قرآنِ حکیم میں روزہ کی فرضیت کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
یٓاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ.
’’اے ایمان والو! تم پر اسی طرح روزے فرض کیے گئے ہیں جیسے تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیے گئے تھے تاکہ تم پرہیزگار بن جاؤ۔‘‘
(البقرة، 2: 183)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے روزہ کی فضیلت بیان کرتے ہوئے فرمایا:
مَنْ صَامَ رَمَضَانَ اِ یْمَانًا وَّ اِحْتِسَابًا غُفِرَ لَه مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِه.
’’جس نے بحا لتِ ایمان ثواب کی نیت سے رمضان کے روزے رکھے اس کے سابقہ گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں۔‘‘
(بخاری، الصحیح، کتاب الصوم، 1: 22، رقم: 38)
روزے میں کار فرما حکمتیں
روزہ نہ صرف روح کی غذا ہے بلکہ اس کے پس پردہ بے شمار دینی و دنیاوی حکمتیں اور ایسے رموز کار فرما ہیں جو صرف اللہ تعالیٰ روزہ دار کو عطا کرتا ہے۔ اس لحاظ سے روزہ کی درج ذیل حکمتیں ہیں:
1۔ تقویٰ
روزے کا مقصد انسانی سیرت کے اندر تقویٰ کا جوہر پیدا کر کے اس کے قلب و باطن کو روحانیت و نورانیت سے جلاء دینا ہے۔ روزے سے حاصل کردہ تقویٰ کو اگر بطریق احسن بروئے کار لایا جائے تو انسان کی باطنی کائنات میں ایسا ہمہ گیر انقلاب برپا کیا جا سکتا ہے جس سے اس کی زندگی کے شب و روز یکسر بدل کر رہ جائیں۔
تقویٰ بادی النظر میں انسان کو حرام چیزوں سے اجتناب کی تعلیم دیتا ہے، لیکن اگر بنظرِ غائر قرآن و سنت کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہو گا کہ روزے کی بدولت حاصل شدہ تقویٰ حرام چیزوں سے تو درکنار ان حلال و طیب چیزوں کے قریب بھی بحالتِ روزہ پھٹکنے نہیں دیتا‘ جن سے مستفید ہونا عام زندگی میں بالکل جائز ہے۔ ہر سال ایک ماہ کے اس ضبط نفس کی لازمی تربیتی مشق (Refresher Course) کا اہتمام، اس مقصد کے حصول کے لئے ہے کہ انسان کے قلب و باطن میں سال کے باقی گیارہ مہینوں میں حرام و حلال کا فرق و امتیاز روا رکھنے کا جذبہ اس درجہ فروغ پا جائے کہ اس کی باقی زندگی ان ہی خطوط پر استوار ہو جائے۔ وہ ہر معاملے میں حکمِ خداوندی کے آگے سرِ تسلیم خم کرتے ہوئے حرام چیزوں کے شائبہ سے بھی بچ جائے۔
2۔ تربیتِ صبر و شکر
صبر کا تقاضا ہے کہ انسان کسی نعمت سے محرومی پر اپنی زبان کو شکوہ اور آہ و بکا سے آلودہ کئے بغیر خاموشی سے برداشت کرے۔ روزہ انسان کو تقویٰ کے اس مقامِ صبر سے بھی بلند تر مقامِ شکر پر فائز دیکھنے کا متمنی ہے۔ وہ اس کے اندر یہ جوہر پیدا کرنا چاہتا ہے کہ نعمت کے چھن جانے پر اور ہر قسم کی مصیبت، ابتلا اور آزمائش کا سامنا کرتے وقت اس کی طبیعت میں ملال اور پیشانی پر شکن کے آثار پیدا نہ ہونے پائیں‘ بلکہ وہ ہر تنگی و ترشی کا بہرحال خندہ پیشانی سے مردانہ وار مقابلہ کرتے ہوئے اپنے پروردگار کا شکر ادا کرتا رہے۔
3۔ جذبہ ایثار
بحالتِ روزہ انسان بھوک اور پیاس کے کرب سے گزرتا ہے تو لامحالہ اس کے دل میں ایثار‘ اور قربانی کا جذبہ تقویت پکڑتا ہے اور وہ عملاً اس کیفیت سے گزر کر جس کا سامنا انسانی معاشرہ کے مفلوک الحال اور نانِ شبینہ سے محروم لوگ کرتے ہیں، کرب و تکلیف کے احساس سے آگاہ ہو جاتا ہے۔ فی الحقیقت روزے کے ذریعے اللہ رب العزت اپنے آسودہ حال بندوں کو ان شکستہ اور بے سر و سامان لوگوں کی زبوں حالی سے کماحقہ آگاہ کرنا چاہتے ہیں، جو اپنے تن و جان کا رشتہ بمشکل برقرار رکھے ہوئے ہیں، تاکہ ان کے دل میں دکھی اور مضطرب انسانیت کی خدمت کا جذبہ فروغ پائے اور ایک ایسا اسلامی معاشرہ وجود میں آ سکے، جس کی اساس باہمی محبت و مروت‘ انسان دوستی اور دردمندی و غمخواری کی لافانی قدروں پر ہو۔ اس احساس کا بیدار ہو جانا روزے کی روح کا لازمی تقاضا ہے اور اس کا فقدان اس امر کی غمازی کرتا ہے کہ روزے میں روح نام کی کوئی چیز باقی نہیں بقول علامہ اقبال:
روح چوں رفت از صلوٰۃ و از صیام
فرد ناہموار، ملت بے امام
’’جب نماز و روزہ سے روح نکل جاتی ہے تو فرد نالائق و ناشائستہ اور قوم بے امام ہو جاتی ہے۔‘‘
4۔ تزکیہ نفس
روزہ انسان کے نفس اور قلب و باطن کو ہر قسم کی آلودگی اور کثافت سے پاک و صاف کر دیتا ہے۔ انسانی جسم مادے سے مرکب ہے، جسے اپنی بقا کے لئے غذا اور دیگر مادی لوازمات فراہم کرنا پڑتے ہیں، جبکہ روح ایک لطیف چیز ہے، جس کی بالیدگی اور نشوونما مادی ضروریات اور دنیاوی لذات ترک کر دینے میں مضمر ہے۔ جسم اور روح کے تقاضے ایک دوسرے کے متضاد ہیں۔ روزہ جسم کو کھانے پینے اور بعض دیگر اْمور سے دور رکھ کر مادی قوتوں کو لگام دیتا ہے‘ جس سے روح لطیف تر اور قوی تر ہوتی چلی جاتی ہے۔ جوں جوں روزے کی بدولت بندہ خواہشاتِ نفسانی کے چنگل سے رستگاری حاصل کرتا ہے، اس کی روح غالب و توانا اور جسم مغلوب و نحیف ہو جاتا ہے۔ روح اور جسم کا تعلق پرندے اور قفس کا سا ہے، جیسے ہی قفسِ جسم کا کوئی گوشہ وا ہوتا ہے، روح کا پرندہ مائل بہ پرواز ہو کر، موقع پاتے ہی جسم کی بندشوں سے آزاد ہو جاتا ہے۔
مسلسل روزے کے عمل اور مجاہدے سے تزکیہ نفس کا عمل تیز تر ہونے لگتا ہے، جس کی وجہ سے روح کثافتوں سے پاک ہو کر پہلے سے کہیں لطیف تر اور قوی تر ہو جاتی ہے۔ یہاں تک کہ بعض کاملین و عرفاء کی روحانی طاقت کائنات کی بے کرانیوں اور پہنائیوں پر حاوی ہو جاتی ہے۔
5۔ رضائے خداوندی کا حصول
روزے کا منتہاے مقصود یہی ہے کہ وہ بندے کو تمام روحانی مدارج طے کرانے کے بعد مقام رضا پر فائز دیکھنا چاہتا ہے۔ یہ مقام رضا کیا ہے جو روزے کے توسط سے انسان کو نصیب ہو جاتا ہے؟ اس پر غور کریں تو اس کی اہمیت کا احساس اجاگر ہوتا ہے۔ رب کا اپنے بندے سے راضی ہو جانا اتنی بڑی نعمت ہے کہ اس کے مقابلے میں باقی سب نعمتیں ہیچ دکھائی دیتی ہیں۔ روزہ وہ منفرد عمل ہے جس کے اجر و جزا کا معاملہ رب اور بندے کے درمیان چھوڑ دیا گیا کہ اس کی رضا حد و حساب کے تعین سے ماوراء ہے۔
رمضان میں شیاطین کے جکڑے جانے سے مراد؟
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
اِذَا دَخَلَ رَمَضَانُ فُتِّحَتْ اَبْوَابُ الْجَنَّةِ وَغُلِّقَتْ اَبْوَابُ جَهَنَّمَ، وَسُلْسِلَتِ الشَّیَاطِیْنُ.
’’جب ماہ رمضان آتا ہے تو جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں اور دوزخ کے دروازے بند کر دیے جاتے ہیں اور شیطانوں کو پابہ زنجیر کر دیا جاتا ہے۔‘‘
(بخاری، الصحیح، کتاب بدء الخلق، باب صفة ابلیس و جنوده، 3: 1194، رقم: 3103)
رمضان المبارک میں شیطان کے جکڑے جانے سے کیا مراد ہے؟ اس کے لیے یہ امر ذہن میں رہے کہ عام طور پر دو چیزیں گناہ اور اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کا باعث بنتی ہیں:
- نفس کی بڑھتی ہوئی خواہشات اور اس کی سرکشی
- شیطان کا مکر و فریب
شیطان انسان کا ازلی دشمن ہے، وہ نہ صرف خود بلکہ اپنے لاؤ لشکر اور چیلوں کی مدد سے دنیا میں ہر انسان کو دینِ حق سے غافل کرنے کی کوشش میں لگا رہتا ہے مگر رمضان المبارک کی اتنی برکت و فضیلت ہے کہ شیطان کو اس ماہ مبارک میں جکڑ دیا جاتا ہے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ’’رمضان المبارک کی پہلی رات ایک منادی پکارتا ہے: اے طالب خیر! آگے آ، اے شر کے متلاشی! رک جا۔ اللہ تعالیٰ کئی لوگوں کو جہنم سے آزاد کر دیتا ہے اور ماہ رمضان کی ہر رات یونہی ہوتا رہتا ہے۔‘‘
(ترمذی، السنن، ابواب الصوم، باب ما جاء فی فضل شهر رمضان، 2: 61، رقم: 682)
رمضان المبارک میں شیطانوں کے جکڑ دیئے جانے سے یہ مراد ہے کہ شیطان لوگوں کو بہکانے سے باز رہتے ہیں اور اہلِ ایمان ان کے وسوسے قبول نہیں کرتے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ روزے کے باعث حیوانی قوت جو غضب اور شہوت کی جڑ ہے، مغلوب ہو جاتی ہے اور اس کے برعکس قوتِ عقلیہ جو طاقت اور نیکیوں کا باعث ہے، روزے کی وجہ سے قوی ہوتی ہے۔ عام مشاہدہ ہے کہ رمضان میں عام دنوں کی نسبت گناہ کم ہوتے ہیں اور عبادت زیادہ ہوتی ہے۔
شیطانوں کے جکڑے جانے کی ایک علامت یہ بھی ہے کہ گناہوں میں منہمک ہونے والے اکثر لوگ رمضان میں باز آجاتے ہیں اور توبہ کرکے اللہ کی طرف رجوع کرتے ہیں۔ پہلے وہ نماز قائم نہیں کرتے تھے، اب پڑھنے لگتے ہیں، اسی طرح وہ قرآن مجید کی تلاوت اور ذکر کی محافل میں بھی شریک ہونے لگتے ہیں، حالانکہ وہ پہلے ایسا نہیں کیا کرتے تھے۔ پہلے جن گناہوں میں علی الاعلان مشغول رہتے تھے اب ان سے باز آجاتے ہیں۔ بعض لوگ جن کا عمل اس کے خلاف نظر آتا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ شیطانی وساوس ان کے شریر نفوس کی جڑوں میں سرایت کر چکے ہوتے ہیں کیونکہ آدمی کا نفس اس کا سب سے بڑا دشمن ہے۔
اگر کوئی یہ کہے کہ زمانے میں شر تو موجود ہے اور گناہ بھی مسلسل ہو رہے ہیں تو پھر شیطان کے جکڑنے کا کیا فائدہ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ رمضان المبارک سے شیطان کی سرکشی اور طغیانی کی شدت ٹوٹتی ہے اور اس کے ہتھیار کند ہو جاتے ہیں اور اس کی بھڑکائی ہوئی آگ کچھ مدت کے لئے ٹھنڈی پڑ جاتی ہے۔
رمضان المبارک میں عطا ہونے والے تحائف
حضرت جابر بن عبد اللہk بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: میری امت کو ماہ رمضان میں پانچ تحفے ملے ہیں جو اس سے پہلے کسی نبی کو نہیں ملے:
1. اِذَا کَانَ اَوَّلُ لَیْلَةٍ مِنْ شَهْرِ رَمَضَانَ نَظَرَ اللّٰهُ تَعالی عزوجل اِلَیْهِمْ وَمَنْ نَظَرَ اللّٰهُ اِلَیْهِ لَمْ یُعَذِّبْهُ اَبَدًا.
’’جب ماہ رمضان کی پہلی رات ہوتی ہے تو اللہ تعالیٰ ان کی طرف نظر التفات فرماتا ہے اور جس پر اللہ کی نظر پڑجائے اسے کبھی عذاب نہیں دے گا۔ ‘‘
2. فَاِنَّ خُلُوْفَ اَفْوَاھِھِمْ حِیْنَ یُمْسُوْنَ اَطیْبُ عِنْدَ اللّٰهِ مِنْ رِیْحِ الْمِسْکِ.
’’شام کے وقت ان کے منہ کی بو اللہ تعالیٰ کو کستوری کی خوشبو سے بھی زیادہ اچھی لگتی ہے۔‘‘
3. فَاِنَّ الْمَلاَئِکَۃَ تَسْتَغْفِرْ لَهُمْ فِی کُلِّ یَوْمٍ وَلَیْلَةٍ.
’’فرشتے ہر دن اور رات ان کے لئے بخشش کی دعا کرتے رہتے ہیں۔ ‘‘
4. فَاِنَّ اللّٰہَ عزوجل یَاْمُرُ جَنَّۃُ فَیَقُوْلُ لَهَا: اسْتَعِدِّی وَتَزَیَنِی لِعِبَادِی اَوْشَکُوْااَنْ یَسْتَرِیْحُوْا مِنْ تَعَبِ الدُّنْیَا اِلَی دَارِی وَکَرَامَتِی.
’’اللہ عزوجل اپنی جنت کو حکم دیتے ہوئے کہتا ہے: میرے بندوں کے لئے تیاری کر لے اور مزین ہو جا، قریب ہے کہ وہ دنیا کی تھکاوٹ سے میرے گھر اور میرے دارِ رحمت میں پہنچ کر آرام حاصل کریں۔‘‘
5. اِذَا کَانَ آخِرُ لَیْلَةٍ غُفِرَ لَھُمْ جَمِیْعًا.
’’جب (رمضان کی) آخری رات ہوتی ہے ان سب کو بخش دیا جاتا ہے۔ ‘‘
ایک صحابی نے عرض کیا:
اَھِیَ لَیْلَۃُ الْقَدْرِ فَقَالَ: لَا، اَلَمْ تَرَ اِلَی الْعُمَّالِ یَعْمَلُوْنَ فَاِذَا فَرَغُوْا مِنْ اَعْمَالِھِمْ وُفُّوْا اَجُوْرَھُمْ.
’’کیا یہ شبِ قدر کو ہوتا ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: نہیں۔ کیا تم جانتے نہیں ہو کہ جب مزدور کام سے فارغ ہو جاتے ہیں تب انہیں مزدوری دی جاتی ہے‘‘۔
( بیهقی، شعب الایمان، 3: 303، رقم: 3603)
(منذری، الترغیب والترهیب، 2: 56، رقم: 1477)
روزہ کی حفاظت کیسے ممکن ہے؟
اگر روزہ کو احکام و آداب کی مکمل رعایت کے ساتھ پورا کیا جائے تو بلاشبہ گناہوں سے محفوظ رہنا آسان ہو جاتا ہے۔ البتہ اگر کسی نے روزہ کے لوازم کا خیال نہ کیا اور گناہوں میں مشغول رہتے ہوئے روزہ کی نیت کی، کھانے پینے، خواہش نفسانی سے باز رہا لیکن حرام کمانے اور غیبت کرنے سے باز نہ آیا تو اس سے فرض تو ادا ہوجائیگا، مگر روزہ کے برکات و ثمرات سے محرومی رہے گی۔ حضرت ابو عبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
اَلصَّوْمُ جُنَّةٌ مَا لَمْ یخْرِقْهِ.
’’روزہ ڈھال ہے جب تک کوئی اس کو پھاڑ نہ ڈالے۔‘‘
( نسائی، السنن، 1: 167، رقم: 2233)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
مَنْ لَّمْ یَدَعْ قَوْلَ الزُّورِ وَالْعَمَلَ بِه، فَلَیْسَ للّٰهِ حَاجَةٌ فِی اَنْ یَدَعَ طَعَامَه وَ شَرَابَه.
’’جو شخص روزہ رکھ کر جھوٹی بات اور غلط کام نہ چھوڑے تو اللہ کو کچھ حاجت نہیں کہ وہ (گناہوں کو چھوڑے بغیر) محض کھانا پینا چھوڑ دے۔‘‘
(بخاری، الصحیح، کتاب الصوم، باب من لم یدع قول الزور و العمل به فی الصوم، 2: 673، الرقم: 1804)
کھانا پینا اور جنسی تعلقات چھوڑنے ہی سے روزہ کامل نہیں ہوتابلکہ روزہ کی حالت میں فواحش، منکرات اور ہر طرح کے گناہوں سے بچنا بھی ضروری ہے لہٰذا مندرجہ بالا احادیث سے ثابت ہوا:
- روزہ دار روزہ رکھ کر جھوٹ، غیبت، چغلی اور بدکلامی سے پرہیز کرے۔
- آنکھ کو مذموم و مکروہ اور ہر اس چیز سے بچائے جو یادِ الٰہی سے غافل کرتی ہو۔
- کان کو ہر ناجائز آواز سننے سے بچائے۔ اگر کسی مجلس میں غیبت ہوتی ہو تو انہیں منع کرے ورنہ وہاں سے اْٹھ جائے۔ حدیث میں ہے کہ غیبت کرنے والا اور سننے والا دونوں گناہ میں شریک ہیں۔
- بوقت افطار اتنا نہ کھائے کہ پیٹ تن جائے۔
- افطار کے بعد دل خوف اور امید کے درمیان رہے۔ کیا معلوم کہ اس کا روزہ قبول ہوا یا نہیں لیکن اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو۔ پس اعضاء کو گناہوں سے بچانا ہی درحقیقت روزہ کی حفاظت ہے۔