اللہ رب العزت کی رحمت و بخشش کے دروازے یوں تو ہر وقت ہر کسی کے لیے کھلے رہتے ہیں۔ ’’لَاتَقْنَطُوْا مِنْ رَحْمَةِ اللّٰه‘‘ (اللہ کی رحمت سے ناامید مت ہو) کی فضائوںمیں رحمت الٰہی کا دریا ہمہ وقت موجزن رہتا ہے۔ اس کی رحمت کا سائبان ہر وقت اپنے بندوں پر سایہ فگن رہتا ہے اور مخلوق کو اپنے سایہ عاطفت میں لیے رکھنا اسی ہستی کی شانِ کریمانہ ہے۔ اس غفّار، رحمن و رحیم پروردگار نے اپنی اس ناتواں مخلوق پر مزید کرم فرمانے اور اپنے گناہ گار بندوں کی لغزشوں اور خطائوں کی بخشش و مغفرت اور مقربین بارگاہ کو اپنے انعامات سے مزید نوازنے کے لیے بعض نسبتوں کی وجہ سے کچھ ساعتوں کو خصوصی برکت و فضیلت عطا فرمائی جن میں اس کی رحمت و مغفرت اور عطائوں کا سمندر ٹھاٹھیں مار رہا ہوتا ہے اور جنہیں وہ خاص قبولیت کے شرف سے نوازتا ہے۔
ان خاص لمحوں، خاص ایام اور خاص مہینوں میں جن کو یہ فضیلت حاصل ہے ربّ کائنات کی رحمت کی برسات معمول سے بڑھ جاتی ہے۔ ان خصوصی ساعتوں میں ماهِ شعبان المعظم کو بالعموم اور 15 شعبان المعظم کی رات یعنی ’’شبِ برأت‘‘ کو خاص اہمیت و فضیلت حاصل ہے۔
شعبان المعظم کی فضیلت
شعبان المعظم اسلامی سال کا آٹھواں مہینہ ہے جو دو مبارک مہینوں رجب اور رمضان کے درمیان میں آتا ہے جس سے اس کی فضیلت میں مزید اضافہ ہوتا ہے۔
1۔ حضور غوث الاعظم الشیخ عبدالقادر جیلانی رَحِمہ اﷲ ’غنیۃ الطالبین‘ میں بیان فرماتے ہیں:
’’لفظ شعبان پانچ حرفوں کا مجموعہ ہے: {ش، ع، ب، الف اور ن} ’شین‘ شرف سے، ’عین‘ علو، عظمت (بلندی) سے، ’باء‘ بِر (نیکی اور تقویٰ) سے، ’الف‘ اُلفت (اور محبت) سے اور ’نون‘ نور سے ماخوذ ہے۔اس مہینے میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے بندے کو یہ چار چیزیں عطا ہوتی ہیں۔ یہ وہ مہینہ ہے جس میں نیکیوں کے دروازے کھل جاتے ہیں اور برکات کا نزول ہوتا ہے گناہ گار چھوڑ دیے جاتے ہیں اور برائیاں مٹا دی جاتی ہیں اور مخلوق میں سب سے افضل اور بہترین ہستی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ بے کس پناہ میں کثرت سے ہدیہ درود و سلام بھیجا جاتا ہے۔‘‘
2۔ امام قسطلانی نے ’المواہب اللدنیہ‘ میں ایک لطیف بات کہی ہے۔ فرماتے ہیں:
إِنَّ شَهْرَ شَعْبَان شَهْرُ الصَّلَاةِ عَلٰی رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله علیه وآله وسلم، لِأَنَّ آیَةَ الصَّلَاةِ یَعْنِي: اِنَّ ﷲَ وَمَلٰٓئِکَتَهٗ یُصَلُّوْنَ عَلَی النَّبِیِّ (الأحزاب، 33/56) نَزَلَتْ فِیْهِ.
’’بے شک شعبان رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود و سلام بھیجنے کا مہینہ بھی ہے، اس لیے کہ یہ وہ مہینہ ہے جس میں درود و سلام کی آیت نازل ہوئی۔‘‘
(قسطلانی، المواهب اللدنیة، 2/650)
یہ آیت ماهِ شعبان میں نازل ہوئی تو شعبان کا تعلق حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے درود و سلام کے ساتھ بھی ہے اور اللہ تعالیٰ کی بخشش و مغفرت اور توبہ کے ساتھ بھی ہے۔ لہٰذا اس ماہ اور شب برأت کی عبادت سے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ سے بھی قربت نصیب ہوتی ہے اور اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں بھی قرب نصیب ہوتا ہے۔
3۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے شعبان کو اپنا مہینہ قرار دیا اور اس ماہ کی حرمت و تعظیم کو اپنی حرمت و تعظیم قرار دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس ماہ میں کثرت سے روزے رکھتے اور دیگر اَعمال صالحہ بجالاتے۔
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
شَهْرُ رَمَضَانَ شَهْرُ اﷲِ، وَشَهْرُ شَعْبَانَ شَهْرِي، شَعْبَانُ الْمُطَهِّرُ وَرَمَضَانُ الْمُکَفِّرُ.
’’ماهِ رمضان اﷲ تعالیٰ کا مہینہ ہے، اور ماهِ شعبان میرا مہینہ ہے، شعبان (گناہوں سے) پاک کرنے والا ہے اور رمضان (گناہوں کو) ختم کر دینے والا مہینہ ہے۔‘‘
(هندی، کنز العمال، 8/217، رقم: 23685)
4۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ماهِ رجب کی آمد پر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یوں فرمایا کرتے:
اَللّٰهُمَّ، بَارِکْ لَنَا فِي رَجَبٍ، وَشَعْبَانَ، وَبَلِّغْنَا رَمَضَانَ.
’’اے اللہ! ہمارے لیے رجب اور شعبان میں برکتیں نازل فرما اور رمضان ہمیں نصیب فرما۔‘‘
(طبرانی، المعجم الأوسط، 4/189، رقم: 3939)
5۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:
کَانَ أَحَبُّ الشُّهُورِ إِلٰی رَسُوْلِ اﷲِ صلی الله علیه وآله وسلم أَنْ یَصُوْمَهٗ شَعْبَانَ، ثُمَّ یَصِلُهٗ بِرَمَضَانَ.
’’رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تمام مہینوں میں سے شعبان کے روزے رکھنا زیادہ محبوب تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم شعبان (کے روزوں) کو رمضان المبارک کے ساتھ ملا دیا کرتے تھے۔‘‘
(أحمد بن حنبل، المسند، 6/188، رقم: 25589)
6۔ ماهِ شعبان کی اہمیت و فضیلت کا اس امر سے بھی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اس مہینے میں بندوں کے اَعمال اﷲتعالیٰ کے حضور پیش کیے جاتے ہیں۔ حضرت اُسامہ بن زید رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت اقدس میں عرض کیا: یا رسول اللہ! میں آپ کو سب مہینوں سے زیادہ شعبان المعظم کے مہینے میں روزے رکھتے دیکھتا ہوں۔ (اس کی کیا وجہ ہے؟) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
ذٰلِکَ شَهْرٌ، یَغْفُلُ النَّاسُ عَنْهُ، بَیْنَ رَجَبٍ وَرَمَضَانَ، وَهُوَ شَهْرٌ تُرْفَعُ فِیْهِ الْأَعْمَالُ إِلٰی رَبِّ الْعَالَمِیْنَ فَأَنَا أُحِبُّ أَنْ یُرْفَعَ عَمَلِي وَأَنَا صَائِمٌ.
’’یہ وہ (مقدس) مہینہ ہے جس سے لوگ غافل اور سست ہیں۔ رجب اور رمضان المبارک کے درمیان یہ وہ مہینہ ہے جس میں (بندوں کے) اَعمال رب العالمین کے حضور لے جائے جاتے ہیں۔ لہٰذا میں چاہتا ہوں کہ میرے اعمال اس حال میں اُٹھائے جائیں کہ میں روزہ سے ہوں۔‘‘
(نسائی، السنن، کتاب الصیام، باب صوم النبي داؤد، 4/201، رقم: 2357)
اس حدیث مبارکہ میں خود حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس ماہ کی فضیلت کا ایک راز یہ بتا دیا کہ شعبان میں ہمارے اَعمال اﷲ تعالیٰ کی بارگاہ میں پیش کیے جاتے ہیں۔ جو شخص اس مہینے میں جتنے زیادہ اعمال صالحہ بجا لاتا ہے، زیادہ عبادات کرتا ہے، روزے رکھتا ہے، صدقات و خیرات کرتا ہے۔ اسے اتنی ہی اﷲ تعالیٰ کی رحمت و مغفرت نصیب ہوتی ہے اور اسی قدر بارگاہِ الٰہی سے قرب اور مقبولیت نصیب ہوتی ہے۔
سببِ فضیلتِ شعبان المعظم: شبِ برأت
اس بات کو سمجھنا ہوگا کہ آخر کار کوئی سبب اور وجہ تو ہوگی اور کوئی تو خیر اور برکت کا پہلو ایسا ہوگا جس بناء پر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ماہِ شعبان کو ایسی فضیلت و بزرگی عطا فرمائی؟
اس ماہِ مبارک کی فضیلت کا سبب اس ماہ کی 15 ویں رات ہے جسے ’’شب برأت‘‘ کے نام سے موسوم کیا جاتاہے۔ حضرت عطاء بن یسار سے منقول ہے:
’’لیلۃ القدر کے بعد کوئی رات ایسی نہیں جو نصف شعبان کی رات سے افضل ہو۔‘‘
(ابن رجب حنبلی، لطائف المعارف/ 138)
اس فضیلت و بزرگی والی رات کے کئی نام ہیں:
- لیلۃ المبارکۃ: برکتوں والی رات
- لیلۃ البراء ۃ: دوزخ سے بری ہونے اور آزادی ملنے کی رات
- لیلۃ الصَّک: دستاویز والی رات
- لیلۃ الرحمۃ: خاص رحمتِ الہٰی کے نزول کی رات
(زمخشری، الکشاف، 4/272)
عرفِ عام میں اسے شبِ برأت یعنی دوزخ سے نجات اور آزادی کی رات بھی کہتے ہیں۔ لفظ شبِ برأت اَحادیث مبارکہ کے الفاظ ’’عتقاء من النار‘‘ کا با محاورہ اُردو ترجمہ ہے۔ اس رات کو یہ نام خود رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عطا فرمایا کیوں کہ اس رات رحمتِ خداوندی کے طفیل لاتعداد انسان دوزخ سے نجات پاتے ہیں۔
شبِ برأت کے پانچ خصائص
شبِ برأت کو اﷲ تعالیٰ نے پانچ خاص صفات عطا فرمائیں۔ جنہیں کثیر ائمہ نے بیان کیا فرماتے ہیں:
1۔ حکمت والے امور کے فیصلہ کی رات
اس شب کی پہلی خاصیت یہ ہے کہ اس شب میں ہر حکمت والے کام کا فیصلہ کردیا جاتا ہے۔ اﷲ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:
فِیْهَا یُفْرَقُ کُلُّ أَمْرٍ حَکِیْمٍ.
’’اس (رات) میں ہر حکمت والے کام کا (جدا جدا) فیصلہ کر دیا جاتاہے۔‘‘
(الدخان: 1)
2۔ عبادت کی فضیلت
اس رات کی دوسری خاصیت یہ ہے کہ اس رات میں عبادت کو ایک خاص فضیلت حاصل ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
مَنْ صَلّٰی فِي هٰذِهِ اللَّیْلَةِ مِائَةَ رَکْعَةٍ أَرْسَلَ اﷲُ إِلَیْهِ مِائَةَ مَلَکٍ ثَـلَاثُوْنَ یُبَشِّرُوْنَهٗ بِالْجَنَّةِ، وَثَـلَاثُوْنَ یُؤَمِّنُوْنَهٗ مِنْ عَذَابِ النَّارِ، وَثَـلَاثُوْنَ یَدْفَعُوْنَ عَنْهُ آفَاتِ الدُّنْیَا، وَعَشَرَۃٌ یَدْفَعُوْنَ عَنْهُ مَکَایِدَ الشَّیْطَانِ.
’’اس رات میں جو شخص سو رکعات نماز ادا کرتاہے، اﷲ تعالیٰ اس کی طرف سو (100) فرشتے بھیجتا ہے۔ (جن میں سے) تیس فرشتے اسے جنت کی خوشخبری دیتے ہیں۔ تیس فرشتے اسے آگ کے عذاب سے محفوظ رکھتے ہیں۔ تیس فرشتے آفاتِ دنیاوی سے اس کا دفاع کرتے ہیں۔ اور دس فرشتے اسے شیطانی چالوں سے بچاتے ہیں۔‘‘
3۔ رحمتِ الٰہی کے نزول کی رات
اس رات کی تیسری خاصیت یہ ہے کہ اس میں رحمتِ الٰہی کا نزول ہوتا ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
إِنَّ ﷲَ یَرْحَمُ أُمَّتِي فِي هٰذِهِ اللَّیْلَةِ بِعَدَدِ شَعْرِ أَغْنَامِ بَنِي کَلْبٍ.
’’یقینا اﷲ تعالیٰ اس رات بنو کلب کی بکریوں کے بالوں کی تعداد کے برابر میری اُمت پر رحم فرماتا ہے۔‘‘
4۔ گناہوں کی بخشش اور معافی کی رات
اس رات کی چوتھی خاصیت یہ ہے کہ یہ گناہوں کی بخشش اور معافی کے حصول کی رات ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
إِنَّ ﷲَ تَعَالٰی یَغْفِرُ لِجَمِیْعِ الْمُسْلِمِیْنَ فِي تِلْکَ اللَّیْلَةِ، إِلَّا لِکَاهِنٍ، أَوْ مُشَاحِنٍ، أَوْ مُدْمِنِ خَمْرٍ، أَوْ عَاقٍّ لِلْوَالِدَیْنِ، أَوْ مُصِرٍّ عَلَی الزِّنَا.
’’بے شک اس رات اﷲ تعالیٰ تمام مسلمانوں کی مغفرت فرما دیتا ہے، سوائے جادو ٹونہ کرنے والے، بغض و کینہ رکھنے والے، شرابی، والدین کے نافرمان اور بدکاری پر اصرار کرنے والے کے۔‘‘
5۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مکمل شفاعت عطا فرمائے جانے کی رات
اس رات کی پانچویں خاصیت یہ ہے کہ اس رات اﷲ تعالیٰ نے اپنے رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مکمل شفاعت عطا فرمائی۔ اور وہ اس طرح کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے شعبان کی تیرھویں رات اپنی امت کے لیے شفاعت کا سوال کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تیسرا حصہ عطا فرمایا گیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے شعبان کی چودھویں رات یہی سوال کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دو تہائی حصہ عطا کیا گیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے شعبان کی پندرہویں رات سوال کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تمام شفاعت عطا فرما دی گئی، سوائے اس شخص کے جو مالک سے بدکے ہوئے اونٹ کی طرح (اپنے مالک حقیقی) اﷲ تعالیٰ سے دور ہو جاتا ہے (یعنی جو مسلسل نافرمانی پر مصر ہو)۔
(زمخشری، الکشاف، 4/272-273)
شبِ برأت سرانجام پانے والے امورِ حکمت
شب برأت رحمتِ خداوندی کے طفیل لا تعداد انسان دوزخ سے نجات پاتے ہیں۔ اس رات کو اللہ تعالیٰ غروبِ آفتاب کے وقت سے ہی (اپنی شان کے لائق) آسمانِ دنیا پر نزول فرماتا ہے۔
1۔ اُم المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں:
’’ایک رات میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو (خواب گاہ میں) نہ پایا تو میں (آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تلاش میں) نکلی۔ کیا دیکھتی ہوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جنت البقیع میں ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: کیا تجھے خوف ہے کہ اللہ اور اس کا رسول تیرے ساتھ نا انصافی کریں گے؟ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! میں نے سوچا شاید آپ کسی دوسری زوجہ کے ہاں تشریف لے گئے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
إِنَّ ﷲَ عَزَّ وَجَلَّ یَنْزِلُ لَیْلَةَ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ إِلَی السَّمَاءِ الدُّنْیَا، فَیَغْفِرُ لِأَکْثَرَ مِنْ عَدَدِ شَعْرِ غَنَمِ کَلْبٍ.
’’اللہ تعالیٰ پندرہویں شعبان کی رات کو (اپنی شان کے لائق) آسمانِ دنیا پر نزول فرماتا ہے اور قبیلہ بنو کلب کی بکریوں کے بالوں کی تعداد سے بھی زیادہ لوگوں کی مغفرت فرماتا ہے۔‘‘
(أحمد بن حنبل، المسند، 6/238، رقم: 26060)
2۔ دوسری روایت میں ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت عائشہ سے فرمایا کہ اے عائشہ! تمھیں معلوم ہے کہ شعبان کی پندرہویں شب میں کیا ہوتا ہے؟ تو انہوں نے عرض کیا: (یارسول اللہ!) اس رات میں کیا ہوتا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
فِیْهَا أَنْ یُکْتَبَ کُلُّ مَوْلُوْدٍ مِنْ مَوْلُوْدِ بَنِي آدَمَ فِي هٰذِهِ السَّنَةِ، وَفِیْهَا أَنْ یُکْتَبَ کُلُّ هَالِکٍ مِنْ بَنِي آدَمَ فِي هٰذِهِ السَّنَةِ، وَفِیْهَا تُرْفَعُ أَعْمَالُهُمْ، وَفِیْهَا تَنْزِلُ أَرْزَاقُهُمْ.
’’اس رات سال میں جتنے بھی لوگ پیدا ہونے والے ہیں سب کے نام لکھ دیے جاتے ہیں اور جتنے لوگ فوت ہونے والے ہیں ان سب کے نام بھی لکھ دیے جاتے ہیں اور اس رات میں لوگوں کے (سارے سال کے) اَعمال اٹھالیے جاتے ہیں اور اسی رات میں لوگوں کی روزی مقرر کی جاتی ہے۔‘‘
(بیهقی، الدعوات الکبیر، 2/145)
شبِ برأت میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے معمولاتِ مبارکہ
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس رات کو جو خاص عمل فرماتے، ذیل میں ان کو بیان کیا جارہا ہے:
1۔ کثرتِ دعا اور گریہ و زاری
اس رات میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کثرت سے دعائیں کرتے اور اﷲ تعالیٰ کی بارگاہ میں گریہ کناں ہوتے تھے۔ اُم المؤمنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ شعبان المعظم کی 15 ویں رات آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے سجدے میں یہ دعا کر رہے تھے:
سَجَدَ لَکَ خَیَالِي وَسَوَادِي، وَآمَنَ بِکَ فُؤَادِي، فَهٰذِهٖ یَدِي وَمَا جَنَیْتُ بِهَا عَلٰی نَفْسِي، یَا عَظِیْمُ، یُرْجٰی لِکُلِّ عَظِیْمٍ، یَا عَظِیْمُ، اغْفِرِ الذَّنْبَ الْعَظِیْمَ، سَجَدَ وَجْهِي لِلَّذِي خَلَقَهٗ وَشَقَّ سَمْعَهٗ وَبَصَرَهٗ.
’’(اے اللہ!) میرے خیال اور باطن نے تجھے سجدہ کیا، تجھ پر میرا دل ایمان لایا، یہ میرا ہاتھ ہے اور میں نے اس کے ذریعے اپنی جان پر ظلم نہیں کیا، اے عظیم! ہر عظیم سے امید باندھی جاتی ہے، اے عظیم! بڑے گناہوں کو بخش دے۔ میرے چہرے نے اس ذات کو سجدہ کیا جس نے اس کی تخلیق کی اور اس کی سمع و بصر کی قوتوں کو جدا جدا بنایا۔‘‘
پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنا سرِ انور اٹھایا اور دوبارہ سجدے میں گر گئے اور بارگاہِ الٰہی میں عرض کرنے لگے:
أَعُوْذُ بِرِضَاکَ مِنْ سَخَطِکَ، وَأَعُوْذُ بِعَفْوِکَ مِنْ عِقَابِکَ، وَأَعُوْذُ بِکَ مِنْکَ، لَا أُحْصِي ثَنَائً عَلَیْکَ أَنْتَ کَمَا أَثْنَیْتَ عَلٰی نَفْسِکَ، أَقُوْلُ کَمَا قَالَ أَخِي دَاوُدُ، أَعْفُرُ وَجْهِي فِي التُّرَابِ لِسَیِّدِي، وَحَقٌّ لَهٗ أَنْ یُسْجَدَ.
’’(اے اللہ!) میں تیری رضا کے ذریعے تیری ناراضگی سے پناہ مانگتا ہوں، تیرے عفو کے ذریعے تیرے قہر سے پناہ مانگتا ہوں اور میں تیرے ذریعے تجھ ہی سے (یعنی تیری پکڑ سے) پناہ مانگتا ہوں، میں اس طرح تیری ثنا کا حق ادا نہیں کر سکتا جیسا کہ تو نے خود اپنی ثنا بیان کی ہے، میں ویسا ہی کہتا ہوں جیسے میرے بھائی حضرت داؤد نے کہا، میں اپنا چہرہ اپنے مالک کے سامنے خاک آلود کرتا ہوں، اور وہ حق دار ہے کہ اس کو سجدہ کیا جائے۔‘‘
پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنا سرِ انور اٹھایا اور عرض کیا:
اَللّٰهُمَّ، ارْزُقْنِي قَلْبًا تَقِیًّا مِنَ الشَّرِّ نَقِیًّا لَا جَافِیًا وَلَا شَقِیًّا.
’’اے اللہ! مجھے ایسا دل عطا فرما جو ہر شر سے پاک، صاف ہو، نہ بے وفا ہو اور نہ بدبخت ہو۔‘‘
(بیهقي، شعب الإیمان، 3/385، رقم/3838)
2۔ شبِ برأت کو جاگنا اور صبح روزہ رکھنا
حضرت علی ابن ابی طالب رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
إِذَا کَانَتْ لَیْلَةُ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ، فَقُوْمُوْا لَیْلَهَا وَصُوْمُوْا نَهَارَهَا، فَإِنَّ ﷲَ یَنْزِلُ فِیهَا لِغُرُوْبِ الشَّمْسِ إِلٰی سَمَاءِ الدُّنْیَا، فَیَقُوْلُ: أَلَا مِنْ مُسْتَغْفِرٍ لِي فَأَغْفِرَ لَهٗ، أَلَا مُسْتَرْزِقٌ فَأَرْزُقَهٗ، أَلَا مُبْتَلًی فَأُعَافِیَهٗ، أَلَا کَذَا أَلَا کَذَا حَتّٰی یَطْلُعَ الْفَجْرُ.
’’جب شعبان کی پندرہویں رات ہو تو اس رات کو قیام کرو اور اس کے دن میں روزہ رکھو، کیونکہ اللہ تعالیٰ اس رات سورج غروب ہوتے ہی (اپنی شان کے لائق) آسمان دنیا کی طرف متوجہ ہو جاتا ہے اور فرماتا ہے: کیا کوئی مجھ سے مغفرت طلب کرنے والا نہیں کہ میں اس کی مغفرت کروں؟ کیا کوئی مجھ سے رزق طلب کرنے والا نہیں کہ میں اسے رزق دوں؟ کیا کوئی مبتلائے مصیبت نہیں کہ میں اُسے عافیت عطا کر دوں؟ کیا کوئی ایسا نہیں؟ کوئی ایسا نہیں؟ (اسی طرح ارشاد ہوتا رہتا ہے) یہاں تک کہ فجر طلوع ہو جاتی ہے۔‘‘
( سنن ابن ماجه، باب ما جاء في لیلة النصف من شعبان، 1/444، رقم: 1388)
3۔ قبرستان جانا اور جمیع مسلمانوں کیلئے بخشش کی دعا کرنا
مسلمانوں کو چاہیے کہ اس رات میں اپنے گناہوں پر بھی توبہ کریں اور اپنے والدین، اساتذہ و رشتہ داروں کے لیے بھی اِستغفار کریں اور یہ عمل رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنتِ مبارکہ سے بھی ثابت ہے۔
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے مروی طویل حدیث مبارکہ بیان ہو چکی جس میں آپ نے بیان فرمایا:
’’حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رات کے کسی حصے میں اچانک ان کے پاس سے اٹھ کر کہیں تشریف لے گئے۔ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جنت البقیع میں مومنین ومومنات اور شہداء کے لیے بخشش و استغفار کی دعا کرتے پایا۔‘‘
اس حدیث مبارکہ سے تین باتیں ثابت ہوئیں:
- شبِ برأت کو اُٹھ کر عبادت کرنا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت ہے۔
- آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بطورِ خاص صرف عبادت نہیں کی بلکہ اس رات مدینہ منورہ کے قبرستان جنت البقیع بھی تشریف لے گئے۔
- قبرستان جانا اور وہاں تمام مسلمانوں کے لیے بخشش و مغفرت کی دعا کرنا بھی سنت ہے۔
شعبان کی پندرہویں شب کے بارے میں وارد ہونے والی اَحادیث مبارکہ کے مطالعہ سے ہمیں پتا چلتا ہے کہ اس مقدس رات قبرستان جانا، کثرت سے اِستغفار کرنا، شب بیداری اور کثرت سے نوافل ادا کرنا اور اس دن روزہ رکھنا رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے معمولاتِ مبارکہ میں سے تھا۔
شبِ برأت کے اعمال اور دعائیں
مذکورہ بالا دعائوں کے ساتھ ساتھ اس رات درج ذیل دعا پڑھنا بھی مستحب ہے:
1. اَللّٰهُمَّ إِنَّکَ عَفُوٌّ کَرِیْمٌ، تُحِبُّ الْعَفْوَ فَاعْفُ عَنِّي.
’’اے اللہ! تُو بہت معاف کرنے والا اور کرم فرمانے والا ہے۔ عفو و درگزر کو پسند کرتا ہے پس مجھے معاف فرما دے۔‘‘
(ترمذی، السنن، کتاب الدعوات، 5/534، رقم/3513)
2۔ شعبان کی 15 ویں شب میں سورۃ بقرہ کا آخری رکوع اکیس مرتبہ پڑھنا امن و سلامتی اور حفاظت جان و مال کے لیے بہت مفید ہے۔
3۔ فراخی رزق کے لیے دعا: امام غزالی اِحیاء علوم الدین میں فرماتے ہیں کہ شبِ برأت کی رات لوگ یہ دعا (کثرت سے) پڑھتے ہیں:
صحابی رسول حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: جو بندہ یہ دعا پڑھے اللہ تعالیٰ ضرور اس کی معیشت (رزق) میں وسعت عطا فرماتا ہے۔
{(اَللّٰهُمَّ) یَا ذَا الْمَنِّ، وَلَا یُمَنُّ عَلَیْکَ، یَا ذَا الْجَلَالِ وَالإِکْرَامِ، یَا ذَا الطَّوْلِ، لَا اِلٰهَ اِلَّا اَنْتَ، ظَهْرُ الاَّجِئِیْنَ، وَجَارُ الْمُسْتَجِیْرِیْنَ، وَمَأْمَنُ الْخَائِفِیْنَ، (اَللّٰهُمَّ،) إِنْ کُنْتَ کَتَبْتَنِي فِي أُمِّ الْکِتَبِ عِنْدَکَ شَقِیًّا فَامْحُ عَنِّي اسْمَ الشَّقَاءِ۔ وَأَثْبِتْنِي عِنْدَکَ سَعِیْدًا، وَإِنْ کُنْتَ کَتَبْتَنِي فِي أُمِّ الْکِتَابِ مَحْرُوْمًا مُقَتَّرًا عَلَيَّ رِزْقِي فَامْحُ عَنِّي، حِرْمَانِي وَتَقْتِیْرِ رِزْقِي، وَاثْبِتْنِي عِنْدَکَ سَعِیْدًا مُوَفَّقًا لِلْخَیْرِ، فَإِنَّکَ تَقُوْلُ فِي کِتَابِکَ {یَمْحُوا اﷲُ مَا یَشَآءُ وَیُثْبِتُج وَعِنْدَهٗٓ اُمُّ الْکِتٰبِ.}
’’(اے اللہ!) اے احسان کرنے والے کہ تجھ پر احسان نہیں کیا جاتا! اے بڑی شان وشوکت والے! اے فضل والے! تیرے سوا کوئی معبود نہیں، تو پریشان حالوں کا مددگار ہے، پناہ مانگنے والوں کو پناہ دینے والا ہے اور خوفزدوں کو امان دینے والا ہے۔ (اے اللہ!) اگر تو مجھے اپنے پاس اُمُّ الکتاب (لوح محفوظ) میں شقی (بدبخت) لکھ چکا ہے، تو (اے اللہ!) میرا نام بدبختوں میں سے مٹا دے اور مجھے اپنے پاس سعادت مند لکھ دے۔ اگر تو مجھے اپنے پاس اُمُّ الکتاب (لوح محفوظ) میں محروم، رزق میں تنگی دیا ہوا لکھ چکا ہے، تو (اے اللہ!) مجھ سے میری محرومی اور تنگی رزق کو دور فرما دے اور (اپنے فضل سے) مجھے اپنے پاس اُمُّ الکتاب میں مجھے خوش بخت اور بھلائیوں کی توفیق دیا ہوا ثَبت (تحریر) فرما دے۔بے شک تو اپنی کتاب (قرآن مجید) میں فرماتا ہے:{اﷲ جس (لکھے ہوئے) کو چاہتا ہے مٹا دیتا ہے اور (جسے چاہتا ہے) ثبت فرما دیتا ہے، اور اسی کے پاس اصل کتاب (لوحِ محفوظ) ہے}۔‘‘
(ابن ابی شیبة، المصنف، 6/68، رقم/29530)
4۔ صلاۃ الخیر (شب برأت کی نماز): شبِ برأت میں ایک سو رکعات (نفل) نماز اس طرح ادا کی جائے کہ اس میں سورۃ فاتحہ کے بعد ایک ہزار مرتبہ سورۃ اِخلاص {قُلْ هُوَ اﷲُ اَحَدٌ} پڑھی جائے۔ (یعنی ہر رکعت میں دس بار سورۃ اِخلاص پڑھیں گے۔) اس نماز کو ’صلوٰۃ الخیر‘ کہا جاتا ہے۔ اس نماز کی بہت زیادہ برکت ہے۔ پہلے زمانے کے بزرگ یہ نماز باجماعت ادا کرتے تھے اور اس کے لیے جمع ہوتے تھے اس کی فضیلت زیادہ اور ثواب بے شمار ہے۔ حضرت حسن بصری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ نے فرمایا:
’’مجھ سے تیس صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے بیان فرمایا کہ جو شخص شبِ برأت کی رات یہ نماز پڑھے، اللہ تعالیٰ اس کی طرف ستر بار (نظرِ) رحمت فرماتا ہے اور ہر نظر کے بدلے اس کی ستر حاجات پوری کرتا ہے۔ سب سے کم درجے کی حاجت مغفرت ہے۔‘‘
(عبد القادر الجیلانی، غنیة الطالبین/450)
شبِ برأت کا پیغام
شبِ برأت کو جب رحمت الٰہی کا سمندر طغیانی پہ ہو تو ہمیں بھی خلوص دل سے توبہ و استغفار کرنا چاہیے مگر یہ کس قدر بدقسمتی کی بات ہے کہ شبِ برأت کی اس قدر فضیلت و اہمیت اور برکت وسعادت کے باوجود ہم یہ مقدس رات بھی توہمات اور فضول ہندوانہ رسومات کی نذر کر دیتے ہیں اور اس رات میں بھی افراط و تفریط کا شکار ہو کر اسے کھیل کود اور آتش بازی میں گزار دیتے ہیں۔ من حیث القوم آج ہم جس ذلت و رسوائی، بے حسی، بدامنی، خوف و دہشت گردی اور بے برکتی کی زندگی بسر کر رہے ہیں اس سے چھٹکارے اور نجات کی فقط ایک ہی راہ ہے اور وہ یہ کہ ساری قوم اجتماعی طور پر اﷲ تعالیٰ کی بارگاہ میں مغفرت طلب کرے اور اس رات کو شبِ عبادت، شبِ توبہ اور شبِ دعا کے طور پر منائے۔
قیام اللیل اور روزوں کی کثرت ہی ہمارے دل کی زمین پر اُگی اُن خود رَو جھاڑیوں کو اکھاڑ سکے گی جو پورا سال دنیاوی معاملات میں غرق رہنے کی وجہ سے حسد، بغض، لالچ، نفرت، تکبر، خودغرضی، ناشکری اور بے صبری کی شکل میں موجود رہتی ہیں۔ اسی صورت ہمارے دل کے اندر ماہ رمضان کی برکتوں اور سعادتوں کو سمیٹنے کے لیے قبولیت اور انجذاب کا مادہ پیدا ہو گا۔
لہٰذا یہ کہنا بے جا نہ ہو گا کہ ماہ شعبان المعظم، عظیم ماہ رمضان المبارک کا ابتدائیہ اور مقدمہ ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس ماہ مبارک کے اندر محنت و مجاہدہ اور ریاضت کرنے کی توفیق عطا فرمائے تاکہ ہم ’’اَلصَّوْمُ لِي وَاَنَا اَجْزِي بِهٖ‘‘ کے فیض سے صحیح معنوں میں اپنے قلوب و اَرواح کو منور کر سکیں اور اِن مقدس اور سعید راتوں کی برکت سے اﷲ تعالیٰ ہمیںدنیوی و اُخروی فوز و فلاح سے مستفید فرمائے۔ آمین بجاہ سیدالمرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم