بغیر یہ سب لوگوں کے لیے ہدایت ہے۔ ان دو میں کیا فرق ہے؟
یاد رہے کہ اوّل الذکر آیت میں ہدایت کا معنیٰ اور ہے اور یہاں ہدایت کا معنیٰ اور ہے۔ ذیل میں اس کی وضاحت درج کی جارہی ہے:
1۔ هُدًی لِّلنَّاس کا معنی: وضاحت کے ساتھ بیان کرنا
جب قرآن مجید عامۃ الناس اور پوری عالم انسانیت کے لیے ہدایت ہوتا ہے تو وہاں ہدایت کا معنیٰ ’’وضاحت اور بیان‘‘ ہے۔ یعنی عالم انسانیت، ہر متقی اور غیر متقی، ہر پرہیزگار اور غیر پرہیزگار، ہر نیک اور بد کے لیے حتیٰ کہ ہر مومن اور کافر کے لیے قرآن مجید ہر ضروری چیز کھول کھول کر بیان کر دیتا ہے۔ امورِ محکمات، شرعیات، ضروریات، اللہ رب العزت کے وجود پر دلائل، آخرت کے دلائل اور نیکی و بدی کے فرق پر دلالت کرنے والے جملہ ضروری امور کو قرآن کھول کھول کر بیان کر دیتا ہے۔ اس کو ’’وضوح، وضاحت اور بیان‘‘ کہتے ہیں۔
یہ امر بھی واضح رہے کہ هُدًی لِّلنَّاس کے بیان میں گارنٹی مذکور نہیں ہے، بس وضاحت اور بیان کے ساتھ ہر بات کہہ دی، اب جو اُس سے سمجھنا اور اخذ کرنا چاہے وہ کر سکتا ہے اور جو نہ کرنا چاہے، اس کی مرضی۔ اس کے مضامین بذاتِ خود (itself) تِبْیَانًا لِّکُلِّ شَیْئٍ کے مصداق ہر چیز کا بڑا واضح بیان لیے ہوئے ہیں یعنی قرآن مجید جو بات کرتا ہے اس کو واضح کر کے بیان کر دیتا ہے، یہاں تک کہ اس میں کوئی شک و شبہ نہیں رہنے دیتا۔ لاَ رَیْبَ فِیْهِ کے معنیٰ کا اس طرز پر بھی اطلاق ہوتا ہے۔ اسی لیے تو فرمایا:
یُضِلُّ بِهٖ کَثِیْرًا وَّیَهْدِیْ بِهٖ کَثِیْرًا.
’’(اس طرح) اللہ ایک ہی بات کے ذریعے بہت سے لوگوں کو گمراہ ٹھہراتا ہے اور بہت سے لوگوں کو ہدایت دیتا ہے۔‘‘
(البقرة، 2: 26)
یعنی اسی قرآن کی مثالوں کو پڑھ اور سن کر کئی لوگ گمراہ ہو رہے ہیں اور اسی سے کئی لوگ ہدایت پا رہے ہیں۔ اس لیے کہ قرآن مجید پڑھنے اور سننے والوں کی طبیعت، صلاحیت، استعداد، اُن کے اندر موجود جذبۂ قبولیت، درستگی یا ٹیڑھا پن، ظلمت و روشنی، مزاج اور ان کی صلاحیت پر منحصر ہے کہ وہ اس کی باتوں سے غلط application اور غلط مفہوم اخذ کر کے اپنے من کی کجی اور ٹیڑھے پن کی وجہ سے گمراہ ہوتے ہیں، یا اپنے من کے اندر اصلاح، نیکی، نور، بھلائی اور اچھائی کی خوبیوں کی وجہ سے اس سے ہدایت پاتے ہیں۔ گویا قرآن مجید، نتیجہ اخذ کرنا سامع، قاری اور سمجھنے والے پر چھوڑ دیتا ہے کہ اب وہ جو چاہے اس کو معانی دے، ہم نے تو اسے واضح کردیا ہے۔
قرآن مجید کی مثال بارش کی مانند ہے۔ جیسے بارش زمین پر گرتی ہے تو اس کے اچھے یا برے اثرات کا انحصار اس زمین پر ہے کہ وہ زمین کیسی ہے جس پر بارش برس رہی ہے؟ اچھی زمین ہے تو اُس سے پھل، پھول، سبزہ اُگے گا اور اگر گندی زمین ہے تو بارش کے سبب اُس سے تعفن اور بدبو نکل آئے گی۔ چٹیل زمین ہے تو بارش سے کچھ بھی نہیں ہو گا۔
اسی طرح قرآن مجید کے احکامات و بیان کا انحصار اس بات پر ہے کہ دل و دماغ، نفس اور طبیعت کی زمین کیسی ہے؟ هُدًی لِّلنَّاسِ کے مصداق لوگوں پر منحصر ہے کہ وہ قرآن سے کیا لے سکتے ہیں اور کیا نہیں لے سکتے؟ قرآن مجید یہ سب اُن کے حال پر چھوڑ دیتا ہے۔ اُس میں قرآن مجید کا صرف یہی کردار ہے کہ وہ اپنی ایک خوبی بیان کرتا ہے کہ میرا مرتبہ اور شان یہ ہے کہ میں ایسا بیان ہوں کہ میرے بیان میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں۔ اگر کوئی شک و شبہ پیدا کرتا ہے تو یہ اُس کی اپنی کجی اور فہم کا ٹیڑھا پن ہے۔
2۔ هُدًی لِّلْمُتَّقِیْنَ کا معنی
دوسری طرف جب قرآن یہ فرماتا ہے:
هُدًی لِّلْمُتَّقِیْنَo
’’یہ پرہیزگاروں کے لیے ہدایت ہے۔‘‘
(البقرة: 2)
اب قرآن نے ہدایت کو خاص کردیا اور ہدایت کی گارنٹی بھی عطا فرمادی۔ اب ہدایت کا معنیٰ رشد و رہنمائی (guidance) ہے۔ اب ہدایت کا معنی اعلیٰ درجے کی دلیل، برہان اور حجتِ قاطعہ ہے یعنی ایسی دلیل جو راہ دکھاتی اور رہنمائی کرتی ہے۔ اب قرآن مجید، متقین کے لیے رہنمائی کرنے کی ضمانت دینے والا قرار پاتا ہے۔
receive کرنے والے (recipients) اگر متقی ہو جائیں تو قرآن ان کے لیے ہدایت کے معنی میں ڈھل جاتا ہے۔ اب اس کا معنی صرف وضاحت اور بیان نہیں ہے۔ وضاحت اور بیان تو وہ ہر ایک کے لیے تھا مگر متقین کے لیے ہدایت کا اعلیٰ درجہ بن جاتا ہے۔ قرآن مجید ان کے لیے حجت بن جاتا ہے اور اُن کو قوی براہین اور دلائل کی روشنی میں رشد و رہنمائی عطا کرتا ہے، انہیں صحیح راستے پر چلاتا اور منزل مقصود تک پہنچا دیتا ہے۔ اب قرآن مجید نہ صرف اراۃ الطریق (راستہ دکھانا) کا فریضہ سرانجام دے رہا ہے بلکہ ایصال الی المطلوب (منزل مقصود تک پہنچانا) بھی ہے۔
قرآن مجید کی ترجیح هُدًی لِّلْمُتَّقِیْن ہے
لامحالہ ہم نہیں چاہیں گے کہ ہم صرف هُدًی لِّلنَّاسِ کے معنیٰ تک رک جائیں یا ہمیں روک دیا جائے یعنی ہمارے لیے قرآن مجید صرف وضاحت اور بیان رہ جائے اور ہمیں ہمارے حال پہ چھوڑ دیا جائے۔ ہم نہیں چاہیں گے کہ ہم اُس درجے کی ہدایت تک محدود رکھ دیے جائیں جو تمام عالمِ انسانیت کے لیے ہے بلکہ ہم چاہیں گے ہم هُدًی لِّلْمُتَّقِیْنَ میں جس مرتبۂ ہدایت کا ذکر ہے، اُس کے حقدار بنیں۔
اس مرتبہ ہدایت کا حقدار بننے کے لیے ہم یہ چاہیں گے کہ قرآن مجید ہمیں ہدایت کا راستہ بھی دکھائے، اس راستے پر چلائے بھی اور ہمیں منزل پر بھی پہنچائے۔ ہمارے لیے رُشد کا سامان بنے اور ہمیں نور و رہنمائی بھی دے۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ قرآن سے ہمیں یہ ہدایت ملے تو قرآن نے هُدًی کے فوری بعد لِّلْمُتَّقِیْنَ کی شرط لگا دی ہے کہ پھر ہمیں متقین بننا ہوگا۔
اب یہ ہم پر منحصر ہے کہ ہم صرف ’’الناس‘‘ میں رہتے ہیں یا ’’متقین‘‘ میں داخل ہوتے ہیں۔ اگر ہم چاہیں کہ جو کچھ الناس (عام لوگوں) کے لیے ہے اُس سے زائد وہ کچھ بھی ملے جو المتقین کے لیے ہے تو قرآن مجید اُس کے لیے گارنٹی دیتا ہے کہ ہاں اگر تم متقین بن جاؤ تو پھر میری ہدایت تمہیں رشد و رہنمائی اور منزل کی طرف لے جانے اور پہنچانے کی ضمانت دیتی ہے۔
لامحالہ ہم اسی مرتبۂ ہدایت کے طلبگار ہیں اور یقینا ہونا بھی چاہیے کیونکہ قرآن مجید کی اپنی ترجیح (preference) بھی یہی ہے، اس لیے تو سب سے پہلے قرآن مجید نے اپنے تعارف میں اپنے آپ کو جب ہدایت کہا ہے تو هُدًی لِّلنَّاسِ نہیں کہا بلکہ هُدًی لِّلْمُتَّقِیْنَ کہا ہے۔ حالانکہ عام طریقہ یہ ہے کہ پہلے ’’عام‘‘ حکم آتا ہے اور بعد میں ’’خاص‘‘ حکم آتا ہے، پہلے ’’مطلق‘‘ آتا ہے اور بعد میں ’’مقید‘‘ آتا ہے مگر یہاں ’’خاص‘‘ پہلے آگیا اور ’’عام‘‘ بعد میں آیا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ قرآن مجید نے اپنی ترجیح بھی دے دی ہے کہ میری preference یہ ہے کہ میں وہ ہدایت دوں جس سے لوگ رہنمائی پائیں، صحیح راستے پر چلیں، منزل پر پہنچیں اور وہ ہدایت هُدًی لِّلْمُتَّقِیْنَ ہے۔
بعد میں دوسرے مقام پر هُدًی لِّلنَّاسِ فرمایا تو گویا واضح کردیا کہ متقین تو اس ہدایت کو لے لیں گے جو میں دینا چاہتا ہوں لیکن باقی لوگ محروم نہ رہ جائیں، لہذا اُن کے لیے بھی میرا ایک بڑا واضح بیان ( clear statement) ہے اور وہ هُدًی لِّلنَّاسِ ہے یعنی ہر چیز کا واضح بیان قرآن میں ہے، اب لوگوں پر منحصر ہے کہ وہ اس سے کس طرح اخذ کرتے ہیں۔
یقین: مرتبۂ ہدایت کیلئے اولین شرط
ہدایت، صحیح راہ پر چلانے اور منزل تک پہنچانے کے لیے قرآن مجید نے جو اوّلین شرط بیان کی ہے، وہ ’’لاَ رَیْبَ فِیْهِ‘‘ ہے۔ یہ prerequisite ہے۔ آج سوسائٹی میں کفریات، مادیات، لا مذہبیت، نفسانیات، شہوات، دنیویات کا غلبہ ہے۔ بچوں اور جوانوں سے لے کر سوسائٹی کی خواتین و حضرات کی اکثریت پر ان چیزوں کا سب سے پہلا برا اثر ’’تشکیک‘‘ کی صورت میں پڑتا ہے، یعنی بندہ شک کا شکار ہوکر ڈگمگا جاتا ہے اور اُس کا عقیدہ (faith) متزلزل ہو جاتا ہے۔
ہماری سوسائٹی، گرد و پیش کے ماحول، ہماری صحبتیں، ہماری مجلسیں، ہماری دوستیاں، سکول کالج کی friendships، ہمارا کلچر، ہمارے گھروں کے اندر و باہر کے ماحول اور گلی، کوچے و بازار کے جو ماحول ہم پر اثرانداز ہوتے ہیں، اُن میں کفریات بھی ہیں، فسقیات اور مادیات بھی ہیں۔ اِن میں ہر اُس خرابی کی جڑ ہے جو ایمان کی جڑ کو کاٹتی ہے۔ اس پورے ماحول میں جب انسان کا ایمان کمزور ہوتا ہے تو سب سے پہلے اُس کا یقین کمزور ہوتا ہے۔ ایمان نام ہی یقین کا ہے۔ اگر ہم یقین سے کم درجے کے فہم میں ہیں یا کم درجے کے اقرار میں ہیں تو ایمان نہیں ہے۔ جب ایمان کمزور ہوتا ہے تو آدمی کا عقیدہ متزلزل و متذبذب ہوتا ہے اور امور میں شک و شبہ پیدا ہو جاتا ہے۔ نتیجتاً وہ کہتا ہے کہ میں clear نہیں ہوں، میں بڑا confused ہوں، مجھے سمجھ نہیں آ رہی۔ یہ جملے ہم روزمرہ سنتے ہیں۔ یہ سارے جملے اس وقت جنم لیتے ہیں جب یقین زائل ہوتا ہے اور شک و شبہ داخل ہوتا ہے۔ جب ایمان پر حملہ ہوتا ہے تو اُس وقت یہ کیفیت شروع ہو جاتی ہے۔ اگر ہم اس کیفیت میں ہوں تو تقویٰ تو بعد کی بات ہے، ایمان اور یقین بھی برقرار نہیں رہتا۔ یقین نہ ہو اور انسان تذبذب و تشکیک میں مبتلا ہو تو درخت کے خشک پتوں کی طرح آندھیوں کے ساتھ بلکہ ہلکی پھلکی ہوا کے ساتھ بھی اڑتا پھرتا ہے اور اُس کا کوئی ٹھکانا نہیں ہوتا۔ اسی لیے سب سے پہلے قرآن مجید نے اپنی ہدایت سے فیض یاب ہونے کے لیے یقین کی شرط لگا دی ہے کہ تشکیک اور تذبذب کی کیفیت سے نکلیں۔
تشکیک و تذبذب کا علاج: صحبتِ صالحہ
کامل اولیاء و عرفاء سے پوچھا گیا کہ ہم گناہوں میں لت پت ہیں یا شکوک و شبہات میں ہیں یا ایمان اور یقین کی کمزوری ہے تو اس کیفیت و حال سے کیسے نکلیں اور کیا کریں؟ وہ ہمیشہ یہ جواب دیتے کہ بری صحبت اور سنگت کو ختم کر دو۔ جہاں سے گناہ کی سوچ جنم لیتی ہے اُس کو بند کر دو۔
اس بری صحبت کو بند کرنا کیوں ضروری ہے؟ اس کو ایک مثال سے سمجھیں کہ اگر کسی گھر کا سیوریج سسٹم خراب ہوجائے تو گھر میں ہر طرف بدبو پھیل جاتی ہے حالانکہ سیوریج سسٹم Under Ground ہونے کی وجہ سے نظر بھی نہیں آرہا مگر اس کا گندا پانی یا بدبو پورے گھر کے ماحول کو خراب کررہا ہے۔ اب گھر والے اُس سیوریج سسٹم کو صحیح کرنے یا اس اُبلتے گندے پانی کے گٹر کو بند کرنے کے بجائے بدبو ختم کرنے کے لیے بھاگ دوڑ کررہے ہیں اور مختلف قسم کے ایئر فریشنر اور پرفیوم استعمال کررہے ہیں لیکن گٹر کا منہ بند نہیں کیا جارہا۔ اس طریقہ سے وہ بدبو کبھی ختم نہ ہوگی۔ بدبو ختم کرنے کے لیے سب سے پہلے اس گٹر کا منہ بند یا اس سیوریج سسٹم کو صحیح کروانا ہوگا۔
ہماری اخلاقی و روحانی حالت یہ ہے کہ غلط صحبت کی صورت میں موجود وہ گٹر تو بند نہیں کر رہے جو برائی کا منبع ہے اور بھاگتے پھرتے ہیں کہ برے اثرات ختم ہو جائیں۔ کوئی مشورہ دیتا ہے کہ کسی پیر کے پاس جائیں، تعویذ لیں تو بدبو اور بداثرات ختم ہو جائیں گے، کوئی کہتا ہے دَم کر دیں ہمارے گھر سے بدبو ختم ہو جائے، کوئی کہتا ہے دعا فرما دیں، بدبو ختم ہو جائے، جبکہ المیہ یہ ہے کہ گٹر تو ہم بند نہیں کر رہے تو بدبو کیسے ختم ہو۔
گھر میں محفل میلاد کر لیں، گیارہویں شریف کروا لیں، قرآن مجید کے دس ختم کر لیں، سوا لاکھ آیت کریمہ پڑھا لیں، جو چاہیں کرتے پھریں اور دعا کریں کہ باری تعالیٰ! ان محافل کی برکت سے ہمارے سے بدبو ختم کر دے تو بدبو کا ختم ہونا ناممکن ہے۔ اسی لیے کہ جب ہم غیر فطری طریقے پر چل رہے ہیں تو بدبو کیسے ختم ہو؟ بدبو جہاں سے جنم لے رہی ہے، ہم نے اسے تو بند نہیں کیا بس اوپر اوپر سب کچھ کیے جا رہے ہیں۔ یہ اللہ کے احکام اور اللہ کے رسولa کی ہدایات کے خلاف ہے۔ یہ بنیادی شعور ہے جسے سمجھنے کی ضرورت ہے۔
اولیاء کہتے کہ ان نافرمانوں کی صحبت چھوڑ دو، جہاں سے نافرمانی جنم لے رہی ہے۔۔۔ ان شک رکھنے والوں کی صحبت میں مت بیٹھو اور اُن سے دوستی نہ رکھو، جہاں سے شک کے جراثیم تمہارے ذہنوں میں جا رہے ہیں۔۔۔ ان بے دینوں کی صحبت میں نہ بیٹھو جہاں سے لادینیت و لا مذہبیت آپ کے اندر سرایت کر رہی ہے۔۔۔ اور ان فاسقوں و فاجروں کی صحبت میں نہ بیٹھو، جہاں سے فسق و فجور کے رجحانات آپ کے اندر آ رہے ہیں۔
اولیاء کرام نے بیان کیا کہ مختلف لوگوں کی صحبت کے مختلف اثرات انسان پر مرتب ہوتے ہیں۔ حکمران و سلاطین کی سنگت میں بیٹھیں گے تو اس سے اور طرح کے اثرات آئیں گے۔۔۔ مالداروں کی سنگت میں بیٹھیں گے تو مال و دولت کی محبت اور لالچ و حرص جیسے اثرات آئیں گے۔ پیسہ کمانا، لوٹنا، کوٹھی، مکان، کار، وسائل ،آسودگیاں چوبیس گھنٹے یہی بات ہوگی جنہیں سن سن کر ذہن بدلتا چلا جائے گا۔۔۔ اسی طرح راشیوں، کرپٹ لوگوں کی سنگت میں بیٹھیں گے تو چوبیس گھنٹے خیانت اور بددیانتی کا سن اور دیکھ کر شخصیت پر وہی اثرات ہوں گے۔۔۔ بدکاروں، نافرمانوں، غلیظ اور گندے لوگوں کی صحبت میں بیٹھیں گے تو چوبیس گھنٹے اسی کا تذکرہ ہو گا اور غیر محسوس طریقے سے اس کے اثرات پڑتے چلے جائیں گے۔۔۔ صالحین کی صحبت میں بیٹھیں گے تو ان کے اثرات شخصیت پر مرتب ہوتے چلے جائیں گے۔
نیک و بد میں سے کسی ایک صحبت کا انتخاب
یاد رکھیں! دو صحبتیں بیک وقت نہیں چلتیں۔ بری صحبت کو مکمل بند اور ترک کریں گے تو نیک صحبت کے اثرات کارگر ہوں گے۔اسی لیے سورۃ الفاتحہ میں ہدایت طلب کرنے کی دعا ان الفاظ میں سکھائی گئی۔ ارشاد فرمایا:
اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَo
ہمیں سیدھا راستہ دکھا۔
(الفاتحة، 1: 5)
اگلی آیت مبارکہ میں صراطِ مستقیم حاصل کرنے کا طریقہ بھی بتادیا۔ ارشاد فرمایا:
صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْهِمْo
اُن لوگوں کا راستہ جن پر تو نے اِنعام فرمایا۔
(الفاتحة، 1: 6)
یعنی سیدھی راہ چلنا ہے تو انعام یافتہ بندوں سے جڑ جائو، ان ہی کی راہ سیدھی راہ ہے۔ انعام یافتہ لوگوں کی راہ پر چلنے کے ساتھ ساتھ اگلی آیتِ کریمہ میں بیان فرمادیا کہ:
غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْهِمْ وَلاَ الضَّآلِّیْنَo
’’ان لوگوں کا (راستہ) نہیں جن پر غضب کیا گیا ہے اور نہ (ہی) گمراہوں کا۔‘‘
(الفاتحة، 1: 7)
اگر صرف انعام یافتہ بندوں اولیاء، انبیاء، شہداء، صالحین، صدیقین کے ساتھ جڑنے سے ہدایت مل جاتی تو یہ آیت کریمہ نازل نہ ہوتی۔اس اسلوب سے یہ واضح کرنا مقصود ہے کہ انعام یافتہ، اللہ والوں کی صحبت، سنگت، رفاقت اور اُن کے تعلق کا فائدہ صرف اُس صورت میں ہو گا جب اُن لوگوں کی صحبت اور سنگت کو بھی ختم کر دیں گے جن پر اللہ کا غضب نازل ہوا اور جو گمراہ ہیں۔ یہ دو چیزیں یعنی بری صحبت کا ترک کرنا اور نیک صحبت کو اختیار کرنا جب اکٹھے ہوں گے، تب جا کر ہدایت کی کُلیّت بنے گی اور اُس کے نتیجے میں ہدایت نصیب ہو گی۔
ہم pick and choose کرتے ہیں۔ ایک کام کرتے اور ایک چھوڑ دیتے ہیں، اس سے مطلوبہ نتائج نہیں آتے۔ قرآن مجید نے رُشد و ہدایت کو تقویٰ والوں کے ساتھ خاص کردیا اور تقویٰ کے حصول کی اوّلین شرط شک و شبہ کو ختم کرنا قرار دیا گیا ہے۔ ایمان کے باب میں، قرآن کے قرآن ہونے میں، اللہ کے پیغام کے حق ہونے میں یا اُس پیغامِ الٰہی کو لانے والے (جبرائیل علیہ السلام) کی صداقت میں یا اُسے ہم تک پہنچانے والے (رسول) کی صداقت میں، الغرض کسی بھی مرتبہ میںشک آ گیا تو متقی ہونا تو بڑی دور کی بات ہے، بندہ مومن بھی نہیں بن سکتا۔
اسی طرح تحریک منہاج القرآن کے کارکنان کو statement of the mission میں شک نہ ہو، جس چینل سے آپ تک یہ مشن پہنچا، اُس چینل کی صداقت اور ثقاہت پر شک نہ ہو۔ دونوں میں سے جس جگہ بھی شک آ گیا تو کارکن پرعزم، پریقین اور ثابت قدم کارکن نہیں بن سکتے۔اس لیے کہ کام کے لیے جو یقین مطلوب ہے، جس نے اطمینان، ثابت قدمی، پختگی، عزم اور لگن دینی تھی وہ ساری چیز شک و شبہ کی گرد میں دب کر رہ جائے گی۔ جب شک کی وجہ سے انسان ڈگمگا جائے تو ایمان، یقین، تقویٰ اور ہدایت الغرض سب کچھ رخصت ہوگیا۔ قرآن مجید نے تقویٰ کے مضمون کا مدار ’’لاَ رَیْبَ فِیْهِ‘‘ پر رکھا ہے یعنی سب سے پہلے ہر قسم کے شک اور ریب کی جڑ کاٹنا ہوگی۔
صحبت کی اقسام
ہم میں سے اکثریت یہ سمجھتی ہے کہ ہم بظاہر کسی بری صحبت اور سنگت میں مبتلا نہیں ہیں۔ اس سلسلہ میں یہ بات ذہن نشین رہے کہ صحبت کا معنیٰ آج کی دنیا میں بڑا وسیع ہو گیا ہے۔ صحبت کی پانچ اقسام ہیں:
- صحبتِ حسّی
- صحبتِ نظری
- صحبتِ سماعی
- صحبتِ فکری
- صحبتِ روحانی
پہلے وقتوں میں صرف جسمانی (physical) صحبت ہوتی تھی۔ اب ٹیکنالوجی کا دور ہے۔ ہر وہ چیز جو ہمارے ذہن، طبیعت، فہم، مزاج اور شخصیت پر غیر محسوس طریقے سے اثرات ڈال رہی ہو، وہ صحبت ہے۔ خواہ وہ صحبتِ حسّی ہو یا وجودی، خواہ وہ صحبتِ نظری ہو یا سماعی، خواہ وہ صحبتِ ذہنی و فکری ہو یا صحبتِ روحانی۔ کسی کے ساتھ online بات، text messages، بلاگز، عام گفتگو اور کتاب بھی صحبت ہی کی اقسام ہیں۔
اگر ہم کسی ایک ایسے شخص کی کتاب پڑھ رہے ہیں جو ملحد و بے دین ہے اور تشکیک میں مبتلا ہے، جسے یقین اور ثبات حاصل نہیں اور confused ہے، تو اُس کی کتاب پڑھنے والا بھی اس کتاب کے ذریعے صاحبِ کتاب کی صحبت میں ہے اور اُس کی فکر پڑھنے والے پر اثرانداز ہو رہی ہے۔
اسی طرح پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا، سوشل میڈیا بھی سب سے بڑی صحبتیں ہیں، جن کے ذریعے لوگ ایک دوسرے کے اثرات لے رہے ہیں۔ پہلا زمانہ تھا کہ لوگ ہزار ہا میل کا سفر سالوں اور مہینوں میں طے کر کے اولیائ، مشائخ، سلف صالحین کی صحبت میں جاتے تھے اور physically ان کی مجلس میں بیٹھتے تھے۔ وہ صحبتِ حسّی تھی۔ اس وقت اس کے سوا کوئی اور چینل نہیں تھے۔ اب پوری دنیا global village بن گئی ہے، جس کے باعث اب وہ صحبت صحبتِ معنوی ہو گئی ہے اور بہت زیادہ پُر اثر، effective اور influential ہے۔ اس لیے کہ اس میں صحبتِ نظری، صحبتِ فکری، صحبتِ سماعی سب صحبتیں مجتمع ہوگئیں اور یہ صحبتیں زیادہ طاقتور ہو گئی ہیں۔
ہمارا وہ دوست جو دین میں تشکیک رکھتا ہے، جس میں نافرمانی کا رجحان ہے، دین کی حمیت اور غیرت اُس کے اندر نہیں، دینی حدود اور اقدار کی پاسداری نہیں ہے، زبان بھی اچھی نہیں ہے، کلام، اخلاق، کردار پاکیزہ نہیں ہے تو اس کے یہ بد اثرات ہم پر بھی پڑیں گے۔ یہ چیزیں صحبتِ حسّی میں شمار ہوتی ہیں۔
دوسری طرف اگر ہم کسی سے محبت اور روحانی عقیدت رکھتے ہیں، اپنے دل، دماغ اور تعلق کو قلبی طور پر اُن سے متعلق رکھتے ہیں، ان کی تعلیمات کو سنتے اور ان کی پیروی کرتے ہیں تو ان کی محبت، تعلق اور اتباع ہماری شخصیت پر بھی اثرانداز ہوتی چلی جاتی ہیں۔ جس طرح سورج ہم سے کوسوں دور ہوتا ہے مگر اُس کی دھوپ، روشنی، شعاعیں ہر چیز ہم پر اثر انداز ہوتی ہیں، اسی طرح یہ دوستیاں اور صحبت بھی غیر محسوس انداز میں ہم پر اثر انداز ہوتی ہیں۔ پس اچھی صحبت و سنگت کو اختیار کرنے کے ساتھ ساتھ بری صحبت و سنگت کو ترک بھی کرنا ہوگا۔
سورۃ الفاتحہ کا پیغام واضح ہے کہ سیدھی راہ کی ہدایت اس وقت تک نہیں ملتی جب تک انعام یافتہ بندوں کی صحبت اور اُن کی راہ کی پیروی نہ کی جائے اور انعام یافتہ بندوں کی صحبت اور پیروی فائدہ نہیں دیتی اگر گمراہ لوگوں اور اللہ کے غضب کے حقدار لوگوں کی صحبت و سنگت اور اُن کے ساتھ تعلق کو ختم نہ کیا جائے۔ یہ سب چیزیں مشروط ہیں۔ بری صحبت ختم کریں گے تو اچھی صحبت کا فائدہ نصیب ہوگا۔ اس لیے کہ بری صحبت اور تشکیک زدہ لوگوں کی صحبت شکوک و شبہات پیدا کرتی ہے، استقامت، یقین اور پختگی کو کمزور کر دیتی ہے، اہم کو غیر اہم کر دیتی ہے اور ترجیحات تبدیل کر دیتی ہے۔ جونہی priorities change ہوئیں، اسی وقت انسان پھسل جاتا ہے، یقین میں کمزوری آجاتی ہے اور ایمان ڈگمگا جاتا ہے۔
اولیائے کرام کہتے ہیں کہ جس بندے کو دیکھیں کہ وہ رخصت اور تاویلات میں گیا، سمجھ لو کہ وہ پھسل گیا اور بہک گیا۔ ultimately اُس کی ہدایت کا پھل کھو جائے گا۔ اس لیے کہ آدمی آسانیاں پیدا کرنے کے لیے تاویلات کرتا ہے۔ احکامِ الٰہی سے جان چھڑانے کے لیے رخصتوں کی طرف طبیعت مائل ہوتی ہے۔ وہ احکام کی سختی برداشت نہیں کرنا چاہتا اور ان سے بھاگنا چاہتا ہے۔ رخصت اور تاویلات کی طرف جانے والے میں یقین اور ایمان کی کمزوری ہے اور اطاعت و اتباع کے ساتھ اُس کا تعلقِ محبت و رغبت کمزور ہے۔ ان سب چیزوں کی جڑ شک کا پیدا ہونا ہے۔ شک پہلے انسان کو ڈگمگاتا ہے پھر اُس کے یقین کو کمزور کرتا ہے، پھر فکر پر ضرب لگاتا ہے، پھر سوچ کو تقسیم کرتا ہے اور پھر اُس کی قوتِ عمل کو کمزور کرتا ہے۔ اس طرح تدریجاً (gradually) انسان کی پوری کی پوری شخصیت متاثر ہوتی ہے۔ اس لیے لاَ رَیْبَ فِیْهِ فرمانے کے معاً بعد هُدًی لِّلْمُتَّقِیْنَ فرمایا۔ گویا قرآن مجید نے اپنی ہدایت کی شرط ہی یہ قائم کی ہے کہ پہلے شک کی جڑ کاٹو۔ ایسا نہیں ہو سکتا کہ تم شک اور ارتیاب میں بھی رہو، ifs and buts میں رہو اور پھر ہدایت طلبی بھی کرو۔ اس طرح ہدایت نہیں ملتی۔
لہذٰا اگر چاہتے ہو کہ ہدایت ملے اور قرآن ہمیں اس کیفیت سے نکالے تو جن صحبتوں سے یقین ملنا ہے اُن کو اپنا لو اور جن صحبتوں نے شک، گمراہی اور تذبذب میں ڈالنا ہے، اُن کو کلیتاً ختم کر دو۔ اسی طرح شکوک و شبہات ختم ہو جائیں گے، نافرمانیوں کی طرف رغبت ختم ہوتی چلی جائے گی، رخصتوں اور تاویلات کی طرف ترجیح ختم ہوتی چلی جائے گی اور طبیعت میں تبدیلیاں آئیں گی۔
سوال یہ ہے کہ کیا ڈھیروں دوست رکھنا ضروری ہے؟ کیا ضروری ہے کہ لغو گو کی دوستی اور سنگت رکھی جائے؟ دوست تھوڑے رکھیں مگر ستھرے، نیک، صالح، مومن، متقی، اللہ اور اللہ کے رسولa کی تابعداری و وفاداری والے، پاکیزگی والے اور یقین والے دوست رکھیں۔ الحمدللہ تعالیٰ! تحریک منہاج القرآن کے کارکنان و رفقاء کو ایسی دوستی اور سنگت اس مصطفوی مشن میں ملتی ہے، یہ اللہ کا بہت بڑا فضل ہے۔ (جاری ہے)