قیادت ایک میزان ہے جس کے دونوں پلڑوں میں پورا نظامِ حیات سمویا ہوتا ہے۔ جب میزان میں خلل آتا ہے تو توازن بگڑ جاتا ہے جس کے نتیجے کوئی اندازہ اور پیمانہ درست نہیں رہتا۔ ایک زمانہ تھا کہ کاروباری و اخلاقی زندگی کے پیمانوں کی کڑی جانچ پڑتال ہوا کرتی تھی تاکہ صارفین کے مفادات کا تحفظ کرنے کے ساتھ ساتھ سوسائٹی سے بدعنوانی اور بددیانتی اور بداخلاقی کے عنصر کا سدباب کیا جا سکے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اخلاقی انحطاط بڑھتا چلا گیا، ہمارے سماجی رویے چیک اینڈ بیلنس کو بوجھ محسوس کرنے لگے اور ہم توازن سے بتدریج محروم ہوتے چلے گئے۔ شو مئی قسمت آج کاروباری، سیاسی اور سماجی زندگی توازن کھو چکی ہے۔ اگر ہم اس المیے کو مختصر الفاظ میں بیان کرنا چاہیں تو یہ المیہ قیادت کے بحران کے سبب وجود میں آیا۔
یہ سوال انتہائی اہم ہے کہ قیادت کے انتخاب کا پیمانہ کیا ہونا چاہیے؟ یہ قیادت سیاسی ہو یا مذہبی، اس کے انتخاب میں حد درجہ احتیاط ناگزیر ہے۔ آج کے ماڈرن جمہوری دور کے اندر سیاسی قیادت سوسائٹی کے جملہ امور و معاملات کی نگران اور ذمہ دار ہے۔ سیاسی قیادت ہی ہے کہ جو سیاسی، سماجی، معاشی اور مذہبی امور کے حوالے سے پالیسی تشکیل دیتی اور فیصلے صادر کرتی ہے، اس لیے سیاسی قیادت کے انتخاب کے حوالے سے کوئی دقیقہ فرو گزاشت نہیں کیا جا سکتا۔
اگر ہم 70ء کی دہائی کے سیاسی و انتخابی معاملات کا عمومی جائزہ لیں تو رائے عامہ ہائی جیک کرنے اور من پسند انتخابی نتائج حاصل کرنے کی کرپٹ پریکٹسز وسیع پیمانے پر نظر آتی ہیں۔ 77ء کے الیکشن سیاسی تاریخ کے متنازعہ ترین الیکشن قرار پاتے ہیں۔ ضرورت اس امر کی تھی کہ 77ء کے انتخابات کے تناظر میں ایک صاف و شفاف انتخابی طریقہ کار وضع کیا جاتا تاکہ عوام کو حقیقی اور صالح قیادت منتخب کرنے میں مدد ملتی۔ انتخابی نظام کو شفاف بنانے کی بجائے اِسے اس قدر آلودہ کیا گیا کہ عوام کا نظامِ انتخاب سے مکمل اعتماد تو اٹھا ہی تھا اس کے ساتھ ساتھ وہ سیاسی قائدین جو اس نظامِ انتخاب کے بانیان میں سے ہیں، وہ بھی انتخابی دھاندلیوں پر چیخ اٹھے۔ 77کے بعد ہونے والے کسی انتخاب پر بھی شفافیت کی مہر نہ لگ سکی اور آج صورتحال یہ ہے کہ پاکستان کے سب سے طاقتور عہدیدار وزیراعظم بھی نتائج تبدیل کرنے، خرید و فروخت ہونے اور دھاندلی پر سراپا احتجاج ہے۔
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری پاکستان کی وہ واحد شخصیت ہیں جنہوں نے تین دہائیاں قبل انتخابِ قیادت کے انتہائی اہم اور نازک مسئلہ پر سیر حاصل گفتگو کی اور بیداری شعور مہم کا آغاز کیا۔ ان کی اس مہم کا مرکز و محور نظامِ انتخاب تھا۔ 90ء کی دہائی میں پاکستان عوامی تحریک اور تحریک منہاج القرآن کے زیرِ اہتمام علماء و مشائخ کاایک عظیم الشان کنونشن منعقد کیا گیا تھا جس کے مشترکہ اعلامیہ میں واشگاف الفاظ میں کہا گیا تھاکہ ’’پاکستان میں رائج نظامِ انتخاب کسی بھی لحاظ سے اسلام کے دئیے ہوئے تصورِ انتخابات و حکمرانی کے مطابق نہیں ہے اور نہ ہی یہ عوام کی حقیقی نمائندگی کا آغاز ہے۔ موجودہ نظامِ انتخابات صرف سرمایہ داروں اور جاگیرداروں کے مفادات کا تحفظ کرتا ہے، اس کے ذریعے ہمیشہ اسمبلیوں میں بیشتر ایسے نااہل، بددیانت اور مفاد پرست افراد پہنچے ہیں جنہوں نے ملک و قوم کی خدمت کی بجائے اپنے ذاتی مفادات کا تحفظ کیا، ہارس ٹریڈنگ، لوٹ مار، غبن، خیانت اور ناجائز طریقوں پر کروڑوں، اربوں روپے کے قرضے لینا اور دھوکہ دہی سے معاف کروانا ان اراکین کا معمول بن چکا ہے‘‘۔ 3دہائی قبل منعقد ہونے والے اس کنونشن کے اعلامیہ میں مطالبہ کیا گیا تھا کہ ’’متناسب نمائندگی کا شورائی نظام نافذ کیا جائے‘‘۔
موجودہ حکومت تبدیلی کا نعرہ لگا کر اقتدار میں آئی تھی لیکن تبدیلی کے حوالے سے فی الحال اپنا دو ٹوک کردار ادا کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکی۔ سینیٹ کے بدنام زمانہ الیکشن کے موقع پر وزیراعظم نے کہا ہے کہ وہ نظام کو بدلیںگے، انہوں نے یہ بات اعلانیہ خرید و فروخت کی ویڈیوز منظر عام پر آنے کے باوجود الیکشن کمیشن کی طرف سے کوئی کردار ادا نہ کرنے کے ردعمل میں کہی۔ بہرِ حال اس امر میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ موجودہ کرپٹ اور دھاندلی زدہ نظامِ انتخاب نے ایماندار اور صالح قیادت کا راستہ روک رکھا ہے اور اس مخصوص نظام کے باعث صرف کروڑ اور ارب پتی افراد ہی اسمبلیوں تک پہنچ پاتے ہیں۔ عام انتخابات کے ساتھ ساتھ سینیٹ جیسے ایوان بالا کے انتخابات میں بھی سینیٹرز کی بولیاں لگتی ہیں، انہیں اربوں، کروڑوں میں خریدا جاتا ہے اور یہ سارا کھیل کھلے عام ہورہا ہے۔ انتخاب اور انصاف کے ادارے یہ سب کچھ دیکھ رہے ہیں مگر بے بسی کا یہ عالم ہے کہ کوئی بھی کچھ کرنے میں ناکام ہے۔
دیانت، امانت اورصداقت کی جگہ دولت نے لے لی ہے، الیکشن وہی لڑتا ہے جس کے پاس خرچ کرنے کے لئے کروڑوں، اربوں ہوں، پڑھا لکھا عام آدمی اس نظام میں کونسلر کاالیکشن لڑنے کی سکت سے بھی محروم ہے۔ ترقیاتی فنڈز کے نام پر سیاسی رشوت اور کرپشن کا ایک ایسا بازار گرم کیا گیاہے جو تھمنے کا نام نہیں لے رہا۔ ہر سال ایک ہزار ارب روپے سے زائد کی رقم چاروں صوبوں بشمول وفاق میں بجٹ میں مختص کی جاتی ہے، اس رقم کا بڑا حصہ تعمیراتی اور تکنیکی شعبہ جات کے ماہرین اور انفراسٹرکچر کے کوالیفائیڈ اداروں کی بجائے حکمران جماعت کے ایم این ایز اور ایم پی ایز کے ذریعے خرچ کیا جاتا ہے اور سب جانتے ہیں کہ یہ ترقیاتی فنڈز منتخب نمائندوں کے ’’منتخب ٹھیکیداروں‘‘ کے ذریعے خرچ کیے جاتے ہیں اور اس کا حصہ اوپر سے لے کر نیچے تک تقسیم ہوتا ہے، کمیشن در کمیشن کے اس ماحول میں اصل منصوبے پر خرچ کرنے کے لئے رقم آٹے میں نمک کے برابر بچتی ہے اور منصوبوں کا معیار اس حد تک گر جاتا ہے کہ اگلے بجٹ سے پہلے مکمل کیے گئے ترقیاتی منصوبے ریت کی دیوار ثابت ہوتے ہیں اور پھر نئے سرے سے ان کو بنانے سنوارنے پر بجٹ حاصل کیے جاتے ہیں ، یہی کھیل گزشتہ چار دہائیوں سے شد و مد کے ساتھ کھیلا جارہا ہے۔ پاکستان 100ارب ڈالر سے زائد کا مقروض ہو گیا مگر پاکستان کا کوئی ایک شہر ایسا نہیں جسے ماڈل شہر کا درجہ دیا جا سکے۔ ’’ترقیاتی کرپشن ‘‘کا یہ نظام اس حد تک اپنی جڑیں مضبوط کر چکا ہے کہ ہر حکومت اپوزیشن کے زمانے میں ترقیاتی فنڈز محکمہ جات سے خرچ کروانے کا مطالبہ کرتی ہے مگر جیسے ہی وہ اقتدار میں آتے ہیں تو ترقیاتی منصوبوں اور فنڈز کی بندربانٹ شروع ہو جاتی ہے۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے ہمیشہ اس بات پر زور دیا کہ منتخب نمائندوں کے ذریعے ترقیاتی فنڈز کے استعمال پر پابندی عائد ہونی چاہیے اور جتنی جلد ممکن ہو سکے کرپشن کے اس دروازے کو بند کر دیا جائے۔ اگر ترقیاتی فنڈز، تقرر و تبادلہ، من پسند پوسٹٹنگز کو منتخب نمائندوں سے الگ کر دیا جائے تو کوئی بھی شخص ایم این اے یا ایم پی اے کا الیکشن لڑنے کے لئے تیار نہیں ہو گا کیونکہ ان کا مقصد قانون سازی کرنا یا پالیسیاں بنانا نہیں بلکہ ایک کروڑ لگا کر دو کروڑ جمع کرنا ہوتا ہے۔
شیخ الاسلام ڈاکٹرمحمد طاہرالقادری کا یہ مشہورِ عام جملہ ہے کہ ’’یہ نظام نمک کی کان ہے، جو اس کان میں جائے گا وہ بھی نمک ہو جائے گا۔ نظام کے نمک کی اس کان میں ہیرا بھی اگر رکھ دیا جائے تو وہ بھی نمک بن جائے گا۔‘‘ نظامِ انتخاب کو آئین کے تابع کرنے اور کرپٹ پریکٹسز کے خاتمے کے لیے شیخ الاسلام نے سیاسی جدوجہد کاآغاز کیا جس کا نکتۂ عروج جنوری 2013 ء کا لاہور سے اسلام آباد تک کا لانگ مارچ تھا۔ خون جما دینے والی سردی میں لاکھوں افراد کے ہمراہ لاہور سے اسلام آباد تک اس لانگ مارچ کا بنیادی مقصد نظامِ انتخاب کو کرپٹ پریکٹسز سے پاک کرنا تھا اور ان کا ایک ہی مطالبہ تھا کہ ایماندار اور صالح قیادت کے لیے ضروری ہے کہ کاغذاتِ نامزدگی کے مرحلہ پر سکروٹنی کی جائے اور آئین کے آرٹیکل 62 اور63 کی ہر شق پر اس کی روح کے مطابق عملدرآمد کیا جائے حالانکہ یہ آئینی مطالبات تھے جنہیں تحریری معاہدوں کے باوجود نظر انداز کیا گیا۔ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری بیداریِ شعور کے حوالے سے نظامِ انتخاب کو بدلنے کے لیے جو جدوجہد کر سکتے تھے، وہ انہوں نے کی لیکن بدقسمتی سے جمہوریت کے نام پر ایک مافیا مسلط ہے جو عوامی امنگوں کا خون کرنے کے ساتھ ساتھ ہر روز آئین و قانون کا تمسخر بھی اڑاتا ہے اور اس مافیا کو نکیل ڈالنے والا کوئی نہیں ہے۔