نائن الیون کے سانحہ کے بعد دنیا بھر کی حکومتوں کو ایک نئے عالمی بیانیہ کے تحت اپنی امن پالیسی کو نئے خدوخال سے ہم آہنگ کرنا پڑا اور دنیا کو دہشتگردی و انتہا پسندی کے خاتمے کے ضمن میں نئی قانون سازی کے لیے سفارتی مہمات کا آغاز کرنا پڑا۔ نائن الیون کے بعد جنوبی ایشیاء میں بڑی بڑی تبدیلیاں رونما ہوئیں اور اس ایک واقعہ نے ہر ملک کو ’’امن امن‘‘ کی آوازیں لگانے پر مجبور کر دیا۔ اس صورت حال میں ایک تحریک اور ایک شخصیت ایسی بھی تھی جس نے نائن الیون کے سانحہ سے بہت پہلے دنیا کے چپے چپے کا سفر کیا اور اسلام کی تعلیمات کی روشنی میں امن کی اہمیت اجاگر کی۔یہ تحریک، تحریکِ منہاج القرآن تھی اور شخصیت شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کی تھی۔ نابغہ روزگار اور ویژنری شخصیات واقعات اور حادثات کے نتیجے میں اپنا لائحہ عمل نہیں بناتیں بلکہ وہ واقعات کے ظہور پذیر ہونے سے قبل خطرات کو بھانپ لیتی ہیں اور انسانیت کی ہر وقت رہنمائی کرتی ہیں۔
ذیل میں دہشت گردی کے خلاف اور قیام امن کے لیے شیخ الاسلام کی عالمگیر سطح پر کی جانے والی علمی و فکری کاوشوں کا ایک اجمالی جائزہ نذرِ قارئین ہے:
بین الاقوامی کانفرنس اوسلو (ناروے)
13 اگست 1999ء کو اوسلو میں بین الاقوامی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے دو ٹوک انداز میں اسلام کی’’ امن فلاسفی‘‘ پر اظہار خیال کرتے ہوئے فرمایا:
’’اسلام میں جس چیز کو قابلِ ذکر طور پر انتہائی اہمیت حاصل ہے وہ اوّل و آخر ابتدا تا انتہا سوائے امن کے اور کچھ نہیں۔ کوئی چیز جو امن کے خلاف، امن کے منافی، امن سے متصادم اور امن سے متضاد، ہو اس کا مطلقًا اسلامی تعلیمات سے کوئی سروکار نہیں۔ چاہے جو کوئی بھی ہو اگر اس کے مزاج اور کردار میں دہشت گردی یا انتہا پسندی کا مادہ ہے اور وہ انسانی، معاشرتی، عالمی امن کے لئے خطرے کا باعث ہے تو مطلق طور پر اس کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں اور وہ دین کا مخالف ہے۔‘‘
بین المذاہب سیمینار (لندن)
بین المذاہب رواداری کے حوالے سے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے 18 اکتوبر 2007ء کو رامفورڈ روڈ لندن میں بین المذاہب سیمینار سے اپنے خصوصی خطاب میں بین المذاہب ہم آہنگی کے فروغ کے حوالے سے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا:
’’اسلام وہ دین ہے جس میں ہر مذہب کا احترام اور ان کے مذہبی عقائد و شعار کی تقدیس کی جاتی ہے۔ اس لیے اسلام نہ صرف تمام مذاہب کی حقانیت کو تسلیم کرتا ہے بلکہ عملی طور پر ان مذاہب کے پیرو کاروں اور انبیائے کرام علیہم السلام کے احترام کا بھی درس دیتا ہے۔ اسلام تحمل و برداشت اور بین المذاہب ڈائیلاگ کو فروغ دینے کی تلقین کرتا ہے۔‘‘
انٹرنیشنل کانفرنس (گلاسگو)
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمدطاہر القادری نے 27 جولائی 2005ء کو گلاسکو (UK) میں ایک عظیم الشان کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا:
’’دہشت گردی اور دہشت گردوں کا کوئی مذہب نہیں ہوتا، وہ نہ تو مسلمان ہیں اور نہ یہودی و عیسائی۔ وہ کسی مذہب پر یقین نہیں رکھتے۔ دہشت گردی مذہب سے بیگانہ ہے بلکہ یہ خود ایک مذہب، کلچر اور طرزِ عمل کی صورت اختیار کرچکی ہے اور آسمانی نازل شدہ مذاہب پر یقین نہیں رکھتی۔ قرآن مجید ان فتنہ پردازوں کو مسلمان تسلیم نہیں کرتا۔ وہ نسلِ انسانی کے دشمن ہیں۔ باوجود اپنے طریقے، مذہب معاشرے یا زبان کے انہیں مسلمان تصور نہیں کیا جاسکتا۔‘‘
اسلام میں انسانی حقوق سیمینار (مانچسٹر)
فرغانہ انسٹی ٹیوٹ مانچسٹر کے زیر اہتمام ’’Islam on Peace, Integration & Human Rights‘‘ کے حوالے سے بین الاقوامی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے شیخ الاسلام نے بہت سی دیگر مثالوں کے علاوہ سیرت الرسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی روشنی میں اسلام کی اساس اور بنیاد کو واضح کیا۔ آپ نے فرمایا:
’’عرب معاشرہ تشدد، ظلم و وحشت اور سفاکی سے بھرپور معاشرہ تھا لیکن حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے لوگوں کو امن و سلامتی عام کرنے پر زور دیا۔‘‘
امریکن مسلم کونسل سے شیخ الاسلام کا خطاب
امریکن مسلم کونسل کے زیر اہتمام جنوری 2010ء میں ہوسٹن کے جنوب مغربی علاقے میں واقع ہلٹن ہوٹل میں ایک پروقار تقریب کا اہتمام کیا گیا۔ جس میں مسلم، عیسائی، یہودی، ہندو، بدھ مت اور دیگر مذاہب سے تعلق رکھنے والے مذہبی رہنمائوں اور ان کے پیروکاروں کی اکثریت نے خصوصی شرکت کی۔ اس تقریب میں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کو خصوصی طور پر مدعو کیا گیا۔ اس موقع پر آپ نے اسلام اور امن کے موضوع پر خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا:
’’مذہب کے نام پر دہشت گردی کرانے والے یہ لوگ اسلام کے دشمن ہیں اور ان کا عظیم مذہب اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔ اسلامی تعلیمات اور روایات واضح طور پر انتہا پسندی اور دہشت گردی کے خلاف ہیں اور ہمیں ان دہشت گردوں کا مکروہ چہرہ اور ان کے غلط افکار و نظریات سے عوام الناس کو محفوظ کرنے کے لئے جرأت مندانہ اقدامات کی ضرورت ہے۔‘‘
یونیورسٹی آف واروِک (Warwick) برطانیہ میں دہشت گردی کے خلاف سمر کیمپ
منہاج القرآن انٹرنیشنل برطانیہ کے زیراہتمام 7 اگست 2010ء کو Warwick یونیورسٹی میں دہشت گردی کے خلاف پہلے سمر کیمپ کے انعقاد کا مقصدمسلم نوجوانوں کو انتہا پسندانہ افکار و نظریات سے بچانااور روحانیت و اخلاقیات کو فروغ دینا تھا۔ مغربی میڈیا نے اس کیمپ کو برطانیہ میں دہشت گردی کے خلاف پہلا باقاعدہ کیمپ قرار دیا جو منہاج القرآن انٹرنیشنل کے پلیٹ فارم سے منعقد ہوا۔ اس کیمپ میں برطانیہ کے معروف ماہرین تعلیم، سیاستدان، حکومتی نمائندے، طلبائ، مختلف صحافی اور سکالرز نے خصوصی شرکت کی۔ اس کیمپ سے خطاب کرتے ہوئے شیخ الاسلام نے فرمایا:
’’انتہا پسندی اور دہشت گردی بیمار دماغوں کی آئینہ دار ہے، ایسے لوگوں کو اپنے خیالات تبدیل کرنا ہوں گے اور اپنی سوچوں کو اسلامی تعلیمات کے حقیقی رخ سے روشناس کرانا ہو گا۔‘‘
گلوبل پیس اینڈ یونٹی کانفرنس 2011ء
گلوبل پیس اینڈ یونٹی کانفرنس 2010ء لندن کے ایکسل سنٹر میں 24 اکتوبر 2010ء کو منعقد ہوئی، جس میں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری مہمان خصوصی تھے ۔ کانفرنس میں یوکے اور دنیا بھر سے مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد سکالرز، طلبہ، تھنک ٹینکس اور ماہرین شریک تھے۔
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے اس موقع پر جہاد کے موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے کہا:
’’قرآن مجید میں 35 مقامات پر جہاد کا تفصیلی ذکر کیا گیا ہے ۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ارشادات کی رو سے جہاد کے 5 مراحل ہیں، جن میں روحانی، علمی، معاشرتی و سماجی، سیاسی اور دفاعی مراحل شامل ہیں لیکن عجیب تماشہ ہے کہ نام نہاد جہادی پہلے چار بڑے مراحل کو نظر انداز کر کے اپنے انفرادی مفادات کی خاطر اسلام دشمنی میں آخری مرحلے کو پکڑ کر بیٹھے ہیں حالانکہ اس پر بھی عمل صرف دفاعی صورت میں کیا جاسکتا ہے جس کی اجازت کسی جماعت یا تنظیم کو نہیں بلکہ صرف حکومتِ وقت کو ہے اور اس کی شرائط میں بھی دشمن کی خواتین، بوڑھوں، بچوں، سکولوں اور ہسپتالوں کے تحفظ کی ضمانت شامل ہے۔‘‘
امریکن تھنک ٹینک USIP میں شیخ الاسلام کا خطاب
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے واشنگٹن ڈی سی (امریکہ) کے معروف اور ثقہ تھنک ٹینک United States Institute of Peace (USIP) میں ’’اسلام کے تصور جہاد‘‘ پر خصوصی خطاب کرتے ہوئے کہا:
’’اسلام کا تصورِ جہاد عالمی سطح پر قیامِ امن اور انسانیت کی فلاح و بہبود کی ضمانت دیتا ہے۔ جہاد کی پانچ اقسام ہیں:
- ’’جہاد بالنفس‘‘: اپنے نفس کی اصلاح کا ذریعہ ہے کہ اپنے نفس کی خواہشات کو قابو کرنے کے لئے روحانی تعلیمات کو عملی جامہ پہنایا جائے۔
- ’’جہاد بالعلم‘‘: پیش آمدہ مسائل کے حل کے لئے اجتہاد اس جہاد کے زمرے میںداخل ہے۔ اسلامی اصولوں کی ضروریات کے مطابق تشریح کرنا تاکہ اسلام جدید دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہوکر انسانیت کے لئے امن و محبت کا پیامبر بنا رہے۔
- تیسری قسم کا جہاد معاشرتی پہلو سے تعلق رکھتا ہے جسے ’’جہاد بالعمل‘‘ بھی کہہ سکتے ہیں۔ اس جہاد کے ذریعے لوگوں تک تعلیم کو پہنچانا اور انسانیت کی بہتری کے لئے کام سرانجام دیئے جاتے ہیں۔ یہ جہاد مجموعی طور پر معاشرہ کی مختلف برائیوں اور ناانصافی کے خاتمہ اور مثبت موثر تبدیلی کے لئے ہے۔
- جہاد کی چوتھی قسم ’’جہاد بالمال‘‘ ہے۔ اس کے ذریعے معاشرے میں معاشی ناہمواری کو دور کرنا مقصود ہے۔ انسانی فلاح و بہبود اور معاشرتی بہتری کے لئے خرچ کرنا جہاد بالمال ہے۔
- جہاد کی پانچویں قسم ’’جنگ کے خلاف دفاعی حکمتِ عملی‘‘ سے تعلق رکھتی ہے کہ اگر کوئی تم پر حملہ آور ہو تو اپنے دفاع کے لئے لڑنا جہاد ہے۔ اسی تصور کو اقوام متحدہ نے بھی اپنے آئین میں درج کرلیا ہے۔‘‘
جارج یونیورسٹی (واشنگٹن ڈی سی) میں شیخ الاسلام کا خصوصی خطاب
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے جب مارچ 2010ء میں دہشت گردی کے خلاف مبسوط تاریخی فتویٰ دیا تو امریکہ اور مغرب میں اسلام پر ایک اتھارٹی سمجھی جانے والی شخصیت ممتاز سکالر پروفیسر John Esposito نے امریکہ کی پولیٹیکل یونیورسٹیز میں سے سرفہرست یونیورسٹی جارج ٹائون یونیورسٹی میں خطاب کے لئے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کو دعوت دی۔ اس موقع پر شیخ الاسلام نے ’’تصور جہاد اور اسلام‘‘ کے موضوع پر خطاب کرتے ہوئے کہا:
’’جہاد عالمی قیامِ امن اور فلاح و بہبود کی ضمانت ہے۔ اسلام کا تصورِ جہاد بہت واضح ہے، بدقسمتی سے اسے بالکل غلط انداز میں پیش کیا گیا۔ بعض جہادی گروہوں نے اپنے ذاتی مفاد کے لئے جہاد کا غلط معنی و مفہوم دنیا کے سامنے پیش کیا۔ جس سے جہاد اور دہشت گردی کو خلط ملط کردیا گیا۔‘‘
ورلڈ اکنامک فورم میں شیخ الاسلام کا خطاب
ورلڈ اکنامک فورم کا سالانہ اجلاس اپنی نوعیت کا دنیا کا سب سے اہمیت کا حامل غیر سرکاری اجلاس کی حیثیت رکھتا ہے۔ جس میں دنیا بھر سے پہلی صف کی ملٹی نیشنل کمپنیز، دانشور، سیاسی شخصیات اور عالمی طاقتوں کے سربراہان مملکت شریک ہوتے ہیں۔ اس فورم نے تاریخ میں پہلی دفعہ اسلامی دنیا کے واحد نمائندہ سکالر کے طور پر شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کو سوئٹزر لینڈ کے شہر ڈیوس میں 26 جنوری 2011ء کو ’’دہشت گردی کی حقیقت‘‘ کے موضوع پر خطاب کے لئے خصوصی طور پر مدعو کیا۔
مسٹر John Chipman (ڈائریکٹر جنرل چیف ایگزیکٹو انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ فار سٹریٹیجک سٹڈیز) (IISS) نے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کے دہشت گردی کے خلاف تاریخی فتویٰ کا تعارف کرواتے ہوئے عالمی سطح پر اس کے اثرات کو بیان کیا۔
ورلڈ اکنامک فورم کے اجلاس میں شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے ’’The Reality of Terrorism‘‘ کے موضوع پر خطاب کرتے ہوئے کہا:
’’دہشت گردی نے عالمی سطح پر ترقی یافتہ اور ترقی پذیر معاشروں کی معیشت پر انتہائی منفی اثرات مرتب کئے ہیں۔ دہشت گردوں کا کوئی مذہب نہیں۔ دہشت گردی ایسی چیز نہیں جو اچانک ظہور پذیر ہو جائے بلکہ دہشت گردی کا ارتقائی عمل تنگ نظری اور انتہا پسندی سے ہو کر گزرتا ہے اور عسکریت پسند دہشت گردی کے عمل میں ایندھن کے طور پر استعمال ہوتے ہیں۔ تنگ نظری اور انتہا پسندی کے رویے فکری اور نظریاتی ہیں جو عسکریت پسندی اور دہشت گردی کے عمل کو جنم دیتے ہیں۔ دہشت گردی کے انسانیت کش عمل کو کسی بھی مذہب کے ساتھ منسوب کرنا درست عمل نہیں کیونکہ دنیا کا کوئی بھی مذہب انسانی جانوں کے قتل کی اجازت نہیں دیتا۔ اسلام تو ایک فرد کے قتل کو پوری انسانیت کا قتل قرار دیتا ہے۔
دہشت گردی ترقی یافتہ اور ترقی پذیر دونوں ممالک کی معیشت کے لئے زہرِ قاتل ثابت ہورہی ہے۔ اس کے سدِّ باب کے لئے ضروری ہے کہ ترقی پذیر ممالک کی غربت کو ختم کرنے کے لئے موثر اقدامات اٹھائے جائیں۔ انسانوں کو باہم قریب لانے کے لئے ضروری ہے کہ مذاہب کے مابین مکالمہ اور ہم آہنگی کو فروغ دیا جائے نیز موثر انداز میں معاشرتی ہم آہنگی کو فروغ دینے کے لئے Multiculturalism اور Integration کو بھی بروئے کار لاتے ہوئے عالمی سطح کے سیاسی تنازعات کو بھی ان کے حقیقی معنوں میں حل کیا جائے‘‘۔
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے دہشتگردی اور دہشتگرد نظریات کے خاتمے کیلئے ہر طبقہ ہائے فکر کے لوگوں کیلئے 46کتابوں پر مشتمل ’’امن نصاب‘‘ مرتب کر کے عظیم کارنامہ سرانجام دیا جسے مسلم و غیر مسلم معاشروں میں پذیرائی ملی۔ دنیا میں امن و سلامتی کے لیے منہاج القرآن انٹرنیشنل اور شیخ الاسلام کی یہ کاوشیں آج بھی جاری و ساری ہیں۔